ہماری کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ایک عرصے سے منظر عام پر آ چکی ہے۔اس میں ہم نے بیا ن کیا ہے کہ یہ نقطۂ نظر درست نہیں ہے کہ جان دار کی تصویر ناجائز ہے اور بے جان کی جائز ہے ۔صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر وہ تصویر ناجائز ہے،جو کسی بھی درجے میں مظہر شرک ہے، یہی بات قرآن مجید کی واضح رہنمائی سے ہمارے سامنے آتی ہے اور یہی احادیث صحیحہ سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے، صحابہ اور تابعین کا فہم بھی یہی حکم لگاتا اوران کا عمل بھی اسی کے مطابق دکھائی دیتا ہے۔ اس خاص (مشرکانہ ) نوعیت کی تصاویر کے علاوہ جتنی تصاویربھی ہیں، قرآن وحدیث میں تصویر کے بارے میں دی گئی رہنمائی، ان سے متعلق ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس بنا پر جان دار کی تصویر کو علی الاطلاق ناجائز قرار دینا شریعت کے منشا کے خلاف ہے۔
ماہنامہ ’’محدث‘‘مارچ ۲۰۰۴ کے شمارے میں محترم مولاناعبدالرحمن صاحب مدنی نے ’’تصویر کا مسئلہ ‘‘ پر قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں کتاب کے اصل استدلال اور بنیادی مباحث سے تو اعتنا نہیں برتا، البتہ بعض ضمنی مباحث کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔ اس ضمن میں انھوں نے جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں، ان کا خلاصہ ہمارے جوابات کے ساتھ درج ذیل ہے:
پہلی تنقید کرتے ہوئے، مولانا مدنی صاحب نے ہماری عبارت کا درج ذیل حصہ نقل کیا ہے :
’’یہ مؤحدین حواس کی گرفت میں نہ آنے والے، یعنی نہ دکھائی دینے والے اور نہ محسوس ہو سکنے والے خدا کو مانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ اس کے قائل ہی نہیں تھے کہ خدا کو متصور کرنا ممکن بھی ہے اوراسے حواس کی گرفت میں لایا بھی جا سکتا ہے تو پھر وہ اس کی شبیہ کیسے بنا سکتے تھے؟‘‘(تصویر کا مسئلہ ،۸۶)
اس پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نے لکھاہے:
’’مذکورہ بالا عبارت میں وہ اعتزالی عقائد کے زیر اثر دنیا وآخرت میں مطلقاًدیدار الہٰی کا انکار کر کے اپنے طور پر مشبہہ کا رد کررہے ہیں ،حالانکہ یہ عقیدہ جہمیہ معطلہ کا ہے۔ جبکہ حق مشبہ اور معطلہ کے در میان ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔‘‘(محدث ، شمارہ مارچ۲۰۰۴، ۶۴)
ہماری عبارت اپنے لفظوں سے بھی واضح تھی اور اس کا سیاق و سباق بھی اسی پر دلالت کرتا تھا کہ اس میں مؤحدین کے اللہ کی تصویریں نہ بنانے اور ان کے شبیہیں نہ ڈھالنے کے حوالے سے صرف یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ انھوں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تصویر چونکہ شکل و صورت کی نقل ہوتی ہے اور اللہ کی شکل و صورت کسی انسان نے دیکھی ہی نہیں، لہٰذا، وہ لوگ اللہ کی تصویریں کیسے بنا سکتے تھے؟
لیکن بڑی حیرانی کی بات ہے کہ مولانا محترم نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مصنف دنیا و آخرت میں مطلقاً دیدار الہٰی کا منکر ہے۔ بخدا یہ ہمارے اوپر بہتان ہے۔ ان دو باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ مولانا ’’مشبہ‘‘ اور ’’معطلہ‘‘ جن دو کلامی گروہوں کے نظریات سے ہمیں منسوب کرنا چاہتے ہیں، ان کے نظریات سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں۔
دیدارِ الہٰی سے متعلق ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مؤمنین کو آخرت میں اس نعمت سے نوازا جائے گا، جیسا کہ بخاری کی حدیث میں بیان ہوا ہے:
انکم سترون ربکم. (بخاری ، رقم۵۷۳)
’’تم عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے۔‘‘
البتہ یہ خدا کو دیکھنا امور متشابہات میں سے ہے، دنیا میں ہم اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے۔ ان سب معاملات میں ہم امام مالک رحمہ اللہ کے اس موقف کے قائل ہیں جو انھوں نے قرآن کی آیت ’ الرحمن علی العرش استواء‘ پر گفتگو کے دوران میں ’استواء‘ کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ، بیان فرمایا تھا:
الاستواء معلوم والکیف مجھول والایمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعۃ.(تذکرۃ الحفاظ ۱/ ۲۰۹)
’’ (خدا کا عرش پر) تمکن معلوم ہے، اس کی کیفیت غیرمعلوم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘
ہماری اس تحریر سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہاں ’’نہ دکھائی دینے والے اور نہ محسوس ہونے والے خدا‘‘ کے الفاظ سے خدا میں مخلوق جیسی دکھائی دینے اور محسوس ہونے کی صفات پائے جانے کی نفی مقصود ہے، ان الفاظ کا ’’مشبہ‘‘ و’’ معطلہ‘‘ کلامی گروہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیاق و سباق اس معاملے میں بالکل واضح ہے ، لیکن معلوم نہیں کہ مولانا کو اس میں کیوں اشکال محسوس ہوا۔
اپنی دوسری تنقید کے حوالے سے انھوں نے ہماری عبارت کا درج ذیل حصہ نقل کیا ہے :
’’تماثیل اگر شر ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہیں اور اگر خیر ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک شریعت میں جائز ہوں اور ایک میں ناجائز۔‘‘(تصویر مسئلہ ،۲۳)
اس پر تنقید کرتے ہوئے مولانا مدنی صاحب نے سجدۂ تعظیمی کی مثال دی ہے کہ وہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا اور ہماری شریعت میں حرام ہے۔چنانچہ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تماثیل ایک شریعت میں جائز اور دوسری میں ناجائز ہو سکتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’غامدی فکر کی بڑی اساس اسرائیلیات ( بائیبل وغیرہ) ہیں جسے وہ ’حدیث رسول ‘پر مقدم رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ بہت سے مسائل میں سابقہ شرائع کے تنوع کے قائل نہیں۔ جبکہ محمدی شریعت میں ایسے کئی مسائل موجود ہیں جو کسی سابقہ شریعت میں جائز ہونے کے باوجود آخری او راکمل حکم کے طور پر ناجائزقرار پائے۔ مثلاًسجدۂ تعظیمی جو فرشتوں سے آدم کو کروایا گیا اورحضرت یوسف کو ان کے ماں باپ سمیت تمام بھائیوں نے کیا، لیکن شریعت محمدیہ میں یہ سجدۂ تعظیمی ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔ ‘‘ (محدث ، شمارہ مارچ۲۰۰۴، ۶۴)
ہمارا خیال اس سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر تماثیل کی حرمت ان میں کسی ابدی شر کے پائے جانے کی وجہ سے ہے، تو پھر ایسا ممکن نہیں کہ یہ تماثیل ایک شریعت میں جائز اور دوسری میں ناجائز ہوں، چونکہ احادیث میں تماثیل کی حرمت کی وجہ شرک بتائی گئی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی تماثیل ہر شریعت ہی میں ناجائز ہوں۔ کوئی مشرکانہ چیز کسی شریعت میں کیسے جائز ہو سکتی ہے، جب کہ پروردگار نے فرما دیا ہے :
وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوٓا إِلاّآإِیَّاہُ.(الاسراء۱۷: ۲۳)
’’اور تیرے رب کا یہ فیصلہ ہے کہ تم اس کے سواکسی کی بندگی نہ کرو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ آخری شریعت نازل کرتے وقت نہیں کیا، بلکہ قرآن مجید سے پتا چلتا ہے کہ ہر نبی اور رسول نے آ کر اسی توحید کی بات کی ہے اور اس توحید ہی کی بنا پر اپنی قوم کی مشرکانہ تماثیل کی مخالفت کی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کے معاملے کو دیکھیں جو یہود و نصاریٰ اور مسلمان ،تینوں امتوں کے جد امجد ہیں، انھوں نے اپنی قوم کے معبد میں موجود وہ تماثیل توڑ دیں جو دین شرک کا مظہر تھیں، یعنی ان کی شریعت میں بھی یہ تماثیل جائز نہ تھیں۔
بہرحال یہ بات ہماری عبارت کے الفاظ اور سیاق و سباق سے پوری طرح واضح تھی۔ اس حصے سے متعلق پیراگراف میں ہم نے بڑے سادہ اور صاف الفاظ میں ان تماثیل کا ذکر کیا ہے، جنھیں بنانا اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خلاقی میں مداخلت قرار دیا ہے اور جن کے بارے میں حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ انھیں وجود میں لاناخدا کی تخلیق سے مشابہ تخلیق کرنے کا دعویٰ ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول، قال عز و جل: ومن اظلم ممن ذہب یخلق خلقا کخلقی.(مسلم،رقم ۲۱۱۱)
’’اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو میرے تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنے نکل کھڑا ہوا۔‘‘
اس حدیث میں جن لوگوں کو ظالم کہا گیا ہے ان کا ظلم یہی تھا کہ وہ خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کرنے کے مقام پر کھڑے تھے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ خدا کی تخلیق کی یہ نقل کسی شریعت میں درست ہو اور کسی میں غلط، کسی میں حلال ہو اور کسی میں حرام۔ ہمارے نزدیک یہ کام سرتاسر ابدی حرمت کا کام ہے، یہ کسی بھی شریعت میں جائز نہیں ہو سکتا۔
اس وضاحت کے بعد اب ہم اپنے اس جملے کا وہ سیاق و سباق بیان کرتے ہیں، جس پر اگر مولانا کی نگاہ پڑ جاتی تو شاید ہمیں اس ساری دراز نفسی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
زیر بحث جملہ متن کتاب میں اپنے سیاق و سباق کے ساتھ اس طرح سے ہے:
’’تماثیل کی مناہی کی جو علت بیان کی گئی ہے، وہ خدا کی تخلیق سے اس کی مشابہت ہے۔ یہ مشابہت ایسی چیز ہے کہ یہ کسی صورت میں بھی تمثال سے مفقود نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس کے مفقود ہوتے ہی تمثال ،تمثال نہیں رہتی۔ لہٰذا ، تماثیل اگر شر ہیں، تو ہمیشہ کے لیے ہیں اور اگر خیر ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک شریعت میں جائز ہو ں اور ایک میں ناجائز۔ شرائع کے مابین اختلاف اِس نوعیت کا نہیں رہا کہ ایک میں کسی حقیقی شر کو خیر قرار دے دیا گیا ہو اور دوسری میں کسی حقیقی خیر کو شر قرار دے دیا گیا ہو۔
مزید برآں آپ یہ دیکھیں کہ حدیث میں فرشتوں کے بارے میں ہمیں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ تصویر والے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ فرشتوں کا یہ اپنا طریقہ ہے، اُنھوں نے یہ شریعت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کے بعد اختیار نہیں کیا تھا۔ اب بتائیے کیا فرشتے سلیمان علیہ السلام کے اس دربار میں نہ جایا کرتے تھے، جس میں تماثیل تھیں؟‘‘ (تصویر کا مسئلہ، ۲۳)
اس کے بعد تماثیل کی ابدی حرمت کے اسی پہلو کو حاشییمیں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
’’تماثیل کی ممانعت کی جو علت بیان کی گئی ہے ،وہ ان کا ’’خدا کی تخلیق سے مشابہ تخلیق‘‘ ہونا ہے۔ یہ علت ایسی ہے کہ یہ کسی صورت بھی تماثیل سے مفقود نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ، یہ فی نفسٖہ اگر شر ہیں ،تو ہمیشہ کے لیے ہیں اور اگر فی نفسٖہ خیر ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک شریعت میں جائز ہوں اور ایک میں ناجائز۔ شریعتوں کے ما بین قانون کا جو اختلاف ہے ، اس کی بناکسی شر کے خیر قرار دیے جانے اور کسی خیر کے شر قرار دیے جانے پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ معاشرتی اور تمدنی حالات کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوتی ہے۔ہر شریعت میں خیر ہی کو خیر اور شر ہی کو شر قرار دیا گیا ہے۔
شرائع کے اختلاف کی ایک نوعیت یہ بھی ہوتی ہے کہ سزا کے طور پر کسی قوم کو کچھ وقت کے لیے کسی خیر سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا جائے یا سد ذریعہ کے طور پر کسی مباح شے کو ممنوع قرار دے دیا جائے، لیکن ان صورتوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ خدا اپنی شریعت میں سے کسی خیر کو شر اور کسی شر کو خیر قرار دے دے۔‘‘ ( تصویر کا مسئلہ، ۲۸)
اپنے مدعا کی اس مزید وضاحت کے بعد اب ہم مولانا کے پیش کردہ ’’سجدۂ تعظیمی ‘‘کے استدلال کو لیتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں:
’’ محمدی شریعت میں ایسے کئی مسائل موجود ہیں جو کسی سابقہ شریعت میں جائز ہونے کے باوجود آخری اور اکمل حکم کے طور پر ناجائز قرار پائے۔ مثلاً سجدۂ تعظیمی جو فرشتوں سے آدم کو کرایا گیا اور حضرت یوسف کو ان کے ماں باپ سمیت تمام بھائیوں نے کیا، لیکن شریعت محمدیہ میں یہ سجدۂ تعظیمی ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔‘‘(محدث ، مارچ ۲۰۰۴، ۶۴)
مولانا کا یہ استدلال سراسر غلط ہے ۔ اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے ہم مولانا سے دو سوال پوچھنا چاہتے ہیں:
۱۔ کیا مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ اس درج بالا اصول ہی کے تحت کسی شریعت میں مشرکانہ تماثیل جائز بھی ہوسکتی ہیں؟
۲۔ کیا سجدۂ تعظیمی وہ مشرکانہ عمل ہے جو پرانی شریعتوں میں جائز تھا ، لیکن آخری شریعت میں اسے حرام قرار دے دیا گیا؟
اگر مولانا ان دونوں سوالوں کا جواب اثبات میں دیتے ہیں تو ان کے لیے صحیح عقائد کے بے شمار مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں اور اگر وہ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں تو پھر ہمارے خلاف ان کا استدلال بے معنی ہو جاتا ہے۔
بہرحال، اس معاملے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کوئی بھی حقیقی حرمت والا عمل (مثلاً کوئی مشرکانہ یا کافرانہ عمل ) کسی شریعت میں کبھی جائز نہیں رہا۔چنانچہ غیر اللہ کے لیے سجدۂ عبادت جس کی حقیقت غیر اللہ کی عبادت کرنا ہے، یہ ہر شریعت میں ہمیشہ سے ممنوع رہا ہے اور سجدۂ تعظیمی جس کی حقیقت محض تعظیم کرنا اور آداب بجا لانا تھا، یہ پہلی شریعتوں میں جائز رہا ہے، البتہ آخری شریعت میں اسے بھی سجدۂ عبادت کے ساتھ ظاہری مماثلت کی بنا پر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اگر ان دونوں میں کوئی حقیقی مماثلت ہوتی تو لازماً سجدۂ تعظیمی بھی سب شریعتوں میں ممنوع ہوتا۔
ہماری کتاب پر مولانا تیسری تنقید کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں:
’’ اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مفتی صاحب کا یہ مؤقف درست ہے کہ تصویر قبیح لعینہٖ یعنی فی نفسہٖ حرام نہیں، جیسا کہ ان کے سارے دلائل اسی کے گرد گھوم رہے ہیں، تو قبیح لغیرہ ضرور ہے۔‘‘(محدث ، مارچ ۲۰۰۴، ۶۵)
چنانچہ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہمارا نقطۂ نظر ادھورا ہے ۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مولانا کی یہ تنقید بھی درست نہیں ہے ، کیونکہ ہم نے تصویر کے قبیح لعینہ نہ ہونے اور قبیح لغیرہ ہونے ،دونوں ہی کو بیان کیا ہے۔قبیح لعینہ نہ ہونے کے دلائل سے کتاب بھری پڑی ہے اور اس کے ساتھ ہی پوری کتاب میں جگہ جگہ تصویر کے قبیح لغیرہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے، کاش ان پر مولانا کی نگاہ پڑ جاتی۔ ذیل میں ہم اس سے متعلق اقتباسات نقل کیے دیتے ہیں:
o ’’فنون لطیفہ کے استعمال کی تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ انسان انھیں کسی جرم اور شر کے لیے استعمال کرے یا ان سے شیطان کی اطاعت اور اس کی خدمت اس کے پیش نظر ہو۔ ظاہر ہے دین فنون لطیفہ کے اس استعمال کو گوارا نہیں کر سکتا۔
چنانچہ جب تصاویر و تماثیل ایمان اور اخلاق کی بربادی کا ذریعہ بن جائیں، آلات موسیقی شیطان کی خدمت کا وسیلہ قرار پائیں، عمارات کی شان و شوکت طبیعت کی سرکشی کا باعث بنے،شعر و شاعری حق اور باطل کی تمیز کیے بغیر ہر وادی میں سرگردانی کی راہ بن جائے، تو مذہب ان پر قدغن لگاتا ہے، پھر کسی کو وہ حرام اور کسی کومکروہ قرار دیتا ہے۔
مذہب فنون لطیفہ کو فی نفسہٖ پسند کرتا ہے، جب تک یہ اس کی بربادی پر آمادہ نہ ہوں۔ جب یہ اس کی جڑیں کھودنا اور اسے برباد کرنا چاہیں، تو پھر یہ ان پر گرفت کرتا ہے‘‘۔(۸۳)
o ’’ ہاں یہ بات الگ سے درست ہے کہ وہ تمام تصاویر جن کے اندر شرک کے علاوہ کوئی اور دینی یا اخلاقی خرابی پائی جائے گی، وہ بھی دینی طور پر بالکل ممنوع ہوں گی‘‘۔ (۷۵)
o ’’خدا کا دین تصویر بنانے کو صرف اور صرف اُسی وقت ممنوع قرار دیتا ہے، جب اُس میں دینی یا اخلاقی اعتبار سے کوئی خرابی پائی جاتی ہو‘‘۔ (۷۵)
o ’’ تصویر کے بارے میں قرآن مجید کی آیات اورا حادیث نبوی کی رہنمائی سے یہ بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ مذہب کا تصویر و تمثال پر اعتراض صرف اور صرف کسی دینی یا اخلاقی خرابی ہی کی بنا پر ہے، ورنہ اُسے ان چیزوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا۔ چنانچہ نقاشی ، مصوری، فوٹوگرافی اور مجسمہ سازی میں سے جو چیز بھی کسی دینی یا اخلاقی خرابی کا باعث بنے گی، وہ اُس خاص حوالے سے ممنوع قرار پائے گی۔ ہاں ایک بات اور بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ کسی خرابی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے ، جیسے کسی خاص علاقے میں اور کسی خاص دور میں یہ مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مجسمہ سازی شرک کی طرف رغبت کا ذریعہ بننے لگی ہے، تو اِس صورت میں مجسمہ سازی کو ’سداً للذریعۃ‘ ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ممانعت بس اس خاص علاقے میں، اُس خاص دور تک اور اُس خاص خرابی کی حد تک ہی ہو گی۔
بعض علما کا خیال ہے کہ آج بھی مجسمہ اور شرک ایسے ہی ہیں جیسے جسم اور روح ، ہمیں اس سے اتفاق نہیں ہے، لیکن اگر اسے درست مانا جائے تو پھر ظاہر ہے کہ مجسمہ سازی ہمیشہ کے لیے ممنوع ہو گی۔
اسی طرح اگر کسی موقع پر کسی خاص نوعیت کی تصاویر بجائے خود درست ہونے کے باوجود کسی اخلاقی خرابی کا باعث بننے لگ جاتی ہیں ،تو اس خاص نوعیت کی تصاویر کو بھی ’سداً للذریعۃٗ ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔
لیکن فی نفسہٖ تصاویر کے بارے میں کسی اعتراض کی کیوں کر گنجایش ہو سکتی ہے، جب کہ خدا اور اس کے رسول نے انھیں جائز رکھا ہو۔مسلمانوں کو اسی چیز پر اعتراض ہوتا ہے، جس پر اللہ اور اس کے رسول کو اعتراض ہو۔ چنانچہ نقاشی ،مصوری، فوٹوگرافی اور مجسمہ سازی میں سے کوئی چیز بھی فی نفسہٖ ممنوع نہیں ہے۔ البتہ اگر ان میں خرابی کا کوئی عنصر شامل ہو جائے، تو الگ بات ہے۔پھر مذہب اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے گا۔
مقدس افراد یا اشیا کی تصاویربنانے کے بارے میں قرآن و حدیث میں صریح الفاظ میں کوئی ممانعت نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا، اصولاً ایسی تصاویر کی حرمت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ ان کے اندر پایا جانے والا تقدس چونکہ ان تصاویر کے مظہر شرک بننے کا باعث ہو سکتا ہے، لہٰذا، ہماری رائے میں عقیدت کے جذبے سے مقدس افراد یا اشیا کی تصاویربنانا مکروہ کے درجے میں ہے۔ چنانچہ اس رائے کے مطابق عقیدت کے جذبے سے مثلاً بیت اللہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صالح شخص کی تصویر بنانا دینی اعتبار سے مکروہ عمل ہو گا۔البتہ عقیدت کے جذبے سے ہٹ کر کسی ضرورت کے تحت ان کی تصاویر بنانا بھی بالکل جائز عمل ہو گا۔مثلاً کسی آرکیٹیکٹ کا تعمیر کے لیے بیت اللہ کا نقشہ بنانا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی مسلمان مصور ی کا پیشہ اختیار کر سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس سوال کا جواب بالکل سادہ ہے، یعنی یہ کہ وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں ، جس سے سلیمان علیہ السلام نے فائدہ اٹھایا اور جس کا ذکر کرتے ہوئے، قرآن مجید ،خدا کی آخری کتاب، نہ صرف یہ کہ کوئی تنقید نہیں کرتی، بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اس فن سے فائدہ اٹھانے کو اللہ کا فضل کہتی ہے اور اِس پر انھیں خدا کا شکر بجا لانے کا حکم دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندر ایسی شرافت رکھتا ہے کہ اُسے کوئی بھی مسلمان اختیار کرے۔البتہ اِس فن سے وہ کیا کام لیتا ہے، یہ چیز وہ ہے جو اُس کی آخرت پر اثر انداز ہو گی۔ اِس سے وہ شیطان کے مقاصد پورے کرنے کا کام لیتا ہے تو یہ عمل اُسے شیطان کے ساتھیوں میں شامل کرنے کا باعث ہو گااور شیطان کے ساتھ اُس کے حشر کا ذریعہ بنے گا اور اگر وہ اِس سے خیر کے کام لیتا ہے تو یہ چیز اُس کے لیے اخروی اجر کا باعث ہو گی۔‘‘(۹۴ ۔ ۹۶)
____________