بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
وَلَا تَاْکُلُوْآاَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ {۱۸۸}
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ، وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقیٰ ۔ وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ {۱۸۹}
اور (اِسی تقویٰ کا تقاضا ہے کہ ) تم آپس میں ناحق ۵۰۹ ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ اور نہ اُسے حاکموں تک پہنچنے ۵۱۰ کا ذریعہ بناؤ کہ دوسروں کے مال کا کوئی حصہ تمھیں اِس طرح اُن کی حق تلفی کر کے کھانے کا موقع مل جائے ، ۵۱۱ دراں حالیکہ تم اِس حق تلفی کو جانتے ہو ۔ ۵۱۲ ۱۸۸
وہ تم سے حرام مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ ۵۱۳ کہہ دو : یہ لوگوں کی بہبود اور حج کے اوقات ہیں ، (اِس لیے اِن کی یہ حرمت اِسی طرح قائم رکھی جائے گی)۔ ۵۱۴ اور (تم نے یہ سوال کیا ہے ۵۱۵ تو اب یہ بھی جان لو کہ ) یہ ہرگز کوئی نیکی نہیں ہے کہ (احرام کی حالت میں اور حج سے واپسی پر) تم گھروں کے پیچھے سے داخل ہوتے ہو ۔ ۵۱۶ بلکہ نیکی تو اصل میں اُس کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے ۔ اور (یہ بھی کہ اب) تم گھروں میں اُن کے دروازوں ہی سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے ۔ ۱۸۹
۵۰۹؎ اصل میں بالباطل کے الفاظ آئے ہیں ۔ اس سے مراد وہ طریقہ ہے جو سچائی ، دیانت ، عدل و انصاف اور معروف کے خلاف ہو ۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ۔ چوری ، غصب ، غلط بیانی ، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا ، یہ سب اسی کے تحت داخل ہیں ـ ۔
۵۱۰؎ اصل الفاظ ہیں : و تدلوابھا الی الحکام ۔ ان میں ادلاء کے معنی اصلاً کنویں میں ڈول ڈالنے کے ہیں ۔ یہیں سے اس سے اندر رسائی حاصل کرنے کا مفہوم پیدا ہوا ۔ یہ رشوت کی تعبیر ہے ، اور غور کیجیے تو قرآن نے اس کے ذریعے سے رشوت کی حقیقت بالکل واضح کردی ہے ۔
۵۱۱؎ اس جملے کا عطف پہلے جملے پر ہے اور چونکہ یہ اسی کی وضاحت کر رہا ہے ، اس لیے اس میں حرف لا کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہوئی۔
۵۱۲؎ یعنی اس کا گناہ اور حق تلفی ہونا تمھیں معلوم ہے ، تمھاری عقل اور تمھاری فطرت اس کی گواہی دیتی ہے ، دنیا کا معروف اس پر حجت ہے اور تمام مذاہب و ادیان میں اس کی حرمت ہمیشہ مانی گئی ہے ۔ اس وجہ سے یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جسے سب جانتے ہیں ۔ تم میں سے کوئی بھی اس سے ناواقف نہیں ہے ۔
۵۱۳؎ اصل الفاظ ہیں : ویسئلونک عن الاھلۃ ۔ ان میں اھلۃ ہلال کی جمع ہے ۔ ہلال شروع ماہ کے چاند کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد مہینا بھی ہوتا ہے ۔ جمع کی صورت میں بالخصوص اس کا استعمال مہینوں ہی کے لیے معروف ہے ۔ اس پر الف لام ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سوال کچھ مخصوص مہینوں کے بارے میں ہے اور جواب سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حرام مہینوں اور ان کے آداب سے متعلق تھا۔ قرآن کا عام اسلوب ہے کہ اس میں سوالات اسی طرح بالاجمال نقل کیے جاتے ہیں اور ان کی صحیح نوعیت بالعموم ان کے جواب ہی سے معلوم ہوتی ہے ۔ یہاں اس سوال کے پیدا ہونے کی وجہ ، جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہو گا ، یہ ہوئی کہ بیت اللہ کے قبلہ قرار پا جانے کے بعد لوگ حج کے لیے بے تاب ہوئے اور حج کے راستے میں اس وقت قریش حائل تھے ۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ قریش نے مزاحمت کی تو جنگ ہو سکتی ہے اور اس میں حرام مہینوں کی حرمت حائل ہو گی ۔ پھر کیا یہ حرمت قائم رکھی جائے گی یا وہ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے قریش کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں؟
۵۱۴؎ مطلب یہ ہے کہ عرب کی بدامنی کے ماحول میں حج کے قافلوں کا نکلنا بھی اسی حرمت کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے اور لوگوں کو تجارتی سرگرمیوں کی مہلت بھی اسی سے ملتی ہے ، لہٰذا یہ حرمت اسی طرح باقی رہنی چاہیے ۔
۵۱۵؎ یہ سوال سلسلۂ بیان کو روک کر پوچھا گیا تھا۔ قرآن نے اس کا جواب دیا تو اسی سے ملا کر جہادوانفاق اور حج و عمرہ کے وہ احکام بیان کرنا شروع کر دیے جن کا بیان کرنا یہاں اصلاً پیش نظر تھا۔ ان میں سے جہاد وانفاق کا حکم تو ابتداء ً آیا ہے ، لیکن حج و عمرہ کا معاملہ یہ نہیں ہے ۔ ان کی حیثیت پہلے سے جاری ایک سنت کی تھی ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان میںکچھ بدعتیں داخل کر دی گئی تھیں اور ان کی حقیقت بھی لوگوں کے لیے بہت حد تک اجنبی ہو چکی تھی ، لیکن ان کے مناسک اس کے باوجود لوگوں کے لیے بالکل معلوم اور متعین تھے ۔ قرآن نے اسی بنا پر ان کی کوئی تفصیل نہیں کی ۔ اس کا بیان ان سے متعلق بعض ضروری اصلاحات اور بعض فقہی مسائل کی توضیح تک ہی محدود ہے ۔
۵۱۶؎ یہ ایک بدعت تھی جو حج کے سلسلے میں لوگوں نے ایجاد کر لی تھی ۔ اس عجیب و غریب حرکت کا محرک غالباً یہ وہم تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے نکلے ہیں ، پاک ہو جانے کے بعد انھی دروازوں سے گھروں میں داخل ہونا اب خلاف تقویٰ ہے ۔
(باقی)
ـــــــــــــــ ـــــــــــــــ