بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ، وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا، وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْبًا{۱}
لوگو، اپنے اُس پروردگار سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا ۱ اور اِن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیں۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے مدد چاہتے ہو۲ اور ڈرو رشتوں کے توڑنے سے۔ بے شک، اللہ تم پر نگران ہے۔۳ ۱
۱؎ اس مفہوم کے لیے اصل میں ’خلق منھا زوجھا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ انھیں سورۂ نحل (۱۶) کی آیت ’وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا‘(۷۲) کی روشنی میں دیکھیے تو ان کا ترجمہ یہی ہوسکتا ہے۔ اسے ’اس میں سے‘ یا ’اس کے اندر سے‘ کے معنی میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
۲؎ اصل میں لفظ ’تسآء لون‘ آیا ہے۔ اس کے معنی جس طرح ایک دوسرے سے پوچھنے اور سوال کرنے کے ہیں، اسی طرح ایک دوسرے سے مدد چاہنے کے بھی ہیں۔ یہاں یہ اسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
۳؎ اس سورہ میں جو ہدایات آگے دی گئی ہیں، یہ آیت ان کے لیے ایک جامع تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کے حقائق اپنی تفسیر میں بیان فرمائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں جس تقویٰ کی ہدایت کی گئی ہے، اس کا ایک خاص موقع ومحل ہے۔ اس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ یہ خلق آپ سے آپ وجود میں نہیں آگئی ہے، بلکہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے جو سب کا خالق بھی ہے اور سب کا رب بھی۔ اس وجہ سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کو ایک بے مالک اور بے راعی کا ایک آوارہ گلہ سمجھ کر اس میں دھاندلی مچائے اوراس کو اپنے ظلم وتعدی کا نشانہ بنائے، بلکہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس کے معاملات میں انصاف اور رحم کی روش اختیار کرے ،ورنہ یاد رکھے کہ خدا بڑا زورآور اور بڑا منتقم وقہار ہے۔ جو اس کی مخلوق کے معاملات میں دھاندلی مچائیں گے، وہ اس کے قہروغضب سے نہ بچ سکیں گے۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔
دوسری یہ کہ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم وحوا کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ نسل آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ اس پہلو سے عربی وعجمی، احمرواسود اور افریقی وایشیائی میں کوئی فرق نہیں، سب خدا کی مخلوق اور سب آدم کی اولاد ہیں۔ خدا اور رحم کا رشتہ سب کے درمیان مشترک ہے۔ اس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ سب ایک ہی خدا کی بندگی کرنے والے اور ایک ہی مشترک گھرانے کے افراد کی طرح آپس میں حق وانصاف اور مہرومحبت کے تعلقات رکھنے والے بن کر زندگی بسر کریں۔
تیسری یہ کہ جس طرح آدم تمام نسل انسانی کے باپ ہیں، اسی طرح حوا تمام نسل انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم ہی کی جنس سے بنایا ہے، اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر، فروتر اور فطری گنہ گار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔ اس کو حقیروذلیل مخلوق سمجھ کر نہ اس کو حقوق سے محروم کیا جاسکتا نہ کم زور خیال کرکے اس کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
چوتھی یہ کہ خدا اور رحم کا واسطہ ہمیشہ سے باہمی تعاون وہم دردی کا محرک رہا ہے۔ جس کو بھی کسی مشکل یا خطرے سے سابقہ پیش آتا ہے، وہ اس میں دوسروں سے خدا اور رحم کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہے اور یہ اپیل چونکہ فطرت پر مبنی ہے، اس وجہ سے اکثر حالات میں یہ موثر بھی ہوتی ہے۔ لیکن خدا اور رحم کے نام پر حق مانگنے والے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ان واسطوں پر حق مانگنا حق ہے، اسی طرح ان کا حق ادا کرنا بھی فرض ہے۔ جو شخص خدا اور رحم کے نام پر لینے کے لیے تو چوکس ہے، لیکن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے، وہ خدا سے دھوکا بازی اور رحم سے بے وفائی کا مجرم ہے اور اس جرم کا ارتکاب وہی کر سکتا ہے جس کا دل تقویٰ کی روح سے خالی ہو۔ خدا اور رحم کے حقوق پہچاننے والے جس طرح ان ناموں سے فائدے اٹھاتے ہیں، اسی طرح ان کی ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں اور درحقیقت حق طلبی وحق شناسی کا یہی توازن ہے جو صحیح اسلامی معاشرے کا اصلی جمال ہے۔ اسی حقیقت کی طرف ’وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ‘ کا ٹکڑا اشارہ کر رہا ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۴۶)
[ باقی]
ــــــــــــــــــــــــــ