[مدیر ’’اشراق‘‘ کے افادات پر مبنی]
سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین اصل میں دین جہاد ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی غزوات میں بہ نفس نفیس حصہ لیا ۔ کئی سرایا منظم کیے ۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ جہادی مصروفیات میں گزرا، حتیٰ کہ آپ نے وفات سے کچھ دیر قبل بھی حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں ایک جہادی مہم روانہ کی ۔ آپ کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے ؟
جواب : ہم ’’جہاد و قتال کے شرائط‘‘ کے عنوان سے سوال کا جواب دیتے ہوئے بہ دلائل یہ بات واضح کر چکے ہیں ۱ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نماے عرب میں غلبۂ حق قائم کرنے پر مامور تھے۔ اس لیے آپ نے قانون اتمام حجت کی رو سے اپنے سرکش مخاطبین میں سے قریش کو موت اور اہل کتاب کو مغلوبیت کی سزا دینی تھی۔اسی طرح آپ نے جزیرہ نماے عرب میں فتنہ (Persecution) کا خاتمہ کرنا تھا۔ ابتداءً آپ نے اپنے مخاطبین کو قلبی طور پر اسلام کے تابع کرنے کی بھرپور سعی و جہد کی ، مگر اکثر مخاطبین نے آپ کا انکار کیا ، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے آپ پر جنگیں مسلط کیں ۔ چنانچہ بدر ، احد اور احزاب میں آپ نے دفاعی جہاد کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنے مذکورہ مقصد بعثت کی تکمیل اور فتنے کے استیصال کے لیے اپنے سرکش مخاطبین کے خلاف بلاشبہ اقدامی جہادو قتال بھی کیا، جس میں کئی غزوات اور سرایا شامل ہیں ۔ یہاں یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ جزیرہ نماے عرب میں اسلام اور مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے لیے اور قانون اتمام حجت کی رو سے کیے جانے والا یہ جہاد وقتال ایک ایسا خدائی معاملہ تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ۔ اس کا تعلق شریعت سے نہیں ہے ۔ اس میں ہمارے لیے کوئی اسوہ نہیں ہے ۔ یہ دراصل ایک قیامت صغریٰ تھی جو قیامت کبریٰ کی حسی دلیل بنا کر پیش کی گئی۔ اس میں اللہ و رسول کے فرماں برداروں کو ان کی فرماں برداری کے لحاظ سے جزا ملی اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کے لحاظ سے سزا۔
اس سلسلے میں ضمنی طور پر یہ بات پیش نظررکھیے کہ جس دور میں تاریخ اسلام لکھی گئی ، اس وقت تاریخ نویسی زیادہ تر جنگ و جدال اور فتوحات کے ذکر پر مبنی ہوتی تھی۔ کسی قوم کے اندر سیاسی اور سماجی حالات میں امن و محبت کے اوصاف کتنی ہی زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہوں،تاریخ دان اس کی جنگوں ہی کو قابل اعتنا سمجھا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جنگوں کا ذکر بہت نمایاں انداز میں کیا گیا ہے ۔
سوال : قانون اتمام حجت کی رو سے اگر جہاد و قتال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے ساتھ خاص تھا تو ان کے بعد جہاد و قتال کن بنیادوں پر کیا جا سکتا ہے ؟
جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے بعد جہادو قتال صرف ظلم و عدوان کے خلاف ہی کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی جان و مال اور عقل و رائے کے خلاف ہر اقدام ظلم و عدوان ہے ۔ دین نے ظلم و عدوان کی دو صورتوں کو موضوع بنایا ہے۔ ایک صورت فتنہ اور دوسری صورت مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے حوالے سے بیان ہوئی ہے۔ ذیل میں ہم ان دونوں صورتوں کی وضاحت کرتے ہیں ۔
فتنہ کا مطلب ہے کہ کسی شخص کو ظلم و جبر کے ساتھ اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرنا ۔ اس ظلم و جبر کے لیے انگریزی میں Persecution کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر فتنہ کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ اس ظلم و جبر کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن اسے قتل سے بڑا جرم قرار دیتا ہے ۔۲ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آزمایش کے لیے انسان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے آزادانہ فیصلے سے جو دین اور جو نقطۂ نظر چاہیں اختیار کریں، لہٰذا جو شخص یا گروہ کسی کو بالجبر اس کا دین چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے تو وہ درحقیقت انسان کے لیے خدا کی پوری اسکیم کو بے معنی کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چنانچہ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اس زمین پر اسلام قبول کرنے والوں کے لیے فتنہ کی جو حالت پیدا کر دی گئی ہے ، اسے ختم کرنے کے لیے تلوار اٹھائیں اور اس وقت تک برابر اٹھائے رکھیں جب تک یہ حالت باقی ہے ۔ ۳ سورۂ نساء میں یہ حکم اس انداز سے دیا گیا :
’’اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریا دکر رہے ہیں کہ خدایا ، ہمیں اس ظالموں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہم درد پیدا کر دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار پیدا کر دے ۔ (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو لوگ ایمان لائے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو منکر ہیں وہ شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ لہٰذا تم بھی شیطان کے ان حامیوں سے لڑو ۔ شیطان کی چال ہر حال میں بودی ہوتی ہے۔ ‘‘ (۴: ۷۵۔۷۶)
لہٰذا اب بھی اللہ کی زمین پر کہیں کوئی فتنہ سر اٹھائے تو مسلمانوں کی حکومت اگر اتنی قوت رکھتی ہو کہ وہ اس کا استیصال کر سکے تو اس پر لازم ہے کہ وہ مظلوموں کی مددکے لیے جہاد کا اعلان کر دے ۔
اگر کوئی مسلمان گروہ کسی دوسرے مسلمان گروہ کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ ظلم کرنے والے گروہ کے خلاف جنگ کی جائے ۔ سورۂ حجرات میں ہے :
’’اور مسلمانوں کے دو گروہ اگر کبھی آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ ۔ پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے جنگ کرو ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے ۔ پھر اگر وہ لوٹ آئے تو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ مصالحت کرا دو اور ٹھیک ٹھیک انصاف کرو ، اس لیے کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مسلمان تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہٰذا اپنے ان بھائیوں کے مابین صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘ (۴۹: ۹۔۱۰)
مطلب یہ ہے کہ دو مسلمان گروہ آپس میں لڑیں تو دوسرے مسلمان اسے پرایا جھگڑا سمجھ کر نظر انداز نہ کریں ۔ وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان مصالحت کی کوشش کریں ۔ اگر کوئی گروہ مصالحت پر راضی نہ ہو یا راضی ہونے کے بعد پھر ظلم و عدوان کا رویہ اختیار کرے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ طاقت رکھتے ہوں تو اپنی حکومت کے تحت اس گروہ کے خلاف جہادو قتال کریں ۔ مسلمانوں کے خلاف ظلم و عدوان کی دوسری صورتوں کو بھی سورۂ حجرات کے اسی حکمِ الہٰی کے تحت دیکھنا چاہیے ۔
____________
۱ دیکھیے ، ’’اشراق‘‘ جنوری ۲۰۰۲۔
۲ البقرہ ۲ : ۱۹۱۔
۳ البقرہ ۲ : ۱۹۳۔
_______________