HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

مذہب، اخلاقیات اور تعلیم

مذہب اور اخلاقیات کا باہمی تعلق کیاہے؟

انسان کی معلوم علمی تاریخ میں اخلاقیات کا بنیادی ماخذ ہمیشہ مذہب ہی رہا ہے۔ یہ مقدمہ کہ انسان اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے، سب سے پہلے مذہب ہی نے پیش کیا۔ اس لیے بیسویں صدی میں جب اس خیال کو قبولیت عام ملی کہ انسان کے جملہ معاملات کی اصلاح کے لیے تنہا عقل کی رہنمائی کفایت کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں لبرل اخلاقیات (Liberal Ethics) کے تصور نے جنم لیا۔ اس طرح انسان اپنی دانست میں وحی سے بے نیاز ہو گیا۔ اسی خیال کے زیر اثر آج ہمارے ہاں بھی بعض لوگ مذہب اور اخلاقیات کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک تعلیمی کانفرنس میں جب مذہبی تعلیم کے مسئلے پر جاوید احمد صاحب غامدی اور وزیراعظم شوکت عزیز صاحب نے اظہار خیال کیا تو بعض لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ وزیر اعظم مذہبی اور اخلاقی تعلیم کی یک جائی کے علم بردار ہیں اور محترم جاوید صاحب اس کے برخلاف دونوں کو الگ رکھتے ہیں۔ جہاں تک جاوید صاحب کا معاملہ ہے تو میں یہ بات بالاطمینان عرض کرتا ہوں کہ ان کی طرف اس بات کا انتساب درست نہیں۔ انھوں نے اس موضوع پر کئی بار قلم اٹھایا اور متعدد بار کلام کیا۔ مذہبی تعلیم اور اخلاقیات کے باب میں ان کے افکار کا حاصل اگر میں نکات کی صورت میں بیان کروں تو میرے فہم کی حد تک اس کی نوعیت کچھ اس طرح ہے۔

۱۔ مذہب کا بنیادی مقصد انسان کا تزکیہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ انبیا مبعوث فرماتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے آسمان سے کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسان کے اخلاقی وجود کی تعمیر مذہب کا مطمح نظر ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو اس طرح پاک کرے کہ وہ دوسری دنیا میں اللہ کی بادشاہی اور اس رضا کا مستحق قرار پائے جسے جنت کہتے ہیں۔

۲۔ مذہب کی تعلیمات ہمہ جہتی ہیں۔ ان تعلیمات کا ایک دائرہ تو وہ ہے جن کا تعلق ایمانیات اور عبادات سے ہے۔ ایک دائرہ وہ ہے جو اخلاقیات سے متعلق ہے اور ایک دائرہ معاملات سے بحث کرتا ہے۔

۳۔ مسلمان معاشرے میں ایک بچہ تین ذرائع سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اپنے گھر سے، ماحول سے اور درس گاہ سے۔ ایمانیات اور عبادات کی تعلیم وہ بالعموم گھر سے حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح اس کا سماجی ماحول بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتا ہے جس میں مسجد، محلہ، بزرگ اور امام و خطیب سب شامل ہیں۔ اس ضمن میں ایک کردار تعلیمی ادارے یا درس گاہ کا بھی ہے۔

۴۔ ایک بچہ جب اسکول میں داخل ہوتا ہے تو بالعموم اس کی عمر پانچ ساڑھے پانچ برس ہوتی ہے۔ یہ بچہ جب اسکول جانا شروع کرتا ہے تو یوں نہیں ہوتا کہ گھر اور ماحول جیسے فطری تعلیمی اداروں سے اس کا تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل حسب روایت جاری رہتا ہے، جہاں سے وہ ایمانیات اور عبادات وغیرہ کی تعلیم لے رہا ہوتا ہے۔ جہاں تک اسکول کی سطح پر مذہبی تعلیم کا تعلق ہے تو اس کا آغاز اخلاقیات سے ہونا چاہیے۔ یعنی پانچویں جماعت تک اسکول میں اسے مذہب کا وہ حصہ پڑھایا جائے جس کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔

۵۔ اخلاقیات ہماری مذہبی تعلیم کا وہ حصہ ہے جو دیگر مذاہب میں بھی اسی طرح سے موجود ہے۔ چنانچہ ایک بچہ جب اخلاقیات سے مذہبی تعلیم کا آغاز کرتا ہے تو اس کے لیے مذہب کوئی اختلافی معاملہ نہیں ہوتا۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ مذہب انسانیت کو ایک وحدت میں پروسکتا ہے۔ اسی طرح اسلام کا یہ حصہ خود اسلامی فرقوں میں بھی متفق علیہ ہے۔ اس لیے پانچویں جماعت تک نہ شیعہ دینیات کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ سنی دینیات کی ضرورت۔

۶۔ چھٹی جماعت سے قرآن مجید کی باضابطہ تدریس شروع کر دینی چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ابتدا عربی زبان کی تعلیم سے کی جائے اور ساتھ ہی قرآن مجید بطور ریڈر داخل نصاب ہو جائے۔ اس طرح جب ایک طالب علم بارھویں جماعت سے فارغ ہو تو قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھ چکا ہو اور یوں وہ کتاب اللہ کے متن سے براہ راست وابستہ ہو جائے۔

۷۔ اس کے بعد اختصاصی تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔ اب کوئی ڈاکٹر بنے یا انجینئر اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ساتھ ہی اچھا مسلمان بھی بنے گا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اگر کوئی دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس میدان میں اختصاص کر سکتا ہے۔ جس طرح چار چھ برس کی تعلیم کے بعد ایک فرد ڈاکٹر بنتا ہے، اسی طرح اتنے ہی عرصے کی اعلیٰ تعلیم کے بعد دین کا ایک عالم تیار ہو سکتا ہے۔

۸۔ یہ تعلیمی اسکیم اگر پیش نظر رہے تو اس سے نظام ہاے تعلیم کا تفاوت ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملا و مسٹر کی تقسیم باقی نہیں رہتی۔

اس باب میں جاوید صاحب کی جو پہلی مبسوط تحریر میری نظر سے گزری وہ مارچ ۱۹۸۸ میں لکھی گئی۔ اس وقت بھی انھوں نے نصاب میں جوہری تبدیلی لائے بغیر اسلامیات کو لازمی مضمون کے طور پر اس کا حصہ بنانے پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے لکھا:

’’دینیات کی تعلیم بے شک، اس (نصاب) میں لازم کر دی گئی ہے، لیکن کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر اس عنایت کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ یہ نصاب سراپا تضاد اور اس کے پڑھنے والوں کے دماغ دینی ولا دینی کی رزم گاہ بن گئے ہیں۔ ببول کے درختوں پر انگور کی بیل چڑھانے اور حکایت بادہ و جام سنانے کے بعد زمزم کے فضائل بیان کرنے سے جو کچھ حاصل ہو سکتا ہے، وہی اس نصاب میں دینیات کا پیوند لگانے سے حاصل ہوا ہے۔‘‘(مقامات۱۳۰)

گزشتہ اٹھارہ برس میں بہت سے دیگر معاملات کی طرح اس حوالے سے بھی جاوید صاحب کے خیالات میں ارتقا ہوا ہے، لیکن اس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع آج پہلی مرتبہ ان کے غورو فکر کا حصہ نہیں بنا، بلکہ برسوں سے وہ اس پر سوچ بچار کرتے آئے ہیں۔ اس سے یہ بھی جانا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک اخلاقیات اور مذہب کا باہمی تعلق کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ پوری بات اگر کسی نقد و جرح کا موضوع بنے تو اس سے ہمیں اپنے دور کے ایک اہم مسئلے کو سلجھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

 ________________

B