بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَقَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ کَانُوْا غُزًّی، لَّوْ کَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا، وَمَا قُتِلُوْا لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ، وَاللّٰہُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ{۱۵۶} وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اَوْمُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃٌ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ{۱۵۷} وَلَئِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَااِلَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ{۱۵۸}
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ، وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ، وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ، وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ، فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ{۱۵۹} اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ، وَاِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ بَعْدِہٖ، وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ{۱۶۰}
وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ، وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ، وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ{۱۶۱} اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰہِ کَمَنْ بَآئَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ، وَمَاْوَاہُ جَہَنَّمُ، وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ{۱۶۲} ہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰہِ، واللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ{۱۶۳} لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ، یَتْلُوْا عَلَیْْہِمْ اٰیٰتِہٖ، وَیُزَکِّیْہِمْ، وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ، وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ{۱۶۴}
ایمان والو، اُن منکروں کی طرح نہ ہوجائوجن کے اعزہ واقربا کبھی سفر پر جاتے ہیں یا کسی جنگ کے لیے نکلتے ہیں (اور اُن کو موت آجاتی ہے) تو اُن کے بارے میں ۲۳۵ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے۔ یہ اِس لیے کہ اللہ اِس چیز کو اُن کے دلوں کی حسرت بنا دے، ۲۳۶ (ورنہ حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی مارتا اور جلاتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، وہ اللہ کی نگاہوں میں ہے۔ اور (اِس پر مزید یہ کہ) اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جائو گے یا مرو گے تو اللہ کی جو رحمت اور بخشش تمھیں حاصل ہوگی، وہ اُس سے کہیں بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں۔ اور (یہ بھی کہ) تم مرو یامارے جائو، تم کو سمٹ کر جانا بہرحال اللہ ہی کی طرف ہے۔ ۲۳۷ ۱۵۶ ــ۱۵۸
سو یہ اللہ کی عنایت ہے ۲۳۸ کہ تم اِن کے لیے بڑے نرم خو واقع ہوئے ہو۔ اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ اِس لیے اِن سے درگزر کرو، اِن کے لیے مغفرت چاہو اور معاملات میں اِن سے مشورہ لیتے رہو۔ ۲۳۹ پھر جب فیصلہ کرلو تو اللہ پر بھروسا کرو، ۲۴۰ اس لیے کہ اللہ کو وہی لوگ پسند ہیں جو اُس پر بھروسا کرنے والے ہوں۔ (یاد رکھو کہ) اگر اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی تم پر غلبہ نہیں پاسکتا اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اِس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرے گا؟ اور اِیمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ۲۴۱ ۱۵۹ ــ۱۶۰
(یہ سمجھتے ہیں کہ اِس جنگ کے لیے باہر نکل کر پیغمبر نے اِن سے بدخواہی کی ہے۔ ہرگز نہیں)، یہ کسی پیغمبر کے شایان شان ہی نہیں کہ بدخواہی کرے اور (اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو کوئی بد خواہی کرے گا، قیامت کے دن وہ اپنی اِس بدخواہی کے ساتھ ہی حاضر ہوگا۔ پھر ہر شخص کو اُس کی کمائی کا پوراپورا بدلہ مل جائے گا اور اِن کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔ کیا وہ جو خدا کی خوش نودی چاہے، وہ اُن لوگوں کی طرح ہوجائے گا جو خدا کی ناراضی لے کر لوٹے اور جن کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے؟ اللہ کے نزدیک اِن کے درجے الگ الگ ہوں گے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ ۲۴۲ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تو مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ اُن کے اندر خود اُنھی میں سے ایک رسول اٹھایا ہے ۲۴۳ جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا ہے اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے ۲۴۴ اور اِس کے لیے اُ ن کو قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ ۲۴۵ اور اس میں شبہ نہیں کہ اِس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔ ۲۴۶ ۱۶۱ ــ۱۶۴
۲۳۵؎ اصل میں ’قالوا لاخوانھم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ل‘ اسی طرح کا ہے، جس طرح سورۂ احقاف کی آیت ’وقال الذین کفروا للذین اٰمنوا‘ * میں آیا ہے۔
۲۳۶؎ اور اس طرح ان کے اس وہم کی سزا انھیں دنیا ہی میںدے دے کہ اپنی تدبیروں سے وہ موت کو ٹال سکتے ہیں۔
۲۳۷؎ یہ آیات جس رویے کو اختیارکرنے کی تلقین کرتی ہیں، اس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے:
’’...یہ آیت تہور کی دعوت نہیں دے رہی ہے، بلکہ اس حقیقت سے آگاہ کر رہی ہے کہ فرائض سے فرار زندگی بچانے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ آدمی کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ جو فرض جب عائد ہوجائے، پورے عزم وجزم کے ساتھ اس کو ادا کرے اور یہ یقین رکھے کہ موت اس وقت آئے گی، جب اس کا وقت مقرر ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھے کہ اداے فرض کی راہ میں مرنا اس دنیا کی زندگی اور اس زندگی کے تمام اندوختوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۲۰۷)
۲۳۸؎ اصل میں ’فبما رحمۃ من اللّٰہ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ما‘ ہمارے نزدیک جملے کے آہنگ کو قائم رکھنے کے لیے آگیا ہے۔
۲۳۹؎ اس سے پہلے منافقین پر جو تنقید کی گئی ہے، اس کا اثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں پر یہ پڑ سکتا تھا کہ سب کا رویہ ان کے بارے میں سخت ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرحلے میں یہ پسند نہیں کیا۔ چنانچہ بطور التفات فرمایاہے کہ اس سے پہلے بھی جو کریمانہ طرز عمل آپ نے اختیار کیے رکھا ہے، وہی صحیح تھا اور اب بھی آپ کی یہ روش قائم رہنی چاہیے تاکہ جن کے اندر اصلاح پذیری کی ادنیٰ گنجایش بھی باقی ہے، وہ اپنے آپ کو درست کرلیں۔ اس کے ساتھ ایک مزید ہدایت یہ فرمائی ہے کہ حسب سابق ان سے مشورہ بھی کرتے رہیے، اس لیے کہ مسلمانوں کی جماعت سے ان کے الگ کردینے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ ان کی مہلت باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ آجانے تک ان کے معاشرتی حقوق اسی طرح قائم رہنے چاہییں، جس طرح ہمیشہ سے قائم ہیں۔
اس ہدایت کا موقع یہی ہے، لیکن اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ارباب حل وعقد کے لیے عام حالات میں پسندیدہ طریقہ نرمی، چشم پوشی اور عفوودرگزر ہی کا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اسی سے افراد میں حسن ظن اور اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے اجتماعی نظام میں وحدت، قوت اور استحکام کی برکتیں ظہور میں آتی ہیں۔ سختی اور سخت گیری اس کی فطرت میں نہیں، بلکہ اس کے عوارض میں سے ہے۔ جس طرح صحت کے لیے اصل شے غذا ہے، لیکن کبھی کبھی کسی مرض کے علاج کے لیے دواکی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، اسی طرح اجتماعی نظام میں اصل چیز نرمی ہے، سختی کبھی کبھی ضرورت کے تحت اختیار کرنی پڑتی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۱۰)
۲۴۰؎ یعنی مشورے کے بعد جب فیصلہ کر لوتو اس کی پروا نہ کرو کہ ان میں سے کون تمھارا ساتھ دیتا ہے اور کون نہیں دیتا۔ ان کی بات مانی جائے یانہ مانی جائے، دونوں صورتوں میں یہ نازک سے نازک موقع پر تمھیں چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ اس کی فکر نہ کرو، تمھارے لیے اللہ اور سچے ایمان والے ہی کافی ہیں۔
۲۴۱؎ یعنی اصلی چیز اللہ پر بھروسا ہے۔ یہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اسباب ووسائل کی حیثیت بندۂ مومن کے لیے ہمیشہ ثانوی ہوتی ہے۔
۲۴۲؎ یہ منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انھوں نے احد کی شکست کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا اور جس کے ذریعے سے مسلمانوں کے اندر بددلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...الزام یہ تھا کہ ہم نے تو اس شخص پراعتماد کیا، اس کے ہاتھ پر بیعت کی، اپنے نیک وبد کا اس کو مالک بنایا، لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان ومال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کررہے ہیں۔ ہم نے تو واضح طور پر یہ مشورہ دیاتھا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، لیکن انھوں نے ہمارے مشوروں کی اور ہمارے بھائیوں کی جانوں کی کوئی قدروقیمت نہ سمجھی اور ان کو ایک بالکل نامناسب مقام میں لے جا کر دشمن سے تہ تیغ کرادیا، یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری وبے وفائی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۱۱)
۲۴۳؎ یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے یہ رسول انھی کے اندر سے اٹھایا ہے تا کہ کسی نوعیت کی کوئی اجنبیت ان کے اور اس رسول کی دعوت کے مابین رکاوٹ نہ بنے اور اس کی آواز کو یہ خود اپنے ضمیر کی آواز کی طرح پہچانیں اور سنیں۔
۲۴۴؎ یہ اسی احسان کا دوسرا پہلو ہے کہ اس رسول کے ذریعے سے جو دعوت پیش کی جارہی ہے، وہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پاکیزہ بنانے کی دعوت ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر ان کے حق میں نصح وخیر خواہی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس مفہوم کے لیے عربی زبان کا جو لفظ قرآن نے اختیار کیا ہے، وہ تزکیہ ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی۔ انبیا علیہم السلام انسانوں کو جس قانون وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس سے یہ دونوں ہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔
۲۴۵؎ اصل میں ’یعلمھم الکتاب والحکمۃ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’الکتاب‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے، اسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’الحکمۃ‘ جب اس طرح عطف ہو کر آتے ہیں تو ’الکتاب‘ سے شریعت اور ’الحکمۃ‘ سے دین کی حقیقت اورایمان واخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں۔
۲۴۶؎ یہ احسان کا تیسرا پہلو ہے کہ جن لوگوں میں اس پیغمبر کی بعثت ہوئی ہے، وہ گمراہیوں میں بھٹک رہے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا اور گمراہی سے نکال کر ہدایت کی سیدھی راہ پر گامزن کردیا۔
اس مفہوم کے لیے اصل میں ’وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ان‘ درحقیقت ’انّ‘ ہے جس پر ’ل‘ دلالت کررہا ہے۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــ
* ۴۶: ۱۱۔