[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:کیا معراج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے؟ اور کیا معراج کا واقعہ قرآن سے ثابت ہے؟(آصف بن خلیل /قمر اقبال)
جواب: معراج کے واقعے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ.(بنی اسرائیل۱۷ :۱)
’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی ایک شب مسجد حرام سے اس دور والی مسجد تک، جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی ہے تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک سمیع و بصیر وہی ہے۔‘‘
اس آیت میں واقعۂ معراج کا ذکر ہے۔ اس آیت میں بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمانوں پر جانے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ لیکن حدیث میں اس کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان میں یہ ذکر موجود ہے کہ آپ آسمانوں پر گئے تھے۔ ہمارے خیال میں حدیث کا بیان ’لنریہ من اٰیٰتِنَا‘(تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں) کے الفاظ کی تشریح و تفسیر ہے۔ بعض علما اسے ایک جسمانی واقعہ قرار دیتے ہیں، ہمارے خیال میں یہ آپ کا رؤیا تھا، جیسا کہ قرآن کی اسی سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۶۰ میں اسے رؤیا قرار دیا گیا ہے۔ البتہ نبی کا رؤیا چونکہ ایک حقیقی واقعہ ہوتا ہے، وہ محض ایک خواب نہیں ہوتا۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سارے واقعات حقیقتاً پیش آئے ہیں جو قرآن مجید یا احادیث صحیحہ میں بیان ہوئے ۔ (محمد رفیع مفتی)
سوال:کیا بیت المقدس ہمارا پہلا قبلہ ہے یا خانہ کعبہ ہی شروع سے مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے؟ (آصف بن خلیل /قمر اقبال)
جواب:قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں تحویل قبلہ کا یہ حکم بیان ہوا ہے۔ارشاد باری ہے:
سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْْہَا قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ. وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْْہَآ اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْْہِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ. قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبِ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۴۲۔۱۴۴)
’’(ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد کو ، اے پیغمبر ،ہم نے تمھارے لیے قبلہ ٹھیرانے کا فیصلہ کیا ہے تو) اب اِن لوگوں میں سے جو احمق ہیں ، وہ کہیں گے : اِنھیں کس چیز نے اُس قبلے سے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟ اِ ن سے کہہ دو : مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں ، وہ جس کو چاہتا ہے، (اِن تعصبات سے نکال کر) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔ (ہم نے یہی کیا ہے ) اور (جس طرح مسجد حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرایا ہے) اِسی طرح تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (دین کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔ اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے ، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھیرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتاہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک بھاری بات تھی، مگر اُن کے لیے نہیں،جنھیں اللہ ہدایت سے بہرہ یاب کرے۔ اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ (اِس طرح کی آزمایش سے وہ) تمھارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے۔ اللہ تو لوگوں کے لیے بڑا مہربان ہے ، سراسر رحمت ۔تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھتے رہے ہیں۔ (اے پیغمبر) ، سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے۔ لہٰذا اب اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو اور جہاں کہیں بھی ہو، (نماز میں) اپنا رخ اُسی کی طرف کرو۔ یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی تھی ، جانتے ہیں کہ اُن کے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے اور (اِس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں ، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘
ان آیات کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، البتہ آپ اس بات کا اہتمام ضرور کرتے تھے کہ آپ اس رخ پر کھڑے ہوں جس پر خانہ کعبہ اور بیت المقدس، دونوں ہی قبلے آپ کے سامنے آ جائیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک اہل کتاب سے مختلف کوئی طریقہ اختیار نہ کیا کرتے تھے، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کا حکم یا اس کی اجازت نہ مل جاتی تھی۔
پھر جب آپ مدینہ میں آئے تو وہاں دونوں قبلوں کو بیک وقت سامنے رکھنا ممکن نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے اصول کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی، لیکن آپ کا جی یہ چاہتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔ پھر جیسا کہ درج بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے، کچھ ہی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ کعبہ ہی کواپنا قبلہ بنائیں۔
چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدینے میں مسلمانوں نے پہلے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایا تھا۔ (محمد رفیع مفتی)
سوال: بچوں کی تربیت کے حوالے سے میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پہلے بچوں کو انسانیت کے اہم اور بنیادی ضوابط سکھائے جائیں۔ جیسے سچ بولنا اور احترام وغیرہ تمام اخلاقیات۔ پھر جب وہ بڑے ہو رہے ہوں تو انھیں یہ بتایا جائے کہ دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں، تم ان میں سے کوئی بھی مذہب چن سکتے ہو۔ مگر میں تمھاری ماں ایک مسلمان ہوں۔ میں نے تحقیق سے ان اسباب کے تحت اس دین کو چنا ہے۔
موجودہ حالات میں ہم مسلمان پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن بچپن ہی میں ان کی برین واشنگ کر دیتے ہیں۔ وہ اسی کو سچ مانتے ہیں جس کے بارے میں ہم انھیں بتا دیتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ میں وہ مسلمان بنانا چاہتی ہوں جو اسلام کی صحیح روح سے آگاہ ہوں۔ پیدایشی طور پر نہیں، بلکہ غوروفکر کے نتیجے میں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کواور اسلام کی سچائی کو اپنی تحقیق سے دریافت کریں۔ وہ وہ روایتی مسلمان نہ ہوں جن کی برین واشنگ ہو چکی ہوتی ہے؟(رفعت سبحان)
جواب:آپ کا جذبہ بہت اعلیٰ ہے۔ اس ہدف کے درست ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان کا ایمان اس کی اپنی دریافت ہو۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ کسی مسلمان کو اندھا مقلد اور اپنے افکار پر جامد نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوچ اتنی اچھی ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔لیکن میرے خیال میں بچوں کے حوالے سے آپ کی بات میں کچھ تبدیلیاں ضروری ہیں۔ بچے ہمارے بتانے سے کم اور ہمارے عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ لہٰذا بنیادی اصول تو یہ ہے کہ جو آپ اپنے بچوں کو بنانا چاہتی ہیں، وہ خود بنیں۔ اگر بچے آپ کو دیکھیں گے کہ آپ باتیں تو آزادی فکر کی کرتی ہیں، لیکن خود اس پر عامل نہیں ہیں تو آپ کی باتیں تاثیر سے محروم رہیں گی۔
دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ تمام بچے یکساں فکری صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا بچوں کی تربیت اور اٹھان میں ان کی صلاحیت اور طبعی رجحانات ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ممکن ہے آپ کے سارے بچے آپ کی فکری نہج کو اپنا لیں۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہونا چاہیے جب آپ یہ دیکھیں کہ وہ اس کے لیے مناسب اہلیت رکھتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے اور اسے بھی ایک اصول ہی کی حیثیت حاصل ہے کہ انسانی نفسیات خلا میں نہیں جیتی۔ انسانی طبیعت کچھ تصورات اور شخصیات کے ساتھ وابستگی ہی سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اگر آپ اس کی رعایت نہیں کریں گی اور بچوں کو شروع ہی میں ان کی ہمت سے باہر کے دائرے میں رد وقبول کی راہ دکھائیں گی تو وہ فکری انتشار اور عملی انحطاط کا شکار ہو جائیں گے۔
تعلیم کا اصول یہ ہے کہ بچوں کو نیچرل سائنسز ہوں یا انسان سے متعلق علوم، باتیں اسی طرح سکھائی جاتی ہیں جیسے کہ وہ ہر شک وشبے سے پاک ہوں۔پھر ان کی معلومات کے دائرے کو بڑھاتے بڑھاتے اس پوزیشن میں لے آتے ہیں کہ وہ دلائل کی کمزوری اور قوت کو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ان میں اہلیت ہو تو وہ خود دریافت کرنے یا ترجیح دینے کے عمل میں کارکردگی دکھانے لگ جاتے ہیں۔ ورنہ ان کا سفر معلوم کے معلوم ہونے تک محدود رہتا ہے۔
مذہب میں بھی یہی صورت ہوگی۔ بچوں کو آپ اپنے دینی خیالات اسی طرح سکھائیں گی جیسے کہ وہ ایک حقیقت ہیں۔ پھر انھیں مختلف افکارو نظریات سے آگاہی کا موقع ملے گا۔ یہ وہ وقت ہے جب آپ کو انھیں یہ سکھانا بھی ہے اور اس کا نمونہ بھی بننا ہے کہ ہر بات دلیل کی بنیاد پر مانی اور رد کی جاتی ہے۔
مذہب کے حوالے سے یہ حقیقت بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ مذہبی استدلال اور تجرباتی علوم کے استدلال میں فرق ہے۔ لہٰذا اس فرق کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو فکری نتائج بڑے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ نیچرل سائنسز کے غلبے کے اس زمانے میں بعض ذہین لوگ اسی فکری تضاد میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور انھیں اس سے نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ذہن کا خاصہ یہ ہے کہ اسے نئی بات میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ مذہب اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی باتوں کو ماننے کا نام ہے۔دین کی تعلیم کا کام کرنے والوں کو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر معاملہ کرنا چاہیے۔
بچے اپنے والدین اور اساتذہ کو آئیڈیالائز کرتے ہیں۔ آپ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیے گا۔ بلکہ اسی کو استعمال کرتے ہوئے ان کی تربیت کا کام کیجیے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائیں۔آمین (طالب محسن)
سوال:اسلام مساوات کا مذہب ہے۔ پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ عورت کو مرد سے آدھی وراثت ملتی ہے اور شوہر کو بیوی کو مارنے کا حق دیا گیا ہے۔ کئی غیر مسلم قرآن کے اس حکم کا حوالہ دیتے ہیں۔کیا آپ ان تصورات کی وضاحت کریں گے؟(بسمہ نور )
جواب: اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو مساوات کے بجائے عدل کا لفظ زیادہ صحیح ہے۔ مساوات سے بھی وہی مساوات مراد ہے جو عدل کے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی جن دوتعلیمات پر اشکال ظاہر کیا ہے، ان کا تعلق اسلام کے پیش نظر خاندانی نظام سے ہے۔
جس طرح کسی بھی نظام میں مناصب اہلیت کی بنا پر دیے جاتے ہیں اسی طرح خاندان میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کی شخصیت میں کچھ فرق رکھا ہے ۔ دوسرے اسلام میں کفالت کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان دو سبب کے تحت مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ہر نظام میں سربراہ کو تادیب کے اختیار حاصل ہوتے ہیں اسی طرح گھر کے اس باس (Boss) کو تادیب کا اختیار حاصل ہے۔قرآن مجید میں یہ ساری بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ.(النساء۴ :۳۴)
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس وجہ سے اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔‘‘
شوہر کو بیوی کا باس (Boss)قرار دینے کی وجہ بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اچھی بیوی کی دو صفات بیان کی ہیں: ایک یہ کہ وہ فرماں بردار ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ گھر کے بھیدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید نے اگر بیوی شوہر کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردے تو اصلاح کے لیے نصیحت، بستر سے علیحدگی اور بدرجۂ آخر مارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اگر اللہ کے دین میں دیا گیا خاندانی نظام پیش نظر ہو تو اس میں یہ ساری باتیں معقول ہیں۔ البتہ اگر خاندانی نظام کے بجائے معاشرے کو کسی دوسرے طریقے پر استوار کرنا پیش نظر ہے تو پھر نہ ان ہدایات کی ضرورت ہے اور نہ کسی خصوصی اختیار اور حیثیت کی۔
قانون وراثت کے ضمن میں عرض ہے کہ اس کی اساس خود اللہ تعالیٰ نے بیان کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وراثت کے یہ احکام اس لیے دیے گیے ہیں کہ تم خود سے بالعموم ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کر سکتے کہ مرنے والے سے منفعت میں سب سے زیادہ کون قریب ہے۔ اس لیے ہم نے خود سے حصے مقرر کر دیے ہیں۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ مرد کو کفیل ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ اولاد کی مردوں پر آیندہ کفالت کی ذمہ داری ہے، لہٰذا انھیں زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ اسی قانون میں ماں باپ کا حصہ برابر ہے۔ حالانکہ ان میں بھی ایک مرد اور ایک عورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس پر معاش کی ذمہ داری کی وہ صورت نہیں ہے۔
ہر قانون اور ضابطہ کچھ مصالح اور مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ قانون پر تنقید کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مصلحت اور مقصد کو سمجھا جائے۔ دو صورتیں ہوں گی:پہلی یہ کہ ہمیں اس مقصد اور مصلحت ہی سے اتفاق نہ ہو۔ پھر بحث اس موضوع پر ہو گی ۔ دوسری یہ کہ اس مصلحت اور مقصد کو یہ قانون پورا نہ کرتا ہو۔اس صورت میں گفتگو اس دوسرے پہلو سے ہو گی۔ قرآن مجید کا معاملہ یہ ہے کہ یہ علیم و خبیر خدا وند عالم کی کتاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی کوئی بات انسانی فطرت اورعقل وفہم کے موافق نہ ہو۔ ہم اپنی کوتاہی دور کر لیں ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔(طالب محسن)
______________