HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

انصار کی عورتوں سے بیعت لینے کے بارے میں ایک روایت

روایت کامضمون

احمد بن حنبل، رقم ۶۸۵۰کے مطابق روایت ہے کہ:

جاء ت أمیمۃ بنت رقیقۃ إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تبایعہ علی الإسلام فقال أبایعک علی ان لا تشرکی باللّٰہ شیئا ولا تسرقی ولا تزنی ولا تقتلی ولدک ولا تأتی ببہتان تفترینہ بین یدیک ورجلیک ولا تنوحی ولا تبرجی تبرج الجاہلیۃ الأولی.
امیمہ بنت رقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسلام کی بیعت کرنے آئی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے بیعت لیتاہوں اس بات پر کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کروگی؛ چوری نہیں کروگی؛ زنا نہیں کروگی؛ اپنی اولادکو قتل نہیں کروگی؛ تم اپنے پوشیدہ اعضا کے بارے میں کسی پر بہتان نہیں لگاؤگی اور نہ تم نوحہ کروگی اورنہ بے حیائی کابرتاؤ کروگی، جیساکہ دور جاہلیت میں ہوتارہا۔
روایت پرتبصرہ

اس روایت کو عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اوراس کے والد نے اپنے والد سے روایت کیاہے ۔اس سند کے بارے میں مثبت ومنفی، دونوں قسم کی آرا پائی جاتی ہیں۔اکثراہل علم کے نزدیک عمرو بن شعیب کا اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرناقابل بھروسا نہیں ہے ۔۱؂

اس روایت کے متن کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس میں بعض ایسے جملوں کا اضافہ ہے جو اسی موضوع کی دوسری روایات میں نقل نہیں ہوئے۔یہ بات بھی واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواتین سے جو بیعت لیا کرتے تھے اس کا حوالہ قرآن مجید میں بھی ہے اور اس کی رو سے بھی زیر بحث روایت میں بعض جملوں مثلاً ’’تم نوحہ نہیں کرو گی‘‘ کا اضافہ ہے۔ قرآن مجید میں بیعت کاذکر اس طرح سے ہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْءًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَاْتِینَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِینَہٗ بَیْنَ اَیْدِیہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ.(الممتحنہ۶۰: ۱۲)
’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جب تمھارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنانہ کریں گی ، اپنی اولاد کوقتل نہ کریں گی ، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کرنہ

لائیں گی ، کسی امر معروف میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو۔‘‘

نتیجۂ بحث

اس روایت پرمذکورہ بالا اعتراضات کے بعد ہم یہ بات اعتماد کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیعت لینے کا واقعہ اسی طرح ہواہوگا، جیساکہ یہ روایت ہواہے۔

تخریج :محمد اسلم نجمی

کوکب شہزاد

ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد

————

۱؂ تفصیل کے لیے دیکھیے: خلاصۂ تہذیب التہذیب ۱/۲۹۰، الجرح والتعدیل ۶/ ۲۳۸، الضعفاء والمتروکین ۲/ ۲۲۷، الکامل فی ضعفاء الرجال ۵/۱۱۴، المجروحین ۲/ ۷۱، تہذیب التہذیب ۴/ ۳۱۱، تہذیب الکمال ۱۲/ ۵۳۴، طبقات المدلسین ۱/ ۳۴۔

———————————

B