[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:دنیا میں جرم کی سزا پانے کے حوالے سے امیر اور غریب میں اور صاحب اقتدار اور مجبور و بے کس میں فرق کیوں ہے؟(راجہ عبدالرحمن میمن)
جواب:خدا نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ چنانچہ اس نے اس میں یہ گنجایش رکھی ہے کہ یہاں اگر کوئی اپنے دائرۂ اختیار میں عدل کرنا چاہے تو وہ عدل کر سکے اور ظلم کرنا چاہے تو ظلم کر سکے ، نیکی کرنا چاہے تو نیکی کر سکے اور بدی کرنا چاہے تو بدی کر سکے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں صاحب اقتدار افراد عام طور پر اپنے متعلقین کو جرائم کی سزا پانے سے بچا لیتے ہیں، لیکن اسی دنیا میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض صاحب اقتدار افراد خدا سے ڈرتے ہیں اور وہ ایسا نہیں کرتے۔ خدا کے نزدیک یہ افراد اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ وہ انھیں اپنی جنت کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔ اس نے اسی مقصد کی خاطر یہ آزمایش گاہ بنائی ہے۔
چنانچہ آدمی کو پریشان ہونے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم خود اپنے دائرۂ اختیار میں خدا خوفی سے کام لے رہے ہیں یا نہیں، کیونکہ بس ابھی عدالت لگنے والی ہے اور ابھی فیصلہ ہونے والا ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا جا رہا ہے۔ ہر آدمی مسلسل اپنا اعمال نامہ لکھ رہا ہے، وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رک رہا، پھر جب موت کا فرشتہ آتا ہے تو وہ اپنا اعمال نامہ لکھنا بند کر دیتا ہے، بغیر کسی سے بات کیے چپ چاپ اس کے ساتھ چل دیتا ہے اور پھر وہ کبھی واپس نہیں آتا، پھر وہ کسی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ۔ ہر آدمی ایسے ہی کر رہا ہے۔ دنیا کی یہ کہانی کتنی عجیب ہے۔ بس لازم ہے کہ ہر آدمی اپنی فکر کرے۔
سوال: اس شخص کے بارے میں دین کیا کہتا ہے جو پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ رشوت بھی لیتا اور دھوکا بھی دیتا ہے؟(راجہ عبدالرحمن میمن)
جواب: حرام رزق کے ساتھ جو نماز پڑھی جاتی ہے، وہ اللہ کے ہاں قبولیت نہیں پاتی۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے جس عمل کے ساتھ بھی دل کی گہرائی کے ساتھ چپکا ہو، وہی عمل بالآخر دوسرے اعمال پر غلبہ پا لیتا ہے۔
یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس وقت اس شخص کی نماز سچے عابد کی نماز نہیں ہے، کیونکہ خدا کا سچا بندہ اپنے دل سے خدا کا فرماں بردار بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ شخص اپنے جرائم کو دل سے ناگوار جانتا، خود کو غلط قرار دیتا اور اللہ کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا ہے، تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کی نماز اس کی بد اعمالیوں پر غلبہ پا لے، یہ توبہ کر لے اور اچھے انجام کو پہنچے۔ البتہ، اگر معاملہ برعکس ہوا تو پھر توقع بھی برعکس ہی کی ہے،کیونکہ ارشاد باری ہے:
’’البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (البقرہ۲: ۸۱)
یعنی انسان خواہ کیسا ہی نمازی یا روزے رکھنے اور حج کرنے والا کیوں نہ ہو، اگر اس نے کسی ایک برائی کواس طرح اختیار کر لیا کہ وہ برائی اس پر چھا گئی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو اب اس کی سب نیکیاں برباد ہو جائیں گی اور وہ جہنم میں جائے گا۔
سوال: نفع و نقصان میں شراکت کے تصور سے کی گئی سرمایہ کاری پر ملنے والا منافع اگر سود نہیں تو بنک میں جمع شدہ رقم پر ملنے والے منافع کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے، جبکہ بنک کے دیوالیہ ہو جانے کا امکان ہوتا ہے اور ایسی صورت میں رقوم جمع کرانے والوں کو بنک کے ساتھ نقصان میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر بنک کے deposits ایک خاص حد سے کم ہو جائیں، تب بھی اکاؤنٹ ہولڈرز کو کچھ گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے، چنانچہ اس صورت میں یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ اکاؤنٹ ہولڈرز بنک کے نفع و نقصان میں شریک ہیں اور انھیں ملنے والا منافع سود نہیں ہے؟(محمد عامر چوہدری)
جواب:بنک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع و نقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا، بلکہ وہ انھیں ان کی جمع شدہ رقوم پر متعین مدت میں متعین اضافہ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی کو سود اور ربا کہتے ہیں۔
بنک کے دیوالیہ ہو جانے پر اکاؤنٹ ہولڈرز کی رقموں کا ٹوٹ جانا یا ان کو نقصان ہو جانا یا اس طرح کی بعض دوسری صورتوں میں انھیں گھاٹا پڑنا، کاروبار کا نفع و نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ بنک سے متعلق افراد پر آفات و حوادث کی صورت میں ہونے والے اثرات ہیں۔ بنک بہرحال، سودی نظام پر مبنی ادارہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کیا ہوتی ہے۔ وہ نفع و نقصان کی شرائط پر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، بلکہ سود کے اصول پر ان سے رقوم لیتا اور انھیں دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے خود کو دھوکا نہیں دیناچاہیے۔
اسی طرح وہ سب نیشنل سیونگ اسکیمیں جو متعین رقم پر متعین مدت میں متعین اضافہ دیتی ہیں، وہ بھی ظاہر ہے کہ سود ہی دیتی ہیں۔ اسلام کے نزدیک ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ رہا کسی کا انفرادی مسئلہ کہ اس کے پاس اس حرام سے فائدہ اٹھانے کا عذر موجود ہے، تو بے شک معذور اور مجبور آدمی اپنی ضرورت کی حد تک دل کے گریز اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
سوال:سنت کی تعریف میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ لوگوں کی اکثریت کیوں سنت کی کلاسیکل تعریف ہی کی قائل ہے، جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت کی تعریف اس سے مختلف ہے؟ (محمد علی سجاد خان)
جواب:پوری امت اس پر متفق ہے کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی طرف سے دین کے طور پر علم بھی دیا ہے اور عمل بھی، یہی علم و عمل صحابہ سے تابعین نے لیا اور پھر ان سے آگے یہ پوری امت میں پھیلا ہے۔چنانچہ اس پہلو سے علما میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
جب علما نے اس دین کو مدون کرنا شروع کیا تو اس وقت مختلف اصطلاحات کا مسئلہ پیدا ہوا، سنت کا لفظ بھی انھی اصطلاحات میں سے ایک ہے۔بعض علما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے اعمال کو سنت کا نام دیا، بعض نے آپ کی احادیث کو سنت کا نام دیا۔ غامدی صاحب کے نزدیک بطور اصطلاح سنت کے لفظ کو عملی تواتر سے ملنے والے ان دینی اعمال کے لیے بولا جانا چاہیے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں جاری کیا تھا۔ چنا نچہ وہ اصطلاحاً انھی کوسنت قرار دیتے ہیں۔
سنت کا یہی لفظ ایک دوسری اصطلاح کے طور پر بھی بولا گیا ہے، یعنی بعض علما نے ان نوافل کو بھی سنت کہا ہے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض کے بعد یا ان سے پہلے تطوعاً پڑھا ہے۔ اصطلاحاً سنت کا لفظ کس چیز پر بولنا چاہیے، اس میں محققین کی آرا مختلف ہو سکتی ہیں اور وہ مختلف ہیں۔ رہی یہ بات کہ انسانوں کی اکثریت سنت کی کلاسیکل تعریف ہی کی قائل کیوں ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنت کا لفظ اپنے جن اصطلاحی معنوں میں ایک لمبے عرصے سے بولا جاتا رہا ہے، ظاہر ہے کہ لوگ اسی کے قائل ہوں گے۔ غامدی صاحب نے سنت کو جن اصطلاحی معنوں میں بولا ہے، اگر امت کے نزدیک یہ زیادہ موزوں ہوئی تو ان شاء اللہ وہ اسے قبول کر لے گی۔
سوال:عدت سے کیا مراد ہے ؟ اس میں عورت پر کیا پابندیاں ہوتی ہیں؟بعض لوگ بڑی عمر کی خواتین کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟(فاروق عالم صدیقی)
جواب:عدت کا حکم سورۂ بقرہ کی درج ذیل آیات میں بیان ہوا ہے:
’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن انتظار کرائیں ۔ پھر جب اُن کی عدت پوری ہو جائے تو اپنے بارے میں جو کچھ دستور کے مطابق وہ کریں ، اُس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُسے خوب جانتا ہے۔ ‘‘ ( ۲: ۲۳۴)
عدت کا لفظ اصطلاح میں اس مدت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں بیوی شوہر کی طرف سے طلاق یا اس کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی ۔ یہ مدت اصلاً اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ عورت کے پیٹ کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے۔ شوہر کی وفات کی صورت میں یہ عدت چار ماہ دس دن ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں یہ عدت گزارتی ہے تو پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ یہ سارا عرصہ سوگ ہی کی کیفیت میں گزارے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’بیوہ عورت رنگین کپڑے نہیں پہنے گی،نہ زرد ، نہ گیروسے رنگے ہوئے۔ وہ زیورات استعمال نہیں کرے گی اور نہ مہندی اور سرمہ لگائے گی ۔‘‘ (ابو داؤد،رقم۲۳۰۴)
یہ عدت بڑی عمر کی خواتین کو بھی گزارنی ہو گی۔ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے اور بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہے۔
سوال:ہمارے ملک میں جو کاروبار بھی کیا جائے، اس کے لیے بنک سے سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔کیا سود دینا بھی اسلام میں اسی طرح ممنوع ہے جیسے کہ سود لینا؟(سلیمان)
جواب:بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا جائز ہے۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ شریعت نے سود کھانے یعنی سود لینے سے منع کیا ہے، سود دینے سے نہیں۔
حدیث میں سود کھلانے والے کو بھی سود لینے والے ہی کی طرح مجرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ سود کھلانے والا کون ہے۔ بعض علما نے سود دینے والے ہی کو سود کھلانے والا قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ سود کھلانے والا دراصل وہ ایجنٹ ہے، جو سود خور کے لیے گاہک لاتا، اس کی نمائندگی کرتا اور اس کے سودی نظام کو چلاتا ہے۔
سوال:کیا اسٹاک ایکسچینج میں بنکوں کے شیئر خریدنا حرام ہے، جبکہ ان کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں اور ان پر جو منافع دیا جاتا ہے وہ بھی کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے ؟ اس صورت میں کیا یہ نفع و نقصان جیسی چیز نہیں بن جاتی؟(سلیمان )
جواب:بنک ایک ایسا ادارہ ہے جو اصلاً سودی کاروبار کرتا ہے، یعنی وہ کچھ لوگوں سے سود کی کم شرح پر رقم لیتا اور دوسرے لوگوں کو وہی رقمیں سود کی زیادہ شرح پر دیتا ہے۔ یہی اس کا اصل کاروبار ہے اور اسی سے وہ اپنا منافع کماتا ہے۔ لہٰذا، اس کی کمائی بھی حرام ہے اور اس میں حصہ دار بننا بھی حرام ہے۔
جب آپ کسی بنک کے شیئر ہولڈر بنتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ اس کے مالکان میں سے ایک فرد ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ مارکیٹ میں بنک کے شیئرز کی قیمت کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ اور ان شیئرز پر جو منافع ہوتا ہے، وہ بھی یکساں نہیں رہتا۔ بہرحال، یہ شیئر ہولڈر بنک کے مالکان میں سے ہے اور وہ اپنے سودی ادارے سے اپنا نفع حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا، ہمارے خیال میں بنک کے شیئرز لینے سے ضرور بچنا چاہیے۔
سوال:قرآن مجید میں یہ کہا گیا ہے کہ تمھاری بیویوں اور تمھارے بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں۔اس بات کا کیا مطلب ہے؟(تلاوت شاہ )
جواب:قرآن مجید میں یہ بات ان الفاظ میں کہی گئی ہے:
’’اے ایمان والو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے لیے دشمن ہیں، تو ان سے بچ کر رہو، اور اگر تم انھیں معاف کرو گے، درگزر کرو گے اور بخشو گے تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے امتحان ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ (التغابن۶۴: ۱۴۔۱۵)
پہلی بات یہ ہے کہ ان آیات میں ازواج اور اولاد کے لیے دشمن کا لفظ حقیقی معنوں میں نہیں، بلکہ نتیجے کے حوالے سے بولا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان میں دراصل، انسان کو اس بڑی آزمایش سے متنبہ فرمایا گیا ہے کہ بعض اوقات خود اس کے بیوی اور بچے اسے خدا کے حقوق کی ادائیگی سے روکنے والے بن جاتے ہیں، خواہ وہ یہ کام خیر خواہانہ ذہن سے کر رہے ہوں یا آدمی خودان کی محبت میں خدا سے غافل ہو رہا ہو، بہرحال، دونوں صورتوں میں چونکہ اس کا نتیجہ اس کے لیے ہلاکت خیز ہوتا ہے، اس لیے ان کو دشمن کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان کی محبت میں گرفتار ہو کر خدا کے حقوق ہی سے غافل ہوجانے سے ضرور بچ کر رہے۔
سوال:شادی شدہ عورتوں کے ناک میں سوراخ کروا کر لونگ پہننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ ہندوؤں میں پائی جانے والی رسوم میں سے ہے؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر صبح فرشتے انسانوں کی دنیا میں آکر یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی لڑکی شادی شدہ ہے اور کون سی نہیں، اور وہ شادی شدہ لڑکی کو ناک کے اس لونگ ہی سے پہچانتے ہیں۔ اس بات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟(راشد محمود)
جواب:عورتوں کا اپنی زیب و زینت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوسری تہذیب سے غیر شرعی رسوم لینے سے منع کرتا ہے اور جو رسوم غیر شرعی نہیں ہیں، ان کو اپنا لینے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
ناک میں سوراخ کروا کر لونگ پہننا مسلمانوں نے خواہ ہندووں ہی سے لیا ہو، لیکن اب یہ خود بعض علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اسے اختیار کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ البتہ، فرشتوں کے شادی شدہ لڑکیوں کو پہچاننے کے حوالے سے جو بات آپ نے لکھی ہے، وہ محض افسانہ ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
________________