بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْکُمْ وَیَاْمَنُوْا قَوْمَہُمْ، کُلَّمَا رُدُّوْٓا اِلَی الْفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیِْہَا، فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْکُمْ وَیُلْقُوْٓا اِلَیْْکُمُ السَّلَمَ وَیَکُفُّوْٓا اَیْْدِیَہُمْ فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ، وَاُولٰٓـئِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا{۹۱}
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلاَّ خَطَئًا، وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا، فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ، وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ، فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ، تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ، وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۹۲} وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا{۹۳}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا، تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ، کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا{۹۴}
لاَ یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ، فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً، وَکُـلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی، وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا{۹۵} دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَمَغْفِرَۃً وَّرَحْمَۃً، وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا{۹۶}
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ، قَالُوْا: فِیْمَ کُنْتُمْ، قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ، قَالْوْٓا: اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا، فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا{۹۷} اِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلاَ یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلاً{۹۸} فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ، وَکَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا{۹۹} وَمَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً، وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ، وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا{۱۰۰}
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ، اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا{۱۰۱}
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَہُمْ، فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَہُمْ وَاَسْلِحَتَہُمْ، وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْْکُمْ مَّیْْلَۃً وَّاحِدَۃً، وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا{۱۰۲}
فَاِذَا قَضَیْْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ، فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ، اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا{۱۰۳}
وَلاَ تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ، اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ یَرْجُوْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۱۰۴}
(اِن کے علاوہ) کچھ دوسرے لوگ تم ایسے بھی دیکھو گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی، مگر جب فتنے کی طرف بلائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اُس میں جا گرتے ہیں۔ ۱۵۸ سو اگر وہ تم سے کنارہ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ نہ بڑھائیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو اُنھیں جہاں پائو، پکڑو اور قتل کرو۔ یہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہم نے تمھیں کھلا اختیار۱۵۹ دیا ہے۔ ۹۱
(لیکن کوئی بے احتیاطی نہیں ہونی چاہیے، اِس لیے کہ) کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے، الاّ یہ کہ اُ س سے غلطی ہو جائے۔ اور جو کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کرے، اُس کے ذمے ہے کہ ایک مسلمان کو غلامی سے آزاد کرے۱۶۰ اور اُس کے گھر والوں کو خوں بہا دے، ۱۶۱ الاّ یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ پھر اگر مقتول کسی دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو، مگر مسلمان ہو تو ایک مسلمان کو غلامی سے آزاد کر دینا ہی کافی ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے تو اُس کے وارثوں کو دیت بھی دی جائے گی اور تم ایک غلام بھی آزاد کرو گے۔ پھر جس کے پاس غلام نہ ہو، اُسے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے۔۱۶۲ یہ اللہ کی طرف سے اِس گناہ پر توبہ کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔۱۶۳ اُس شخص کی سزا، البتہ جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔۱۶۴ ۹۲-۹۳
ایمان والو، جب تم اللہ کی راہ میں (اِس جنگ کے لیے) نکلو تو (کسی اقدام سے پہلے) تحقیق کر لیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے، اُسے یہ نہ کہا کرو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ تم دنیوی زندگی کا سازو سامان چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمھارے لیے بہت کچھ سامان غنیمت ہے۔۱۶۵ اِس سے پہلے تم بھی اِسی حالت میں تھے، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا۔ اِس لیے تحقیق کر لیا کرو۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ ۹۴
(اِس جنگ کے لیے نکلو، اِس لیے کہ) مسلمانوں میں سے جو لوگ کسی معذوری کے بغیر گھروں میں بیٹھے رہیں اور جو اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں، دونوں برابر نہیں ہیں۔ اللہ نے بیٹھنے والوں پر جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں سے ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اللہ نے ایک اجر عظیم کی فضیلت دی ہے، اُس کی طرف سے درجے اور مغفرت اور رحمت۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۱۶۶ ۹۵-۹۶
(اِس موقع پر بھی جو لوگ اُن بستیوں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جہاں اُنھیں دین کے لیے ستایا جارہا ہے، اُنھیں بتائو، اے پیغمبر کہ) جن لوگوں کی جان فرشتے اِس حال میں قبض کریں گے کہ۱۶۷(اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال کر) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، اُن سے وہ پوچھیں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم تو اِس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا خدا کی زمین ایسی وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔۱۶۸ ہاں، وہ مرد، عورتیں اور بچے جو فی الواقع بے بس ہیں اور نہ کوئی تدبیر کر سکتے ہیں نہ راستہ پاتے ہیں، اُن کے لیے توقع ہے کہ اللہ اُن سے درگزر فرمائے ۔ بے شک، اللہ معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ (یہ لوگ گھروں سے نکلیں اور مطمئن رہیں کہ) جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ کے لیے بڑے ٹھکانے اور بڑی گنجایش پائے گا۔ اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر اُسے موت آجائے تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۱۶۹ ۹۷-۱۰۰
تم لوگ (اِس جہاد کے لیے) سفر میں نکلو تو کوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین تمھیں ستائیں گے، اِس لیے کہ یہ منکرین تمھارے کھلے دشمن ہیں۔۱۷۰ ۱۰۱
اور (اے پیغمبر)، جب تم اِن کے درمیان ہو اور (خطرے کی جگہوں پر) اِنھیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ایک گروہ تمھارے ساتھ کھڑا ہو اور اپنا اسلحہ لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمھارے پیچھے ہو جائیں اور دوسرا گروہ آئے، جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے اور تمھارے ساتھ نماز ادا کرے۔ وہ بھی اپنی حفاظت کا سامان اور ضروری اسلحہ لیے ہوئے ہوں۔ یہ منکر تو چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے ذرا غافل ہو تو تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں۔ اِس میں، البتہ کوئی حرج نہیں کہ اگر بارش کی تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اپنا اسلحہ اتار دو۔ ہاں، یہ ضروری ہے کہ حفاظت کا سامان لیے رہو۔ تم یقین رکھو کہ اللہ نے اِن منکروں کے لیے بڑی ذلت کی سزا تیار کر رکھی ہے۔۱۷۱ ۱۰۲
پھر جب نماز سے فارغ ہو جائو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے، (ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔۱۷۲ لیکن جب اطمینان میں ہو جائو تو پوری نماز پڑھو (اور اِس کے لیے جو وقت مقرر ہے، اُس کی پابندی کرو)، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔۱۷۳ ۱۰۳
(ایمان والو، اِس جنگ کے لیے نکلو) اور دشمن۱۷۴کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھائو۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں، لیکن تم خدا سے وہ توقعات رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے، اور اللہ علیم و حکیم ہے۔۱۷۵ ۱۰۴
۱۵۸؎ یعنی جب قوم کے سرکشوں کا دبائو پڑتا ہے تو اُن کی شرارتوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
۱۵۹؎ اصل میں لفظ ’سُلْطَانٌ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی دلیل و حجت کے بھی ہیں اور یہ اختیار و اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اِس دوسرے معنی کی نظیریں سورۂ ابراہیم (۱۴) کی آیت ۲۲ اور سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۳۳ میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔
۱۶۰؎ قرآن نے غلامی کو ختم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے، یہ بھی اُنھی میں سے ہے۔ اِس زمانے میں غلامی ختم ہو چکی ہے، لہٰذا کوئی شخص اگر روزے نہ رکھ سکے تو غلام کی قیمت کے تناسب سے قیدیوں کا جرمانہ ادا کر کے وہ اُنھیں رہا کرا سکتا یا اِسی تناسب سے کسی مسلمان کا قرض ادا کر سکتا ہے۔
۱۶۱؎ اصل میں ’دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہٖٓ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’دِیَۃٌ‘ کے معنی ہیں: وہ شے جو دیت کے نام سے معروف ہے اور ’دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہٖٓ‘ کے الفاظ حکم کے جس منشا پر دلالت کرتے ہیں، وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطب کے عرف میں جس چیز کا نام دیت ہے، وہ مقتول کے ورثہ کے سپرد کر دی جائے۔ قرآن مجید نے دیت کی کسی خاص مقدار کا تعین کیا ہے، نہ عورت اور مرد، غلام اور آزاد اور مسلم اور غیرمسلم کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھیرائی ہے۔ اُس کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے فیصلے اپنے زمانے میں عرب کے دستور کے مطابق کیے۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں دیت کی جو مقداریں بیان ہوئی ہیں، وہ اِسی دستور کے مطابق ہیں۔ عرب کا یہ دستور اہل عرب کے تمدنی حالات اور تہذیبی روایات پر مبنی تھا۔ زمانے کی گردش نے کتاب تاریخ میں چودہ صدیوں کے ورق الٹ دیے ہیں۔ تمدنی حالات اور تہذیبی روایات میں زمین و آسمان کا تغیر واقع ہوگیا ہے۔ اب ہم دیت میں اونٹ دے سکتے ہیں، نہ اونٹوں کے لحاظ سے اِس دور میں دیت کا تعین کوئی دانش مندی ہے۔ عاقلہ کی نوعیت بالکل بدل گئی ہے اور قتل خطا کی وہ صورتیں وجود میں آگئی ہیں جن کا تصور بھی اُس زمانے میں ممکن نہیں تھا۔ قرآن مجید کی ہدایت ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے، چنانچہ اُس نے اس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ پھر معروف پر مبنی قوانین کے بارے میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے اُن میں تغیر کیا جا سکتا ہے اور کسی معاشرے کے ارباب حل و عقد اگر چاہیں تو اپنے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے اُنھیں نئے سرے سے مرتب کر سکتے ہیں۔
۱۶۲؎ اس آیت میں قتل خطا کا جو قانون بیان ہوا ہے، وہ درج ذیل تین دفعات پر مبنی ہے:
اول یہ کہ مقتول اگر مسلمان ہے اور مسلمانوں کی ریاست کا شہری ہے یا مسلمانوں کی ریاست کا شہری تو نہیں ہے، لیکن کسی معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہے تو قاتل پر لازم ہے کہ اُسے اگر معاف نہیں کر دیا گیا تو دستور کے مطابق دیت ادا کرے اور اِس جرم کے کفارے میں اپنے پروردگار کے حضور میں توبہ کے لیے ایک مسلمان غلام آزاد کرے۔
دوم یہ کہ وہ اگر دشمن قوم کا کوئی مسلمان ہے تو قاتل پر دیت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اِس صورت میں یہی کافی ہے کہ اپنے گناہ کو دھونے کے لیے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کردے۔
سوم یہ کہ اِن دونوں صورتوں میں اگر غلام میسر نہ ہو تو اِس کے بدلے میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے۔
یہ کسی شخص کے غلطی سے قتل ہوجانے کا حکم ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ جراحات کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے۔ چنانچہ اُن میں بھی دیت ادا کی جائے گی اور اِس کے ساتھ کفارے کے روزے بھی دیت کی مقدار کے لحاظ سے لازماً رکھے جائیں گے۔ یعنی، مثال کے طور پر، اگر کسی زخم کی دیت ایک تہائی مقرر کی گئی ہے تو کفارے کے بیس روزے بھی لازماً رکھنا ہوں گے۔
۱۶۳؎ آیت کا یہ حصہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔جب مفعول اِس طرح فعل کے بغیر آئے تو اُس پر خاص تاکید اور عزم کے ساتھ زور دینا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں خوں بہا کے ساتھ ساتھ ایک غلام آزاد کرنے اور غلام آزاد کرنے کی مقدرت نہ ہونے کی صورت میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنے کی جو ہدایت ہوئی تو اُس پر خاص تاکید کے ساتھ زور دیا کہ یہ خداے علیم و حکیم کی طرف سے مقرر کردہ توبہ ہے، نہ کوئی اُس کو شاق سمجھے، نہ اُس کی خلاف ورزی کرے۔ قتل مومن، غلطی ہی سے سہی، عظیم گناہ ہے۔ اِس گناہ کو دھونے کے لیے صرف خوں بہا کافی نہیں ہے، بلکہ غلام بھی آزاد کیا جائے اور اگر اِس کی مقدرت نہ ہو تو لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے جائیں تاکہ دل پر سے ہر داغ اِس گناہ کا دھل جائے۔ گویا ایسے سنگین معاملے میں زبانی توبہ کافی نہیں ہے، بلکہ اِس کے ساتھ اُس کے مویدات بھی ہونے ضروری ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۳۶۲)
۱۶۴؎ یہاں قتل عمد کی جو سزا بیان ہوئی ہے، وہ بعینہٖ وہی ہے جو بدترین منکرین حق کے لیے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس سزا کی سنگینی کی علت سمجھنے کے لیے اِس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب سے بڑا حق اُس کی جان کا احترام ہے، کوئی مسلمان اگر دوسرے مسلمان کی جان لے لیتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ حقوق العباد میں سے اُس نے سب سے بڑے حق کو تلف کیا جس کی تلافی و اصلاح کی بھی اب کوئی شکل باقی نہیں رہی، اِس لیے کہ جس شخص کے حق کو اُس نے تلف کیا، وہ دنیا سے رخصت ہو چکا اور حقوق العباد کی اصلاح کے لیے تلافی مافات ناگزیر ہے۔ پھر اِس کا ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ وہ یہ کہ یہ ایک ایسے مسلمان کے قتل کا معاملہ ہے جو دارالکفر اور دارالحرب میں گھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے اسلامی شریعت کے اُن تحفظات سے بھی محروم تھا جو دارالاسلام میں ایک مسلمان کو حاصل ہوتی ہیں۔ اپنے دین اور اپنے نفس کے معاملے میں اُس کو اگر کسی سے خیر کی امید ہو سکتی تھی تو وہ مسلمانوں ہی سے ہو سکتی تھی۔ اب اگر کوئی مسلمان ہی اُس کو قتل کر دے اور وہ بھی عمداً اور ایسی جگہ پر جہاں اُس کو اسلامی قانون کی حفاظت بھی حاصل نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ نہ ایسے مقتول سے بڑھ کر کوئی مظلوم ہو سکتا ہے اور نہ ایسے قاتل سے بڑھ کر کوئی ظالم!‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۶۱)
۱۶۵؎ مطلب یہ ہے کہ مال غنیمت کی طمع میں کسی شخص کے ایمان کا انکار نہ کرو۔ تم یہ جنگ فتوحات حاصل کرنے اور مال غنیمت جمع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ مظلوم مسلمانوں کو ظالموں کے پنجے سے چھڑانے کے لیے لڑ رہے ہو۔ خدا کے پاس تمھارے لیے غنیمت کے بڑے ذخیرے ہیں۔ وہ بھی عنقریب تمھیں حاصل ہوجائیں گے، لیکن کسی مسلمان کی جان تمھارے کسی اقدام کی وجہ سے خطرے میں نہیں پڑنی چاہیے۔
۱۶۶؎ یہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک مرتبہ پھر جہاد کی ترغیب دی ہے، لیکن اُس وقت چونکہ نفیر عام کا موقع نہیں تھا، اِس لیے وضاحت کر دی ہے کہ اِس کی حیثیت ایک درجۂ فضیلت کی ہے۔ سچے مسلمان اگر کسی عذر معقول کے بغیر بھی اِس کے لیے نہیں اٹھیں گے تو جہاد کے اجر عظیم سے تو یقینا محروم رہیں گے، مگر خدا کا وعدہ اُن سے بھی اچھا ہے۔ وہ جہاد سے جی چرانے والے منافقین نہیں ہیں، لہٰذا اپنے اخلاص اور حسن عمل کا اجرضرور پائیں گے۔
۱۶۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ‘۔ ان میں لفظ ’الْمَلٰٓئِکَۃُ‘ جمع ہے۔ اِس سے مقصود یہاں جنس کا اظہار ہے۔ عربی زبان میں جمع بعض موقعوں پر اِس طریقے سے بھی آتی ہے۔
۱۶۸؎ یہ وعید اِس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کے مطالبے کے باوجود یہ لوگ محض اپنے مفادات کی خاطر گریز و فرار کے بہانے تراش رہے تھے اور اس طرح گویا ایک طرح کی منافقت میں مبتلا تھے۔ چنانچہ پیچھے اِسی بنا پر اُنھیں منافق کہا گیا ہے۔
۱۶۹؎ ان آیتوں سے واضح ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے ، اُسے دین کے لیے ستایا جائے، یہاںتک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرنا ہی اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ اُس جگہ کو چھوڑ کر وہ کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔
۱۷۰؎ اِس سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ جنگ کے خطرات میں بھی کوئی مسلمان اُسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ سورۂ بقرہ میں بیان ہو چکا ہے کہ خطرہ ہو تو نماز پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو پڑھ لی جائے۔ یہاں فرمایا ہے کہ حالات کے لحاظ سے اِس میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ اصطلاح میں اِسے قصر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے لیے یہ سنت قائم کی ہے کہ صرف چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھی جائیں گی۔ دو اور تین رکعت والی نمازوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ چنانچہ فجر اور مغرب کی نمازیں اِس طرح کے موقعوں پر بھی پوری پڑھیں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فجر پہلے ہی دو رکعت ہے اور مغرب دن کے وتر ہیں، اِن کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہوسکتی۔
نماز میں کمی کی یہ رخصت یہاں ’اِنْ خِفْتُمْ‘ (اگر تمھیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اِس پر قیاس فرمایا اور ان میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے۔ سیدنا عمر کا بیان ہے کہ اِس طرح بغیر کسی خطرے کے قصر کر لینے پر مجھے تعجب ہوا۔ چنانچہ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے، سو اللہ کی اس عنایت کو قبول کرو۔*
نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہر و عصر، اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔** یہی معاملہ حج کا ہے۔ اِس میں چونکہ شیطان کے خلاف جنگ کو علامتوں کی زبان میں ممثل کیا جاتا ہے، اِس لیے تمثیل کے تقاضے سے آپ نے یہ سنت قائم فرمائی ہے کہ لوگ مقیم ہوں یا مسافر، وہ منیٰ میں قصر اور مزدلفہ اور عرفات میں جمع اور قصر، دونوں کریں گے۔
۱۷۱؎ یہ ایک مشکل کا حل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات اگر خطرے کے موقعوں پر نماز کی جماعت کھڑی کی جائے اور حضور امامت کرائیں تو کوئی مسلمان اُس جماعت کی شرکت سے محروم رہنے پر راضی نہیں ہو سکتا تھا۔ ہر سپاہی کی یہ آرزو ہوتی کہ وہ آپ ہی کی اقتدا میں نماز ادا کرے۔ یہ آرزو ایک فطری آرزو تھی، لیکن اِس کے ساتھ دفاع کا اہتمام بھی ضروری تھا۔ اِس مشکل کا ایک حل تو یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود چار رکعتیں پڑھتے اور اہل لشکر دو حصوں میں تقسیم ہو کر دو دو رکعتوں میں آپ کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ بعض موقعوں پر یہ طریقہ اختیار کیا بھی گیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اِس میں جو زحمت ہو سکتی تھی، اِس کے پیش نظر قرآن نے اِن آیتوں میں یہ تدبیر بتائی کہ امام اور مقتدی، دونوں قصر نماز ہی پڑھیں اور لشکر کے دونوں حصے یکے بعد دیگرے آپ کے ساتھ آدھی نماز میں شامل ہوں اور آدھی نماز اپنے طور پر ادا کر لیں۔ چنانچہ ایک حصہ پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد پیچھے ہٹ کر حفاظت و نگرانی کا کام سنبھالے اور دوسرا حصہ، جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آپ کے پیچھے آکر دوسری رکعت میں شامل ہو جائے۔
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حکم کی رو سے لشکر کو جو رکعت اپنے طور پر ادا کرنا تھی، اُس کے لیے حالات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے گئے۔ ایسا بھی ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف فرمایا اور لوگ نماز پوری کر کے پیچھے ہٹے اور ایسا بھی ہوا کہ اُنھوں نے بعد میں نماز پوری کر لی۔ *** اِس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس تدبیر کا تعلق، جیسا کہ آیت میں ’وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ‘ (اور جب تم اُن کے درمیان ہو) کے الفاظ سے واضح ہے، خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے تھا۔ آپ کے بعد کسی ایک ہی امام کی اقتدا کی خواہش نہ اتنی شدید ہو سکتی ہے اور نہ اُس کی اتنی اہمیت ہے۔ قیام جماعت کا موقع ہو تو لوگ اب الگ الگ اماموں کی اقتدا میں نہایت آسانی کے ساتھ نماز ادا کر سکتے ہیں۔
۱۷۲؎ نماز کی اصل حقیقت ذکر الہٰی ہے اور دین کی روح اِس ذکر کا دوام ہے۔ قصر کی اجازت سے اِس میں جو کسر ہوئی تھی۔یہ اُس کے جبر کی ہدایت فرمائی ہے کہ میدان جنگ میں اور خطرے کے موقعوں پر بالخصوص اِس کا اہتمام کیا جائے، اِس لیے کہ تمام عزم و حوصلہ کا منبع درحقیقت اللہ تعالیٰ کی یاد ہی ہے۔
۱۷۳؎ نماز کے اوقات میں تخفیف کی طرف یہ قرآن نے خود اشارہ کر دیا ہے۔ آیت میں ’اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوئی کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جائو تو پوری نماز پڑھو اور اُس کے لیے جو اوقات مقرر ہیں، اُن کی پابندی کرو، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔
۱۷۴؎ اصل میں لفظ ’الْقَوْم‘ آیا ہے۔ یہ جب اِس طرح کے سیاق میں آتا ہے تو اِس سے مراد دشمن اور حریف ہوتا ہے۔ اِس کی مثالیں قرآن مجید اور کلام عرب، دونوں میں موجود ہیں۔
۱۷۵؎ لہٰذا مطمئن رہو۔ تمھیں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے تمھاری مصلحت کے لیے پہنچتی ہے اور خدا کے اِسی علم و حکمت کا تقاضا ہوتی ہے۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
* مسلم، رقم ۶۸۶۔
** ابوداؤد، رقم ۱۲۲۰۔
*** بخاری، رقم ۳۹۰۰۔ مسلم ، رقم ۸۴۲۔
ـــــــــــــــــــــــــ