[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:سورۂ فیل کی شرح میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اصحاب الفیل سے مراد ابرہہ کا وہ لشکر ہے جو کعبہ پر حملہ کرنے کے لیے ہاتھیوں پر سوار ہو کر آیا تھا۔ کیا یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وہ لشکر ہاتھیوں ہی پر سوار تھا؟ کیونکہ عرب میں ہاتھی نہیں پائے جاتے۔ کیا اس سورت کا ترجمہ درست کیا جاتا ہے؟(آصف بن خلیل / قمر اقبال)
جواب:یہ بات تو درست ہے کہ عرب میں ہاتھی نہیں پائے جاتے تھے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ لشکر حبشہ سے آیا تھا۔ حبشہ براعظم افریقہ کا ملک ہے اور افریقہ میں ہاتھی پائے جاتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ عرب ہاتھی کے تصور سے واقف تھے اور وہ اس کے لیے ’’فیل ‘‘ہی کا لفظ بولتے تھے۔ یہ لفظ غالباً فارسی کے لفظ پیل سے معرب ہے۔ بہرحال ،ابرہہ ہی کے حملے کے بارے میں ان کے جو اشعار ہمیں ملتے ہیں ، ان میں صریح طور پر ہاتھیوں کا ذکر ہے۔ مثلاًان کا شاعر ابو قیس کہتا ہے:
ومن صنعہ یوم فیل الحبوش
اذ کلما بعثوہ وزم
’’اور اہلِ حبشہ کے فیل والے دن، اُس کے عجیب کرشموں میں سے یہ بات ہے کہ وہ لوگ جتنا اس کو اٹھاتے تھے، اتنا ہی وہ بیٹھا جاتا تھا۔‘‘
محاجنہم تحت اقرابہ
وقد کلموا انفہ فانخرم
’’اُن کے آنکس اُس کی کمر اور اس کے پیٹ کے نچلے حصے کو زخمی کر رہے تھے اور اُنھوں نے اُس کی سونڈ بھی زخمی کر ڈالی تھی۔‘‘
ان اشعار سے یہ ظاہر ہے کہ فیل بہرحال، کو ئی ایسا جانور ہی تھا، جس کی سونڈ ہوتی ہے اور جسے ہانکنے کے لیے آنکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اصحاب الفیل سے ہاتھی والے لوگ مراد لینے کے پہلو سے اس سورہ کا ترجمہ بالکل درست کیا جا رہا ہے۔
سوال:کیا اجارہ کی وہ صورت واقعۃً صحیح ہے، جسے بعض بنک قرض دینے کے لیے اختیار کر رہے ہیں اور اسے قرض پر رقم دینے کی اسلامی صورت قرار دیا جا رہا ہے؟(عاقب خلیل خان)
جواب:قرض کے لیے اجارہ کی صورت بالکل صحیح ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ بنک واقعتا کرایے اور ملکیت کو الگ الگ واضح رکھ کر اسے اختیار کریں۔
سوال:پانچویں سپارے کے شروع میں متعہ کا ذکر موجود ہے۔ کیا اس آیت میں متعہ کی اجازت دی گئی ہے؟ یا عربی میں نکاح ہی کو متعہ کہتے ہیں؟(آصف بن خلیل / قمر اقبال)
جواب:نکاح اور متعہ میں فرق ہے۔ نکاح میں مرد و عورت زندگی بھر کے لیے ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں، جب کہ متعہ میں وہ کم یا زیادہ بہرحال، ایک متعین مدت تک کے لیے یہ تعلق قائم کرتے ہیں۔ عربوں کے ہاں متعہ رائج تھا، لیکن اسلام نے اسے حرام قرار دے دیاہے۔
قرآن مجید کی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، وہ درج ذیل ہے:
وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ أَنْ تَبْتَغُوْا بِأَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ.(النساء۴: ۲۴)
’’اور ان (محرمات) کے ماسوا عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں، اس طرح کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے ان کے طالب بنو، اُن کو قید نکاح میں لے کر، نہ کہ بدکاری (مادہ منویہ بہانے) کے طور پر، پس ان میں سے جن سے تم نے تمتع کیا ہو، تو ان کو ان کے مہر دو، فریضہ کی حیثیت سے۔ مہر کے ٹھہرانے کے بعد جو تم نے آپس میں راضی نامہ کیا ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
یہی وہ آیت ہے جس کے خط کشیدہ الفاظ سے متعہ کو ثابت کیا جاتا ہے، لیکن ان سے متعہ کو ثابت کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ یہ آیت جس سیاق و سباق میں آ رہی ہے، اس میں پہلے ان خواتین کا ذکر ہے جو نکاح کے لیے حرام ہیں، پھر فرمایا کہ ان کے ماسوا نکاح کے لیے حلال ہیں، لیکن شرط یہ کہ تم ان سے وقتی بدکاری (مادہ منویہ بہانے) کے طور پر تعلق قائم نہ کرو، بلکہ باقاعدہ نکاح کر کے عورت کو اپنی حمایت و حفاظت میں لو اور انھیں ان کے مہر دو، چنانچہ اِن حلال عورتوں میں سے جن سے تم باقاعدہ نکاح کر کے زن و شو کا تعلق تو قائم کر چکے ہو، لیکن تم نے ابھی ان کے مہر نہیں دیے، انھیں ان کے مہر دو، پھر مہر کی اس ادائیگی کے بعد اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے اس میں کوئی کمی بیشی کر لیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
اس آیت میں ’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین‘ کے وہ الفاظ موجود ہیں، جن کا مطلب ہی یہ ہے کہ ’’تم ا ن کے طالب بنو مال (مہر) کے ذریعے سے، ان سے نکاح کرکے انھیں اپنی حمایت و حفاظت میں لیتے ہوئے، نہ کہ وقتی بدکاری (مادہ منویہ بہانے) کے طور پر تعلق قائم کرتے ہوئے‘‘۔ چنانچہ یہ آیت دراصل، متعہ جو وقتی نکاح ہوتا ہے اور جس میں اصلاً، مادہ منویہ بہانے کے سوا، نہ اولاد اور نہ عورت کی مستقل حفاظت و حمایت، اس طرح کا کوئی مقصد پیش نظر نہیں ہوتا، اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر رہی ہے۔ لہٰذا اس کو متعہ کے حق میں کسی طرح بھی پیش ہی نہیں کیا جا سکتا۔
_________________