HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

حیا اور ایمان

(مسلم، رقم ۳۶)


عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ سَمِعَ النَبِّیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلاً یَعِظُ أَخَاہُ فِیْ الحَیَاءِ. فَقَالَ الْحَیَاءُ مِنَ الاِیْمَانِ.
’’حضرت سالم اپنے والدرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے بھائی کو حیا پرسمجھاتے ہوئے سنا تو فرمایا:حیا تو ایمان میں سے ہے ۔ ‘‘
بِہٰذِہِ الاِسْنَادِ مَرَّ بِرَجُلٍ مِنَ الاَنْصَارِ یَعِظُ اَخَاہُ ....
’’اسی سند سے (یہ روایت ان الفاظ میں بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم)انصار کے کسی آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کوسمجھارہا تھا...۔‘‘
لغوی مباحث

یعظ: ’ وعظ ‘ کا لفظی مطلب ’نصیحت‘ ہے، لیکن یہاں یہ اردو کے لفظ ’سمجھانے‘ کی طرح محل استعمال کے باعث منفی معنی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس روایت کے دوسرے متن میں اسی کے محل پر ’یعاتب‘، ’ڈانٹ رہا تھا‘ کے فعل سے واضح ہے کہ راوی کی مراد کیا ہے۔

معنی

اس روایت کا بنیادی مضمون پچھلی روایت میں ایک جز کی حیثیت سے زیر بحث آچکا ہے۔ ایمان کے مظاہر کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے اجزاقرار دیا ہے۔ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن مجید نے کلمۂ طیبہ کے ’اُکُل‘ (یعنی ثمرات )کی تعبیر اختیار کی ہے۔ ان تعبیرات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اخلاقی وجود جس اصل پر قائم ہوتا اور پھلتا پھولتا ہے، وہ ایمان ہے۔ ہم نے پچھلی روایت میں حیا کے بارے میں یہ وضاحت کی تھی کہ یہ انسان کے اندر ایک ملکہ ہے جو برائی ، غلطی اور گھٹیا پن سے نسبت کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے۔ایمان اس جذبے کا مؤید بھی ہے اور اس جذبے سے قوت بھی حاصل کرتا ہے۔ ویسے تو حیا کا سب سے نمایاں اظہار جنس کے معاملات میں ہوتا ہے، لیکن حیا ایک صالح انسان کی ایسی خصلت ہے جواسے ہر طرح کی معصیت کے ارتکاب سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا، حیا کا سب سے بڑا مظہر فواحش سے اجتناب ہے۔ فواحش سے اجتناب نیکیوں کا ایک پورا باب ہے ۔جس شخص میں حیا کا جذبہ زندہ ہے، وہ منکرات کے ایک پورے خاندان سے محفوظ ہو گیا۔ اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔

قرآن مجید میں برائیوں کے تین عنوان قائم کیے گئے ہیں۔ سورۂ نحل میں ہے:

یَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ.(۱۶ :۹۰)
’’اللہ تمھیں بے حیائی ،برے کاموں اور سرکشی سے روکتا ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’...اس (دین) کی منہیات میں وہ چیزیں داخلہیں جن کے اندر فحشا، منکر اور بغی کی روح فساد پائی جاتی ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۴ /۴۳۸)

ذرا تامل کی نگاہ ڈالیں، انسان کو فحش اور بغی سے بچانے میں حیا کے جذبے کی اہمیت بالکل واضح ہے۔ یعنی حیا کا جذبہ جس طرح بے حیائی کے قول وفعل سے رکنے میں مدد گار ہوتا ہے، اسی طرح ایک حیا رکھنے والا آدمی سرکش اور شر کے لیے جری بھی نہیں ہو سکتا۔ منکر کیا ہے، وہ اعمال جن کا برا ہونا سب پر واضح ہے۔ آدمی کا یہ جذبہ کہ اس کے ساتھ برائی کی نسبت نہ ہویہاں بھی اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے منکر کے ارتکاب سے بچا لیتا ہے۔غرض یہ کہ حیا کا جذبہ دین کے تمام مناہی کے معاملے میں خدا کی مرضی پر قائم رکھتا ہے۔اس لیے اس کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ روایت واضح کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ حیا کے جذبے کو نقصان پہنچے۔

متون

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کے دو متن منتخب کیے ہیں۔ ان میں اختلاف محض بیان واقعہ کے طریقے میں ہے۔ ایک میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو ڈانٹتے ہوئے سناتو اسے کہاکہ حیا ایمان سے ہے۔ دوسرے میں بیان ہوا ہے کہ حضور انصار کے ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو ڈانٹ رہا تھا تو آپ نے فرمایا...۔ عام طور پر یہ جملہ معمولی فرق کے ساتھ انھی دو طریقوں سے نقل ہوا ہے۔ دوسرا جملہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی کم وبیش انھی الفاظ میں نقل ہوا ہے۔ یعنی عام طور پر ’الحیاء من الایمان‘ کے الفاظ ہی میں حضور کی بات بیان ہوئی ہے۔ البتہ بعض راویوں نے اسی جملے میں ’شعبۃ‘ کا لفظ بھی شامل کیا ہے۔ بخاری میں اسی روایت کا قدرے تفصیلی متن منقول ہوا ہے:

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی رَجُلٍ وَہُوَ یُعَاتِبُ اَخَاہُ فِی الْحَیَاءِ. یَقُولُ: اِنَّکَ لَتَسْتَحْیِی.حَتَّی کَاَنَّہُ یَقُوْلُ: قَدْ اَضَرَّ بِکَ. فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: دَعْہُ، فَاِنَّ الْحَیَاءَ مِنَ الْاِیْمَانِ.(رقم۵۷۶۷)
’’ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو شرم کرنے پر ڈانٹ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا: تم بہت شرماتے ہو۔ گویا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تمھاری اسی خصلت نے تمھیں نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: اس کے پیچھے نہ پڑو کیونکہ حیا ایمان میں سے ہے۔‘‘

ان روایات سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات سرراہ صادر ہوئی تھی۔ لیکن معجم کبیر میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ لوگوں کے حضور کے پاس آنے کو بیان کرتا ہے:

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: جَاءَ قَوْمٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَاحِبِہِمْ. فَقَالُوا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، اِنَّ صَاحِبَنَا ہٰذَا قَدْ اَفْسَدَہُ الْحَیَاءُ. فَقَالَ النَبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ الْحَیَاءَ مِنْ شَرَاءِعِ الِاسْلَامِ وَاِنَّ البَذَاءَ مِنْ لُؤْمِ الْمَرْءِ.(رقم۱۰۵۰۶)
’’حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کو لے کر حاضر ہوئے۔ عرض کی: اے اللہ کے نبی، یہ ہمارا ساتھی، شرم نے اسے برباد کیا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا اسلام کے ضوابط میں سے ہے۔فحش گوئی آدمی کے لیے کلنک ہے۔‘‘
کتابیات

موطا، رقم ۱۶۱۱۔ بخاری، رقم۲۴، ۵۷۶۷۔ مسلم، رقم ۳۶۔ ابوداؤد، رقم۴۷۹۵۔ ترمذی، رقم۲۶۱۵۔ ابن ماجہ، رقم ۵۸۔ نسائی، رقم ۵۰۳۳۔ احمد، رقم۴۵۵۴، ۵۱۸۳، ۶۳۴۱۔ ابن حبان، رقم۶۱۰۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۶۴۔ بیہقی، رقم ۲۰۵۹۷۔ معجم کبیر، رقم۱۰۵۰۶۔

_________________

B