(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث:۱۲۰۔۱۲۱)
عن ابی نضرۃ رضی اﷲ عنہ أن رجلا من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقال لہ: أبو عبد اللّٰہ دخل علیہ أصحابہ یعودونہ وہو یبکی. فقالوا لہ: ما یبکیک؟ ألم یقل لک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : خذ من شاربک ثم أقرہ حتی تلقانی؟ قال: بلی. ولکن سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن اللّٰہ عزوجل قبض بیمینہ قبضۃ وأخری بالید الأخری. وقال: ہذہ لہذہ.وہذہ لہذہ.ولا أبالی. ولا أدری فی أی القبضتین أنا.
ٌٌ’’حضرت ابو نضرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک کے پاس جنھیں ابو عبداللہ کہتے ہیں ، ان کے احباب عیادت کے لیے آئے اور وہ رو رہے تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے یہ نہیں فرمایاتھا :اپنی مونچھیں کاٹو، پھر اسی طریقے پر قائم رہو، یہاں تک کہ مجھ سے ملو۔ انھوں نے جواب دیا: کیوں نہیں؟ لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے (نسل انسانی کے ایک حصے کو) ایک مٹھی اور دوسرے (حصے کو) دوسری مٹھی میں لیا اور کہا: یہ اس (جنت) کے لیے ہے اور یہ اس(جہنم) کے لیے ہے اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اور میں نہیں جانتا کہ میں ان دونوں میں سے کس مٹھی میں تھا۔‘‘
دخل علیہ :یہ فعل جب ’علی‘ کے صلے کے ساتھ آتا ہے تو اس سے اس شخص سے ملاقات کے لیے آنا مراد ہوتا ہے۔ محض داخل ہونے کے معنی اگر پیش نظر ہوں تو اس کے ساتھ ’فی ‘آتا ہے اور اگر ’فی ‘ نہ ہو تو اسے محذوف سمجھا جاتا ہے۔
أقرہ : ’ قرر‘ سے باب افعال سے امر ہے۔ یعنی اسے قائم رکھ۔
قبض بیمینہ قبضۃ : یعنی کچھ ذریت آدم کو اپنی دائیں مٹھی میں لیا۔ یہ اسلوب بیان اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اہل جنت اور اہل جہنم الگ الگ کیے گئے تھے۔ اس کی حقیقت طے کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ذرائع نہیں ہیں۔
یہ روایت مسند احمد سے لی گئی ہے اور اسے صرف امام احمد ہی نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔مسند احمد کے ہمارے پیش نظر نسخے اور جس نسخے سے صاحب مشکوٰۃ نے اسے لیاہے ،اس کے الفاظ میں بھی فرق ہے۔ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ اس فرق کی وجہ نسخوں میں فرق ہے۔ مسند احمد میں یہ روایت تین جگہ آئی ہے اور تینوں کے الفاظ میں معمولی نوعیت کے فرق ہیں۔ بنیادی طور پر روایت ایک ہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امام احمد نے اسے جن دو راویوں سے لیا ہے ، وہ دونوں حماد سے روایت کرتے ہیں اور حماد سے اوپر اس روایت کی سند ایک ہی ہے۔
بہرحال پیش نظر روایت میں آغاز صحابی کے تعارف سے ہوا ہے ۔ جب کہ دوسری دو روایتوں کا آغاز ایک صحابی کے بیمار ہونے کی اطلاع سے ہوا ہے۔دوسرا نمایاں فرق آخری جملے کے بیان میں ہے۔ اس روایت میں یہ جملہ اختصار کے اسلوب میں ہے ، جبکہ بعض روایات میں اسے تفصیل کے اسلوب میں نقل کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ہاتھ کے لوگوں کا معاملہ الگ جملے میں اور دوسرے ہاتھ کے لوگوں کا معاملہ الگ جملے میں بیان ہوا ہے۔اس کے علاوہ فرق صیغوں یا حروف عطف وغیرہ کے ہیں۔ مثلاً محولہ روایت میں’ وہو یبکی‘ ہے جبکہ دوسری روایت میں یہ ’فبکی‘ کے اسلوب میں آیا ہے۔اسی طرح بعض روایتوں میں آخری جملہ’ ولا أدری ، فلاأدری‘ یعنی حرف عطف ’ف ‘کے ساتھ آیا ہے۔ایک روایت میں ’اقر ‘کا امر اپنی دوسری صرفی صورت میں یعنی ’اقرر ‘ بھی آیا ہے۔
اس روایت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ صحابی رسول عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اضطراب سے متعلق ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گروہ صحابہ کی دوسری امتیازی خصوصیات بھی ہیں ، لیکن سب سے بڑھ کر قابل رشک ان کی آخرت کے معاملے میں فکرمندی ہے۔ یہاں تک وہ صحابہ جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بخشش کی خبر دے دی گئی اور جنھیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کی نوید ملی ، وہ بھی آخرت کے معاملے میں کسی بے فکری میں مبتلا نہیں ہوئے۔
اس حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جملے ’ ثم أقرہ حتی تلقانی ‘ کو ایک پیش گوئی کی حیثیت سے لیا گیا ہے۔اس جملے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موت تک مونچھوں کو پست رکھنے کی تلقین کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ لیکن’حتی تلقانی‘ کی تعبیر سے یہ نکتہ سمجھا گیا ہے کہ اگر تم ایسا کرتے رہے تو مجھے جنت میں ملو گے۔یہ ایک دلچسپ بات ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر کے کلام کے بارے میں صحابہ کا انداز فکر کیا تھا۔
دوسرا حصہ نسل آدم کے زمین پر آباد کیے جانے سے پہلے اہل جنت اور اہل جہنم کی تعیین کو بیان کرتا ہے ۔ اس حصے سے یہ تاثر بھی ہوتا ہے کہ یہ تعین کسی اصول پر نہیں ہوا۔
قرآن مجید اس طرح کے کسی بیان یا اس نوع کے کسی واقعے کی طرف اشارے سے بھی خالی ہے۔ عہد الست کے واقعے کے ساتھ بھی اس نوعیت کے کسی واقعے کی موزونیت سمجھ میں نہیں آتی۔ اس روایت کے الفاظ جس طرح کی جبریت منوا رہے ہیں ، اس کے پیش نظر اس روایت کو درست ماننا ناممکن ہے۔ممکن ہے صرف علم الہٰی کو بیان کیا گیا ہو جسے یہ شکل دے دی گئی۔
مسند احمد، رقم۱۶۹۳۲، ۱۶۹۳۳، ۱۹۷۴۸۔
____________
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: أخذ اﷲ المیثاق من ظہرآدم بنعمان یعنی عرفۃ فأخرج من صلبہ کل ذریۃ ذرأہا. فنثرہم بین یدیہ کالذر، ثم کلمہم قبلا. قال: ألست بربکم؟ قالوا: بلی شہدنا. أن تقول یوم القیامۃ إنا کنا عن ہذا غافلین. أو تقول: إنما أشرک آباؤنا من قبل وکنا ذریۃ من بعدہم. أفتہلکنا بما فعل المبطلون؟
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشتوں سے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر عہد لیا تھا۔ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے وہ ساری نسل نکالی جس کو اس نے پھیلایا ہے۔ پھر اسے اپنے سامنے دانوں کی طرح بکھیر دیا۔ پھر اس سے روبرو بات کی: کیا میں تمھارا آقا نہیں ہوں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں؟ ہم گواہ ہیں۔ (یہ عہد ہم نے نہ لیا ہوتاتو ہو سکتا تھا)کہ تم قیامت کے دن کہتے: ہم تو (توحید کی) اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ یا یہ کہتے : شرک تو اس سے پہلے ہمارے بڑوں نے کیا تھااور ہم ان کے بعد کی نسل تھے۔ کیا آپ اس (جرم)کی پاداش میں ہلاک کریں گے جو اہل باطل نے کیا تھا؟‘‘
ظھرآدم: لفظی مطلب ہے : آدم کی پشت۔ جس طرح اردو میں پشت کا لفظ نسل کے معنی میں آتا ہے ،اسی طرح اس جملے میں’ظہر‘ کا لفظ نسل آدم کے لیے آگیاہے۔
نعمان: صاحب مرقاۃ نے اس لفظ کے بارے میں مختلف آرا نقل کی ہیں۔ لکھتے ہیں: جوہری کے نزدیک اسے فتح کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور یہ طائف کے راستے کی ایک وادی ہے جو عرفات کی طرف نکلتی ہے۔ قاموس میں ہے : ایک وادی جو عرفات کے پیچھے ہے اور یہ ’نعمان اراک‘ ہے۔ نہایہ میں ہے : عرفہ کے قریب ایک پہاڑجسے اس کی بلندی کی وجہ سے ’نعمان سحاب ‘ کہتے ہیں ۔ راوی نے عرفہ کا لفظ اس کے قرب کی وجہ سے کہا ہے۔
قبلا: یہ حال ہے اور اس کا مطلب ہے آمنے سامنے۔
یہ روایت صرف مسند احمد میں ہے۔ کسی دوسری کتاب میں اس روایت کا کسی دوسرے طریق سے کوئی متن روایت نہیں ہوا۔ مسند احمد اور مشکوٰۃ کے متن میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
روایت کا زیادہ حصہ قرآن مجید کے بیان سے متعلق ہے۔ یعنی عہد الست کے موقع پر جو مکالمہ اللہ تعالیٰ اور نسل آدم کے مابین ہوا اور اس کا جو حصہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ،اسے بعینہٖ یہاں نقل کر دیا گیا ہے۔ دوباتیں البتہ اس میں اضافی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ عہد عرفہ کے مقام پر لیا گیا۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور ذریت آدم ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے یعنی ان کے مابین کوئی آڑ یا رکاوٹ نہیں تھی۔
قرآن مجید میں انسان کی دوموتوں اور دوزندگیوں کا ذکر ہوا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاﷲِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.(۲: ۲۸)
’’تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو، دراں حالیکہ تم مردہ تھے، اس نے تمھیں زندگی دی، پھر وہ تمھیں مارے گا، پھر زندہ کرے گا۔ پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جب اس کا بدن اور جان یک جا ہوتے ہیں۔ اسے قرآن زندگی قرار دیتا ہے۔ دوسری یہ کہ جب بدن نہیں ہوتا، یا بدن سے روح نکال لی جاتی ہے۔ اسے قرآن موت قرار دیتا ہے ۔ شہدا کے بارے میں قرآن مجید کی تصریح سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس حالت میں بھی زندگی کی ایک کیفیت ۱ ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ عہد الست کا واقعہ بھی حیات کی اسی حالت میں لیا گیا تھا۔ ہم نہیں جان سکتے کہ اس حالت میں ہمارے دیکھنے ، سمجھنے اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی نوعیت کیا ہے۔ لہٰذا یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ذریت آدم آمنے سامنے ہوں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی نفی کی گئی ہے، لیکن اس کا تعلق ہماری ان مادی آنکھوں سے ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ ہی یہ ہیں کہ’ لاتدرکہ الابصار‘اسے تمھاری یہ آنکھیں نہیں پا سکتیں۔
دوسری بات عرفہ سے متعلق ہے۔ روایت میں بیان کی گئی اس بات کی تصدیق وتصویب کا کوئی دوسرا ذریعہ ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ بائیبل اور قرآن مجید میں بنص صریح اس بارے میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی ۔البتہ قرآن مجید کے اس بیان سے کہ میں زمین میں صاحب ارادہ واختیار مخلوق بنانے والا ہوں، اگر یہ قیاس کیا جائے کہ آدم علیہ السلام زمین پر ہی پیدا کیے گئے اور پہلے دن ہی سے زمین پر رہے تو یہ بیان کچھ مؤکد ہو جاتا ہے۔
مسند احمد، رقم ۲۳۲۷۔
____________
۱ ’لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ أمواتا بل أحیاء ولکن لاتشعرون‘۔ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مار دیے جائیں انھیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں ، لیکن تم اس کی حقیقت سمجھ نہیں سکتے۔‘‘ (البقرہ۲: ۱۵۴)
________________