HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۸۳-۱۸۵ (۳۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ) 


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ، اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰیسَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ، وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ، فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْکُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ {۱۸۳۔۱۸۴} 

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ {۱۸۵}

(یہ اللہ کے حدود ہیں اور اِن کی پابندی وہی کر سکتے ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں ، اِس لیے ) ایمان والو، تم پر روزہ ۴۷۹ فرض کیا گیا ہے ، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا ۴۸۰ تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔ ۴۸۱ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ ۴۸۲ اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے ۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں ۴۸۳ (کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں) تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے ۔ ۴۸۴ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے ، ۴۸۵ اور روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے ، ۴۸۶ اگر تم سمجھ رکھتے ہو ۔ ۱۸۳۔ ۱۸۴

رمضان ۴۸۷ کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، لوگوں کے لیے رہنما بنا کراور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں ۴۸۸ جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سراسر ہدایت بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی ۔ سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو ، اُسے چاہیے کہ اِس کے روزے رکھے ۔ ۴۸۹ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو ۴۹۰ تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے ۔ ۴۹۱ (یہ ۴۹۲ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھاے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے ۔ اور (فدیے کی اجازت اِس لیے ختم کر دی گئی ہے کہ ) تم روزوں کی تعداد پوری کرو، (اور جو خیرو برکت اِس میں چھپی ہوئی ہے ، اُس سے محروم نہ رہو)۔ اور (اِس مقصدکے لیے رمضان کا مہینا اِس لیے خاص کیا گیا ہے کہ قرآن کی صورت میں) اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے ، اُس پر اُس کی بڑائی کرو اور اِس لیے کہ تم اُس کے شکر گزار بنو۔ ۴۹۳  ۱۸۵ 

۴۷۹؎ اصل میں لفظ ’الصیام‘ آیا ہے ۔ اللہ کی خوش نودی کے لیے کھانے پینے اور زن و شو کے تعلق سے رک جانے کے معنی میں یہ ایک دینی اصطلاح کے طور پر عربی زبان میںہمیشہ سے اسی طرح معروف رہا ہے جس طرح روزے کا لفظ ہماری اردو زبان میں اس معنی کے لیے معروف ہے ۔

۴۸۰؎ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نازل کردہ شریعتوں میں روزہ ابتدا ہی سے تربیت نفس کی خاص عبادت رہی ہے ۔

۴۸۱؎ حدود الہٰی کی پابندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر جذبات اور خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرے اور یہ صلاحیت ، اگر غور کیجیے تو فی الواقع اللہ کے ڈر ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔

۴۸۲؎ یہ الفاظ تالیف قلب کے طور پر آئے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تربیت نفس کے لیے تیس یا انتیس دنوں کا یہ نصاب حقیقت میں چند روزہ ہی ہے ، لہٰذا اس سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔

۴۸۳؎ اصل الفاظ ہیں : ’وعلی الذین یطیقونہ‘ ۔ ان میں ضمیر کا مرجع اگرچہ موخرہے ، لیکن غور کیجیے تو متکلم کی نیت میں وہ بالکل اسی طرح مقدم ہے جس طرح ، مثال کے طور پر ، ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں : تم اس کی ہمت رکھتے ہو تو سفر کے لیے نکل جاؤ۔

۴۸۴؎ قضا روزوں کے بدلے میں مسکین کو کھانا کھلانے کی یہ اجازت ، جیسا کہ آگے کی آیت سے واضح ہو گا ، بعد میں منسوخ کر دی گئی اور ان کی جگہ روزہ رکھنا ہی ضروری قرار دیا گیا۔

۴۸۵؎ مطلب یہ ہے کہ روزے کا یہ فدیہ کم سے کم مطالبہ ہے جو استطاعت رکھنے والوں کو ہر حال میں پورا کرنا چاہیے ، لیکن اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ان کے ساتھ کوئی اور نیکی کر دے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے ۔

۴۸۶؎ یعنی یہ فدیہ ایک رعایت ہے ۔ اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر یہی ہے کہ آدمی فدیے کے بجائے دوسرے دنوں میں روزے ہی پورے کر دے ۔

۴۸۷؎ آگے قضا شدہ روزوں کے لیے فدیے کی جو اجازت ختم کی گئی ہے ، اس سے واضح ہے کہ یہ آیت اوپر والی آیت کے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی ہے ۔

۴۸۸؎ اصل میں لفظ ’بینات‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مراد نہایت واضح ، دل نشیں اور ہر الجھن کو دور کر دینے والے دلائل و براہین ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ قرآن ان بینات کا ایسا خزانہ ہے جو رہتی دنیا تک عقل انسانی کی رہنمائی کے لیے کافی ہے ۔

۴۸۹؎ اصل الفاظ ہیں : ’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘ ۔ تالیف کلام کے لحاظ سے یہ اوپر کے مبتدا کی خبر ہے اور ’فلیصمہ‘ کے معنی اس میں یہ ہیں کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے جائیں ، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے ۔

۴۹۰؎ یعنی اس طرح کی حالت ہو کہ آدمی کے لیے روزہ رکھنا غیر معمولی تکلیف کا باعث بن جائے ۔ چنانچہ یہی حکم حاملہ ، مرضعہ اور پیر فانی کا بھی ہو گا۔

۴۹۱؎ یہاں اللہ تعالیٰ نے اوپر والی آیت کے الفاظ ’وعلی الذین یطیقونہ ‘ سے ’ان کنتم تعلمون‘ تک حذف فرما دیے ہیں ۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قضا شدہ روزوں کے لیے فدیے کی جو اجازت اس سے پہلے دی گئی تھی ، وہ ختم ہو گئی ہے ۔ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے آگے خود بیان کر دی ہے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ اجازت کیوں دی گئی ؟ اس سوال کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اس لیے جب تک طبائع اس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے لازم نہیں فرمایا ۔

۴۹۲؎ اس سے پہلے ، اگر غور کیجیے تو تین باتیں بیان ہوئی ہیں : ایک یہ کہ روزوں کے لیے رمضان کا مہینا خاص کیا گیا۔ دوسری یہ کہ فدیہ کی اجازت منسوخ کر دی گئی۔ تیسری یہ کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزے دوسرے دنوں پر ملتوی کیے جا سکتے ہیں ۔ یہاں ان تینوں کی حکمت اللہ تعالیٰ نے ترتیب صعودی کے ساتھ ، یعنی نیچے سے شروع کر کے اوپر کی طرف چڑھتے ہوئے بیان فرما دی ہے ۔

۴۹۳؎ مطلب یہ ہے کہ جس مہینے میں دنیا کو قرآن جیسی نعمت ملی ، وہ سزاوار تھا کہ خدا کی تکبیر اور شکر گزاری کا خاص مہینا قرار دیا جائے ۔ روزہ یہی تکبیر اور شکر گزاری ہے ۔ اس میں انسان جب اپنی جائز خواہشوں سے بھی محض اپنے پروردگار کی خوش نودی اور رضا کی طلب میں دست بردار ہو جاتا ہے تو گویا اپنے قول و فعل ، ظاہر و باطن اور اپنے روزو شب ، ہر چیز سے اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حکم سے بڑی اس کے نزدیک کوئی چیز بھی نہیں ہے ۔ اللہ کی عظمت ، جلالت اور اس کی بزرگی و کبریائی کے احساس و اعتراف کی یہی حالت ، اگر غور کیجیے تو اس کی شکر گزاری کا حقیقی اظہار بھی ہے ۔

(باقی)      

              ـــــــــــــــ              ـــــــــــــــ

B