HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

ہماری دینی ذمہ داری

سوال : مذہبی حلقوں میں دین کے انسان کے ساتھ تعلق کے بارے میں بہت سے نقطہ ہاے نظر موجود ہیں ۔ اہل علم کا ایک طبقہ یہ رائے رکھتا ہے (اور اسے اپنی رائے پر اصرار ہے ) کہ دین ہم پر جو ذمہ داری عائد کرتا ہے ، وہ دعوت اور صرف دعوت ہے جب کہ بعض دوسرے علما اور دانش ور کہتے ہیں کہ اسلام دین انقلاب ہے ۔ یہ مغلوب ہونے کے لیے نہیں ، بلکہ غالب ہو کر قیامت تک باقی رہنے کے لیے آیا ہے ۔ لہٰذا غلبۂ دین کی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام بندۂ مومن کا نصب العین اور مسلمانوں کی اولین دینی ذمہ داری ہے ۔ ان دونوں میں سے کون سا موقف صحیح اور اقرب الی الکتاب والسنہ ہے ؟

جواب : اس سوال کے جواب سے پہلے دو باتیں اصولی طور پر پیش نظر رہنی چاہییں۔ پہلی یہ کہ برصغیر ہندو پاکستان میں دین اپنے اصل منابع (قرآن و سنت) کے بجائے فقہ اور تصوف کے ذریعے سے متعارف ہوا ۔ لہٰذا دین کے ساتھ ہمارا تعلق یافقہ کے ذریعے سے قائم ہوا اور یا پھر اس کا تعارف تصوف کی اصطلاحات میں پیش کیا گیا ۔ اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کو ابتداے اسلام کے فوراً بعد سے لے کر کئی صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کا موقع ملا۔ پھر بیسویں صدی کے ربع اول میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے اقتدار کا سنہری دور ختم ہو گیا۔ اکثر و بیشتر اسلامی ریاستیں محکوم ہو گئیں ۔ اس صدی کے آخر میں ان میں سے اکثر کو آزادی حاصل ہو گئی ۔ مگر اس وقت تک مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغرب سے بہت پیچھے رہ گئے تھے ۔ا ن کی اخلاقی حالت بھی دگرگوں ہو چکی تھی ، لہٰذا آزادی حاصل ہو جانے کے بعد بھی انھیں طاقت ور اقوام کے زیر اثر اور ان کا دست نگر ہو کر رہنا پڑااور یہ حالت آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔

علوم و فنون میں مغربی اقوام کی ترقی کا عمل یورپ میں تحریک احیاے علوم سے شروع ہو چکا تھا۔ وہ علم و عمل کی دوڑ میں مشرقی اقوام سے بہت آگے نکل گئے ۔ ان کے ہاں بعض سماجی ، تمدنی اور اخلاقی اصولوں نے استحکام صورت اختیار کر لی تھی ۔ اس لیے طاقت کا توازن واضح طور پر ان کے حق میں ہو گیا ۔ مسلمان آج تک ان پیش پا افتادہ حقائق کا ادراک کرنے سے قاصر رہے ہیں اور اپنے ماضی کی روایات سے جذباتی وابستگی کے باعث احساس برتری کی نفسیات سے چھٹکارانہیں پا سکے ۔ لہٰذا ایک جانب وہ دوسری شکست خوردہ اور پست ہمت اقوام کی طرح کسی نجات دہندہ کے تصور سے اپنی امیدوں کی دنیا آباد رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف بے سروسامانی ، علمی پس ماندگی اور کوتاہ فہمی کے باوجود اپنے حق حکمرانی کے احساس کی آبیاری کے لیے مزاحمتی تحریکیں برپا کر کے غالب اور مقتدر قوتوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مصر میں الاخوان المسلمون، فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی ، صومالیہ میں اتحاد اسلامی ، کشمیر میں حزب المجاہدین اورحرکۃ الانصار اور پاکستان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد اور افغانستان میں طالبان اور القاعدہ جیسی مزاحمتی تحریکیں مسلمانوں کے احساس برتری اور غالب اقوام کے خلاف نفرت کے اظہار کی نفسیات کے نتیجے میں وجود پزیر ہوئی ہیں ۔ ان تحریکوں کے مؤسسین ، رہنماؤں ، مویدین اور معاونین نے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے قرآن و سنت اور سیرت و تاریخ کو بنائے استدلال بنایا ہے ۔ غلبۂ دین کی جدوجہد ، اسلامی انقلاب اور خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کے تصورات اسی پس منظر کے ساتھ وجود میں آئے ہیں ۔ گویا یہ نقطۂ نظر خارجی حالات کی پیداوار ہے جسے دین کے ماخذوں سے ثابت کیا گیا ہے ۔

دوسرے نقطۂ نظر کو (اسلام دعوت اور صرف دعوت ہے)سمجھنے کے لیے کچھ وضاحت درکار ہے ۔

ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک کے انسانوں کی دینی مساعی پر غور کیجیے تو انبیا اور دوسرے صالحین سب دعوت ہی کے منصب پر فائز نظر آتے ہیں ۔ اس سے ایک قدم بھی آگے ان کی کوئی ذمہ داری معلوم نہیں ہوتی ۔ مثلاً قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دین پہنچا دینے کے سواکوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ۔ ۱؂ اسی ابلاغ تام کو آپ کے کارِ رسالت کی تکمیل کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے ۔ ۲؂ بات واضح کر دینے (یعنی ابلاغ) کے بعد آپ کی ذمہ داری انذار کی ہے۔ آپ کے کارِ نبوت کا آغاز اسی انذار (خبر دار کر دینے ) سے ہوتا ہے ۔ ۳؂ کیونکہ رسول اپنی اصولی حیثیت میں مبشر اور منذر ہی ہوتے ہیں ۔ ۴؂ لہٰذا اس میں آپ کی یہ حیثیت الگ سے بھی بیان ہوئی ہے ۔۵؂ قرآن مجید بھی اصلاً انذار ہی کے لیے نازل ہوا ہے ۔۶؂ دعوت دین کے نتیجے میں خدا کا جو حق بندوں (اور خصوصاً اہل ایمان) پر قائم ہوتا ہے ،آپ کو بس اس کی یاددہانی کے لیے کمر بستہ رہنے کا پابندکیا گیا ہے ۔ ۷؂ اور اس سے آگے کوئی اقدام کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔۸؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے تینوں پہلو ابلاغ ، انذار ، اور تذکیر قرآن مجید میں یک جابھی بیان ہو گئے ہیں ۔ ۹؂

اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیا و صالحین دعوت ہی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی منصبی ذمہ داری بھی دعوت ہی بیان ہوئی ہے اور ان کے بعد قیامت تک آنے والے صالحین بھی دعوت ہی کی ذمہ داری کے منصب پررہیں گے ۔ البتہ ان نفوس قدسیہ کی ذات اور مساعی کے حوالے سے اللہ کی سنتیں مختلف ہیں ۔ جن کے بارے میں اس کا فیصلہ ہے کہ ان میں کوئی ردو بدل اور تبدیلی ممکن نہیں ۱۰؂ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے ارادوں کی تکمیل چاہتا ہے ۔ یہ ارادے خدائی منصوبے ہیں جنھیں ہر حال میں پایۂ تکمیل کو پہنچنا ہے ۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے:

۱۔ انبیا اللہ کے فرستادوں کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے خدا کا دین پیش کرتے ہیں ۔اور انھیں خدا و آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ان کی قوم اگر اس دعوت کو قبول نہ کرے اور نبی پر ایمان لانے سے انکار کر دے تو اس پر اس دنیا میں عذاب آ سکتا ہے ، (مگر ضروری نہیں) لیکن آخرت میں وہ لازماً جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔

۲۔ انبیا میں سے بعض کو اللہ رسالت کے منصب پر فائز کرتے ہیں ۔ رسول بھی انبیاہی کی طرح دعوت دیتے ہیں ، مگر ان کی دعوت رد کر دینے کے نتیجے میں منکرین حق پر اس دنیا میں لازماً عذاب آتا ہے ، وہ قوم حق زندگی سے محروم کر دی جاتی ہے ۔ رسول اور اس کے ساتھی غلبہ پاتے ہیں ۔ یہ خدا کا بے لاگ قانون ہے ۔ ۱۱؂ اسے قرآن مجید میں رسولوں کے باب میں اصول کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے ۔ ۱۲؂ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ قانون سورۂ توبہ ، سورۂ فتح اور سورۂ صف ۱۳؂ تین مقامات پر بیان ہواہے اور یہ بتا دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ خدائی منصوبہ ہے جسے ہرحال میں پایۂ تکمیل کو پہنچنا ہے۔ رسول اپنے مخاطبین پر حق اس درجے میں واضح کر دیتا ہے کہ ان کے پاس انکار حق کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی ۔ یہ رسول کی طرف سے اپنی قوم پر اتمام حجت ہے ۔ اس اتمام حجت کے بعد خدائی فیصلہ صادر ہو تا ہے اور منکرین کا کام تمام کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں خدا کی سنت یہ ہے کہ اگر پیغمبر کی قوم بحیثیت مجموعی حق قبول کرنے سے انکار کر دے اور کفر ہی پر جمے رہنے کا فیصلہ کر لے تو پیغمبر اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کو ظالموں کی بستی چھوڑ دینے کا حکم ہوتا ہے۔ اور پھر خدا کے لشکر حرکت میں آتے ہیں ، حاصب ، صاعقہ صیحہ ، اور طوفان بادوباراں کے ذریعے سے وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے ۔ قوم نوح ، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط وغیرہ اسی طرح تباہ ہوئیں ۔ لیکن اگر رسول کی قوم فی الجملہ ایمان لے آئے تو پھر منکرین حق پر عذاب رسول اور اس کے ساتھیوں کے ذریعے سے آتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوا ۔۱۴؂

۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ خصوصی حیثیت کے حامل ہیں اور ان کی یہ حیثیت قرآن مجید میں بیان ہو گئی ہے ۔۱۵؂ خدا نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے برپاکردہ انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے منتخب کیا تھا۔ ۱۶ ؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دین کا غلبہ جزیرہ نماے عرب کی حد تک قائم ہوا تھا۔ ان کے بعد صحابۂ کرام کی منصبی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے غلبے کو ان فرماں رواؤں ، سرداروں اور حکمرانوں کی عمل داری تک وسعت دیں۔ جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط لکھ کر یا وفود بھیج کر اسلام کی دعوت دی تھی ۔ چنانچہ وہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جن غیر مسلم اہل اقتدار نے اسلام قبول کر نے سے انکار کیا ، ان کے خلاف انھوں نے جنگ کی ۔ ان معاندین اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ اللہ کا تھا اور ان کی فتوحات دراصل خدائی منصوبے کا حصہ تھیں۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے اتمام حجت میں فرق یہ ہے کہ رسول کے اتمام حجت کے بعد منکرین سے حق زندگی چھین لیا جاتا ہے ، مگر صحابہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کے نتیجے میں وہ صرف حق حکومت سے محروم ہو تے ہیں ۔

۴۔ صحابۂ کرام کے بعد قیامت تک آنے والے اہل ایمان بھی اگرچہ دعوت ہی کے کام پر مامور ہیں ، مگر ان کی دعوت کے نتیجے میں مخاطبین نہ حق زندگی سے محروم ہوتے ہیں اور نہ وہ اقتدار سے محروم کیے جا سکتے ہیں ۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے ۔ کسی داعی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انھیں اقتدار سے محروم کرنے کے لیے نکل کھڑا ہو یا ان کو خدا کے عذاب کی وعید سنائے اور ان کے لیے جنت اور دوزخ کا فیصلہ کرے ۔ لہٰذا قیامت تک آنے والے اہل ایمان کی ذمہ داری دعوت اور صرف دعوت ہے ۔ دعوت کے نتیجے میں دین کا غلبہ قائم ہو جائے اور خلافت علی منہاج النبوۃ وجود میں آ جائے تو یہ اس زمین پر بسنے والے انسانوں کے لیے خدا کی سب سے بڑی نعمت ہو گی ۔ دین کے حوالے سے ہمارے لیے اب کرنے کا کام بس یہی ہے۔ جو قرآن میں بیان کردہ پیغمبروں کی تاریخ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ثابت ہے ۔

اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی مخلوق پر دعوت کے سوا دین کی اور کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی ۔ البتہ خدا کے بعض اپنے ارادے اور منصوبے ہیں جنھیں اس نے پیغمبروں کی وساطت سے پوراکیا ہے۔ لہٰذا وہ نہ انسان کی سعی و جہد کا نتیجہ ہیں، نہ ہمارے لیے اسوہ ہیں ، نہ ان سے کوئی نصب العین کشید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی انقلابی جدوجہد کا ماخذ قرار پا سکتے ہیں۔

البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ افراد، علما اور ارباب اقتدارپر دعوت کی ذمہ داری ان کی حیثیت ، صلاحیتوں ، حدود کار اور دائرۂ اختیار کی رعایت سے عائد ہوتی ہے ۔

اگر ہماری دعوتی مساعی کو خدا عذر کے طور پر قبول کر لے اور ہم دعوتی ذمہ داری سے سبک دوش ٹھیریں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی عنایت ہو گی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دعوت کے نتیجے میں ہمارے مخاطبین خیر و شر سے بے تعلقی کا رویہ ختم کر دیں اور راہ راست پر آ جائیں ۔ یہ چیز ہماری دنیا میں نیکی اور خیر کے حوالے سے ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے گی ۔


برے خیالات پر مواخذہ

سوال : بعض اوقات ذہن میں برے برے خیالات آتے ہیں اور عجیب قسم کے وساوس پیدا ہو جاتے ہیں ۔ انھیں اگرچہ پوری قوت سے دبا کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان پر مواخذہ نہیں ہو گا ، مگر قرآن میں وحصل ما فی الصدور اور یوم تبلی السرائر جیسی آیات کی کیا تعبیر ہو گی ۔

جواب :اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے اخلاص اور کوشش کے باوجود ہم پر وساوس اور (ناپسندیدہ اور غیر ضروری) خیالات کی یلغار ہوتی رہتی ہے ۔ اس بارے میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہییں۔ ایک یہ کہ خیالات کے لانے اور وساوس پیدا کرنے میں ہماری کوشش کو دخل حاصل نہ ہو ۔ اور دوسری یہ کہ جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو ہمیں چاہیے کہ خدا کی یاد سے وابستہ ہو کر دھیان ادھر سے ہٹانے کی کوشش کریں ۔ ہم اگر یہ طرزِ عمل اختیار کر لیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا ( اللہ کسی پر ا س کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا) کے اصو ل کے مطابق مواخذہ نہیں فرمائے گا۔

دلوں میں وسوسہ اندازی شیطان کا فعل ہے ۔ وہ یہ کام لوگوں کو صراط مسقیم سے برگشتہ کرنے کے لیے کرتا ہے ۔ اس کا اظہار خود شیطان نے کر دیا ہے، ۱۷؂ البتہ اس کی حد بس یہیں تک ہے ۔ وہ وسوسہ ڈالنے اور فریب دینے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔ ۱۸؂ وہ لوگ جو اس دنیا میں اللہ کے بندے بن کر جینے کا عزم کر لیتے ہیں ، ان کے بارے میں شیطان بے بس ہوجاتا ہے ۔ ۱۹؂ اور خدا کا بھی وعدہ ہے کہ وہ انھیں شیطان کے وساوس سے محفوظ رکھے گا۔۲۰؂

آپ نے جو آیات (اور دلوں کے بھید اگلوائے جائیں گے اور اس دن چھپی باتیں پرکھی جائیں گی) نقل کی ہیں ان کا تعلق آخرت میں بندے کے حساب کتاب سے ہے ۔ خدا قیامت کے بعد حشر میں سینوں کے بھید اگلوائے گا اور چھپی ہوئی باتوں کی پرکھ کرے گا تاکہ ہر شخص پر حجت قائم ہو سکے کہ کس نے کون سا عمل کس نیت پر اور کس محرک کے تحت کیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ناجائز کام کو جائز ثابت کرنے کے لیے نہ کوئی عذر تراش سکے گا اور نہ ہی کوئی بہانہ بنا سکے گا۔ یہ تو ہو سکتا ہے دنیا میں وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے اور دوسروں کی تنقید و تحقیر سے بچنے کے لیے کوئی عذر تراش لے اور اچھا محرک تلاش کر لے اور اس طرح وہ اپنے خبثِ باطن کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپانے میں کامیاب ہو جائے ، مگر خدا کی بارگاہ میں وہ بالکل عریاں ہو جائے گا ۔ اس روزصرف ظاہری اعمال ہی زیر بحث نہیں آئیں گے ، بلکہ مخفی اعمال ، دلوں کے کھوٹ اور نیتوں کے فساد بھی پرکھے جائیں گے۔

اس پس منظر میں غور کیجیے تو ان آیات کاآپ کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

 

بد اخلاق لوگوں سے تعلقات

سوال: بعض اوقات کچھ ایسے عزیز و اقارب ہوتے ہیں جو اپنی بداخلاقی اور بدزبانی کی وجہ سے باعث تکلیف بن جاتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف کسی بھی قسم کا بغض اور کینہ رکھے بغیر ان سے مستقل ترک تعلق کر لیا جائے تو یہ قطعِ رحمی کے ذیل میں تو نہیں آئے گا ؟

جواب : ایسے اعزا و اقارب جو اپنے طرزِ عمل اور اخلاق و عادات کی وجہ سے باعث اذیت ہوں ، ان کے لیے ہدایت اور بھلائی کی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔ سلام دعا کی حد تک تعلقات بحال رہنے ضروری ہیں تاکہ دعوت کے ذریعے سے ان کی اصلاح کے مواقع باقی رہیں ۔ ان کے شر سے بچنے کے لیے گریز اور اعراض کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے ۔ البتہ ایسے لوگوں سے تعلقات یک سر ختم کر دینے اور مکمل اجتناب برتنے کو پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

____________

۱؂ ۳: ۲۰، ۵: ۹۲، ۹۹۔

۲؂ ۵: ۶۷۔

۳؂ ۷۴: ا،۳۔

۴؂ ۴ : ۱۴۵، ۱۸: ۵۶۔

۵؂ ۷ : ۱۸۸۔

۶؂ ۶: ۱۹۔

۷؂ ۵۰ : ۴۵، ۵۱: ۵۵۔

۸؂ ۸۹: ۲۲۔

۹؂ ۱۴: ۵۲۔

۱۰؂ ۳۵ : ۴۳۔

۱۱؂ ۵۸: ۲۱۔

۱۲؂ ۱۴: ۱۳ ۔

۱۳؂ ۹ : ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۹۔

۱۴؂ ۹ : ۱۴۔

۱۵؂ ۲ : ۱۴۳۔

۱۶؂ ۲۲: ۷۸۔

۱۷؂ ۸: ۴۸، ۸۹:۱۶۔

۱۸؂ ۱۵:۴۰۔

۱۹؂ ۱۴: ۴۲۔

۲۰؂ ۱۵:۴۴۔

________________

B