HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۷۱-۹۰ (۱۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا{۷۱} وَاِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ، فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ، قَالَ: قَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَکُنْ مَّعَہُمْ شَہِیْدًا{۷۲}وَلَئِنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوْلَنَّ، کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہٗ مَوَدَّۃٌ، یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَہُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا{۷۳} فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا{۷۴} 
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا، وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا، وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا{۷۵}
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ، فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَآئَ الشَّیْْطٰنِ، اِنَّ کَیْْدَ الشَّیْْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا{۷۶}
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ: کُفُّوْٓا اَیْْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ۔ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً، وَقَالُوْا: رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْْنَا الْقِتَالَ، لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ۔ قُلْ: مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی، وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً{۷۷} اَیْْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ، وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ، وَاِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا: ہٰـذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ، وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا: ہٰـذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ۔ قُلْ: کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ، فَمَالِ ہٰٓـؤُلَآئِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا{۷۸} مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ، وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ، وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً، وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا{۷۹} مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظًا{۸۰} 
وَیَقُوْلُوْنَ: طَاعَۃٌ، فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ غَیْْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ، وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ، فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ، وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً{۸۱} اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا{۸۲} 
وَاِذَا جَآئَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ، وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ، وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْْطٰنَ اِلاَّ قَلِیْلاً{۸۳} 
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، لاَ تُکَلَّفُ اِلاَّ نَفْسَکَ، وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلاً{۸۴} مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا، وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْہَا، وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ مُّقِیْتًا{۸۵} 
وَاِذَا حُیِّیْْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَآ اَوْ رُدُّوْہَا، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ حَسِیْبًا{۸۶} اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ہُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ، وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا{۸۷} 
فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْْنِ، وَاللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا، اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ، وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً{۸۸} وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً، فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ، وَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَلاَ نَصِیْرًا{۸۹} اِلاَّ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآئُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ، وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ، فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلاً{۹۰} 
ایمان والو، اپنے اسلحہ سنبھالو ۱۳۱ اور (مظلوموں کی مدد کے لیے) نکلو، (جیسا موقع ہو)، الگ الگ دستوں کی صورت میں۱۳۲ یا اکٹھے ہو کر۔ تم میں یقینا وہ لوگ بھی ہیں جو (اِس طرح کے موقعوں پر) ڈھیلے پڑ جاتے ہیں،۱۳۳  پھر اگر تمھیں کوئی گزند پہنچے تو کہتے ہیں کہ اللہ نے مجھ پر بڑی عنایت کی کہ میں اِن کے ساتھ موجود نہ تھا اور اگر اللہ تم پر کوئی فضل فرمائے تو کہتے ہیں ـــــ اور اِس طرح کہتے ہیں کہ گویا اُن کے اور تمھارے درمیان کبھی کوئی رشتۂ محبت نہ تھا۱۳۴  ــــ کہ اے کاش، میں بھی اِن کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کر لیتا۔ (ایسے لوگوں کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے)،۱۳۵   اِس لیے وہی لوگ اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے نکلیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ (اُن کے لیے بشارت ہے کہ) جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غلبہ پائے گا، اُسے ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔ ۷۱-۷۴
(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال۱۳۶ اور ہمارے لیے اپنے پاس سے۱۳۷  ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔۱۳۸  ۷۵
(اِنھیں بتائو ، اے پیغمبر کہ) ایمان والے خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور منکرین اپنے سرکشوں۱۳۹ کی راہ میں۔ (یہ شیطان کے دوست ہیں)، سو تم شیطان کے اِن دوستوں سے لڑو اور یقین رکھو کہ شیطان کی چال بڑی کمزور ہے۔ ۷۶
تم نے دیکھا نہیں اِن لوگوں کو جن سے کہا جاتا تھا کہ (ابھی لڑنے کا وقت نہیں ہے، اِس لیے) اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو (تو یہ نماز اور زکوٰۃ سے جی چراتے اور جنگ کے لیے بے تاب ہوتے تھے)، ۱۴۰  لیکن جب اِن پر جنگ فرض کر دی گئی تو اب اِن کی حالت یہ ہے کہ اِن میں سے ایک گروہ لوگوں سے اِسی طرح ڈرتا ہے، جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اُس سے بھی زیادہ۔ کہتے ہیں۱۴۱ کہ پروردگار، تو نے یہ لڑائی ہم پر کیوں فرض کر دی ہے؟ ہمیں کچھ تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہیں دی؟ اِن سے کہہ دو: دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے اور جو لوگ پرہیز گاری اختیار کریں، اُن کے لیے آخرت اُس سے کہیں بڑھ کر ہے اور (وہاں) تمھاری ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ رہی موت تو تم جہاں کہیں بھی ہو، وہ ہرحال میں تمھیں آکر رہے گی، خواہ تم کیسے ہی مضبوط اور بلند و بالا قلعوں۱۴۲  میں ہو۔(زبان سے یہ تمھاری رسالت کا اقرار کرتے ہیں) اور اگر اِنھیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں: یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں: یہ تمھاری وجہ سے ہے۔ کہہ دو: ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے، (اِس لیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اُسی کے اذن سے ہوتا ہے)۔ آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ (یہ حقیقت ہے کہ) تمھیں جو بھلائی بھی پہنچتی ہے، اللہ کی عنایت سے پہنچتی ہے اور جو مصیبت آتی ہے، وہ تمھارے اپنے نفس کی طرف سے آتی ہے۔۱۴۳  (اِن کی اصل بیماری یہ ہے کہ یہ تمھاری رسالت کے بارے میں متردد ہیں۔ اِن کی پروا نہ کرو)، ہم نے تمھیں لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اِس کے لیے )اللہ کی گواہی کافی ہے۔ (اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو رسول کی اطاعت کرتا ہے، اُس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ موڑ لیا (تو اُس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے)، اِس لیے کہ ہم نے تمھیں اِن پر نگران بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔۱۴۴  ۷۷-۸۰
کہتے ہیں کہ سرتسلیم خم ہے،۱۴۵  پھر جب تمھارے پاس سے ہٹتے ہیں تو اِن میں سے ایک گروہ اپنی اس بات کے بالکل برخلاف مشورے کرتا ہے۔۱۴۶  اِن کی یہ تمام سرگوشیاں اللہ لکھ رہا ہے۔سو اِن سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو اور (جان لو کہ) اللہ بھروسے کے لیے کافی ہے۔ (تمھاری رسالت کے بارے میں اِنھیں تردد کیوں ہے)؟ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔۱۴۷  ۸۱-۸۲
(ایمان والو، یہ تمھارے خیرخواہ نہیں ہیں، اِس لیے) اِنھیں جب امن یا خطرے کی کوئی بات پہنچتی ہے تو یہ اُسے پھیلا دیتے ہیں،۱۴۸  دراںحالیکہ اگر یہ (اللہ کے) رسول اور اُن لوگوں کے سامنے اُسے پیش کرتے جو اُن میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں تو جو لوگ اُن میں سے بات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اُس کو سمجھ لیتے۔ ۱۴۹  (مگر اِنھوں نے شیطان کی راہ اختیار کی ہے) اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر تم سب شیطان کی پیروی کرتے۔۸۳
سو (اِنھیں چھوڑو اور) اللہ کی راہ میں جنگ کرو ـــ تم پر اپنی ذات کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے ــــ ــــــــ اور ایمان والوں کو (جنگ کے لیے) ابھارو۔ بعید نہیں کہ اللہ اُن لوگوں کا زور توڑ دے جو منکر ہو گئے ہیں۔ اللہ کا زور سب سے زیادہ ہے اور (اِس طرح کے منکروں کو) وہ بڑی عبرت انگیز سزا دینے والا ہے۔ (یہ جہاد سے گریز کے مشورے دیتے ہیں۔ اِنھیں بتاؤ کہ) جو اچھی بات کے حق میں کہے گا، وہ اُس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کے لیے کہے گا، ۱۵۰  وہ اُس میں سے حصہ پائے گا۔ (یہ اللہ کا فیصلہ ہے) اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے۔ ۸۴-۸۵
(تم جنگ کے لیے نکلو) اور جب (کسی شخص کی طرف سے) سلام کہا جائے۱۵۱ تو تم بھی سلام کہو، اُس سے بہتر یا اُسی طرح (اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرو)، اِس لیے کہ اللہ یقیناہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔۱۵۲  اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لے جا کر رہے گا ۱۵۳ جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہو سکتا ہے۔ ۸۶-۸۷
(تم اُن لوگوں کو جانتے ہو جو ایمان لا کر پلٹ گئے ہیں)، پھر تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اِن منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو۔۱۵۴  اللہ نے تو اُن کے کیے کی پاداش میں اُنھیں الٹا پھیر دیا ہے۔۱۵۵ کیا تم اُنھیں ہدایت دینا چاہتے ہو جنھیں اللہ نے (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دیا ہے۔۱۵۶ دراںحالیکہ جنھیں اللہ گمراہ کر دے، اُن کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح خود منکر ہیں، اُسی طرح تم بھی منکر ہو جائو تاکہ وہ اور تم سب برابر ہو جائیں۔ لہٰذا اُن میں سے کسی کو اپنا ساتھی نہ بنائو، جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آجائیں۔ پھر اگر وہ اِس سے گریز کریں تو اُنھیں پکڑو اور جہاں پائو، قتل کرو اور اُن میں سے کسی کو اپنا ساتھی اور مددگار نہ بنائو۔۱۵۷  اِس سے وہ لوگ، البتہ مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جاملے ہوں جن سے تمھارا کوئی معاہدہ ہے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی مستثنیٰ ہیں جو تمھارے پاس اِس طرح آئیں کہ نہ اپنے اندر تم سے لڑنے کی ہمت پاتے ہوں نہ اپنی قوم سے۔ اللہ چاہتا تو اُنھیں تم پر دلیر کر دیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔ لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ تمھیں بھی اُن کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا۔ ۸۸-۹۰

۱۳۱؎  اصل میں لفظ ’حِذْرَ‘ آیا ہے۔ اس کے معنی کسی خطرے اور آفت سے بچنے کے ہیں۔ اپنے اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ زرہ، سپر اور خود وغیرہ کے لیے استعمال ہوا، اس لیے کہ یہ چیزیں جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ اس کا خاص استعمال ہے، لیکن اپنے عام استعمال میں یہ محض اسلحہ کے مفہوم میں بھی آجاتا ہے۔ موقع کلام دلیل ہے کہ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔

۱۳۲؎  یعنی ٹکڑیوں کی صورت میں دشمن پر چھاپے مارنے کے لیے۔ یہ حملے کا وہی طریقہ ہے جسے اس زمانے میںگوریلا جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۱۳۳؎  اور اس طرح خود بھی جنگ سے جی چراتے اور دوسروں کو بھی پست ہمت کرتے ہیں۔

۱۳۴؎  یہ الفاظ ان کے باطن کو نمایاں کرتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی شامت اعمال سے کسی مہم میں شامل نہیں ہوتے تو ایمانی و اسلامی اخوت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوں کہ اللہ نے ان کے دینی بھائیوں کو سرخرو کیا، لیکن انھیں اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح حریف کی کسی کامیابی پر آدمی کا دل جلتا ہے کہ وہ اس میں حصہ دار نہ ہو سکا، اسی طرح یہ لوگ اس کو اپنی کامیابی نہیں، بلکہ حریف کی کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی محرومی پر سر پیٹتے ہیں۔ گویا اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۳۵)

۱۳۵؎  یعنی ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو استاذ امام کے الفاظ میں صرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں نکسیر بھی نہ پھوٹے اور مال غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔

۱۳۶؎  اس سے معلوم ہوا کہ قتال فی سبیل اللہ کی سب سے نمایاں اور اولین صورت یہی ہے کہ ان لوگوں کی مدد کی جائے جو دین کے لیے ستائے جا رہے ہوں۔ آیت میں ظالموں کی بستی کے الفاظ سے اشارہ ان بستیوں کی طرف ہے جن میں بہت سے مرد، عورتیں اور بچے ایمان لا چکے تھے، مگر ایسے سرپرستوں اور زبردستوں کے چنگل میں تھے کہ ان کے ظلم و ستم سے بچ کر اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے تھے۔

۱۳۷؎  اصل میں ’مِنْ لَّدُنْکَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اگرچہ بظاہر تو امید کی کرن نظر نہیں آتی، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے کیا بعید ہے۔ وہ جب چاہے اپنے بندوں کے لیے کوئی راہ کھول دے۔

۱۳۸؎  اس پوری آیت سے جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک یہ کہ ظالم کفار نے کمزور مسلمانوں پر خود ان کے وطن کی زمین اس طرح تنگ کر دی تھی کہ وہ وطن ان کو کاٹے کھا رہا تھا اور باوجودیکہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے، لیکن وہ اس سے اس قدر بیزار تھے کہ اس کو ظالم باشندوں کی بستی کہتے ہیں، اس کی طرف کسی قسم کا انتساب اپنے لیے گوارا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
دوسری یہ کہ کوئی وطن اسی وقت تک اہل ایمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک اس کے اندر ان کے دین و ایمان کے لیے امن ہو۔ اگر دین و ایمان کو اس میں امن حاصل نہ ہو تو وہ وطن نہیں، بلکہ وہ خونخوار درندوں کا بھٹ، سانپوں اور اژدہوں کا مسکن اور شیطانوں کا مرکز ہے۔
تیسری یہ کہ اس زمانے میں حالات اس قدر مایوس کن تھے کہ مظلوم مسلمانوں کو ظاہر میں نجات کی کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ سارا بھروسا بس اللہ کی مدد پر تھا کہ وہی غیب سے ان کے لیے کوئی راہ کھولے تو کھولے۔ اس کے باوجود یہ مسلمان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اللہ اکبر! کیا شان تھی ان کی استقامت کی! پہاڑ بھی اس استقامت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
چوتھی یہ کہ اگر کہیں مسلمان اس طرح کی مظلومیت کی حالت میں گھر جائیں تو ان تمام مسلمانوں پر جو ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں، جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان کی مدد کے لیے نہ اٹھیں تو یہ صریح نفاق ہے۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۳۳۶)      

۱۳۹؎  اشارہ ہے عرب کے ائمۂ کفر کی طرف جن کے لیے اصل میں لفظ ’طَاغُوْتِ‘ آیا ہے۔

۱۴۰؎  یعنی جب کفار کے علاقوں میں مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی کو دیکھ کر لوگوں کے اندر جنگ کا احساس پیدا ہوتا اور وہ اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تو یہ منافقین اپنے ایمان و اخلاص کی دھونس جمانے کے لیے دوسروں سے بڑھ کر جہادوقتال کے لیے بے تاب ہوتے تھے، لیکن جو کام اس وقت کرنے کے تھے، ان سے جی چراتے اور گریز و فرار کے بہانے ڈھونڈتے تھے۔

۱۴۱؎  اصل میں لفظ ’قَالُوْا‘ آیا ہے۔ یہ زبان کا قول نہیں ہے، بلکہ ان کی ذہنی حالت کی تعبیر ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ اس طرح کی تعبیرات کے لیے بھی آتا ہے۔

۱۴۲؎  اصل میں ’بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ’مُّشَیَّدَۃٍ‘ کی صفت بلندی اور استحکام، دونوں مفاہیم کو شامل ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۱۴۳؎  یعنی اللہ کے اذن سے آتی ہے، مگر نفس کی کسی غلطی کی وجہ سے یا اس کی کوئی کمزوری دور کرنے کے لیے آتی ہے یا اس لیے آتی ہے کہ طبیعت کے اندر جو خیروشر بھی دبا ہوا ہے، وہ ابھر کر سامنے آجائے۔

۱۴۴؎  اس میں بات اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے، مگر روے سخن، اگر غور کیجیے تو انھی منافقین کی طرف ہے۔

۱۴۵؎  اصل میں لفظ ’طَاعَۃٌ‘ آیا ہے۔ یہ خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ سارا زور خبر پر رہے۔

۱۴۶؎  اصل الفاظ ہیں: ’بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ‘۔ ان میں ’بَیَّتَ‘ کے معنی اصلاً تورات میں کوئی کام کرنے کے ہیں، لیکن اپنے عام استعمال میں یہ لفظ رات کی قید سے مجرد ہو گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ الفاظ کے اس طرح اپنے ابتدائی مفہوم سے مجرد ہو جانے کی مثالیں عربی زبان میں بہت ہیں۔ ’اَضْحٰی‘ اور ’بَاتَ‘ بھی اپنے عام استعمال میں دن اور رات کی قید سے مجرد ہو کر استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ نبی کی مجلس میں تو یہ ہر بات پر سرتسلیم خم کرتے ہیں، لیکن جب وہاں سے ہٹتے ہیں تو اپنی مجلسوں میں ان آیات و احکام کے خلاف مشورے کرتے ہیں جن کو اپنی خواہشات اور اپنے مفاد ذاتی کے خلاف پاتے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۴۶)

۱۴۷؎  مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن پر غور کرتے تو تمھاری نبوت کے بارے میں کبھی متردد نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جو سال ہا سال تک مختلف حالات میں اور مختلف موقعوں پر اس طرح کے متنوع موضوعات پر تقریریں کرتا رہے اور شروع سے آخر تک اس کی یہ تمام تقریریں جب مرتب کی جائیں تو ایک ایسے ہم رنگ اور متوافق مجموعۂ کلام کی صورت اختیار کر لیں جس میں نہ خیالات کا کوئی تصادم ہو، نہ متکلم کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی کیفیات کی کوئی جھلک دکھائی دے اور نہ رائے اور نقطۂ نظر کی تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دیکھے جا سکتے ہوں۔ یہ تنہا قرآن ہی کی خصوصیت ہے اور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے اور تم خدا کے پیغمبر ہو۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہو سکتے۔ وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے، وہ ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی الگ کر دیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہو جائے۔ وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے وہ عقائد سے اس طرح پیدا ہوتی ہیں جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں، وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے وہ اپنے اصول سے اس طرح ظہور میں آتے ہیں جس طرح ایک شے سے اس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں۔ اس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہو جائے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۴۷)

۱۴۸؎  اس طرح کی افواہیں عام حالات میں بھی بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں۔ اس زمانے میں جنگ کے حالات تھے جن میں یہ خطرناکی اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

۱۴۹؎  اصل میں لفظ ’عَلِمَ‘ آیا ہے۔ یہ کسی چیز کے موقع و محل کو متعین کرلینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔

۱۵۰؎  اصل الفاظ ہیں: ’یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً‘۔ ’شَفَعَ‘ کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے جوڑنے کے ہیں۔ اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ کسی بات کی تائید وحمایت اور اس کے حق میں کچھ کہنے کے لیے آتا ہے، وہ بات اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ چنانچہ دونوں کے لیے قرآن نے یہی لفظ اختیار فرمایا اور پہلی صورت کو ’شَفَاعَۃً حَسَنَۃً‘ اور دوسری کو ’شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً‘ سے تعبیر کیا ہے۔

۱۵۱؎  اصل الفاظ ہیں: ’وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ‘۔ استاذ امام نے ان کی وضاحت فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’’حَیَّاہُ تَحِیَّۃً‘ کے اصل معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ اسی سے دعائیہ کلمہ ’حَیَّاکَ اللّٰہُ‘ ہے جس کے معنی ہیں، اللہ تمھاری عمر دراز کرے۔ سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی چونکہ کم و بیش یہی یا اسی سے ملتے جلتے مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں، اس وجہ سے لفظ کے عام مفہوم میں وہ سب اس کے اندر شامل ہو جاتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۳۵۶)    

۱۵۲؎  یہ فوج کشی چونکہ ان مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں کی جا رہی تھی جومنکروں کے نرغے میں تھے، اس لیے ہدایت کی گئی کہ سلام کو ان کے اسلام کی علامت سمجھا جائے، اسے خوش دلی کے ساتھ قبول کیا جائے اور اس کا جواب بہتر طریقے سے دیا جائے۔ ان کے ایمان و اسلام کی تحقیق بعد میں ہو سکتی ہے۔ اس وقت زیادہ اہمیت اس چیز کی ہے کہ کوئی مخلص مسلمان تمھاری تلواروں کی زد میں نہ آجائے۔

۱۵۳؎  اصل میں ’لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’لَیَجْمَعَنَّکُمْ‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا صلہ دلیل ہے کہ یہاں کوئی لفظ ہانکنے اور لے جانے کے معنی میں محذوف ہے۔

۱۵۴؎  اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ان کے ساتھ رشتہ و قرابت یا خاندان اور قبیلے کا تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا چاہتے تھے کہ نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ ان کا خیال تھاکہ انھیں اگر ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور کچھ ربط ضبط رکھا جائے تو آہستہ آہستہ یہ سچے مسلمان بن جائیں گے۔

۱۵۵؎  یعنی اسلام کی طرف جو قدم انھوں نے اٹھایا تھا، اسے جب دنیا کی محبت میں انھوں نے پیچھے ہٹا لیا تو اللہ نے بھی ان کے اس جرم کی پاداش میں انھیں اسی حالت کی طرف لوٹا دیا جس میں وہ یہ قدم اٹھانے سے پہلے تھے۔

۱۵۶؎  یعنی اپنے اس قانون کے مطابق کہ جانتے بوجھتے حق سے گریز کرنے والوں کو اللہ گمراہی کے حوالے کر دیتا ہے۔

۱۵۷؎  مطلب یہ ہے کہ ہجرت کی دعوت کے بعد اب ہجرت ہی ان کے ایمان و اسلام کی کسوٹی ہے۔ اگر وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B