بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ، اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ، وَلاَ تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا{۲۹} وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا، فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا، وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا{۳۰} اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ، نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ، وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا{۳۱}
وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ، لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا، وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ، وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیْمًا{۳۲} وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ، وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْْمَانُکُمْ فَاٰتُوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ، إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ شَہِیْدًا{۳۳}
ایمان والو،ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھائو،۷۲ الاّ یہ کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی جائے، اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔۷۳ اِس میں شبہ نہیںکہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔۷۴ اور (یاد رکھو کہ) جو لوگ ظلم و زیادتی۷۵کے ساتھ ایسا کریں گے، اُن کو ہم ضرور ایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ میں۷۶ جھونک دیں گے ، اور یہ اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے۔۷۷ (اِن گناہوں سے بچو، اِس لیے کہ) تمھیں جن چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے، اُن کے بڑے بڑے گناہوں سے اگر تم بچتے رہے تو تمھاری چھوٹی برائیوں کو ہم تمھارے حساب سے ختم کر دیں گے اور تمھیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔۷۸ ۲۹-۳۱
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے، اُس کی تمنا نہ کرو،۷۹ (اِس لیے کہ) مردوں نے جوکچھ کمایا ہے، (خدا کے حضور میں تو)اُس کا حصہ اُنھیں مل جائے گا اور عورتوں نے جو کچھ کمایا ہے، اُس کا حصہ اُنھیں مل جائے گا۔ (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تمنا ہو تو اِس میدان میں آگے بڑھو) اور (اِس کے لیے) اللہ سے اُس کے فضل کا حصہ مانگو۔ یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔۰ ۸ (یہی ترجیحات وراثت کی تقسیم میں بھی ملحوظ ہیں) اور والدین اور قرابت مندوں کے چھوڑے ہوئے مال میں سے(اِنھی کے مطابق) ہم نے ہر ایک کے لیے وارث ٹھیرا دیے ہیں۔ (اِن میں تبدیلی کی کوشش نہ کرو،) رہے وہ لوگ جن سے تمھارے عہد و پیمان ہوں تو اُن کا حصہ اُنھیں دو۔(اِس میں، البتہ کسی حق دار کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہونا چاہیے،) اِس لیے کہ اللہ ہر چیز پر نگران ہیں۔۸۱ ۳۲-۳۳
۷۲؎ اس سے مراد وہ طریقے ہیں جو عدل و انصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہوں اور جن میں لین دین اور معاملت کی بنیاد فریقین کی حقیقی رضا مندی پر نہ ہو، بلکہ ایک کا مفاد ہر حال میں محفوظ رہے اور دوسرے کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ضرر یا غرر کا ہدف بنایا جائے۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ رشوت، چوری، غصب، سود، جوا، غلط بیانی، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا، یہ سب اسی کے تحت داخل ہیں۔ روایتوں میں بیع و شرا اور مزارعت وغیرہ کی جن صورتوں سے منع کیا گیا ہے، وہ بھی اسی کے تحت ہیں۔
۷۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’ولا تقتلوا انفسکم‘۔ان میں ’انفسکم‘ کا لفظ بالکل اسی طرح آیا ہے، جس طرح اوپر ’اموالکم‘ کا لفظ ہے، اس لیے جن لوگوں نے اس سے خودکشی کے معنی لیے ہیں، ان کی رائے عربیت کے خلاف ہے۔ اس کے لیے اسلوب دوسرا ہونا چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک دوسرے کا مال کھانے اور ناحق کسی کی جان لینے کی حرمت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک ساتھ جمع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ان کو ایک ساتھ جمع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ان دونوں میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ مال کی حرص اس کے حصول کے جائز و ناجائز طریقوں کی تمیز اٹھا دیتی ہے اور پھر یہ بیماری لوگوں کو اس طرح اندھا کر دیتی ہے کہ ا س کے لیے قتل و خون تک کی نوبت آجاتی ہے۔ سماجی فسادات اور خوں ریزیوں کے اسباب کا سراغ لگایا جائے تو معلوم ہو گا کہ حرص مال کو ان میں سب سے زیادہ دخل ہے۔ اسلام نے ان دونوں چیزوں کے اس گہرے باہمی رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مال اور ایک دوسرے کی جان، دونوں چیزوں کی حرمت کی یکساں تاکید فرمائی ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۲۸۵)
۷۴؎ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ مہربان ہے تو وہ کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں۔ وہ تو یہی چاہے گا کہ لوگ آپس میں ’رحماء بینھم‘ بن کر زندگی بسر کریں۔
۷۵؎ اصل میں ’ظلما وعدوانا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اگر ایک ساتھ آئیں تو گناہ کی دو الگ الگ صورتوں پر دلالت کرتے ہیں۔ظلم کا لفظ اس صورت پر دلالت کرتا ہے، جب دھاندلی سے کسی کا حق واجب ادا نہ کیا جائے اور عدوان کا اس صورت پر جب زور و زبردستی سے کسی کے جان و مال پر دست درازی کی جائے۔ اس کے برخلاف الگ الگ آئیں تو کم و بیش ایک ہی مفہوم کے حامل ہو جاتے ہیں۔
۷۶؎ اصل میں لفظ ’نارًا‘ آیا ہے۔ اس کی تنکیر یہاںتفخیم کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۷۷؎ یہ الفاظ ایک مخفی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ استاذ امام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔جو لوگ خدا کو مانتے ہیں،لیکن خدا کی صفات عدل و رحم کا صحیح تصور نہیں رکھتے، وہ اپنے آپ کو الائونس دینے میں بڑے فیاض ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے جرائم کرتے چلے جاتے ہیں، لیکن یہود کی طرح توقع یہی رکھتے ہیں کہ خدا ان پر بڑا مہربان ہے، اس لیے سب بخش دے گا۔ قرآن نے یہود کا قول’ سَیُغْفَرُلَنَا‘ جو نقل کیا ہے ،وہ اسی ذہنیت کی غمازی کر رہا ہے۔ درحقیقت اس قماش کے لوگ شہ تو حاصل کرتے ہیں اس ڈھیل اور مہلت سے جو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق عطا فرماتا ہے، لیکن ان کی حیلہ جو طبیعت آڑ ڈھونڈتی ہے خدا کی رحمت کی۔ حالانکہ خدا رحیم ہے تو آخر وہ ظالموں پر کیوں رحم فرمائے گا۔ اس کی رحمت کے اصلی مستحق تو وہ مظلوم ہیں جو ان کے ہاتھوں زندگی بھر ستائے گئے اور آہ بھی نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی ذہنیت رکھنے والوں کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ جو لوگ ظلم و عدوان کی زندگی بسر کررہے ہیں، ان کو جہنم میں جھونک دینا خداے رحیم پر ذرا بھی شاق نہیں گزرے گا، اس لیے کہ وہ جس طرح رحیم ہے، اسی طرح عادل بھی ہے اور یہ عدل بھی اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۸۷)
۷۸؎ بڑے گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جو قرآن کے ان احکام عشرہ کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتے ہیں جو سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیات ۲۲-۳۹ میں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ ان سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کا صلہ اس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے بعد آدمی کے چھوٹے گناہوں کو وہ اپنی بے پایاں رحمت سے معاف کر دیتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر میں ایک اور حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صغائر سے بچنے کی راہ بھی یہی ہے کہ آدمی کبائر سے اجتناب کرے۔ جو آدمی اپنے ہزاروں کے قرضے چکاتا رہتا ہے، وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ کسی کے پانچ روپے دبا کر نادہند کہلانے کی ذلت گوارا کرے۔ برعکس اس کے جو لوگ کبائر کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، ان کا حال زندگی بھر یہ رہتا ہے کہ مچھر کو چھانتے رہتے ہیں اور اونٹ کو نگلتے رہتے ہیں۔ دوسروں کو تو یہ زیرے اور سونف تک کی زکوٰۃ کا حساب سمجھاتے ہیں، لیکن خود یتیموں کے مال اور اوقاف کی آمدنیوں سے اپنی کوٹھیاں بنواتے اور ان کو سجاتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۸۸)
۷۹؎ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے جدوجہد اور مسابقت کا اصلی میدان اس کی خلقی صفات نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلقی صفات کے لحاظ سے بعض کو بعض پر فی الواقع ترجیح حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذہنی، کسی کو جسمانی، کسی کو معاشی اور کسی کو معاشرتی برتری کے ساتھ پیدا کیا اور دوسروں کو اس کے مقابلے میں کم تر رکھا ہے۔ مرد و عورت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس میں زوجین کا تعلق ایک کو فاعل اور دوسرے کو منفعل بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ فعلیت جس طرح غلبہ، شدت اور تحکم چاہتی ہے، انفعالیت اسی طرح نرمی، نزاکت اور اثر پذیری کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ ان میں اگر مسابقت اور تنافس کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو یہ فطرت کے خلاف جنگ ہو گی جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ بالآخر دونوں اپنی بربادی کا ماتم کرنے کے لیے باقی رہ جائیں۔
۸۰؎ یہ ایک دوسرے میدان کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ اکتسابی صفات، یعنی نیکی، تقویٰ، عبادت، ریاضت اور علم و اخلاق کا میدان ہے۔ قرآن نے اس کے لیے جگہ جگہ ایمان اور عمل صالح کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ مسابقت اور تنافس کا میدان درحقیقت یہی ہے۔ اس میںبڑھنے کے لیے کسی پرکوئی پابندی نہیں، بلکہ مسابقت اس میدان میں اتنی ہی محمود ہے، جتنی خلقی صفات کے میدان میں مذموم ہے۔ مرد بڑھے تو اسے بھی اپنی جدوجہد کا پھل ملے گا اور عورت بڑھے تو وہ بھی اپنی تگ و دو کا ثمرہ پائے گی۔ بانو، باندی، آزاد، غلام، شریف، وضیع، خوب صورت، بدصورت اور بینا و نابینا، سب کے لیے یہ میدان یکساں کھلا ہوا ہے۔ دوسروں پر فضیلت کی خواہش ہو تو انسان کو اس میدان میں خدا کا فضل تلاش کرنے کے لیے نکلنا چاہیے۔ اپنی محنت غلط میدان میں برباد کرنے سے لاحاصل تصادم اور بے فائدہ تنازعات کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ حوصلہ آزمانے اور ارمان نکالنے کا صحیح میدان یہ ہے۔ جس کو اترنا ہو، وہ اس میدان میں اترے۔
۸۱؎ یہ تقسیم وراثت کے اس ضابطے کی طرف اشارہ ہے جو اس سے پہلے اسی سورہ میں بیان ہوا ہے۔ موقع کلام کی رعایت سے اس کا ذکر یہاں حصوں میں خدا کی قائم کی ہوئی ترجیحات کو بدلنے کی کوشش پر تنبیہ کے لیے ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اس حوالے سے مقصود اس کو مزید موکد کرنا ہے کہ ہر مورث کے جو وارث خدا نے ٹھہرا دیے ہیں، وہی اصلی وارث ہیں۔ اب ان میں اپنے ذاتی رجحانات کی بنا پر نہ کسی ترمیم و تبدیلی کی گنجایش ہے اور نہ ان کے مقررہ حصوں میں کسی کمی بیشی کی۔ اگر کسی نے کسی غیر وارث سے کچھ دینے دلانے کا وعدہ کر رکھا ہے تو اس کو وہ حصہ دے جو اس کا ہے۔’ اس کا حصہ‘ سے مراد، ظاہر ہے کہ وہی حصہ ہو سکتا ہے جس کی مورث کو وصیت کی اجازت ملی ہوئی ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تقسیم سے علیحدہ کر رکھا ہے۔ یہ حصہ درحقیقت ایسے ہی لوگوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوڑا گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے ’نصیبھم‘ کا لفظ استعمال ہوا ۔ آخر میں اپنی صفت ’علٰی کل شی ء شھیدا‘ کا حوالہ بطور تنبیہ دیا ہے کہ بے جا جانب داری کی مخفی سے مخفی کوشش بھی اللہ کے علم سے مخفی نہیں رہ سکتی۔ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر جلی و خفی سے آگاہ ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۸۹)
[ باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ