بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
قُلِ: اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ، تُؤْتِی الْمُْلْکَ مَنْ تَشَآئُ، وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ، وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ، اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۲۶} تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ، وَتُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ، وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ، وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ، وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ{۲۷}
لَایََتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ، اِلَّا ٓاَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً، وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ، وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ{۲۸} قُلْ: اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ، اَوْتُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ، وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ، وَمَا فِیْ الْاَرْضِ، وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۲۹} یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا، وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْئٍ، تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَبَیْنَہٗ اَمَدًا بَعِیْداً، وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ، وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ بِالْعِبَادِ.{۳۰}
قُلْ: اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ، فَاتَّبِعُوْنِیْ، یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ، وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ {۳۱} قُلْ: اَطِیْعُوااللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ، فَاِنْ تََوَلَّوْا، فَاِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ.{۳۲}
( اِن کا عہد تمام ہوا،اِ س لیے اب ) تم دعا کرو کہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک، توجس کو چاہے، بادشاہی دے اور جس سے چاہے، یہ بادشاہی چھین لے ؛ اور جس کوچاہے، عزت دے اورجس کو چاہے،ذلیل کردے۔ تمام خیر تیرے ہی اختیار میں ہے۔ بے شک، توہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۴۷ (ہم جانتے ہیں کہ )تو رات کودن میں اور دن کو رات میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور (جانتے ہیں کہ ) تو مردے سے زندہ کو اور زندہ سے مردے کو نکالتا ہے۔ ۴۸ اورجس کو چاہتا ہے، بے حساب روزی عطا فرماتا ہے۔ ۴۹ ۲۶۔۲۷
(یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اِن اہل کتاب کے لیے عنقریب صادر ہو جائے گا، اِس لیے ) ایمان والے اب مسلمانوں کو چھوڑ کر اِن منکروں کواپنا دوست نہ بنائیں ۵۰ اور (یاد رکھیں کہ ) جو یہ کریں گے، اللہ کو اُن سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ ہاں ، مگر یہ تہدید اُس صورت کے لیے نہیں ہے کہ تم اُن سے بچو، جیسا کہ بچنے کا حق ہے۔۵۱ اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتاہے اور(اِس لیے ڈراتا ہے کہ ایک دن تمھیں ) اللہ ہی کی طرف لوٹناہے ۔ ۵۲ اِن ( مسلمانوں ) سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے، ۵۳ تم اُسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ اُسے جانتا ہے، اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، اُسے بھی جانتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس دن ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکی سامنے پائے گا اور اُس نے جو برائی کی ہوگی، اُسے بھی دیکھے گا، ۵۴ اُس دن وہ تمنا کرے گا کہ کاش اُس کے اور اِس (دن )کے درمیان ایک مدت حائل ہوجاتی۔ (یہ اللہ کی نصیحت ہے) اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور (اِس لیے ڈراتا ہے کہ ) اللہ اپنے بندوں کے لیے بڑا مہربان ہے۔۵۵ ۲۸۔۳۰
اِن سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتومیری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اورتمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور (تم جانتے ہوکہ ) اللہ بخشنے والاہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۵۶ کہہ دو کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر (اِس کے بعد بھی) یہ منہ موڑیں تو( اِنھیں بتادو کہ ) اِس طرح کے منکروں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ ۵۷ ۳۱۔۳۲
۴۷؎ یہ بظاہر ایک دعا ہے، لیکن غور کیجیے تو اس میں بنی اسمٰعیل کے لیے ایک عظیم بشارت چھپی ہوئی ہے، اس لیے کہ یہ دعا صاف اشارہ کررہی ہے کہ تمام خیر کے مالک، پروردگار عالم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دنیا کی بادشاہی بنی اسمٰعیل کو دے دی جائے گی اوربنی اسرائیل کی کوئی مخالفت بھی اس فیصلے کو تبدیل نہ کرسکے گی۔ ان کے لیے ذلت ہی ذلت ہے ۔چنانچہ وہ اس دنیا میں اب اگر رہیں گے تو بنی اسمٰعیل کے محکوم ہو کر رہیں گے، اس کے سوا جینے کی کوئی دوسری صورت ان کے لیے باقی نہیں رہی۔
پھر یہی نہیں، اس بشارت کے ساتھ ایک عظیم نصیحت بھی اس میں پوشیدہ ہے کہ بنی اسمٰعیل اس بادشاہی کواپنے استحقاق کا کرشمہ سمجھ کر فخرو غرور کے ساتھ قبول نہ کریں، بلکہ تواضع، فروتنی اوراحساس عبدیت کے ساتھ قبول کریں، اس لیے کہ تمام خیر اللہ ہی کے ہاتھ میںہے، اوریہ محض اس کی عنایت ہے کہ اس نے دنیا کی سب قوموں میں اس کا سزوارانھیں قرار دیا ہے۔
۴۸؎ یہ اسی بات پر جواوپر بیان ہوئی ہے، آفاق کی شہادت ہے کہ لوگ اسے کوئی دورکی چیز نہ سمجھیں ،جس طرح دن سے رات، رات سے دن، اورموت سے زندگی اورزندگی سے موت نمودار ہوتی رہتی ہے، اسی طرح قوموں کے لیے عزل و نصب، عزت وذلت اور موت وحیات کے فیصلے بھی صادر ہوتے رہتے ہیں۔ بنی اسمٰعیل اور بنی اسرائیل کی موت وحیات کی طرف جواشارہ اس تمثیل میں کیا گیا ہے، اس کی وضاحت استاذ اما م امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے:
’’حضرت ابراہیم نے جو پودا فلسطین کی سر سبز و شاداب زمین میں لگایا تھا، اب وہ سوکھ چکا تھا اور جیسا کہ حضرت یحییٰ نے فرمایا، اس کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا تھا۔ اس کے برعکس انھوں نے جو پودا عرب کی خشک اوربنجر زمین میں لگایا تھا،اور جو مرجھایا ہوا پڑا تھا ، اب اس میں شگوفے نکل رہے تھے اور جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا: وہ ایک تناور درخت بن کر ایک عالم کو اپنے سایے کی پناہ میں لینے والا تھا۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۶۵)
۴۹؎ یعنی اتنا دیتا ہے کہ اس کی کوئی حدونہایت نہیں رہتی اوروہاں سے دیتا ہے، جہاں سے کسی کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔
۵۰؎ یہ ان مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے جو اپنے ایمان کے تقاضوں کو سمجھنے میں ابھی پوری طرح یک سو نہیں تھے، اور اس مرحلے پر بھی، جبکہ یہود و نصاریٰ کے لیے اللہ کا فیصلہ صادر ہونے والا تھا، نہ صرف یہ کہ ان کی طرف میلان رکھتے تھے، بلکہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں میں ان کے آلۂ کار بن جاتے تھے۔ اس میں ’من دون المومنین ‘ (مسلمانوں کو چھوڑ کر ) کی قید اس لیے لگائی ہے کہ یہ دوستی اگراسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف نہ ہو تو اس کی ممانعت اس وقت بھی پیش نظر نہیں تھی۔
۵۱؎ اصل میں ’الاان تتقوا منہم تقۃ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جملہ ’ فلیس من اللّٰہ فی شیئ‘ سے استثنا ہے اور اس میں ’تقۃ ‘ بالکل اسی طری مفعول مطلق کے طور پر استعمال ہوا ہے جس طرح اسی سورہ کی آیت ’اتقوا اللّٰہ حق تقتہ‘ (۱۰۲) میں ہے۔
۵۲؎ یہ انھی کمزور اورمنافق قسم کے مسلمانوں کو تنبیہ ہے جن کا ذکر اوپرہوا ہے۔ استاذامام لکھتے ہیں:
’’(اس) میں منافقین کے لیے تنبیہ کا ایک خاص پہلو ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کی کریمی سے دھوکے میں پڑ کے اس کی ذات کے دوسرے پہلووں کو نظر انداز نہ کرجاؤ۔ وہ اگر شرارتوں سے درگزر کرتا ہے، سازشوں کو نظر انداز کرتا ہے اور ریشہ دوانیوں کا فوراً نوٹس نہیں لیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ جرائم اس کے نزدیک جرائم نہیں یا وہ ان جرائم پر گرفت نہیں کرسکتا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بندوں کوآخری حد تک مہلت دیتا ہے۔ یہ مہلت بہرحال مہلت ہے جو ایک دن ختم ہونی ہے۔ اس کے بعد اس کا عدل ظہور میں آئے گا اور یہ عدل بھی اس کی ذات ہی کا ایک پہلو ہے۔یہ اگر ابھی ظہور میں نہیں آیا ہے تو اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ یہ ظہورمیں آئے گا ہی نہیں۔ خدا کے کاموں میں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ جب اس کی ذات کا یہ پہلو سامنے آئے گا تو ہر شخص پر کھل جائے گا کہ اس سے زیادہ زورآور، اس سے زیادہ بے لاگ اور اس سے بڑا منتقم وقہار کوئی بھی نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۶۸)
۵۳؎ اشارہ ہے ان میلانات کی طرف جو یہ مسلمان یہود ونصاریٰ کے لیے اپنے دل میں رکھتے تھے۔
۵۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’ماعملت من سوئ‘۔ ان میں’ محضراً‘ کا لفظ محذوف ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ’ماعملت من خیر ‘ میں یہ موجود ہے۔ چنانچہ عربیت کے اسلوب پر اس دوسرے ٹکڑے میں اسے حذف کر دیا ہے۔
۵۵؎ یعنی اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں کے لیے بڑا مہربان ہے اورقیامت کے دن ان کو برے نتائج سے بچانا چاہتا ہے، اس لیے وہ اپنے آپ سے ان کو بار بار ہوشیار کررہا ہے کہ وہ اس کی ڈھیل سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جب پکڑے گا تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہوگی، اس سے نکلنا کسی کے لیے ممکننہ رہے گا ۔
۵۶؎ یہ ان مسلمانوں کووہ صحیح رویہ سکھایا ہے جو سچے مسلمان کی حیثیت سے انھیں اختیار کرنا چاہیے۔
۵۷؎ نہایت سخت الفاظ میں یہ اس بات کا اعلان ہے کہ یہ لوگ سیدھے سیدھے اللہ اور رسول کی اطاعت کریں، ورنہ ان کو بھی انھی منکروں میں شامل سمجھا جائے گا جن سے یہ دوستی رکھتے ہیں۔
اس میں اوراس سے پہلے کی آیت میں جو باتیں خاص طورپر ملحوظ رکھنے کی ہیں، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہیں:
’’ایک یہ کہ ان دونوں آیتوں کا لب ولہجہ الگ الگ ہے۔ پہلی آیت میں شفقت ہے اور دوسری میں تنبیہ، بلکہ تہدید۔ گویا درشتی ونرمی بہم دربہ است۔
دوسری یہ کہ ایمان کی اصل روح اللہ کی محبت ہے اور اس محبت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے جو اس کے ضد ہو۔
تیسری یہ کہ اللہ سے محبت کرنے کا واحد راستہ رسول کی پیروی ہے۔ اس سے ہٹ کر جوراستے نکالے گئے ہیں، وہ سب بدعت وضلالت ہیں۔
چوتھی یہ کہ خدا کی محبوبیت کا راستہ بھی رسول کی پیروی ہی ہے۔ اگر کسی شخص کی زندگی رسول کی سنت سے منحرف ہو اور وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ خدا کا محبوب ہے یا دوسرے اس کو محبوب خدا سمجھیں تو یہ بالکل خبط ہے۔
پانچویں یہ کہ دین کا کم سے کم مطالبہ اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ پور ا کرنے سے اعراض اختیار کرتا ہے تو اس کا شمار دین کے منکروں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت نہیں رکھتا۔ ‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۷۱)
[باقی]
ـــــــــــــــــــ