(گزشتہ سے پیوستہ)
انسان اس دن کی حاضری کے لیے جن مراحل سے گزرتا ہے، اور اس کے بعد جن مقامات پر ٹھیرایا جائے گا، اس کی تفصیلات بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ وہ کشاں کشاں اسی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سفر کا پہلا مرحلہ موت ہے۔ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد یہ مرحلہ ہر انسان پر لازماً آتا ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ‘ ۹۹ ، (ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے)۔ یہ صبح آ سکتی ہے، شام آ سکتی ہے، انسان اپنی پیدایش سے پہلے اور پیدا ہوتے ہی اس سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں یہ جس وقت چاہے، آ جاتی ہے اور ہر شخص کو چار و نا چار اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اس کی حقیقت قرآن میں یہ بیان ہوئی ہے کہ انسان کی اصل شخصیت کو، جسے قرآن میں نفس سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو اس کی حیوانی زندگی سے الگ ایک مستقل وجود ہے، اس کے جسم سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان کو پہلی مرتبہ بھی یہ شخصیت اس کے حیوانی وجود کے ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر پایۂ تکمیل تک پہنچ جانے کے بعد دی گئی تھی اور اب بھی استقرار حمل کے کم و بیش ۱۲۰ دن بعد یہ اسی وقت دی جاتی ہے۔ ۱۰۰ موت اسی شخصیت کو جسم سے الگ کرنے کا نام ہے۔ اس کے لیے ایک خاص فرشتہ مقرر ہے جس کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے۔۱۰۱ وہ آ کر باقاعدہ اس کو ٹھیک اسی طرح وصول کرتا ہے، جس طرح ایک سرکاری امین کسی چیز کو اپنے قبضے میں لیتا ہے:
قُلْ: یَتَوَفّٰکُم مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ، ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ.(السجدہ۳۲ :۱۱)
’’ان سے کہو، تمھیں وہ فرشتہ ہی قبض کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔ پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
اس موقع پر جو معاملہ انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس کا ذکر بھی قرآن میں ہوا ہے۔ انبیا علیہم السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ان کے منکرین کی روحیں فرشتے انھیں مارتے ہوئے قبض کرتے ہیں اور موت کے وقت ہی بتا دیتے ہیں کہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے اب ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے:
وَلَوْ تَرٰٓی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ، وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ، ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْْدِیْکُمْ، وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ.(الانفال۸: ۵۰۔۵۱)
’’اور اگر تم دیکھتے، جب فرشتے اِن منکروں کی روحیں ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے قبض کرتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ) لو اب چکھو آگ کے عذاب کا مزہ۔ یہ تمھارے اپنے ہی ہاتھوں کے کرتوت کی سزا ہے اور (جان لو کہ) اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
دوسری طرف جو لوگ رسولوں پر ایمان لاتے اور کفر و شرک اور ظلم و عدوان کی ہر آلایش سے بالکل پاک ہوتے ہیں، انھیں فرشتے سلام بجا لاتے اور جنت کی بشارت دیتے ہیں:
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰہُمُ الْمَلآءِکَۃُ، طَیِّبِیْنَ، یَقُوْلُوْنَ: سَلامٌ عَلَیْْکُمُ، ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(النحل۱۶ :۳۲)
’’اُن کو، جن کی روحیں فرشتے پاکیزگی کی حالت میں قبض کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: تم پر سلامتی ہو، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے صلے میں۔‘‘
اس کے بعد وہ مقامات ہیں جنھیں برزخ، محشر، دوزخ اور جنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان کے جو احوال قرآن میں مذکور ہیں، وہ اسی ترتیب کے ساتھ ہم یہاں بیان کریں گے۔
برزخ
یہ فارسی لفظ ’پردہ‘ کا معرب ہے اور اس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔ یہ گویا ایک روک ہے جو انھیں واپس آنے نہیں دیتی: ’َمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘ ۱۰۲ (ان کے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے، جب وہ اٹھائے جائیں گے)۔ عالم برزخ کی اصطلاح اسی سے وجود میں آئی ہے۔ روایتوں میں ’قبر‘ کا لفظ مجازاً اسی عالم کے لیے بولا گیا ہے۔ اس میں انسان زندہ ہو گا، لیکن یہ زندگی جسم کے بغیر ہو گی اور روح کے شعور، احساس اور مشاہدات و تجربات کی کیفیت اس زندگی میں کم و بیش وہی ہو گی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ صور قیامت سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر کہیں گے: ’یٰوَیْْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ہٰذَا‘ ۱۰۳ (ہائے ہماری بدبختی، یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اٹھا لایا ہے)۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ بالکل واضح ہوگا، خواہ وہ درجۂ کمال میں وفاداری کا حق ادا کرنے والے ہوں یا سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور کھلے نافرمان، ان کے لیے ایک نوعیت کا عذاب و ثواب اسی عالم سے شروع ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے حساب پوچھنے اور ان کے خیر و شر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔
پہلی صورت کی مثال وہ صحابۂ کرام ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ کی اور اپنے مقدس خون شہادت سے کشت حق کو سیراب کیا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں، اگرچہ تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے اور اپنے پروردگار کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہو رہے ہیں:
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاً، بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ، یُرْزَقُوْنَ، فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِّنْ خَلْفِہِمْ اَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ، یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ، وَفَضْلٍ، وَّاَنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَالْمُؤْمِنِیْنَ.(آل عمران۳: ۱۶۹۔۱۷۱)
’’(اِس جنگ میں) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انھیں ہرگز مردہ خیال نہ کرو۔ (وہ مردہ نہیں)، بلکہ اپنے پروردگار کے حضور میں زندہ ہیں، اُنھیں روزی مل رہی ہے۔ اللہ نے جو کچھ اپنے فضل میں سے انھیں عطا فرمایا ہے، اُس پر شاداں و فرحاں ، اُن کے پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو لوگ ابھی اُن سے نہیں ملے، اُن کے بارے میں بشارت حاصل کرتے ہوئے کہ (خدا کی اِس ابدی بادشاہی میں) اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے، اللہ کی نعمتوں اور اُس کے فضل سے خوش وقت اور اس بات سے کہ ایمان والوں کے اجر کو اللہ کبھی ضائع نہ کرے گا۔‘‘
دوسری صورت کی مثال فرعون اور اس کے اتباع ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ اپنے اس جرم کی پاداش میں دنیا میں بھی عذاب سے دو چار ہوئے اور عالم برزخ میں بھی صبح و شام انھیں دوزخ کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے:
وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ، اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا، وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ، اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ. (المومن۴۰: ۴۵۔۴۶)
’’اور فرعون کے ساتھی بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے، دوزخ کی آگ ہے جس پر صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہو گی، حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔‘‘
روایتوں میں قبر کے جس عذاب و ثواب کا ذکر ہوا ہے، وہ یہی ہے۔ ۱۰۴ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید بتایا ہے کہ آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی، اُن کے لیے اس کی ابتدا اس سوال سے ہو گی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ۱۰۵ اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق و باطل میں امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
محشر
اس سے اگلا مقام محشر ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ دوسری مرتبہ نفخ صور کے بعد تمام وہ انسان جو آدم کی تخلیق سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سر نو زندہ کیے جائیں گے۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ زلزلۂ قیامت کے بعد ایک نئی زمین وجود میں آئے گی۔ یہ اسی پر برپا ہو گا۔ اس میں جو معاملات پیش آنے والے ہیں، ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
۱۔ تمام انسان زندہ ہو کر قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ زندگی روح و جسم کے ساتھ ہو گی۔ قرآن میں اسی کو دوسری مرتبہ کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے ۱۰۶ ۔ اس میں انسان کے دنیوی جسم کو ایک ایسے جسم میں تبدیل کر دیا جائے گا جو خدا کی ابدی بادشاہی میں نعمت و نقمت کی ہر حالت میں رہنے کے لیے موزوں ہو گا، لیکن ٹھیک اسی شخصیت کے ساتھ جس کے ساتھ وہ آج زندہ ہے:
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ، فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ.(یٰس ۳۶: ۵۱)
’’اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے۔‘‘
وَقَالُوْا: ءَ اِذَا کُنَّا عِظَاماً وَّرُفَاتاً، ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقاً جَدِیْدًا؟ قُل: کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا، اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ، فَسَیَقُوْلُوْنَ: مَنْ یُّعِیْدُنَا؟ قُلِ: الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ، فَسَیُنْغِضُوْنَ إِلَیْْکَ رُءُ وسَہُمْ، وَیَقُوْلُوْنَ: مَتٰی ہُوَ؟ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوٓنَ قَرِیْباً.(بنی اسرائیل ۱۷: ۴۹۔ ۵۱)
’’اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں ہوں گے اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو از سر نو اٹھائے جائیں گے؟ کہہ دو کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی اور چیز جو تمھارے خیال میں ان سے بھی سخت ہو، (پھر بھی تم اکٹھے ہو کر رہو گے)۔ پھر کہیں گے کہ ہمیں کون پلٹا کر لائے گا؟ کہہ دو کہ وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا۔ اس پر وہ تمھارے آگے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کب ہو گا؟ کہہ دو، عجب نہیں، اس کا وقت قریب ہی آ پہنچا ہو۔‘‘
۲۔ انسان کی قوتیں اور صلاحیتیں اس اعادۂ خلق کے نتیجے میں نہایت غیر معمولی ہو جائیں گی، یہاں تک کہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے وہ جس شخص کو چاہے گا، دیکھ لے گا، اگرچہ وہ کتنا ہی دور ہو اور اس سے بات بھی کر لے گا۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک جنتی جب دنیا میں اپنے ایک ساتھی کو یاد کرے گا تو وہیں بیٹھے ہوئے جہنم کی گہرائی میں بھی اس کو دیکھ لینے میں اسے کوئی دقت نہ ہو گی:
قَالَ: ہَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ؟ فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ. قَالَ: تَاللّٰہِ، إِنْ کِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ، وَلَوْلَا نِعْمَۃُ رَبِّیْ، لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ. (الصٰفٰت۳۷: ۵۴۔۵۷)
’’وہ کہے گا: ذرا جھانک کر دیکھ تو سہی۔ یہ کہہ کر جو نہی وہ جھکے گا تو اسے جہنم کے بیچ میں دیکھ لے گا۔ (پھر) کہے گا: خدا کی قسم، تم تو مجھے تباہ ہی کر دینے والے تھے۔ میرے پروردگار کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو میں بھی آج انھی لوگوں میں ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں۔‘‘
۳۔ یہ ایک نیا عالم ہو گا جس کی زمین پروردگار کے نور سے روشن ہو گی۔ اس کا جلال روبرو ہو گا اور فرشتے اس کے عرش کا حلقہ کیے ہوئے ہوں گے۔ ہر چیز خدا کی حمد کرے گی، یہاں تک کہ مجرم بھی اس کے حضور میں حمد و ثنا کرتے ہوئے پہنچیں گے:
ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی، فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ، وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا.(الزمر۳۹: ۶۸۔۶۹)
’’پھر دوسری مرتبہ وہی صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اس دن اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی۔‘‘
یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ، وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلاَّ قَلِیْلاً.(بنی اسرائیل۱۷: ۵۲)
’’وہ تمھیں پکارے گا تو اس کی حمد و ثنا کرتے ہوئے تم اس کے حکم کی تعمیل کرو گے اور تمھارا گمان یہ ہو گا کہ تم بس تھوڑی ہی مدت رہے ہو۔‘‘
وَتَرَی الْمَلآءِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ، یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ، وَقُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْحَقِّ، وَقِیْلَ: الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(الزمر۳۹: ۷۵)
’’اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش الٰہی کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے پروردگار کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ شکر کا سزا وار اللہ ہے، جہانوں کا پروردگار۔‘‘
۴۔ زمین و آسمان اس روز خدا کی مٹھی میں ہوں گے۔ دنیا میں جو لوگ قیامت کے منکر رہے، ان کے لیے یہ ایک ایسا دن ہو گا جس کی سختی بچوں کو بوڑھا کر دے گی:
وَالْاَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ، سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.(الزمر۳۹: ۶۷)
’’قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان بھی اس کے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک اور برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔‘‘
فَکَیْْفَ تَتَّقُوْنَ، اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْماً یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْباً، السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ، کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلاً.(المزمل۷۳: ۱۷۔۱۸)
’’اس لیے اگر تم نہیں مانو گے تو اُس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ آسمان اس کے بوجھ سے پھٹا پڑ رہا ہے اور خدا کا وعدہ شدنی ہے۔‘‘
لوگوں کے اعمال ان کے چہروں سے نمایاں ہوں گے۔ ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہو گا۔ نہ بھائی اپنے بھائی کی فریاد سنے گا، نہ بیٹا ماں باپ کی دہائی پر کان دھرے گا، نہ بیوی بچوں کا کوئی پوچھنے والا ہو گا:
فَاِذَا جَآءَ تِ الصَّآخَّۃُ، یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ، وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ، وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ، لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ، وُجُوْہٌ یَوْمَءِذٍ مُّسْفِرَۃٌ، ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ، وَوُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ عَلَیْْہَا غَبَرَۃٌ، تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ، اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ.(عبس۸۰ :۳۳۔۴۲)
’’اِس لیے جب وہ کانوں کو بہرا کر دینے والی آئے گی (تو اِن سے پوچھو کہ پھر یہ کدھر جائیں گے)؟ اُس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا اور اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے (بھاگے گا)۔ اُس دن ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی۔ کتنے چہرے اس دن روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے، ہشاش بشاش، اور کتنے چہرے ہوں گے کہ اُن پر اُس دن خاک اڑتی ہو گی، سیاہی چھا رہی ہو گی۔ یہی کافر، یہی نافرمان ہوں گے۔‘‘
اس دن کی حاضری کے لیے مجرموں کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔ اپنے جن پیشواؤں کی پیروی وہ دنیا میں کرتے رہے، وہی ان کی قیادت کریں گے۔ وہ چہروں سے پہچانے جائیں گے اور قبروں سے اٹھا کر اس طرح لائے جائیں گے کہ ایک فرشتہ پیچھے سے ہانک رہا ہو گا اور ایک گواہی دینے کے لیے ساتھ ہو گا۔ ان کی فضیحت کے لیے انھیں سجدہ کرنے کے لیے کہا جائے گا، مگر نہ کر سکیں گے:
یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ، بِسِیْمٰہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ.(الرحمن۵۵: ۴۱۔۴۲)
’’مجرم اپنی علامتوں سے پہچان لیے جائیں گے۔ پھر پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے (اور دوزخ میں پھینک دیے جائیں گے)۔ اس وقت تم اپنے رب کی کن کن شانوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ، وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ، یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ، وَبِءْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ.(ہود۱۱: ۹۷۔۹۸)
’’لیکن اُنھوں نے فرعون کی بات مانی، دراں حالیکہ فرعون کی بات کچھ راستی کی بات نہ تھی۔ قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور اپنی پیشوائی میں انھیں جہنم کی طرف لے جائے گا۔ کیسی بدتر جگہ ہے پہنچنے کی، جہاں یہ پہنچیں گے!‘‘
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ، ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ. وَجَآءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَآءِقٌ وَّشَہِیْدٌ.(ق۵۰: ۲۰۔۲۱)
’’اور صور پھونکا جائے گا۔ وہ ہماری وعید کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا۔ اور ہر شخص اس طرح حاضر ہو گا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہو گا اور ایک گواہی دینے والا۔‘‘
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ، وَّیُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُوْدِ، فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ، خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ، تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ، وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُوْدِ، وَہُمْ سٰلِمُوْنَ.(القلم۶۸: ۴۲۔۴۳)
’’یہ اُس دن کو یاد رکھیں، جب بڑی ہلچل پڑے گی اور یہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے۔ اِن کی آنکھیں جھکی ہوں گی، ان پر ذلت چھا رہی ہو گی۔ (یہ ظالم، ان کی کمر تختہ ہو گئی)، یہ اُس وقت بھی سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے، جب یہ بھلے چنگے تھے۔‘‘
۵۔ تمام نوع انسانی اس روز تین گروہوں میں بانٹ دی جائے گی: ایک حق کے لیے سبقت کرنے والے، دوسرے عام صالحین جن کا نامۂ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، تیسرے وہ مجرم جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے اور پیچھے ہی سے ان کا نامۂ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑا دیا جائے گا۔
وَکُنْتُمْ اَزْوَاجاً ثَلٰثَۃً، فَاَصْحٰبُ الْمَیْْمَنَۃِ، مَا اَصْحٰبُ الْمَیْْمَنَۃِ! وَاَصْحٰبُ الْمَشْاَمَۃِ، مَا أَصْحٰبُ الْمَشْاَمَۃِ! وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ، اُولٰٓءِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ.(الواقعہ۵۶: ۷۔۱۱)
’’اور تم لوگ اُس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے: دائیں والے، سو دائیں والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا! اور بائیں والے، تو بائیں والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا! اور سبقت کرنے والے تو پھر سبقت کرنے والے ہی ہیں۔ وہی تو مقرب لوگ ہیں۔‘‘
وَاَمَّا مَنْ اُوتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہْرِہٖ، فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا، وَیَصْلٰی سَعِیْرًا.(الانشقاق۸۴: ۱۰۔۱۲)
’’اور جس کا نامۂ اعمال اس کے پیچھے ہی سے (اُس کے بندھے ہوئے ہاتھوں میں) پکڑا دیا جائے گا، وہ موت کی دہائی دے گا اور دوزخ میں جا پڑے گا۔‘‘
۶۔ لوگوں کے اختلافات کی حقیقت کھول دی جائے گی۔ وہ احتساب کے لیے پیش ہوں گے تو ہر چیز پورے انصاف کے ساتھ اور اپنے وزن کے مطابق سامنے آئے گی۔ اس موقع پر کوئی خرید و فروخت نہ ہو گی، کسی کی دوستی کام نہ آئے گی، کوئی معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا، کوئی شفاعت نفع نہ دے گی۔ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو گا۔ ہر چیز بالکل آخری درجے میں واضح ہو جائے گی:
اِلَی اللّٰہ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً، فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(المائدہ۵: ۴۸)
’’اللہ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ پھر وہ تمھیں اُس چیز سے آگاہ کرے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘
وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْْءًا، وَاِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْْنَا بِہَا، وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ. (الانبیاء۲۱: ۴۷)
’’اور قیامت کے دن ہم عدل کی میزان قائم کریں گے تو کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ عمل ہو گا تو ہم اُسے سامنے لے آئیں گے اور حساب کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘
وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْْءًا، وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ، وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ، وَّلاَ ہُمْ یُنصَرُوْنَ.(البقرہ۲: ۴۸)
’’اور اُس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اُس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اُس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ لوگوں کو کوئی مدد ہی ملے گی۔‘‘
۷۔اتمام حجت کے لیے گواہ پیش کیے جائیں گے۔ انبیا علیہم السلام بھی گواہی کے لیے بلائے جائیں گے۔ لوگوں کی زبانیں، ہاتھ، پاؤں، کان ، آنکھیں اور جسم کے رونگٹے تک گواہی دیں گے۔ اس کے بعد فیصلہ سنا دیا جائے گا:
وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا، وَوُضِعَ الْکِتٰبُ، وَجِایْٓءَ بِالنَّبِیِّیْنَ وَالشُّہَدَآءِ، وَقُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْحَقِّ، وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ. (الزمر۳۹: ۶۸۔۶۹)
’’اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی اور عمل کا دفتر رکھ دیا جائے گا اور سب پیغمبر بلائے جائیں گے اور وہ بھی جو شہادت کے منصب پر فائز کیے گئے اور لوگوں کے درمیان بالکل حق کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا، اِس طرح کہ اُن پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔‘‘
یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.(النور۲۴ :۲۴)
’’اُس دن جب اُن کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘‘
حَتّٰی اِذَا مَا جَآءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدتُّمْ عَلَیْْنَا قَالُوْا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْْءٍ وَّہُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَاِلَیْْہِ تُرْجَعُوْنَ.(حٰم السجدہ۴۱: ۲۰۔۲۱)
’’یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس حاضر ہو جائیں گے تو ان کے کان اور اِن کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں۔ اور وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے:تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ جواب دیں گی: ہمیں اسی اللہ نے گویا کر دیا جس نے ہر چیزکو گویا کیا ہے۔ اور اس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اُس کی طرف لوٹائے جا رہے ہو۔‘‘
۸۔ یہی موقع ہے، جب مشرکین کے معبود ان کو جھوٹا قرار دیں گے، پیشوا اپنے پیرووں سے لاتعلقی ظاہر کریں گے اور انسان کا ازلی دشمن شیطان اپنے پیچھے چلنے والوں کو ملزم ٹھیرا کر ان سے اظہار برأت کر دے گا:
وَاِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا شُرَکَآءَ ہُمْ، قَالُوْا: رَبَّنَا، ہٰؤُلآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ، فَاَلْقَوْا اِلَیْْہِمُ الْقَوْلَ، اِنَّکُمْ لَکٰذِبُوْنَ. (النحل۱۶: ۸۶)
’’اور جب وہ لوگ جنھوں نے (دنیا میں) شرک کیا ہے، اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے: پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنھیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارتے تھے۔ اِس پر وہ اُن کی بات انھی پر پھینک ماریں گے کہ تم جھوٹے ہو۔‘‘
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا، وَرَاَوُا الْعَذَابَ، وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ.(البقرہ۲: ۱۶۶)
’’اُس وقت جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی، اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہر کر دیں گے اور عذاب سے دو چار ہوں گے اور اُن کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے۔‘‘
وَقَالَ الشَّیْْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ: إِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْْکُم مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلاَ تَلُوْمُوْنِیْ وَلُومُوْا اَنْفُسَکُمْ مَّآ اَنَاْ بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(ابراہیم۱۴: ۲۲)
’’اور جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے جتنے وعدے کیے، ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا۔ اور مجھے تم پر کوئی زور نہیں تھا۔ میں نے یہی کیا کہ تمھیں دعوت دی اور تم نے میری اس دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمھاری فریاد رسی کر سکتا ہوں، نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔تم نے جو مجھے شریک بنایا تھا، اُس کا میں پہلے سے انکار کر چکا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس طرح کے ظالم ہی ہیں جن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
دوزخ
یہ مجرموں کے لیے سزا اور تزکیہ و تطہیر کی جگہ ہے۔ اس کے متعدد نام قرآن میں آئے ہیں۔ کسی جگہ اسے ’جہنم‘ کہا گیا ہے، کہیں ’سقر‘ اور کسی جگہ ’السعیر‘، ’النار‘ اور ’النار الکبریٰ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بدترین جاے قرار ہے۔ ۱۰۷ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے سات دروازے ہوں گے جن میں سے ہر دروازے کے لیے مجرموں کا ایک حصہ مقرر ہو گا۔ ۱۰۸ قرآن نے جن چیزوں کو اصلی مہلکات قرار دیا ہے، وہ اگر شمار کی جائیں تو سات عنوانات کے تحت آ جاتی ہیں۔ ۱۰۹ شیطان انھی میں سے کسی ایک میں یا سب میں مبتلا کر کے لوگوں کو جہنم کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ درجہ بندی غالباً انھی مہلکات کے لحاظ سے ہو گی۔ اس سے جہنم کی وسعت کا بھی کچھ اندازہ کرانا پیش نظر ہے کہ یہ ایسی وسیع ہو گی کہ اس کے سات دروازے ہوں گے جن سے جہنمیوں کے گروہ ان کے جرائم کے لحاظ سے الگ الگ داخل کیے جائیں گے۔ نیز فرمایا ہے کہ اس کی نگرانی کے لیے اس پر انیس فرشتے مقرر ہوں گے:
وَمَآ اَدْرٰکَ مَا سَقَرُ، لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ، لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ، عَلَیْْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ.(المدثر۷۴: ۲۷۔۳۰)
’’اور تم کیا سمجھے کہ دوزخ کیا ہے؟ وہ نہ ترس کھائے گی، نہ چھوڑے گی، چمڑی جھلس دینے والی۔ اس پر انیس مقرر ہیں۔‘‘
قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ جانتے بوجھتے کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے دائمی عذاب ہے۔ اسی طرح کوئی مسلمان اگر عمداً کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس کے لیے بھی یہی سزا بیان ہوئی ہے۔ قانون وراثت کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی اسی کی وعید فرمائی گئی ہے۔ یہی معاملہ بعض دوسرے کبائر کے مرتکبین کا بھی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوزخ میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو اپنے گناہوں کی سزا بھگت لینے کے بعد اس سے نکال لیے جائیں گے، لیکن قرآن کی ان تصریحات سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے مجرموں کی تعذیب کے لیے دوزخ ہمیشہ قائم رکھی جائے گی۔ اس کے باوجود یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ایک دن اس کی بساط لپیٹ دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا عذاب وعدہ نہیں، بلکہ وعید ہے اور عالم کا پروردگار یہ حق یقیناًرکھتا ہے کہ اپنی رحمت سے ان مجرموں کی سزا میں تخفیف کرے یا خاک اور راکھ بنا کر ہمیشہ کے لیے اسی جہنم کی مٹی میں دفن کر دے:
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ، لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّشَہِیْقٌ، خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ، اِلاَّ مَا شَآءَ رَبُّکَ، اِنَّ رَبَّکَ فَعَّا لٌلِّ مَا یُرِیْدُ.(ہود۱۱: ۱۰۶۔۱۰۷)
’’پھر جو بد بخت ہوں گے، وہ دوزخ میں پڑیں گے، اس میں وہ گدھوں کی طرح چیخیں اور چلائیں گے اور اسی میں پڑے رہیں گے، جب تک (اُس عالم کے) زمین و آسمان قائم ہیں، مگر جو تیرا پروردگار چاہے۔ بے شک، تیرا پروردگار جو چاہے، کر گزرنے والا ہے۔‘‘
اس میں جو روحانی اور جسمانی سزائیں مجرموں کو دی جائیں گی، وہ بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اس میں آگ کا عذاب ہو گا۔ ۱۱۰ یہ آگ چہروں کو جھلس دے گی، ۱۱۱ صورتیں بگاڑ دے گی، ۱۱۲ کھال ادھیڑ دے گی، ۱۱۳ دلوں تک پہنچے گی۔ ۱۱۴ اس کے شعلے محلوں سے اونچے ہوں گے؛ ۱۱۵ اس میں نہ موت آئے گی، نہ چین نصیب ہو گا؛ ۱۱۶ پینے کے لیے ایسا گرم پانی دیا جائے گا جو آنتوں کے ٹکڑے کر دے گا؛ ۱۱۷ یہی پانی ان کے سروں پر ڈالا جائے گا؛ ۱۱۸ انھیں زخموں کا دھوون اور پیپ پلائی جائے گی؛ ۱۱۹ کھانے کے لیے خاردار جھاڑیاں اور زقوم کا درخت ہو گا، تیل کے تلچھٹ کی طرح جو پیٹ میں اس طرح کھولے گا، جس طرح گرم پانی کھولتا ہے؛ ۱۲۰ اس سے نہ طاقت آئے گی، نہ بھوک مٹے گی؛ ۱۲۱ آگ کا لباس ہو گا؛ ۱۲۲ گلے میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ہوں گی؛ ۱۲۳ ہر چیز حسرت بن جائے گی۔ ۱۲۴ سب سے بڑھ کر یہ کہ مجرم اس میں اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اس کی نگاہ التفات سے محروم ہوں ۱۲۵ گے، وہ ان میں سے بعض مجرموں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا: ۱۲۶
اِنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا، لِّلْطَّاغِیْنَ مَاٰباً، لّٰبِثِیْنَ فِیْہَآ اَحْقَابًا، لَّا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا، اِلَّا حَمِیْمًا وَّغَسَّاقاً، جَزَآءً وِّفَاقاً، اِنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَاباً، وَّکَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا کِذَّاباً، وَکُلَّ شَیْْءٍ اَحْصَیْْنٰہُ کِتٰباً، فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَاباً.(النبا۷۸: ۲۱۔۳۰)
’’بے شک جہنم گھات میں ہے، سرکشوں کا ٹھکانا۔ اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے۔ نہ اِس میں ٹھنڈک کا مزہ، نہ گرم پانی اور بہتی پیپ کے سوا پینے کی کوئی چیز ان کے لیے ہو گی۔ اِن کے عمل کے مطابق ان کا بدلہ۔ یہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور ہماری آیتوں کو انھوں نے بے دریغ جھٹلا دیا تھا اور اِدھر (اِن کی) ہر چیز ہم نے گن رکھی تھی۔ اِس لیے چکھو (اِسے)، اب ہم تمھارے لیے عذاب ہی بڑھائیں گے۔‘‘
جنت
یہ صالحین کی اقامت گاہ ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اسے آسمان کی بادشاہی سے تعبیر کیا ہے۔ ۱۲۷ قرآن میں اس کے لیے ’روضۃ‘ (چمن)، ’فردوس‘ (باغ)، ’جنۃ النعیم‘ (نعمت کے باغ)، ’جنۃ الخلد‘ (بقاے دوام کا باغ)، ’جنٰت عدن‘ (ہمیشہ رہنے کے باغ) اور اس طرح کے بعض دوسرے نام بھی آئے ہیں۔ یہ عیش دوام کی جگہ ہے، جہاں اس حیات دنیوی کے بر خلاف زندگی کے ساتھ موت، لذت کے ساتھ الم، خوشی کے ساتھ غم، اطمینان کے ساتھ اضطراب، راحت کے ساتھ تکلیف اور نعمت کے ساتھ نقمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کا آرام دائمی ہے، اس کی لذت بے انتہا ہے، اس کے شب و روز جاوداں ہیں، اس کی سلامتی ابدی ہے، اس کی مسرت غیر فانی ہے، اس کا جمال لازوال اور کمال بے نہایت ہے:
وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا، فَفِی الْجَنَّۃِ، خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ، اِلاَّ مَا شَآءَ رَبُّکَ، عَطَآءً غَیْْرَ مَجْذُوْذٍ. (ہود۱۱: ۱۰۸)
’’اور رہے وہ جو نیک بخت ہیں تو وہ جنت میں ہوں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے، جب تک (اُس عالم کے) زمین و آسمان قائم ہیں، مگر جو تیرا پروردگار چاہے۔ ایک ایسی بخشش کے طور پر جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔‘‘
اس فانی دنیا میں بھی انسان اس کی نعمتوں کو کسی حد تک تصور میں لا سکے، قرآن نے اس کے لیے بادشاہی کے اسباب و لوازم مستعار لیے ہیں۔ چنانچہ ہرے بھرے باغوں، بہتی نہروں، سر سبز و شاداب چمن زاروں، اونچے محلوں، زر و جواہر کے برتنوں، زریں کمر غلاموں، سونے کے تختوں، اطلس و کمخواب کے لباسوں، بلوریں پیالوں، عیش و طرب کی مجلسوں اور مہ جبیں کنواریوں کا ذکر اسی مقصد سے کیا گیا ہے:
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا، حَدَآءِقَ وَاَعْنَابًا، وَّکَوَاعِبَ اَتْرَابًا، وَّکَاْسًا دِہَاقًا، لَّا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا، کِذّٰبًا، جَزَآءً مِّنْ رَّبِّکَ، عَطَآءً حِسَاباً.(النبا۷۸: ۳۱۔۳۶)
’’اہل تقویٰ کے لیے، البتہ اُس دن بڑی فیروز مند ی ہے۔ (رہنے کے لیے) باغ اور (اِن میں کھانے کے لیے) انگور اور (دل بہلانے کے لیے) اٹھتی جوانیوں والی ہم سنیں، اور (اُن کی صحبت میں پینے کے لیے) چھلکتے جام۔ وہاں کوئی بیہودہ بات، کوئی بہتان وہ نہ سنیں گے۔ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے بدلہ ہو گا، بالکل اُن کے عمل کے حساب سے۔‘‘
فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ، وَلَقّٰہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُورًا، وَجَزٰہُم بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا، مُّتَّکِءِیْنَ فِیْہَا عَلَی الْاَرَآءِکِ،لَا یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَّلَا زَمْہَرِیْرًا، وَدَانِیَۃً عَلَیْْہِمْ ظِلٰلُہَا، وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُہَا تَذْلِیْلاً، وَیُطَافُ عَلَیْْہِم بِاٰنِیَۃٍ مِّن فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَا، قَوَارِیْرَ مِنْ فِضَّۃٍ، قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًا، وَیُسْقَوْنَ فِیْہَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنْجَبِیْلاً، عَیْْنًا فِیْہَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلاً، وَیَطُوْفُ عَلَیْْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ، اِذَا رَاَیْْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا، وَاِذَا رَاَیْْتَ، ثَمَّ رَأَیْْتَ نَعِیْمًا وَمُلْکًا کَبِیْرًا، عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ، وَّاِسْتَبْرَقٌ، وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ، وَسَقٰہُمْ رَبُّہُمْ شَرَاباً طَہُورًا، إِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَآءَ، وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا.(الدھر۷۶: ۱۱۔ ۲۲)
’’تو اللہ نے اُنھیں اُس دنیا کی مصیبت سے بچا لیا اور تازگی اور سرور سے انھیں لا ملایا، اور انھوں نے جو صبر (اِس دنیا میں) کیا، اُس کے بدلے میں انھیں (رہنے کے لیے) بہشت اور (پہننے کے لیے) ریشمی پوشاک عطا فرمائی۔ وہ اُس میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ اُس میں دھوپ کی حدت دیکھیں گے، نہ سرما کی شدت۔ اور اُس کے درختوں کے سایے اُن پر جھکے ہوئے اور اُن کے خوشے بالکل ان کی دسترس میں ہوں گے۔ اور اُن کے سامنے چاندی کے برتن (اُن کے کھانے کے لیے) اور شیشے کے پیالے (اُن کے پینے کے لیے) گردش میں ہوں گے۔ (مگر) شیشے بھی چاندی کے، جنھیں اُن کے خدام نے (ہر خدمت کے لیے) نہایت موزوں اندازوں کے ساتھ سجا دیا ہے۔ (اس کے علاوہ) اُنھیں وہ شراب وہاں پلائی جائے گی جس میں آب زنجبیل کی ملونی ہو گی۔ یہ بھی اُس میں ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ اور اُن کی خدمت میں وہ لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ تم ان کو دیکھو گے تو یہی خیال کرو گے کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔ اور دیکھو گے تو جہاں دیکھو گے، وہاں بڑی نعمت، بڑی بادشاہی دیکھو گے۔ اِس طرح کہ اُن (اہل جنت) کی اوپر کی پوشاک ہی سبز ریشم اور دیبا و اطلس کی ہو گی۔ اور اُن کو چاندی کے کنگن پہنائے گئے اور (وہ اُس مقام پر پہنچے کہ) اُن کے پروردگار نے انھیں شراب طہور پلائی۔ بے شک، یہ تمھارے عمل کا صلہ ہے اور (تمھیں مبارک کہ) تمھاری سعی مشکور ہوئی۔‘‘
اسی طرح فرمایا ہے کہ جنت کے لوگ جو چاہیں گے، ملے گا؛ جو مانگیں گے، پائیں گے۔ ۱۲۸ ان کے سینے حسد اور کینے اور بغض سے پاک کر دیے جائیں گے۔ وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ۱۲۹ نہ وہاں سے نکالے جائیں گے، نہ کبھی اکتا کر نکلنا چاہیں گے اور نہ کسی آزار میں مبتلا ہوں گے۔ ۱۳۰ اس کی نعمتیں ہر دفعہ نئے حسن، نئی لذت اور نئے ذائقے کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ ایک ہی پھل جب بار بار کھانے کے لیے دیا جائے گا تو ہر مرتبہ لذت، حسن اور ذائقے کی ایک نئی دنیا اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔ ۱۳۱ ہر طرف پاکیزگی، ہر طرف نزاہت۔ ۱۳۲ نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا، نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ ۱۳۳ پھر سب سے بڑھ کر خدا کی رضوان اور اس کے جواب میں اس کے بندوں کی طرف سے حمد و ثنا کے زمزمے اور تسبیح و تہلیل کا سرود سرمدی جس سے جنت کی فضائیں شب و روز معمور رہیں گی۔ ۱۳۴
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید وضاحت کی ہے کہ جنت میں رہنے والے کھائیں گے اور پئیں گے، لیکن نہ تھوکیں گے، نہ بول و براز کی ضرورت محسوس کریں گے، نہ ناک سے رطوبت نکلے گی، نہ بلغم اور کھنکھار جیسی چیزیں ہوں گی۔ وہاں کے پسینے سے مشک کی خوشبو آئے گی۔ وہ ایسی نعمتوں میں رہیں گے کہ کبھی کوئی تکلیف نہ دیکھیں گے۔ نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے، نہ جوانی زائل ہو گی۔ اس میں منادی پکارے گا کہ یہاں وہ صحت ہے جس کے ساتھ بیماری نہیں؛ وہ زندگی ہے جس کے ساتھ موت نہیں؛ وہ جوانی ہے جس کے ساتھ بڑھاپا نہیں۔ لوگوں کے چہرے اس میں چاند تاروں کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ ۱۳۵
یہ تمام تصویریں ہمارے فہم کے لحاظ سے ہیں۔ ورنہ حقیقت کیا ہے؟ اس کی بہترین تعبیر وہی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کیا ہے جسے نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال کبھی گزرا ہے۔ ۱۳۶ یہی اسلوب قرآن میں بھی ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ، جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.(السجدہ۳۲: ۱۷)
’’پھر کوئی نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان کے لیے پوشیدہ ہے۔‘‘
———————-
۹۹ آل عمران۳: ۱۸۵۔
۱۰۰ السجدہ۳۲: ۶۔۹۔ المومنون۲۳: ۱۲۔۱۴۔ ترمذی، رقم۲۱۳۷۔
۱۰۱ النساء ۴: ۹۷۔الانعام ۶: ۹۳۔ النحل۱۶: ۲۸۔
۱۰۲ المومنون۲۳: ۱۰۰۔
۱۰۳ یٰس۳۶: ۵۲۔
۱۰۴ بخاری، رقم ۱۳۷۹۔ مسلم، رقم۲۸۶۶۔
۱۰۵ بخاری، رقم۱۳۷۴۔ مسلم، رقم۲۸۷۵۔
۱۰۶ المومن۴۰: ۱۱۔
۱۰۷ البقرہ۲: ۱۲۶، ۲۰۶۔ آل عمران۳: ۱۵۱۔ ابراہیم۱۴: ۲۹۔
۱۰۸ الحجر۱۵: ۴۴۔
۱۰۹ بنی اسرائیل۱۷: ۲۲۔۳۹۔
۱۱۰ الحج۲۲: ۹۔
۱۱۱ المدثر۷۴: ۲۹۔
۱۱۲ المومنون۲۳: ۱۰۴۔
۱۱۳ المعارج۷۰: ۱۶۔
۱۱۴ الھمزہ۱۰۴: ۶۔۷۔
۱۱۵ المرسلات۷۷:۳۲۔
۱۱۶ فاطر۳۵: ۳۶۔ الاعلیٰ۸۷: ۱۲۔ ۱۳۔
۱۱۷ محمد۴۷: ۱۵۔
۱۱۸ الحج۲۲: ۱۹۔
۱۱۹ الحاقہ۶۹: ۳۶۔ ۳۷۔ النبا۷۸: ۲۴۔ ۲۵۔
۱۲۰ الغاشیہ۸۸: ۶۔ الدخان۴۴: ۴۳۔۴۶۔
۱۲۱ الغاشیہ۸۸: ۷۔
۱۲۲ الحج۲۲: ۱۹۔
۱۲۳ المومن۴۰: ۷۱۔ الدھر۷۶: ۴۔
۱۲۴ مریم۱۹: ۳۹۔
۱۲۵ المطففین۸۳: ۱۵۔
۱۲۶ آل عمران۳: ۷۷۔
۱۲۷ متی۵: ۱۹۔ ۲۰، ۷: ۲۱۔
۱۲۸ حٰم السجدہ۴۱: ۳۱۔ الزخرف۴۳: ۷۱۔ ق۵۰: ۳۵۔
۱۲۹ الاعراف۷: ۴۳۔ الحجر۱۵: ۴۷۔
۱۳۰ الحجر۱۵: ۴۸۔ الکہف۱۸: ۱۰۸۔ فاطر۳۵: ۳۴۔۳۵۔
۱۳۱ البقرہ۲: ۲۵۔
۱۳۲ الواقعہ۵۶: ۲۵۔
۱۳۳ البقرہ۲: ۶۲، ۱۱۲، ۲۶۲، ۲۷۴، ۲۷۷۔
۱۳۴ التوبہ۹: ۷۲۔ یونس۱۰: ۱۰۔ مریم۱۹: ۶۲۔ الحج۲۲: ۲۴۔ الزمر۳۹: ۷۳۔
۱۳۵ بخاری، رقم ۳۳۲۷۔ مسلم، رقم ۲۸۳۴، ۲۸۳۵، ۲۸۳۶، ۲۸۳۷۔
۱۳۶ بخاری، رقم ۳۲۴۴۔ مسلم، رقم ۲۸۲۴۔
————————————-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا جو کام میں نے ۱۹۹۰ء بمطابق ۱۴۱۰ھ میں کسی وقت شروع کیا تھا، وہ آج سترہ سال بعد پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ یہ اس پورے دین کا بیان ہے جو خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے انسانیت کو دیا گیا ۔اسے فقہ و کلام اور فلسفہ و تصوف کی ہر آمیزش سے بالکل الگ کرکے بے کم و کاست اور خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو چیزیں روایتوں میں بیان ہوئی ہیں، وہ اس میں متابعات کی حیثیت سے آئی ہیں اور ان میں سے وہی قبول کی گئی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ اس سے کم تر درجے کی کوئی روایت اس میں شامل نہیں کی گئی۔
قرآن و سنت کی جو تعبیر اس کتاب میں پیش کی گئی ہے، اس تک پہنچنے کے لیے میں نے ہر اس رائے اور نقطۂ نظر کو اس کے اندر اتر کر سمجھنے کی کوشش کی ہے جو سلف و خلف کے علما سے نقل ہوا ہے۔ پھر جو کچھ قبول کیا ہے، اس کے حاملین کی قلت و کثرت یا کسی کے نام اور شخصیت کی بنا پر نہیں، بلکہ اس کے دلائل کی بنا پر قبول کیا ہے۔ امام فراہی اور استاذ امام امین احسن اصلاحی کے رشحات فکر اس کتاب کی بنیاد ہیں، لیکن ان میں سے بھی کوئی چیز اس لیے قبول نہیں کی گئی کہ وہ ان جلیل القدر علما نے کہی ہے۔ میں نے بارہا مہینوں غور کیا ہے اور یہ صرف دلائل کی صحت اور عدم صحت ہے جس کے پیش نظر اس کے رد و قبول کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ کئی مقامات ہیں، جہاں میرا نقطۂ نظر جس طرح دوسرے علما اور محققین کی آرا کے مطابق نہیں رہا، اسی طرح اپنے ان بزرگوں سے بھی بڑی حد تک مختلف ہو گیا ہے۔
تاہم یہ ایک انسان کا کام ہے جو کسی طرح غلطیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ میں بار بار اسے دیکھتا اور اس میں ترمیم و اضافہ کرتا رہا ہوں۔ اس کے جو ابواب وقتاً فوقتاً شائع ہوئے ہیں، انھیں دیکھ کر ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ زبان و بیان ، علم و نظر اور اخذ و استنباط کی کوئی غلطی اگر مجھ پر واضح ہو گئی ہے تو اگلے ایڈیشن میں بغیر کسی تردد کے میں نے اس کی اصلاح کر دی ہے۔ میں ہر وقت اس کے لیے تیار ہوں کہ آیندہ بھی اس کتاب کی جو غلطی مجھ پر واضح ہو جائے گی یا واضح کر دی جائے گی، ان شاء اللہ اس کی اصلاح کر دوں گا۔ میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ دین کے معاملے میں جانتے بوجھتے کوئی غلطی کروں یا کسی غلطی پر جما رہوں۔
اپنے پروردگار کی عنایتوں کے لیے اعتراف و تشکر کے ساتھ میں اس موقع پر برادرم شیخ افضال احمد کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے اس سارے عرصے میں مجھے معاشی جدوجہد سے بے نیاز کیے رکھا اور میری تمام ضروریات انتہائی محبت اور نہایت فراخ دلی کے ساتھ پوری کی ہیں۔ یہی معاملہ میری اہلیہ کا ہے۔ ان کا ایثار و تعاون نہ ہوتا تو گھر در کی الجھنوں کے ساتھ اس کام کو جمعیت خاطر کے ساتھ پورا کرنا آسان نہ تھا۔ میرے ذاتی معاملات کو دیکھنے میں برادرم شکیل الرحمن، برادرم ڈاکٹر منیر احمد، برادرم محمد انیس مفتی اور برادرم الطاف محمود کی محبت اور ان کا تعاون بھی ہر لحاظ سے شکریے کا مستحق ہے۔ پچھلے دو برسوں میں یہی حیثیت برادرم شاہد مولود اور برادرم عمران کریم نے حاصل کر لی ہے۔ میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح اپنے ان تلامذہ اور احباب کا بھی شکر گزار ہوں جن کے مشوروں اور تنقیدات سے مجھے اس کتاب کی خامیوں کو دور کرنے میں مدد ملی ہے۔ ان میں جناب عمار خان ناصر، جناب معز امجد اور جناب طالب محسن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ عزیزم شہزاد سلیم کے لیے بھی اظہار تشکر ضروری ہے جنھوں نے اس کی تکمیل کے ساتھ ہی اس کا انگریزی ترجمہ مکمل کر دیا ہے۔ اس کتاب کی طباعت کا اہتمام ’’المورد‘‘ کے شعبۂ تصنیف و تالیف میں عزیزم منظور الحسن اور ان کا عملہ کر رہا ہے۔ ان کا شکریہ بھی واجب ہے۔ وہ یہ کام جس محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔
یہ ایک طالب علم کا نتیجۂ فکر و تحقیق ہے اور اسی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سے اگر اس کے دین کی کوئی خدمت ہوئی ہے تو اسے قبول فرمائے اور میری مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ اب یہی تمنا باقی ہے۔ اس کے سوا ہر تمنا دل سے رخصت ہو چکی ہے:
منتظر ہوں تو فقط ان کی پزیرائی کا
المورد، لاہور
جمعہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۷ء
بمطابق ۹ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ
جاوید
_______________