HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

قاہرہ میں چند روز علمی مشاہدات (۱)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


عربی زبان کا طالب علم ہونے کے ناتے دیرینہ تمنا تھی کہ اس دیس کو دیکھوں جس کے باسی پراسرار تصویری خط ہیرو غلیفی (Hieroglyphic) لکھنے والے جب حلقۂ بگوش اسلام ہوئے تو عربی زبان و ادب کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ اس کی قیادت کا سہرا ان کے سربندھا اور اس زبان کا واحد نوبل پرائز قاہرہ کے ادیب نجیب محفوظ کو ملا۔

یہ دیرینہ تمنا اپنے بیٹوں بالخصوص بڑے بیٹے کی معاونت سے برآئی۔ چنانچہ میں اور میری بیوی عرب امارات کی پرواز کے ذریعہ سے لاہور سے صبح نو بجے روانہ ہو کر ساڑھے گیارہ بجے دبئی پہنچے۔ وہاں سے تین بج کر پچاس منٹ پر روانہ ہوئے اور پانچ بج کر پچیس منٹ پر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر پہنچے۔ ہوائی اڈہ کی عالی شان عمارت پر سورۂ یوسف کی آیت ۹۹ ’ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ‘ لکھی دیکھ کر جی بہت خوش ہوا۔ حضرت یوسف نے اپنے والدین اور بھائیوں سے کہا: سب مصر میں داخل ہو جاؤ، اللہ کو منظور ہوا تو سب امن چین سے رہیں گے۔ پاکستان اور دبئی کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے اور پاکستان اور قاہرہ کے وقت میں تین گھنٹے کا۔

ہوائی اڈے پر سیروسیاحت کی ایجنسی ’’الجزیرہ‘‘ کا مصری نمائندہ ہمیں لینے آیا ہوا تھا۔ امیگریشن اور سیکیورٹی کی کارروائی کو وہ شتابی سے نمٹا کر ہمیں ہوائی اڈے سے باہر لے گیا اور گاڑی میں بٹھا کر ہوٹل کی طرف رواں دواں ہوا۔ پریذیڈنٹ ہوٹل حی الز مالک شارع ڈاکٹر طٰہٰ حسین پر ہوائی اڈے سے اکتیس کلومیٹر دور ہے۔ قاہرہ میں حی الزمالک اسی طرح معروف ہے جس طرح شارع ڈاکٹر طٰہٰ حسین اور طٰہٰ حسین، زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا، عربی ادب کا سرخیل، عربی نثر میں سہل ممتنع کا امام، مصر کا نابینا وزیر تعلیم جس کے خلاف طلبا نے احتجاج کیا کہ ہمیں اندھا وزیر نہیں چاہیے تو ان سے مخاطب ہو کر ایک تاریخی جملہ ان کے منہ سے نکلا: ’الحمد للّٰہ الذی جعلنی الأعمی کی لا انظر أشکال امثالکم‘، ’’شکر ہے اس اللہ کا جس نے مجھے اندھا بنایا کہ تمھارے جیسوں کی شکلیں نہ دیکھ سکوں۔‘‘

سیاحت کی تفصیل سے پہلے مصر اور قاہرہ کے بارے میں مختصر سے تاریخی حوالے دینا مناسب رہے گا۔

مصر

مسعودی ’’مروج الذہب‘‘ (۱/۳۵۷) میں کہتا ہے کہ حضرت نوح کے پوتے بیصر بن حام کا کنبہ جب بڑا ہوگیا تو انھوں نے بابل کی سرزمین چھوڑ کر مغرب کا رخ کیا۔ بیصر کے بڑے بیٹے مصر بن بیصر بن حام بن نوح نے مقام منف پر پڑاؤ کیا اور ان کے نام پر مصر کا نام پڑا۔ ممفس (منف) (Memphis) قدیم فراعنہ کے زمانے میں مصر کا پہلا دارالحکومت تھا۔ یہ نیل کے ڈیلٹا کے جنوب میں دریا کے مغربی کنارے پر واقع تھا۔ جیزہ کے مشہور اہرام اور ابوالہول اسی جگہ پر واقع ہیں جس جگہ پر آج ابورواش، زاویۃ الأریان، ابومیر، سقارہ اور دھشور کے اہرام ہیں، وہاں پر ممفس آباد تھا۔ اب میت رھینہ کی بستی کے قریب اس کے کھنڈرات ہیں۔ فراعنہ کے پہلے چھ خاندانوں کے دور میں یہ شہر خوب پھلا پھولا۔ اسے پہلے فرعون مینا (Menes) نے تعمیر کیا جس کا عہد حکومت پانچ ہزار قبل از مسیح ہے ۔ ممفس چھٹے خاندان کی ابتدا تک خوب پھلا پھولا، پھر عہدوسطیٰ میں نئے دارالحکومت طیبہ نے اس کی جگہ لے لی۔

طیبہ

(Thebes) ۳۰۶۷ تا ۱۷۰۳ قبل ازمسیح فراعنہ کا دور متوسط کہلاتا ہے۔ اس دور میں چرواہے بادشاہ (Hyksos) مصر پر غالب رہے۔ انھوں نے گیارہویں خاندان سے لے کر ستارہویں خاندان تک حکومت کی۔ نویں اور دسویں خاندان کی حکومت کے دوران میں مرکز ثقل زیریں مصر یعنی ممفس سے تبدیل ہو کر بالائی مصر یعنی طیبہ منتقل ہو گیا۔ بارہویں خاندان نے طیبہ (موجودہ نام الاقصر’ Luxor ‘)میں آثار کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا تو دارالحکومت یہاں منتقل ہوگیا۔ طیبہ قاہرہ کے جنوب میں ۴۱۹ میل کی مسافت پر دریاے نیل کے دونوں کناروں پر واقع تھا۔ یہاں پر امون (Amon) دیوتا کا شان دار معبد تھا۔ دریا کے دوسرے کنارے کرنک کا معبد تھا۔

توت انخ امون (Tutanakhamun)، سیتی اول (Seti I)، رمسیس ثانی (Rumesis II) جیسے جدید فراعنۂ مصر کے دور تک طیبہ کی شان وشوکت بحال رہی، مگر ان کے زمانہ میں دو دارالحکومت بن گئے۔ جنوب میں طیبہ اور شمال میں ممفس۔ رمسیس ثانی کے زمانہ سے طیبہ زوال پذیر ہوگیا اور ممفس باقاعدہ مصر کا دارالحکومت بن گیا۔ بنواسرائیل کے خروج کے وقت یہی دارالحکومت تھا۔ وہ اسی کے قریب گھوشن (Ghoshen) نامی شہر میں آباد تھے۔

بابل الجدید

اہل فارس نے ۵۲۷ قبل ازمسیح قمبیز(Cambyses) کی قیادت میں مصر پر قبضہ کیا اور شمال میں دریاے نیل کے مغربی کنارے ممفس کے قریب بابل نامی شہر آباد کیا، رومانیوں کے عہدحکومت میں یہ شہر صرف بابل نامی قلعہ کی صورت میں باقی تھا۔

اسکندریہ

۳۳۲ قبل ازمسیح میں مقدونیہ کے سکندراعظم نے مصر پر قبضہ کر کے اسکندریہ کو دارالحکومت بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ممفس کا زوال شروع ہو گیا۔ مصر کی اسلامی فتح کے وقت قدیم دارالحکومت کی کچھ نہ کچھ اہمیت باقی تھی۔ مقوقس حاکم مصر نے اسلامی لشکر کے ساتھ معاہدہ کیا۔ جب قاہرہ کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی مسجد اور محلات کی تعمیر میں ممفس کے آثار کے پتھر استعمال کیے گئے۔ ہر سال دریاے نیل کے سیلاب نے اسی ممفس شہر کے کھنڈرات کو جسے فرعون مینا نے بنایا تھا، رفتہ رفتہ مٹا دیا۔

فسطاط

حضرت عمرو بن العاص نے ۶۳۸ء میں مصر فتح کیا تو دو برس بعد قلعہ کی دیوار کے دامن میں فسطاط (کیمپ) نامی شہر کی بنیاد رکھی۔ یہ نیا دارالحکومت بھی تھا اور فوجی قائدین کی رہایش گاہ بھی۔ احمد بن طولون والی مصر نے عباسی خلیفہ معتمد بن متوکل کے زمانہ میں فسطاط کو مشرق کی جانب وسیع کر کے القطائع (ملکیت) نامی فوجی شہر آباد کر دیا۔ عسکر اور قطائع نامی شہروں کی آبادی کے بعد فسطاط نے اپنی اہمیت کھو دی۔

قاہرہ

۹۶۹ء میں فاطمی خلیفہ معزلدین اللہ کے فوجی قائد جوھر نے فسطاط پر قبضہ کر لیا اور ۲۵۹ھ (۹۷۰ء) میں نئے شہر کی داغ بیل رکھنا شروع کی۔ علماے فلک کے حساب کے مطابق تعمیر کا کام اس زمانہ میں شروع ہوا جب مریخ سیارہ طلوع ہوتا ہے، مریخ کو عربی میں القاھر (زبردست۔ کامیاب) کہا جاتا ہے۔ اس لیے نئے شہر کا نام القاھرہ رکھا گیا اور وہ اس وقت سے لے کر اب تک مصر کا دارالحکومت ہے۔ آپ نے دیکھا کہ مرور ایام کے ساتھ ساتھ مصر کے دارالحکومت بدلتے رہے۔

—————

۱۰ دسمبر ۲۰۰۶ ’’الجزیرہ‘‘ ٹریول ایجنسی کا نمائندہ صبح دس بجے ہوٹل میں موجود تھا۔ اس کے ساتھ قاہرہ کے سیر و سیاحت کالج کا گریجویٹ ایک قبطی نوجوان مائیکل بطور گائیڈ تھا۔ وہ ہمیں حی التحریر میں واقع مصری عجائب گھر لے گیا۔ عجائب گھر کی عمارت پر شکوہ تھی جس کے باہر دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ اس عجائب گھر میں صرف فراعنۂ مصر کے مجسمے، دیگر یاد گاریں اور حنوط شدہ لاشے ہیں۔ گائیڈ نے اندر داخل ہونے سے پہلے عجائب گھر میں موجود یاد گاروں کی مختصر سی تاریخ عربی میں بیان کی، جس کا خلاصہ یہ ہے:

فراعنہ کا عہد تین ادوار میں منقسم ہے۔ عہد قدیم، عہد متوسط اور عہد جدید۔

عہد قدیم

یہ پہلے آٹھ خاندانوں پر مشتمل تھا۔ یہ عہد۰ ۵۵۰ قبل از مسیح سے لے کر ۳۳۰۰ قبل از مسیح تک ہے۔ پہلا فرعون مینا (Menes) تھا جس نے بالائی اور زیریں مصر کو یکجا کیا۔ پہلے تین خاندانوں نے مصری فنون کو نیا رخ دیا۔ خاندان نمر ۴ سے ۶ تک نے اہرام کی تعمیر کی۔ چوتھے خاندان نے جیزہ کے پہلے بڑے ہرم خوفو (Cheops)، دوسرے ہرم خضرع (Chephren) اور تیسرے میکرینوس (Mikerinos) کی تعمیر کی۔ پہلا فرعون باپ ہے، دوسرا اس کا بھائی اور تیسرا بھائی کا بیٹا۔ فرعون قیصر کی مانند خاندانی نام ہرم منقرع ہے۔ ہیرو غلیفی میں اصل لفظ Per-aa ہے، جس کے معنی ہیں ’’بڑا گھرانا‘‘۔ اس لفظ کی تعریب کے بعد ’ن‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

عجائب گھر کی پہلی منزل میں اسی عہد کے فراعنہ کے دیو ہیکل مجسمے ہیں جنھیں دیکھ کر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ بادشاہوں کے مجسموں کے علاوہ شیخ البلد (Mayor)اور کاہن (Priest) کے مجسمے بھی دیکھے۔ شیخ البلد کا اوپر کا دھڑ تو ننگا تھا، البتہ نچلے حصے میں گھٹنوں تک نصف دھوتی نما چادر تھی۔ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں یہی عام لباس تھا۔ کاہن کا چھوٹا سا مجسمہ مادر زاد برہنہ تھا۔ عضو تناسل کو کاہن نے ہاتھ سے چھپا یا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس زمانے کے ہتھیار، سکے اور صنعت گری کے اعلیٰ نمونے رکھے ہوئے تھے۔ ملکاؤں نے سر پر باروکہ (Wig) پہنا ہوا تھا۔ ایک وسیع و عریض ہال کے دونوں جانب یہ یاد گاریں ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔

عہد متوسط

یہ عہد۳۰۶۴ تا ۱۷۰۳ قبل از مسیح نویں خاندان سے لے کر سترہویں خاندان پر مشتمل ہے۔ بارہویں خاندان کے عہد حکومت میں طیبہ (الاقصر) اور کرنک کے قریب بڑے بڑے آثار تعمیر کیے گئے۔ اس دور کے آخری تین خاندانوں کا تعلق بربری قبائل سے تھا۔جنھوں نے نہر سویز کی طرف سے مصر پر چڑھائی کی۔ ان قبائل کو کتاب مقدس میں (Hyksos) (چرواہے بادشاہ) کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

انھوں نے بھی فراعنہ کا انداز حکومت، مذہب اور لغت اپنائی۔ ہیرو غلیفی (Hieroglyphic) تصویری خط کو صوتی نظام عطا کیا۔ السنۂ سامیہ کے ۲۲ حروف تہجی کی ایجاد کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ دریاے نیل کے ڈیلٹا کے مشرق میں زوان (Zoan) نامی شہر آباد کیا، اس کا موجودہ نام تینس (Tanis) ہے۔ انھوں نے ۵۰۰ برس تک حکومت کی۔ جب ان کا غلبہ مستحکم ہو گیا تو انھوں نے ممفس (Memphis) ہی کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کا تعلق بھی اسی زمانے سے ہے۔ عجائب گھرکی دوسری منزل میں اس عہد کے آثار بھی موجود ہیں۔

عہد جدید

یہ عہد ۱۵۵۰ تا ۱۲۰۰ قبل از مسیح اٹھارہویں خاندان سے لے کر بیسویں یا اکیسویں خاندان پر مشتمل ہے۔ یہ عہد واقعات،حادثات اور آثار سے بھر پور ہے۔ اسی عہد حکومت میں سلطنت کی حدود کو وسعت ملی۔ تحتمس اول (Tuthomosis I) نے اپنی بیٹی حتشبسوت (Hatshepshut) کو شریک اقتدار کیا۔ یہی خاتون اپنے بھائی تحتمس سوم (Tuthomosis III) کے عدم بلوغ کی وجہ سے مصر پر حکمرانی کرتی رہی۔ اسی کی فوج نے جزیرۃ العرب پر چڑھائی کی اور اسی کے زمانے میں حجاز اور یمن کا علاقہ دریافت ہوا۔ اس نے مصرپر ۲۰ برس حکومت کی۔ علامہ عبداللہ یوسف علی نے اپنے انگریزی ترجمہ میں سورۂ اعراف کے آخر میں ضمیمہ ۴ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا فرعون یہی تحتمس اول (Tuthomosis I) تھا اور اس کی یہی بیٹی موسیٰ علیہ السلام کو دریاے نیل سے نکال کر لائی اور اسی نے رضاعت کے لیے ان کو ان کی والدہ کے سپرد کیا، مگر یہ رائے تاریخی اعتبار سے قطعی غلط ہے۔ اس پر بحث بعد میں ہو گی۔

رمسیس ثانی جسے رمسیس اعظم بھی کہا جاتا ہے، انیسویں خاندان کا مشہور ترین حکمران تھا۔ اس نے چھیاسٹھ یا سڑسٹھ برس حکومت کی۔ اس کے سو کے قریب بچے تھے۔ منفتاح اس کا تیرہواں بیٹا تھا۔ اس کے بنائے ہوئے آثار پورے مصر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کی فوج یورپ، ہندوستان (بحرعمان) اور خلیج بنگال تک پہنچی۔

عجائب گھر کی دوسری منزل اسی دورکے آثار کے لیے وقف ہے۔ فراعنہ اور اعیان مملکت کے مجسمے، آلات و ہتھیار، زیورات، برتن، آلات موسیقی اور شکار کے لوازمات بڑے قرینے سے رکھے ہوئے ہیں، مگر سب سے بڑھ کر سونے کا وہ خزانہ ہے، جو ایک ہال کمرے میں محفوظ کیا گیا ہے۔ توت انخ امون (Tutankhamun) کی قبرطیبہ (Luxor) کی وادی الملوک میں ایک سر بمہر دیوار کے پیچھے تھی۔ وادی الملوک کی قبروں میں سے سب سے آخر میں اس قبر کو Howard Carter نے ۱۹۲۲ء میں دریافت کیا۔ یہ واحد قبر تھی جو لٹیروں کی دست برد سے محفوظ رہی اور اپنی اصلی حالت میں جوں کی توں دریافت ہو ئی۔ مقبرہ کیا تھا ’Carter‘ کے الفاظ میں سونے سے بھرا ہوا خزانہ تھا۔ اس میں آلات حرب، کپڑے، فرنیچر، ہیرے جواہرات، سونے کے زیورات، آلات موسیقی، کشتیوں کے ماڈل، تابوت اور مصنوعی چہرہ (Mask)شامل تھے۔ ان میں سے اکثر چیزیں یا تو ٹھوس سونے کی تھیں یا ان پر سونے سے ملمع کاری کی ہوئی تھی۔ ممی ایک دوسرے کے اندر رکھے ہوئے تین خالص سونے کے صندوقوں میں تھی۔ ان کے گرد چار لکڑی کے بنے ہوئے بڑے بڑے تبرک خانے (Shrines) تھے جن میں معبودوں کے مجسمے رکھے ہوئے تھے۔ جن سونے کے صندوقوں میں ممی رکھی ہوئی تھی، ان میں اندر رکھا ہوا صندوق خالص سونے کا ہے جس کا وزن 110.4 کلو گرام ہے۔ خالص سونے کا بنا ہوا نقاب (مصنوعی چہرہ) ہے جس میں رنگ برنگے شیشے اور قیمتی پتھر جڑے ہوئے ہیں۔ اس نقاب کے سر پوش پر عقاب اور کوبرا (پھنیر) حفاظت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں اس کا وزن 100.2 کلو گرام ہے۔ بھونرے قدیم مصریوں کے یہاں مقدس تھے، اس کی شکل پر تراشا ہوا سونے کا آویزہ ہے جس پر ہیر و غلیفی خط میں توت انخ امون کا نام کندہ ہے۔ ابنوس اور ہاتھی دانت کا بنا ہوا ایک بکس ہے، جس پر ایک باغ کی منظر کشی کی گئی ہے، جہاں توت انخ امون اپنی ملکہ سے پھول وصول کر رہا ہے۔ ایک اور لکڑی کا بکس ہے جس پر سونے کی ملمع کاری کی گئی ہے جس پر اس فتح کی منظر کشی ہے جو فرعون نے اہل شام پر حاصل کی۔ اس کے ڈھکنے پر ایک منظر ہے جس میں فرعون شیر، شتر مرغ اور چکارے کا شکار کر رہا ہے۔اب توت انخ امون کی ممی برٹش میوزیم میں ہے۔ اس مقبرے کی چیزوں کا معاینہ کرتے کرتے (Howard Carter) کو دس برس سے اوپر کا عرصہ لگا۔ داد دینی پڑتی ہے یورپ کے ان علما کو جنھوں نے ان قیمتی خزانوں کو زمین کی تہ سے نکال کر عجائب گھروں کی زینت بنایا۔ یہاں (Jean Francois Champollion) کا ذکر بے محل نہ ہو گا جسے مصر کے آثار قدیمہ کا باپ سمجھا جاتا ہے، جس نے (Rosetta Stone) نامی سنگ سیاہ کی ایک سل ۱۷۶۹ء میں ڈیلٹا کے مغرب میں (Rosetta) نامی مقام پر دریافت کی۔ اس کے اوپر نیچے اور درمیان میں تین تحریریں ہیں۔ سب سے اوپر ہیرو غلیفی، درمیان میں پروہتی (مصری عوامی) اور نیچے یونانی زبان ہے۔ تینوں تحریروں کا مضمون ایک ہی ہے۔ چنانچہ شمپو لیونی نے اس لوح کو پڑھا اور ہیرو غلیفی خط کو سمجھا۔ یہ لوح اب برٹش میوزیم میں ہے۔ آنے والے اسکالرز کے لیے یہ لوح کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

عجائب گھر کی دوسری منزل کے ایک سرے پر ایک تاریک سا کمرہ ہے۔ ایک سو مصری پاؤنڈ کا ٹکٹ لے کر تنگ سی راہ داری سے گزر کر اس کمرہ میں جانا پڑتا ہے۔ وہاں پر گیارہ ممیائی ہوئی فراعنہ کی لاشیں ہیں، جن کی ترتیب درج ذیل ہے۔ تاریخیں وہی ہیں جو ممیوں کے سرہانے الواح پر درج ہیں۔

1.King Se-QEHERETA II (1550-1539 B.c)

2.Princess MERIT AMUN (1545-1525 B.c)

3.King AMENHOTEP I (1525-1504 B.c)

4.King TUTHMOSIS I (1550-1492 B.c)

5.King TUTHMOSIS II (1492-1479 B.c)

6.King TUTHMOSIS III (1479-1425 B.c)

7.King AMENHOTEP ii (1428-1397 B.c)

8.King TUTHMOSIS iv (1397-1388 B.c)

9. King SETI I (1290-1279 B.c)

10.King RAMSES II (1279-1213 B.c)

11.King MERENPTAH (1213-1203 B.c)

کیونکہ یہ زمانہ قبل از تاریخ ہے، اس لیے یہ تاریخیں یقینی نہیں۔ مصریات کے علما کے درمیان ان تاریخوں کے بارے میں خاصا اختلاف ہے۔

فرعون موسیٰ کون ہے؟

اس بارے میں اس قدر اختلاف ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا، بہرحال چار مختلف نقطہ ہاے نظر کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

پہلا نقطۂ نظر بائیبل کی روایت (Kings 1:6:1) پر مبنی ہے۔ یہ روایت تورات میں موجود نہیں۔ روایت ہے کہ مصر سے اسرائیلیوں کا خروج (Exodus) ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے ۴۸۰ برس پہلے ہوا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل کی تعمیر اپنے عہد حکومت کے چوتھے سال ۹۶۱ یا ۹۷۱ قبل از مسیح میں کی۔ یہ تاریخ ۱۴۴۰ یا ۱۴۵۰ قبل از مسیح کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس زمانہ میں تحتمس سوم (Tuthomosis III) مصر پر حکمران تھا نہ کہ تحتمس اول جیسا کہ علامہ عبداللہ یوسف علی نے سورۂ اعراف کے آخر میں ضمیمہ ۴میں لکھا ہے۔

اس نقطۂ نظر پر حسب ذیل اعتراض پائے جاتے ہیں:

۱۔ کتاب مقدس کی عبارت کو اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو غلط معلوم ہوتی ہے۔ اول کتاب پیدایش (Genesis15:13) کے مطابق بنی اسرائیل ۴۰۰ سال اور خروج (Exodus 12:40) کے مطابق۴۳۰ سال مصر میں رہے۔ اس طرح بائیبل کی مذکورہ بالا روایت کے مطابق ان کا خروج ۱۴۵۰ قبل از مسیح اور دخول ۱۸۵۰ قبل ازمسیح قرار پاتا ہے۔ جو وہی زمانہ ہے جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام مصر میں موجود تھے۔ بائیبل کی ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے درمیان ۲۵۰ برس کا وقفہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں مصر میں بنی اسرائیل کا نام و نشان تک نہ تھا، اس لیے یہ تاریخ مشکوک معلوم ہوتی ہے۔

۲۔ (The Bible, The Quran and Science) کا مصنف (Maurice Bucaill) کتاب کے صفحہ ۲۲۵ پر بعض ہیرو غلیفی دستاویزات کا حوالہ دیتا ہے، جس میں (Habiru) یا (Apiru, Hapiru) نامی مزدوروں کا ذکر ہے جو عمارتیں تعمیر کرتے تھے اور کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ یہ غالباً وہی ہیں جن کو بائیبل میں عبرانی (Hebrews) کہا گیا ہے۔ فرعون (Amenophis II) پندرہویں صدی قبل از مسیح میں اس قسم کے ۳۶۰۰ مزدوروں کو جبری مشقت کے لیے کنعان سے قیدی بنا کر لایا تھا۔ تحتمس سوم (Tuthomosis III) کے عہد میں ان کو اصطبل کے مزدوروں کے نام سے پکارا گیا ہے۔ فرعون سیتی اول (Seti I) کے عہد حکومت میں ان مزدوروں نے کنعان کے علاقہ میں بغاوت کی۔ بائیبل سے پتا چلتا ہے کہ رمسیس ثانی کے زمانہ میں انھوں نے رمسیس اور پیتھوم (Pithom) نامی شہر تعمیر کیے۔ آج کل قنطر (Qanter) اور تینس(Tanis) کے شہر نیل کے ڈیلٹا کے مشرقی حصہ میں واقع ہیں۔ یہ شہر (Ghoshen) سے دور نہ تھے، جہاں اسرائیلی رہایش پذیر تھے اور جس سے انھوں نے خروج کیا۔ (Tuthomosis III) کا دارالحکومت طیبہ میں تھا جو دور جنوب میں ہے۔ اس نے ڈیلٹا کے علاقہ میں کوئی تعمیرات نہیں کیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ کا فرعون وہی ہے جس نے تیرہویں صدی قبل از مسیح میں رمسیس اور پیتھوم نامی شہر تعمیر کرائے، خروج انھی شہروں کے قریب سے ہوا تھا۔ ۱۴۴۰ قبل از مسیح تک تو بنی اسرائیل سر زمین مصر میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔

۳۔ انسائیکلوپیڈیا بریطانیکا مطبوعہ ۱۹۷۷ء (۱۲/ ۴۸۷) میں لکھا ہے کہ سیدنا موسیٰ کی پیدایش چودہویں صدی قبل از مسیح کے آخر میں ہوئی۔ یعنی (Tuthomosis) (۱۴۲۵۔۱۴۷۹) کے عہد میں تو موسیٰ علیہ السلام کا وجود بھی نہ تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ خروج رمسیس ثانی کی تخت نشینی سے پہلے ہوا ہو۔

۴۔ انسائیکلوپیڈیا بریطا نیکا مطبوعہ ۱۹۷۷ء میں کتاب مقدس کی مذکورہ بالا روایت کی بڑی اچھی توجیہ کی گئی ہے۔ لکھا ہے: موسیٰ علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے درمیان بارہ نسلوں کا فاصلہ ہے۔ مذکورہ روایت میں تمثیلی انداز میں ایک نسل کا حساب ۴۰ برس لگایا گیا تو خروج ۱۴۴۰ قبل از مسیح بنا، مگر یہ حساب مبالغہ آمیز ہے، اگر ایک نسل کا حساب ۲۵ برس کیا جائے تو خروج ۱۲۵۰ قبل از مسیح بنتا ہے۔

دوسرا نقطۂ نظر زیادہ متداول ہے اور اب تک اسی کو یقینی رائے سمجھا جاتا رہا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریطانیکا مطبوعہ ۱۹۵۳ء میں لکھا ہے: ’’بنو اسرائیل پر جو رو ستم ڈھانے والا فرعون رمسیس (بائیبل کا رعمسیس) ہے اور خروج کے وقت ڈوب مرنے والا فرعون اس کا بیٹا مرنفتاح (Merneptah) ہے جس کا ایک تلفظ منفتاح (Meneptah) بھی ہے۔ ’’بائیبل، قرآن اور سائنس‘‘ کے فرانسیسی مصنف نے اس نقطۂ نظر کو بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کتاب (مطبوعہ ۱۹۷۵ء) میں لکھا ہے:

’’یہ حقیقت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی پیدایش رمسیس ثانی کے زمانہ میں ہوئی۔ بائیبل کی روایت خروج (۲۳: ۲) میں ہے: ’’جب موسیٰ مدائن میں تھے تو وہ فرعون (۶۷ برس) حکومت کرنے کے بعد مر گیا‘‘...جب انھوں نے فرعون سے بنو اسرائیل کی نجات کے بارے میں گفتگو کی تو ان کی عمر بائیبل کی روایت (خروج ۷:۷) کے مطابق اسی برس تھی۔ رمسیس ثانی اور منفتاح کے زمانے کے علاوہ کوئی ایسا زمانہ نہیں جس کے درمیان ۸۰ برس یا اس سے زیادہ کا عرصہ ہو۔ منفتاح کے زمانہ میں موسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کے نمائندے کے طور پر پیش ہوئے۔ یہ قصہ منفتاح کے عہد حکومت کے آخری نصف میں ہوا۔ (Drioton) اور (Vandier) نے منفتاح کے عہد حکومت کے بارے میں دو احتمالات کا ذکر کیا ہے۔ ۱۲۳۴ تا ۱۲۲۴ قبل از مسیح یعنی دس برس یا ۱۲۲۴ تا ۱۲۰۴ یعنی بیس برس۔ اس کا خاتمہ کب ہوا، مصریات اس بارے میں خاموش ہیں۔ حضرت موسیٰ نے اس کے عہد حکومت کے آخر میں بنواسرائیل کے ساتھ خروج کیا۔ اس کے علاوہ اور کوئی امکان نہیں، کیونکہ بائیبل اور قرآن، دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ تعاقب کرنے والا فرعون ڈوب مرا۔‘‘(۳۳۸)

ڈاکٹر شوقی ابوالخلیل نے اپنی کتاب ’’اطلس القرآن‘‘، حفظ الرحمن سیوہاروی نے ’’قصص القرآن‘‘ اور مولانا مودودی نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں سورۂ یونس کی آیت ۹۲ کی تفسیر کے تحت اسی رائے کی تائید کی ہے۔ مولانا مودودی نے منفتاح کو غلط طور پر منفتہ لکھا ہے اور یہ جو لکھا ہے کہ اس کی لاش پر سالٹ (نمک) تھا، اس کاتذکرہ ’’بائیبل، قرآن اور سائنس‘‘ کے مصنف نے نہیں کیا، حالانکہ اس نے خود منفتاح کی ممی کا معائنہ کیا ہے اور اس کی تفصیل لکھی ہے۔

اس نقطۂ نظر پر سب سے بہتر تبصرہ یہودی انسائیکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) میں ہے:

’’انجام کار اس سے بہتر اور یقینی رائے کوئی نہ تھی کہ رمسیس ثانی وہ فرعون تھا جس نے بنو اسرائیل پر ستم ڈھائے اور منفتاح وہ فرعون تھا جو خروج کے وقت ڈوب مرا۔ یہ خروج یا تو تیرہویں صدی قبل از مسیح کے وسط میں ہوا یا آخر میں۔ مگر اسرائیلی کتبہ(Sixtemple Plate 13-147)کی دریافت نے اس نتیجہ کو مشکوک بنا دیا ہے، اس کتبہ کی سطر نمبر ۲۷ میں دشمنوں پر فتح یاب ہونے کا قصہ درج ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہے: ’’اسرائیل کو (اس قدر) تباہ کر دیا گیا ہے کہ ان کے پھلنے پھولنے کا کوئی امکان نہیں‘‘ فلسطین مصر کے لیے بیوہ کی مانند ہو گیا ہے۔‘‘ (۸/۵۰۰)

یہ الفاظ مرنفتاح (Mereneptah) کے عہد حکومت کے پانچویں سال لکھے گئے۔ یہ قدرتی طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی اس وقت فلسطین میں پوری طرح آباد ہو چکے تھے۔ اس لیے خروج کا منفتاح کے عہد حکومت میں واقع ہونے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔

یہ حجری ستون (Stele) وہ واحد ہیرو غلیفی دستاویز ہے جس پر سب سے پہلے لفظ اسرائیل لکھا ہوا ملا۔ یہ طیبہ (Thebes) میں فرعون کے جناز ی معبد (Funeral Temple) سے دریافت ہوا۔ اس میں ان فتوحات کا ذکر ہے جو مرنفتاح (منفتاح) کو مصر کے پڑوسی ممالک پر حاصل ہوئیں۔ اس ستون کے آخر میں اسرائیلیوں پر فتح کا ذکر ہے۔ چنانچہ علما اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ لفظ اسرائیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرنفتاح (منفتاح) کے عہد حکومت کے پانچویں سال تک اسرائیلی کنعان میں پوری طرح آباد ہو چکے تھے، اس لیے خروج کے وقت مرنفتاح (منفتاح) کے تعاقب کرنے اور ڈوب مرنے کا کوئی امکان نہیں۔

[باقی]

__________________

B