HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

مدیر ’’الشریعہ‘‘ کے نام حافظ زبیر صاحب کی تحریر

غامدی صاحب کا تصور فطرت

محترم جناب مدیر ’’الشریعہ‘‘

السلا م علیکم !

امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔

میں مدیر ’’اشراق‘‘ جناب سید منظور الحسن صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے غامدی صاحب پر میری تنقید کے تعاقب میں بحث کو آگے بڑھایا ہے ۔میں نے اپنے اصل مضمون میں یہ لکھا تھا کہ غامدی صاحب کے بنیادی مصادر شریعت چار ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

۱۔دین فطرت کے بنیادی حقائق،۲۔سنت ابراہیمی،۳۔نبیوں کے صحائف،۴۔قرآن۔

جناب سید منظور الحسن صاحب نے میرے مضمون پر تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ ’فطرت‘ ‘ غامدی صاحب کے نزدیک کوئی مستقل ماخذ دین نہیں ہے۔جناب منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں:

’’غامدی صاحب نے ’’اصول و مبادی ‘‘ میں فطرت کا ذکر قرآن مجید کی دعوت کو سمجھنے میں معاون ایک ذریعے کے طور پر تو کیا ہے، لیکن کہیں بھی اسے مستقل بالذات ماخذ دین کے طور پر پیش نہیں کیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، جولائی ۲۰۰۷،۳۸)

اس بیان سے پہلے سید منظور الحسن صاحب کا دعویٰ تھا کہ غامدی صاحب نے ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’فطرت کے حقائق‘ کو ایک مستقل ماخذ دین کے طور پر بیان کیا ہے ۔جناب سید منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں:

’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴،۱۱)

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ سید منظور الحسن صاحب مجھ پر کج فہمی کا الزام لگا رہے ہیں، حالانکہ دیکھا جائے تو غامدی صاحب کے حوالے سے میں نے وہی بات بیان کی ہے جو کہ منظور الحسن صاحب نے بھی لکھی ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں ۔جب میں ’فطرت کے حقائق ‘ کو غامدی صاحب کا ماخذ دین لکھوں تو مجھے منظور الحسن صاحب کج فہم کہتے ہیں، لیکن میں سید منظور الحسن صاحب سے یہ استفسار کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کا اپنے اس فہم کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس میں انھوں نے غامدی صاحب کے ماخذ دین چار بتلائے ہیں؟

۲۔دوسری بات یہ ہے کہ سید منظور الحسن صاحب کی مذکورہ بالا عبارت کہ جس میں انھوں نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں، قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے ۔قطعی الثبوت تو اس لیے کہ منظور الحسن صاحب کی یہ عبارت، غامدی صاحب کے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں کہ جس کے وہ خود مدیر بھی ہیں، ان کے ذاتی نام سے شائع ہوئی ہے۔اور قطعی الدلالت اس لیے کہ اس عبارت کا ایک ایک لفظ اپنے مفہوم کو بغیر کسی اشتباہ کے واضح کر رہا ہے۔ منظورالحسن صاحب کی عبارت یہ ہے:

’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴،۱۱)

اگر کسی اردو جاننے والے سے اس عبارت کا مفہوم پوچھا جائے تو وہ یہی بتائے گا کہ ’مصادر ‘ کا معنی ’مصادر ‘ ہے۔ ’قرآن‘ سے مراد’ قرآن ‘ہے۔’فطرت ‘ سے مراد ’فطرت‘ ہے ۔’سنت ابراہیمی ‘سے مراد ’سنت ابراہیمی‘ ہے۔’قدیم صحائف‘ سے مراد ’قدیم صحائف‘ ہے، لہٰذا منظور الحسن صاحب کی یہ عبارت اس مسئلے میں نص قطعی ہے کہ ان کے نزدیک غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں۔

۳۔تیسری بات یہ ہے کہ جناب منظور الحسن صاحب نے اپنی اس عبارت کی نسبت جناب غامدی صاحب کی طرف کی ہے۔ منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں :

’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴،۱۱)

جناب منظور الحسن صاحب نے واضح لکھا ہے کہ غامدی صاحب کی’ ’میزان‘‘ کی عبارت کو کوئی صاحب صرف ان کا فلسفہ نہ سمجھے، بلکہ یہ ان کے مصادر شریعت ہیں۔جبکہ اسی رسالے کے شروع میں کہ جس میں منظور الحسن صاحب کی مذکورہ بالا عبارت شائع ہوئی، یہ عبارت بھی موجود ہے:

’’یہ مضمون استاذ گرامی کے افادات پر مبنی ہے اور انھی کی رہنمائی میں تحریر کیا گیا ہے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴،۱۱)

ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کی یہ عبارتیں وضاحت کرتی ہیں کہ منظور الحسن صاحب نے یہ عبارت لکھتے وقت اپنے استاد محترم سے نہ صرف بذریعہ ’’میزان‘‘ تحریری رہنمائی لی، بلکہ قولی رہنمائی بھی لی۔

۴۔ چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء میں منظورا لحسن صاحب کی یہ عبارت ’’اشراق‘‘ میں شائع ہوئی کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں اور ان میں سے ایک ’فطرت‘ بھی ہے لیکن ابھی تک جناب غامدی صاحب کی طرف سے کوئی ا یسی تردید نہیںآئی کہ جس میں انھوں نے یہ لکھا ہو کہ میرے شاگرد رشید نے جومیرے چار مآخذ دین گنوائے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا شاگرد رشیدمیری کتاب ’’میزان‘‘ کی عبار ت کو سمجھ نہیں سکا اور اس کوسمجھنے میں وہ کج فہمی کا شکار ہوا ہے۔

۵۔ پانچویں بات یہ ہے کہ جناب منظور الحسن صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اس عبارت کا مفہوم اپنے استاد محترم کے درج ذیل اصول کی روشنی میں اگر متعین کریں تو نہ وہ خود کج فہم رہیں گے اور نہ مجھ پر کج فہمی کاالزام عائد کر سکیں گے۔جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’ہم جو کچھ بولتے اور لکھتے ہیں، اس اعتماد کے ساتھ بولتے اور لکھتے ہیں کہ دوسرے اس سے وہی کچھ سمجھیں گے جو ہم کہنا چاہتے ہیں،دنیا میں ہر روز جو دستاویزات لکھی جاتی ہیں، جو فیصلے سنائے جاتے ہیں، جو احکام جاری کیے جاتے ہیں، جو اطلاعات بہم پہنچائی جاتی ہیں اور جن علوم کا ابلاغ کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال اگر پیدا ہوجائے کہ ان ا لفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے تو ان میں سے ہر چیز بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ چنانچہ یہ نقطۂ نظر نری سو فسطائیت ہے جس کے لیے علم کی دنیا میں ہر گز کوئی گنجایش پیدا نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (میزان۳۳)

غامدی صاحب کے اس اصول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جناب منظور الحسن صاحب کی یہ عبارت

’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔‘‘

اس مسئلے میں نص قطعی ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں کہ جن میں سے ایک ’فطرت‘ بھی ہے۔

۶۔ جہاں تک آیت مبارکہ ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث‘ میں ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تعیین کا مسئلہ ہے کہ ان کی تعیین کس طرح ہو گی؟ اس کو ان شاء اللہ غامدی صاحب کی ہی ’’اصول و مبادی‘‘ میں موجود ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کی روشنی میں ایک مستقل مضمون میں واضح کروں گا۔ اصحاب ’’المورد‘‘ کا مسئلہ یہ ہے کہ جب چاہتے ہیں کسی مسئلے میں امت کی اتفاقی رائے کو نظر انداز کر کے اہل سنت کے بالمقابل ایک منفرد رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں فقہا کی شاذ آرا کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کر لیتے ہیں۔جن فقہا کے جناب منظور الحسن صاحب نے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تفسیر کرتے وقت حوالے دیے ہیں، اگر ان فقہا کا فہم ان کے نزدیک حجت ہے تو مسئلۂ رجم، حضر ت عیسیٰ بن مریم کی آمد ثانی، عورت کے دوپٹے، مجسمہ سازی، مرتد کی سزااورقرا ء ات قرآنیہ کے بارے میں ان فقہا کے فہم پر یہ لوگ اعتماد کیوں نہیں کرتے؟جہاں تک دلیل کی بات ہے تو جناب منظور الحسن صاحب نے کوئی ایسی بات بیان نہیں کی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تفسیرمیں انھوں نے جن فقہا کی آرا بیان کی ہیں، ان کے دلائل یہ ہیں۔ میں ان شاء اللہ واضح کروں گا کہ غامدی صاحب کی فکر اور ان فقہا کی آرا میں کیا فرق ہے کہ جن کے حوالے جناب منظور الحسن صاحب نے بیان کیے ہیں اور یہ بھی ثابت کروں گا کہ آپ نے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی جو تفسیر فقہا کے اقوال کی روشنی میں بیان کی ہے، وہ تفسیر اس تفسیرسے بالکل مختلف ہے جو کہ آپ کے ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کی روشنی میں سامنے آتی ہے۔

۷۔ آخر میں، میں جناب منظور الحسن صاحب سے گزارش کروں گا کہ اگر آپ واقعۃً اس بحث کو کسی نتیجے پر پہنچانا چاہتے ہیں تو ان ادھر ادھر کی تاویلات میں پڑکر بحث کو طویل کرنے ا ور الجھانے کی بجائے درج ذیل تین آپشنز پر غور کریں:

ا۔ اگر تو غامدی صاحب ’’الشریعہ‘‘ کے کسی شمارے میںیہ لکھ دیں کہ ماہنامہ ’’اشراق‘‘ مارچ۲۰۰۴ میں جناب منظور الحسن صاحب نے میری نسبت سے جو چار مصادر دین بیان کیے ہیں،اس میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں اور میں ان کی اس عبارت سے متفق نہیں ہوں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ب۔ یاجناب سیدمنظورا لحسن صاحب خود یہ لکھ دیں کہ میری ماہنامہ ’’اشراق‘‘ مارچ ۲۰۰۴ میں شائع شدہ عبارت منسوخ ہے، پہلے میرا خیال یہ تھا کہ غامدی صاحب کے مصادر دین چار ہیں، لیکن اب مجھ پرواضح ہوا ہے کہ’فطرت‘ ان کے مصادر دین میں سے نہیں ہے۔

ج۔ یا سید منظور الحسن صاحب مجھے کم از کم غامدی صاحب کے بارے میں اتنالکھنے کی اجازت دیں جتنا کہ خود انھوں نے لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ:

’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔‘‘

اور چوتھی اور آخری صورت وہ ہے کہ جو جناب منظور الحسن صاحب عملاً کر رہے ہیں کہ اس بحث کوا تنا طویل کر دو اور الجھا دو کہ قارئین کے ذہن منتشر ہو جائیں اور اصل نکتے تک کوئی نہ پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حق بات کی طرف رہنمائی فرمائے۔آمین

حافظ محمد زبیر

ریسرچ ایسوسی ایٹ، قرآن اکیڈمی، لاہور

[email protected]

________________

B