HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

ہندوستانی انتخابات اور پاکستان

دور جدید میں انسانی حقوق، فرد کی آزادی اور جمہوریت وغیرہ جیسی اقدارکو ایک غیر معمولی تقدس حاصل ہوگیا ہے ۔ ان شعبوں میں بہتر کارکردگی دکھانے والی اقوام ہی دنیا میں مہذب کہلاتی ہیں۔ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کا ریکارڈ باقی شعبوں کے معاملے میں جیسا بھی ہو،کم از کم جمہوریت کے شعبے میں ،اس کی کارکردگی بلاشبہ قابل تعریف رہی ہے۔اس کا ایک نمونہ ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں دنیا کے سامنے آیا۔ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ۔ اس میں انتخابات کا مرحلہ بڑا طویل اور دشوار گزار ہوتا ہے ، مگر انتخابی عمل، نتائج، انتقال اقتدار اور نئی حکومت کی تشکیل کے مراحل جس طرح بخیر و خوبی طے ہوئے اور اس پورے عمل میں جمہوری روایات سے وابستگی اور اصول پسندی کا جو مظاہرہ کیا گیا ، اس کو دنیابھر نے تحسین کی نگاہوں سے دیکھا۔

ہمارے ہاں بھی ان انتخابات اور ان کے نتائج پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ان تبصروں کا سب سے نمایاں پہلو پاکستان کی سیاسی صورت حال کا ہندوستان کے سیاسی حالات سے تقابل ہے۔بالخصوص ان کے قائدین نے اس موقع پر اقتدار کے بجائے اصولوں کو ترجیح دینے اور ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کے جس کردار کا مظاہرہ کیا، اس آئینے میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کا چہرہ جو پہلے بھی بہت خوش نما نہ تھا، مزید دھندلا ہو کر سامنے آیا ہے۔

جمہوریت کے معاملے میں ہمارے حال اور ماضی قریب وبعید پر لگے سیاہ دھبے اس طرح واضح ہیں کہ ان کی شرح و وضاحت کے لیے صفحات سیاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ مستقبل میں جمہوریت کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہو گا ۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت ، عملیت پسندی کے نام پر جو روایات قائم کررہی ہے ، وہ کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں ہیں ۔ ہم پوری خیر خواہی کے جذبے سے حکومتی حلقوں کو یہ باور کرانا چاہیں گے کہ ان روایات سے کوئی خیر جنم نہیں لے گا۔اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس طرح ملک میں کوئی بے غرض سیاسی قیادت جنم نہیں لے گی۔ اس طرح ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔

بلاشبہ خارجی اور معاشی محاذ پر حکومت کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ اس کی تحسین بھی کی جانی چاہیے، مگر اصلاً یہ حکومت کے ادارے کی نہیں ،بلکہ کچھ افراد کی ذاتی صلاحیتوں اور اتفاقی طور پر جنم لینے والے بعض بین الاقوامی حالات کا نتیجہ ہے۔ قوموں کی کامیابی کا انحصار حالات و افراد پر نہیں ، بلکہ اداروں اور نظام پر ہوتا ہے۔حالات بدل جاتے ہیں۔ افراد رخصت ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد قوم کی نیا پھر اسی منجدھار میں ڈولنے لگتی ہے جہاں سے نکالنے کے لیے کوئی حوصلہ مند جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتا ہے۔یہ اداروں کا استحکام اور اعلیٰ روایات کا فروغ ہے جو سیاسی تسلسل اور نتیجۃً ملکی ترقی و استحکام کا ضامن ہوتا ہے۔اگر ملک کی کوئی خدمت کرنی ہے تو اسی کے لیے کام کیجیے۔دنیا کی نگاہوں میں باعزت مقام اور زبردست معاشی ترقی کی نوید قوم پہلے بھی سن چکی ہے اور اسے بھی نہیں بھولی جو اس سب کے بعد رونما ہوا ۔

حزب اختلاف میں موجود جماعتیں بھی ہمارے سیاسی عدم استحکام کو پیدا کرنے کا سبب رہی ہیں۔ نوے کی دہائی میں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو ایک سے زیادہ دفعہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا ، مگر ان کی عدم برداشت، جمہوری روایات سے عدم وابستگی اور مفاد پرستی نے عوام کو سیاسی عمل سے مایوس کر دیا۔ اس پر مستزاد وہ بدانتظامی اور بدعنوانی تھی جس کے چرچے دنیا بھر میں عام ہوگئے۔چنانچہ جب سیاسی نظام کی بساط لپیٹی گئی تو عوام کی طرف سے کوئی مزاحمت سامنے نہ آئی۔ضروری ہے کہ آج وہ اقتدار سے دور ہیں تو ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ان کا وہ کیا طرز عمل تھا جس نے یہ صورت حال پیدا کی۔وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ سہی ادراک ہی کرلیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں خیر کی کوئی صورت پیدا ہو سکے گی۔

ہمارے سیاسی المیوں کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں سیاست کے شعبے میں ان جاگیرداروں کا تسلط رہا ہے جو محض اپنے رئیسانہ شوق کی تکمیل اور مفادات کے تحفظ کے لیے میدانِ سیاست میں اترے۔ایسے لوگوں سے کسی اصول پرستی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جاگیرداری کا زور ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ لوگ زرعی اصلاحات نہ بھی ہونے دیں تب بھی شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگر عوام الناس اپنی ذمہ داریوں کوسمجھیں اور ووٹ کی طاقت کو درست طور پر استعمال کریں تو آنے والے دنوں میں حالات بتدریج بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ہمارے ہاں سیاست سے مایوس ہو کر انتخابات کے موقع پر گھر بیٹھنے کی روش بلاشبہ بہت بڑی غلطی ہے۔ووٹ ڈالنا ایک مذہبی ذمہ داری ہے۔ یہ حق کی شہادت ہے جو اگر مانگی جاتی ہے تو اس سے مفر ممکن نہیں رہتا۔یہ شہادت اگر بلا کسی تعصب اور ذاتی مفاد سے اٹھ کر ادا کی جائے گی تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اس کے صلے میں ایک بہتر قیادت سامنے آجائے گی۔

آج بلاشبہ ہماری سیاسی صورت حال ناقابل رشک ہے، مگر سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہماری قوم کے باشعور اورفہمیدہ عناصر نے اس صورت حال کو قبول کرنے سے قطعی انکار کردیا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان کے ان انتخابات نے ہمارے سوچنے والے اذہان پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، ان کے نتیجے میں یقیناً ہمارے اندر جمہوریت کا شعور پختہ ہوگااور خود کو بہتر بنانے کی خواہش مضبوط ہوگی۔جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں نہ سہی ، مگر مستقبل بعید میں پاکستان میں بھی ایک قابل رشک صورت حال، ان شاء اللہ ،جنم لے گی۔جمہویت کے نتیجے میں بننے والا پاکستان، جمہوریت کے راستے پر چل کر ہی ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔

____________

B