(گذشتہ سے پیوستہ)
نبی کی شخصیت انسانیت کا مظہر اتم اور اس کی دعوت انسان کی فطرت پر مبنی ہوتی ہے۔ تمام بھلائیوں کا سرچشمہ دو ہی چیزیں ہیں: ایک خدا کی یاد، دوسرے غریبوں کی ہمدردی۔ نبی خود بھی ان کا اہتمام کرتا اور دوسروں کو بھی انھی کی دعوت دیتا ہے۔ وہ لوگوں سے جو کچھ کہتا ہے، عقل و بصیرت کے آخری معیار پر کہتا ہے اور انھی چیزوں کے بارے میں کہتا ہے جن سے انسان غافل ہوتا یا انھیں بھلا بیٹھتا ہے۔ پھر اس کی نبوت کے پیچھے اخذ و اکتساب کا کوئی پس منظر بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس کو پہچاننے میں کسی سلیم الفطرت شخص کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ انسان کے دل و دماغ بیدار ہوں تو روے و آواز پیمبر معجزہ ست:
قُلْ: لَّوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ.(یونس۱۰: ۱۶)
’’کہہ دو کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا اور نہ وہ تمھیں اِس سے با خبر کرتا۔ (یہ اُسی کا فیصلہ ہے)، اِس لیے کہ میں تو ایک عمر تمھارے اندر گزار چکا ہوں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
تاہم اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بینات بھی عطا فرماتے ہیں کہ معاندین اگرچہ زبان سے اقرار نہ کریں، لیکن اس کی صداقت پر یقین کے سوا ان کے لیے بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ زمانۂ رسالت کے اہل کتاب سے متعلق قرآن نے اسی بنا پر ایک جگہ فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے مان لے گا کہ پیغمبر کی بات ہی حق تھی۔۶۰ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بینات ہر نبی کو اس کے زمانہ اور حالات کے لحاظ سے دی جاتی ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
۱۔ نبی بالعموم اپنے سے پہلے نبی کی پیشین گوئی کے مطابق اور اس کا مصداق بن کر آتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ کوئی اجنبی شخصیت نہیں ہوتا۔ لوگ اس سے متعارف بھی ہوتے ہیں اور اس کے منتظر بھی۔ مسیح علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ سیدنا یحییٰ نے ان کی بعثت سے پہلے یروشلم میں ان کی منادی کی تھی۔۶۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تورات و انجیل، دونوں میں بیان ہوئی ہے،۶۲ بلکہ سیدنا مسیح کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبی امی کی بشارت کے لیے آئے تھے۔ ۶۳ قرآن نے اپنی صداقت کے لیے اسے ایک برہان قاطع کی حیثیت سے پیش کیا ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اس کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح ایک مہجور باپ اپنے موعود و منتظر بیٹے کو پہچانتا ہے۔۶۴ اس کے معنی یہ تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خوب پہچانتے تھے:
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ، عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ، وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ، اَوَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمٰٓؤْا بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ. (الشعراء۲۶ :۱۹۲۔۱۹۷)
’’اور یہ نہایت اہتمام کے ساتھ عالم کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اسے روح الامین لے کر تمھارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم لوگوں کو خبردار کرنے والے بنو، صاف عربی زبان میں۔ اور اس کا ذکر اگلوں کے صحیفوں میں بھی ہے۔ کیا ان کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اس کو جانتے ہیں؟‘‘
۲۔ نبی جو کچھ خدا کی طرف سے اور خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اس میں کوئی تضاد و تخالف نہیں ہوتا۔ دنیا میں آخری درجے کا کوئی عبقری بھی، خواہ وہ سقراط و فلاطون ہو یا کانٹ اور آئن اسٹائن، غالب و اقبال ہو یا رازی و زمخشری اپنی تخلیقات کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن قرآن نے یہ بات اپنے بارے میں کہی ہے اور پورے زور کے ساتھ کہی ہے کہ ا س میں فکر و فلسفہ کے لحاظ سے کسی ادنیٰ تضاد اور اسلوب و انداز کے لحاظ سے کسی معمولی ارتقا یا تنزل کی نشان دہی بھی کوئی شخص نہیں کر سکتا:
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ، وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرًا.(النساء ۴ :۸۲)
’’اور کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، اور (نہیں دیکھتے کہ) اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ بڑے تضادات پاتے۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہو سکتے۔ وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے، وہ ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی الگ کر دیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہو جائے۔ وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے، وہ عقائدسے اس طرح پیدا ہوتی ہیں، جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں، وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے، وہ اپنے اصول سے اس طرح ظہور میں آتے ہیں، جس طرح ایک شے سے اس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں۔ اس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے، وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہو جائے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۳۴۷)
۳۔ نبی کو اللہ تعالیٰ معجزات و خوارق عطا فرماتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا مسیح کو جو غیر معمولی معجزات دیے گئے، ان کے بارے میں خود قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ وہ جن چیزوں پر دلالت کے لیے دیے گئے، ان میں سے ایک ان نبیوں کی رسالت بھی تھی۔ چنانچہ عصاے موسوی اور ید بیضا کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:
فَذٰنِکَ بُرْہَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَءِہٖ، اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْماً فَاسِقِیْنَ.(القصص۲۸: ۳۲)
’’سو یہ دو واضح نشانیاں ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جانے کے لیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ نافرمان لوگ ہیں۔‘‘
ان معجزات کو کوئی شخص سحر و ساحری یا علم و فن کا کمال کہہ کر رد نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ اس طرح کے علوم و فنون کی حقیقت اس کے ماہرین سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتااور وہ بھی ان کے سامنے اعتراف عجز پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے جن دو معجزات کا ذکر اوپر ہوا ہے، ان کا اثر مٹانے کے لیے فرعون نے یہی امتحان کیا تھا۔ قرآن کا بیان ہے کہ اس نے تمام مملکت میں ہرکارے بھیج کر ماہر جادوگر بلائے اور میلے کے دن انھیں مقابلے کے لیے پیش کر دیا۔ اس نے یہ اہتمام فتح کی توقع میں کیا تھا، لیکن ہوا یہ ہے کہ جادوگروں نے عصاے موسوی کو اپنا طلسم نگلتے دیکھا تو بے اختیار سجدہ ریز ہو گئے اور اعلان کر دیا کہ وہ موسیٰ و ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ ایمان چونکہ حقیقت کو بچشم سر دیکھ لینے سے پیدا ہوا تھا، اس لیے ایسا راسخ تھا کہ فرعون نے جب انھیں دھمکی دی کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سر عام سولی کے لیے لٹکا دوں گا تو وہی جادوگر جو چند لمحے پہلے بڑی لجاجت کے ساتھ اس سے انعام کی درخواست کر رہے تھے،۶۵ پکار اٹھے کہ ماہ نخشب اور خورشید جہاں تاب کا یہ فرق دیکھ لینے کے بعد اب ہمیں کسی چیز کی کوئی پروا نہیں ہے:
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ، وَالَّذِیْ فَطَرَنَا، فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ، اِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا. اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا، وَمَآ اَکْرَہْتَنَا عَلَیْْہِ مِنَ السِّحْرِ، وَاللّٰہُ خَیْْرٌ وَّاَبْقٰی.(طٰہٰ۲۰: ۷۲۔۷۳)
’’انھوں نے جواب دیا: ہم اُن روشن نشانیوں پر جو ہمارے پاس آئی ہیں اور اُس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے تم کو ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو، کرو۔ تم زیادہ سے زیادہ اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتے ہو۔ ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تونے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والاہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معجزہ اس حیثیت سے دیاگیا، وہ قرآن ہے۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت اور علم و ادب کی روایت سے واقف ادبی ذوق کے حاملین اسے پڑھتے ہیں تو صاف محسوس کرتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔ چنا نچہ ایک سے زیادہ مقامات پر اس نے خود اپنے مخاطبین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اسے خدا کا کلام نہیں مانتے تو اس کے مانند ایک سورہ ہی بنا کر پیش کردیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰیعَبْدِنَا، فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ، وَادْعُوْاشُہَدَآءَ کُم مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ، إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا، وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ، أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ. (البقرہ۲: ۲۳۔۲۴)
’’اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اُس کے بارے میں اگر تمھیں شبہ ہے تو (جاؤ اور) اِس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ، اور (اِس کے لیے) خدا کے سوا تمھارے جو زعما ہیں، انھیں بھی بلالو، اگر تم (اپنے اِس گمان میں) سچے ہو۔ پھر اگر نہ کر سکو اور ہرگز نہ کرسکوگے تو اُس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن یہ لوگ بھی ہوں گے (جو نہیں مانتے) اور ان کے وہ پتھر بھی (جنھیں یہ پوجتے ہیں)۔ وہ اِنھی منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
۴۔ اللہ تعالیٰ بعض ایسے امور غیب پر نبی کو مطلع کر دیتے ہیں جن کا جان لینا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی ایک مثال وحی الٰہی کی پیشین گوئیاں ہیں جو حیرت انگیز طور پر بالکل صحیح ثابت ہوئیں۔ ان میں سے بعض قرآن میں ہیں اور بعض کا ذکر روایتوں میں ہوا ہے۔ سرزمین عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ، فتح مکہ اور لوگوں کے جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہونے کی پیشین گوئی ہم اس سے پہلے تمہیدی مباحث میں ’’تجرباتی شہادت‘‘ کے زیرعنوان بیان کر چکے ہیں۔ ایرانیوں سے مغلوب ہوجانے کے بعد رومیوں کی دوبارہ فتح کی پیشین گوئی بھی ایسی ہی غیرمعمولی تھی۔ قرآن مجید میں یہ اس طرح بیان ہوئی ہے:
غُلِبَتِ الرُّوْمُ، فِیْٓ أَدْنَی الْأَرْضِ، وَہُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ، فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ، لِلّٰہِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ، وَیَوْمَءِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ، بِنَصْرِ اللّٰہِ، یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ، وَعْدَ اللّٰہِ، لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ، وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.(الروم۳۰: ۲۔۶)
’’رومی قریب کے علاقے میں مغلوب ہوگئے ہیں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد وہ چندسال کے اندر غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کے حکم سے ہوا ہے جو پہلے ہوا اور جو بعد میں ہوگا، وہ بھی اللہ کے حکم سے ہوگا۔ اور اُس دن مسلمان خوشیاں منائیں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے، مدد فرماتا ہے، اور وہ زبردست ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘
یہ پیشین گوئی جب کی گئی تو ’’زوال روما‘‘ کے مصنف ایڈورڈ گبن کے الفاظ میں: ’’کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعید ازوقوع نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے کہ ہرقل کے پہلے بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمہ کا اعلان کر رہے تھے۔‘‘۶۶ لیکن یہ ٹھیک اپنے وقت پر پوری ہو گئی اورمارچ ۶۲۸ میں رومی حکمران اس شان سے قسطنطنیہ واپس آیا کہ اس کے رتھ کو چار ہاتھی کھینچ رہے تھے اور بے شمار لوگ دارالسلطنت کے باہر چراغ اور زیتون کی شاخیں لیے اپنے ہیرو کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
۵۔ نبیوں میں سے جو رسول کے منصب پر فائز ہوتے ہیں، وہ خدا کی عدالت بن کر آتے اور اپنی قوم کا فیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اس کی صورت ہم اس سے پہلے تمہیدی مباحث میں بیان کر چکے ہیں کہ اللہ کے یہ پیغمبر اپنے پروردگار کے میثاق پر قائم رہتے ہیں تو اس کی جزا اور اس سے انحراف کرتے ہیں تو اس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا ان کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی قوموں کے لیے دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اور ان کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ، فَإِذَا جَآءَ رَسُولُہُمْ، قُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ، وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ.(یونس۱۰: ۴۷)
’’اور ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا وہ رسول آجائے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے، اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
————
۶۰ النساء ۴ :۱۵۹۔
۶۱ آل عمران ۳ :۳۹۔
۶۲ الاعراف۷ :۱۵۷۔
۶۳ الصف ۶۱ :۶۔
۶۴ الانعام ۶ :۲۰۔
۶۵الاعراف۷ :۱۱۳۔
۶۶ زوال روما ۷۴۔
——————————————