HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

انجیل کی زبان؛ ایک ناقدانہ جائزہ

محمد اسلم صدیق

[’’اشراق‘‘ دسمبر۲۰۰۵ میں ’’سریانی وارامی زبان کے بارے میں وضاحت‘‘ کے زیر عنوان المورد، ادارۂ علم وتحقیق کے فیلو جناب عبدالستار صاحب غوری کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ اس میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہونے والی اس رائے پر تنقید کی گئی تھی کہ: ’’انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘ ماہنامہ ’’محدث‘‘ نے مارچ ۲۰۰۶ کے شمارے میں اس تنقید پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’انجیل کی زبان؛ ایک ناقدانہ جائزہ‘‘ کے زیرعنوان ایک مضمون شائع کیا ہے۔ ’’محدث‘‘ کا یہ مضمون اور اس پر غوری صاحب کا تنقیدی مقالہ شامل اشاعت ہے۔ مدیر]


ماہنامہ ’الاعتصام‘ (۲تا۸؍ ستمبر۲۰۰۵ء) میں ایک سوال کے جواب میں حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے علامہ قسطلانی کے حوالہ سے سریانی زبان کے وجود کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ ’’انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘ جس پر المورد کے ریسرچ فیلو عبدالستار غوری صاحب نے ماہنامہ ’اشراق‘ (دسمبر۲۰۰۵ء) میں اس موقف کی تردید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ:

’’انجیل ابتدا ہی سے یونانی (Greek) زبان میں لکھی گئی تھی۔ جبکہ حضرت مسیح کی زبان ارامی (Aramaic) تھی اور انھوں نے اپنے مواعظ وبشارات اسی ارامی زبان میں ارشاد فرمائے تھے۔ لیکن ان کے جو ارشادات بائبل کے عہدنامہ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں (ارامی زبان میں) نہیں لکھے گئے تھے ... وہ شروع ہی سے یونانی زبان میں لکھے گئے تھے۔‘‘

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ:

’’جہاں تک دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ ’’انجیل سریانی زبان میں تھی‘‘ تو یہ بات سراسر غلط ہے۔‘‘(صفحہ۳۵)

زیرنظر سطور میں ہم پہلے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی انجیل کی اصل زبان آرامی تھی؟ اور پھر بتائیں گے کہ اناجیل کا سب سے پہلے یونانی زبان میں لکھے جانے کا دعویٰ کس حد تک درست ہے؟

علمی دنیا میں یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ جس انجیل کا ذکر قرآن مجید کے تقریباً ۱۲ مقامات پر ہوا ہے، اس سے مراد وہ اصل کتا ب یا الہٰی احکام ہیں جو حضرت عیسیٰ ؑ پر بذریعہ وحی نازل ہوئے تھے اور عہد نامہ جدید (New Testament) کی اناجیل کے فرضی مجموعے، وہ انجیل نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔ یہ انجیل اس وقت اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ اب یہ سوال کہ اس اصل انجیل کی زبان کیا تھی؟

اس بارے میں اس حد تک تو واضح ہے کہ انجیل کی اصل زبان وہی تھی جو حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی قوم کی زبان تھی، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: (وَمَا أرْسَلْنَا مِن رَّسُوْل اِلاَّ بِلِسَانِ قِوْمِہ) لیکن حضرت عیسیٰ اور ان کی قوم کی زبان کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اصل انجیل اب دنیا کے نقشہ پر موجود نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسا ٹھوس تاریخی ثبوت یا دستاویز موجود ہے جس سے حضرت عیسیٰ اور ان کی قوم کی زبان کا حتمی تعین کیا جاسکے۔ اس حوالہ سے اگر ہمارے پاس کچھ ہے تو وہ صرف بعض مغربی ماہرین اور مسلم محققین کی آرا ہیں جن میں کافی اختلاف پایا جاتاہے۔

ذیل میں اختصار کے ساتھ ان اختلافی آرا کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے:

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۵۰ء،۳؍۵۲۲) میں ہے کہ ’’مسیح اور آپ کے حواری نسلاً اور مذہباً اسرائیلی تھے اور ان کی مادری ومذہبی زبان عبرانی تھی یا مغربی آرامی۔‘‘ (Jesus، ص۴۸) امریکہ کے یونین کالج میں عبرانی کے پروفیسر Moss Buttenwieserکے بقول حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں آرامی زبان بولی جاتی تھی مغربی مفکر Renenکے نزدیک حضرت عیسیٰ کی مادری ، مذہبی اور وطنی زبان عبرانی آمیز سریانی تھی۔

نیز اردو دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) کے مقالہ نگارنے مادہ انجیل کے تحت لکھا ہے کہ انجیل کی زبان آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ تھی۔ علامہ بدرالدین عینی ؒ نے صحیح بخاری کی حدیث کے الفاظ ’کان ورقۃ بن نوفل یکتب الکتاب فیکتب من الانجیل بالعبرانیۃ‘ کے تحت لکھا ہے کہ :

قال التیمی: الکلام العبرانی ھوالذی أنزل بہ جمیع الکتب کالتوراۃ والانجیل ونحوھما وقال الکرمانی: فھم منہ ان الانجیل عبرانی، قلت: لیس کذلک، بل التوراۃ عبرانیۃ والانجیل سریانی.(عمدۃ القاری۱ / ۵۲)
’’امام تیمی کہتے ہیں کہ عبرانی وہ کلام (زبان) ہے جس میں تورات، انجیل وغیرہ کتب کو نازل کیا گیا تھا۔ امام کرمانی کہتے ہیں کہ اس سے سمجھ آتا ہے کہ انجیل عبرانی زبان میں تھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں، بلکہ تورات عبرانی میں تھی اور انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘

اور مولانا مودودی ؒ نے اپنی کتاب ’نصرانیت؛ قرآن کی روشنی میں‘ ص ۹۲ پر صاف لکھا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ اور ان کے تمام حواریوں کی زبان سریانی تھی۔‘‘

مذکورہ وضاحت کی روشنی میں انجیل کی اصل زبان کے متعلق پانچ آراء ہمارے سامنے آتی ہیں: عبرانی، سریانی، عبرانی آمیز سریانی، آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ۔ ان مختلف آرا سے کم از کم یہ بات توواضح ہوجاتی ہے کہ انجیل کی زبان کو آرامی قرار دینے کا جو بلندوبانگ دعویٰ کیا گیا ہے، وہ کوئی مسلمہ حقیقت نہیں رکھتا ۔

اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ ان میں سے کون سی رائے دلائل کی رو سے زیادہ قرین قیاس ہے؟

اس سلسلہ میں جب ہم زبانوں کی تاریخ اور ان مذکورہ آرا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو اصل انجیل کا آرامی زبان میں ہونے کا دعویٰ کسی طور بھی درست اور تاریخی تناظر سے ہم آہنگ معلوم نہیں ہوتا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلیوں کی اصل مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی۔ اور آرامی ایک شمال مغربی سامی Semticزبان تھی جو عبرانی سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ جب ایرانی شہنشاہ Cyprusنے بابلی سلطنت پر قبضہ کر لیا تو آرامی زبان کو ان اسرائیلیوں پر سرکاری زبان کے طور پر رائج کر دیا اور پھر آرامی زبان ان میں اس طرح رچ بس گئی کہ فلسطین کے علاقے یہودیہ Judaeaمیں تو یہ تقریباً ۷۰۰ سوسال تک یہودیوں کی مقامی روزمرہ کی زبان رہی اور یہودی فقہ تالمود کی بعض کتابیں بھی آرامی زبان میں لکھی گئی تھیں۔

جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ اسرائیلیوں کی اصل مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی۔ پھر جب ایرانی شہنشاہ Cyprusکے بابلی سلطنت پر تسلط کی وجہ سے آرامی زبان کو سرکاری سرپرستی میں ان پر نافذ کردیا گیا تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ محکوم عبرانی زبان اس بیرونی آرامی زبان کے اثرا ت سے محفوظ نہیں رہ سکتی تھی۔ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عبرانی اور آرامی زبان کے اس باہم امتزاج سے سریانی زبان پروان چڑھی اور حضرت عیسیٰ کی آمد سے پہلے اسرائیلیوں میں رائج ہوگئی اور بعد میں آرامی کی ایک شاخ کے طور پر متعارف ہوئی۔

تاریخ کے اس تناظر میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور ان کے حواریوں کی مادری زبان نہ تو خالص عبرانی تھی اور نہ ہی آرامی، بلکہ وہ عبرانی اور آرامی آمیز سریانی تھی اور یہی درحقیقت انجیل کی اصل زبان تھی جسے Renen نے عبرانی آمیز سریانی سے تعبیر کیا ہے۔ اور خود المورد کے فیلو نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’ارامی ایک وسیع زبان ہے... سریانی درحقیقت آرامی کی ذیلی بولی (Dialect)ہے۔‘‘

نیز انجیل کی زبان آرامی اس لئے بھی نہیں ہوسکتی کہ یہ خالص غیر اسرائیلیوں کی زبان تھی جسے ایرانی بادشاہ Cyprus نے ان پر مسلط کر دیا تھا۔ اسرائیلی اس مسلط کردہ زبان کو اپنی مذہبی زبان کے طور پر قطعاً قبول نہیں کر سکتے تھے، لہٰذا اس زبان کو انجیل اور حضرت عیسیٰ کی مذہبی زبان بنایا جانا قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ اور جن لوگوں نے اسے آرامی قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بعد میں سریانی زبان آرامی کی ذیلی بولی یا اس کی شاخ کے طور پر معروف ہوگئی تھی اور بعض لوگوں نے اس شاخ کو اصل سے تعبیر کردیا۔ شاید محکومیت کا اثر تھا کہ سریانی اپنا الگ تشخص قائم نہ کر سکی۔

حقیقت یہ ہے کہ سریانی اس دور کی ابھرتی ہوئی زبان تھی۔ پھر بعد میں انجیل کے اس زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے اسے مسیحیوں کی مذہبی زبان کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی، جس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک یہ ارض مقدس کے تمام علاقوں کی روزمرہ، بول چال اور عوامی رابطوں کی زبان بن چکی تھی۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیسائی وفود آتے تو ان سے گفتگو اور تبلیغ میں مشکل پیش آتی جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو سریانی سیکھنے کا حکم فرمایا۔ تو گویا سریانی زبان کے ان علاقوں میں پھیل جانے کے پیچھے بنیادی محرک یہی تھا کہ یہی انجیل کی اصل زبان تھی اور عیسائیوں کی مذہبی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی تھی، جیسا کہ خود ’اشراق‘ کے مضمون نگار نے بھی لکھا ہے کہ

’’یہ (سریانی) اس علاقے میں حضرت عیسیٰ کی آمد سے پہلے بھی رائج تھی۔ ۴۵۱ء کی کونسل کے مباحث کے بعد ارامی بولنے والے اکثروبیش تر مسیحیوں نے سریانی کواپنی کلیسائی اور ثقافتی زبان کے طور پر اختیار کرلیا۔ اس سے ان کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب وثقافت کو بازنطینی اثرات سے بچا سکیں۔‘‘

یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیحیوں کو اپنے مذہب وثقافت کو بازنطینی اثرات سے بچانے کی فکر آخر کیوں دامن گیر ہوئی؟ اس کی وجہ یقیناً یہی تھی کہ مسیحیوں کا مذہبی اور ثقافتی ورثہ (انجیل) سریانی زبان میں تھا، اسی لئے ہی تو انہوں نے سریانی زبان کو اپنی کلیسائی اور ثقافتی زبان کے طور پر اختیار کیا تھا۔ اور آرامی زبان تو بازنطینی حکومت کی زبان تھی اور جسے عیسائی دنیا اپنے مذہب وثقافت کے لئے خطرہ سمجھ کر ترک کر رہی تھی، اسی زبان میں ان کی مذہبی کتاب انجیل کا نازل ہونا انتہائی تعجب خیز معلوم ہوتا ہے۔ انجیل جو عیسائی مذہب وثقافت کا مصدروماخذ تھی، اگر آرامی زبان میں نازل ہوئی ہوتی تو عیسائی دنیا کبھی اس کے اثرات سے اپنے مذہب کو بچانے کی فکر نہ کرتی، بلکہ اسے مقدس سمجھ کر بام عروج تک پہنچاتی۔ تو خود اشراق کے مضمون نگا ر کی مذکورہ عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ انجیل کی اصل زبان آرامی نہیں، بلکہ سریانی تھی۔

چنانچہ صحیح بخاری کے شارح بدرالدین عینی ؒ نے واضح طور پر انجیل کی زبان کو سریانی قرار دیا ہے، لکھتے ہیں ’لیس کذلک بل التوراۃ عبرانیۃ والانجیل سریانی.‘

اس کے علاوہ مغربی مفکر Renen،مولانا مودودی اور اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار کی عبارات بھی اسی موقف کی ہم نوائی کر رہی ہیں۔ اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسیحی سوسائٹی Watch Tower کی مطبوعہ بائبل، طبع نیویارک کے دیباچے (ص viii) میں بھی مذکور ہے کہ ’’اصل انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘

افسوس! اگر المورد کے محترم فیلو نے ’’کسی متعلقہ صاحب علم یا متعلقہ کتب سے رجوع‘‘ کیا ہوتا جو شاید ’’اتنا دشوار نہ تھا‘‘ تو وہ ہرگز ’’علامہ قسطلانی ؒ جیسے فاضل محقق‘‘ کے اس جملے کہ انجیل سریانی زبان میں تھی کو ’’سراسر غلط‘‘ قرار نہ دیتے اور نہ ہی اس قدر علمی تفوق اور احساس برتری سے لبریز لب ولہجہ میں علامہ قسطلانی اور مولانا مدنی کو متعلقہ صاحب علم یامتعلقہ کتب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔

ایک ایسا مسئلہ جو متعلقہ اہل علم کے درمیان بھی اختلافی ہے اور کوئی ایسا ٹھوس تاریخی ثبوت یا دستاویز بھی موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ انجیل کی اصل زبان آرامی تھی، کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا اور مخالف کی رائے کو سراسر غلط قرار دینا انتہائی غیر معروضی انداز تحقیق ہے جو استشراقیت وجدت کے علمبردار ’المورد‘ کے ’علما‘ کو ہی لائق ہے۔

پھر افسوس ناک امر یہ ہے کہ مقالہ نگار نے اپنی ’’اس تحریر کو جان بوجھ کر حوالوں سے گرانبار‘‘ کرنا تو مناسب نہیں سمجھا، لیکن طنز وتعلّی اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں تین چار صفحات سیاہ کر دیے ہیں، اگر وہ اس سلسلہ میں کوئی ایک مستند حوالہ یا کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت پیش کردیتے تو قارئین کے لیے تحقیق کی راہ آسان ہوجاتی۔

اس کے علاوہ غوری صاحب کا مولانا مدنی کو علامہ قسطلانی ؒ پر اندھا اعتماد کرنے کا طعنہ دینا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ مولانا سے جو سوال کیا گیا تھا، وہ محض اسی قدر تھا کہ ’’کیا سریانی نام کی کسی زبان کا وجود ہے؟‘‘ اور اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے علامہ قسطلانی کی عبارت سے استدلال کر کے بتایا کہ ہاں سریانی زبان کا وجود ہے۔ اس حد تک آپ کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ مولانا کے پیش نظر یہ تحقیق ذکر کرنا تھا ہی نہیں کہ انجیل کی زبان کیا تھی؟ پھر انہیں متعلقہ کتب یا اہل علم سے رجوع کا مشورہ چہ معنی دارد۔ اس نوعیت کے سوال جواب سے ایک نئی بحث کا آغاز کرلینا جو سائل کا مطلوب ومقصود بھی نہیں، اشراق کے تحقیق کار کا عجب طرز عمل ہے!

اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ غوری صاحب نے اس مسئلہ پر دلائل دینے کی بجائے بات کو مزید آگے پھیلاتے ہوئے سارا زور تحقیق اس بات پر صرف کردیا کہ عیسیٰ کے جو ارشادات بائبل کے عہد نامہ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں ، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں لکھے گئے تھے... ان کی ابتدا ہی یونانی ترجمہ سے ہوئی... وغیرہ وغیرہ حالانکہ نہ علامہ قسطلانی نے اس بحث کو چھیڑا ہے اور نہ مولانا مدنی نے اس طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور پھر یہاں بھی وہی بے لچک اور غیر معروضی انداز تحقیق جیسے یہ ایک ’مسلَّمہ حقیقت‘ ہے اور اس میں کسی دوسری رائے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

اب ہم اس بات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ ان کا یہ دعویٰ کس حد درست ہے کہ اناجیل ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں؟

حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ان کے حواری اور ابتدائی متبعین یونانی زبان جانتے تھے۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے Jewish Ency۹؍۲۴۷ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ Papiasجو دوسری صدی میلادی کے اوائل کا ماخذ ہے، بتاتا ہے کہ متی نے مسیح کے ملفوظات کا مجموعہ کسی تاریخی ترتیب کے بغیر عبرانی (یا آرامی ) زبان میں تیار کیا تھا اور مرقس نے متفرق طور پر پطرس حواری سے جو کچھ سنا تھا، اسے مرتب کیا۔ اور ظاہر ہے کہ پطرس کی زبان بھی یونانی نہیں تھی، بلکہ عبرانی اور آرامی آمیز سریانی ہی تھی تو واضح ہوا کہ متی اور مرقس کے صحیفے یونانی زبان میں نہیں لکھے گئے۔ نیز اردو دائرہ معارف اسلامی کے مقالہ نگار نے The Birth of Chri, Alfred Loisey Religionص ۳۶۶ تعلیقہ۶۰ کے حوالہ سے لکھا کہ یوحنا کی انجیل آرامی میں تحریر تھی۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ۳؍۵۲۴ کے مقالہ نگار کے مطابق اناجیل کے مآخذ کی بحث میں جو اکثر Q کا ذکر آتا ہے، اس کے بارے میں F.C.Burkittنے بڑی دانش مندی سے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ Qکا اصل نسخہ آرامی زبان میں تھا۔ نیز اس نے یہ لکھاہے کہ ’محرف مسیحی ادب‘ میں ایک انجیل یہودیہہے، یہ مغربی آرامی زبان میں تھی اور یہ انجیل مسیحیوں کے ابتدائی فرقوں میں سے ناصریوں اور ابیاتیوں میں دوسری صدی کے نصف ۱۵۰ء تک رائج رہی، بعد میں ان فرقوں کی تباہی کے ساتھ یہ انجیل بھی گم ہوگئی۔ اور یونانی تراجم کی ابتدا یقیناًاس کے بعد ہوئی۔ (تفصیل: Procryphal Literatureزیرمادہ Echp-brit)

’اشراق‘ کے مضمون نگار کی تردید اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ آج سے تقریباً تین سو سال قبل انجیل برناباس کاجو نسخہ دریافت ہوا، وہ اطالوی زبان میں تھا اور اس کے اوپر لکھا ہوا تھا کہ یہ برناباس حواری کی لکھی ہوئی انجیل ہے ۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ’عیسائیت کیا ہے؟‘ (ص ۱۷۱ تا ۱۹۲) میں تفصیل سے اس انجیل کا تعارف پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اس انجیل کا درجہ اسناد بائبل کے کسی بھی صحیفے سے کم نہیں ہے۔ یہ انجیل حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد ابتدائی دور کی ہے اور یونانی تراجم کی ابتدا یقیناًاس کے بعد ہوئی ہے۔

اگرچہ بعض لوگوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ عہد نامہ جدید کے جو قدیم ترین اجزا اب تک دستیاب ہوئے ہیں، وہ یونانی زبان میں ہیں ۔ اگر اس دعویٰ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس سے یہ مطلب کشید کر لینا کہ ’’حضرت عیسیٰ ؑ کے جو ارشادات انجیلوں او دیگر تحریروں میں درج ہیں... (ان کے لکھے جانے کی) ابتدا ہی یونانی ترجمہ سے ہوئی۔‘‘ قطعاً درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں اس بات کا واضح امکان موجود ہے کہ اصل اناجیل ضائع ہو گئیں اور موجودہ یونانی نسخے ان کا ترجمہ یا ترجمہ درترجمہ ہیں، نیز برناباس حواری کی انجیل کی دستیابی ہی اشراق کے مضمون نگار کے دعویٰ کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے!!

_________________

B