HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]

 

ڈاکٹر طہٰ حسین کی قرآن کے متعلق آرا

سوال: ڈاکٹر طہٰ حسین نے اپنی کتاب’’ادب جاہلی‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں نہ صرف املا، بلکہ گرامر کی غلطیاں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی ہرزہ سرائی کی ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟(محمد عارف جان )

جواب:قرآن مجید میں املا وہی قائم رکھی گئی ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسی حالت پر قائم رہے جس میں صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اسے امت کو منتقل کیا تھا۔ بعد میں املا کے طریقے تبدیل ہو گئے۔ یہ تبدیلی کئی پہلووں سے ہوئی ہے۔ اس کی روشنی میں قرآن کی املا کو تبدیل کرنا ناموزوں ہے۔ اگر قرآن میں موجود املا کو کوئی شخص غلط کہتا ہے تو وہ موجودہ املا کے قواعد کی روشنی میں کہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ بات اس طرح کہنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ قرآن میں بعض جگہ پر املا جدید املا سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ دعویٰ کہ قرآن میں گرامر کی غلطیاں ہیں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ قرآن گرامر کا تابع نہیں ہے۔ گرامرقرآن کے تابع ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گرامر اہل زبان کے تعامل کو دیکھ کر مرتب کی جاتی ہے۔ اس میں بعض قواعد ایسے بن جاتے ہیں جو اہل زبان کی بعض اختراعات کا احاطہ نہیں کر پاتے۔ اس طرح کی صورت حال میں صحیح رویہ یہ نہیں کہ اہل زبان کی تحریر کو غلط قرار دیا جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ گرامر کے اس قاعدے میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔خدا کا کلام ہر طرح کے نقص سے پاک ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ طہٰ حسین اور بعض مستشرقین کی اس طرح کی مثالیں ان کی کم علمی کا مظہر ہیں۔ ہمارے رفیق معز امجد صاحب نے اس طرح کی بعض مثالوں کا تجزیہ کرکے یہ حقیقت پوری طرح ثابت کر دی ہے۔

 

آزمایش اور بلند مراتب

سوال:مفتی شفیع صاحب سورۂ انبیاء کی تفسیر میں حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے کے ذیل میں ایک روایت نقل کرتے ہیں:’ اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل‘۔ سوال یہ ہے کہ جس مومن پر سخت آزمایش نہیں آتی، اس کا مقام اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہے؟ وضاحت فرمادیں۔(وحدت یار)

جواب:اگر بڑی آزمایش یا سخت آزمایش کا مصداق صرف جسمانی تعذیب کو قرار دیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعوی ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں،تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی، معاشی بھی ہوتی ہیں اور معاشرتی بھی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوطائف کے سفرمیں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور وہ جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہر ادی اور وہ دوزخ میں چلا گیا، آخرت کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تودونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔

حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعوی ہے۔ ظاہر ہے کہ انبیا جس سطح پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخ رو نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انھیں یقیناًاللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماًبلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

 

آزمایش کی حکمت

سوال: قرآن کریم اور احادیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر آزمایش آنا دو علتوں پر مبنی ہے۔ ایک جب انسان مومن جادۂ حق سے انحراف کر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تنبیہ کی خاطر آزمایش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ دوسری جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی بندۂ مومن کا درجہ اونچا کرے تو اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے جیسے انبیا علیہم السلام کا حال ہے۔ براہ کرم اس موضوع پر قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں جواب دیں۔(وحدت یار)

جواب:آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں،اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیۂ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے، وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر، دونوں پہلووں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ یہ مومن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلووں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔

 _______________

B