(مشکوٰۃ المصابیح حدیث :۸۷۔۸۸)
عن عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ أن رجلین من مزینۃ قالا: یا رسول اﷲ، أرأیت ما یعمل الناس الیوم و یکدحون فیہ؟ أشیء قضی علیہم و مضی فیہم من قدر سبق، أو فیما یستقبلون بہ مما أتاہم بہ نبیہم و ثبتت الحجۃ علیہم؟ فقال لا، بل شیء قضی علیہم و مضی فیہم، و تصدیق ذلک فی کتاب اللّٰہ عزوجل: و نفس وما سواہا فألہمھا فجورہا و تقواہا ۔
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مزینہ کے دو آدمیوں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے )پوچھا :یارسول اللہ ، یہ لوگ جو اعمال اور ان(اعمال کوانجام دینے) کے لیے جو سعی و جہد کر رہے ہیں، اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ نافذ ہو چکا ہے اور یہ پہلے سے طے شدہ تقدیر ہے جو جاری کر دی گئی ہے یا ان کا معاملہ یہ ہے کہ یہ (اپنی مرضی سے ) اس چیز کو قبول کر رہے ہیں جو ان کا نبی لے کر آیا ہے اور ان پر حجت ثابت ہو رہی ہے ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان میں جاری ہو گئی ہے ۔ اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس طرح سے آئی ہے: اور گواہ ہے جان اور اس کی ساخت کہ اس میں اس نے نافرمانی اور تقویٰ دونوں الہام کر دیے ہیں ۔ ‘‘
أرأیت :لفظی مطلب تو ’کیا تونے دیکھا ؟‘ہے، لیکن استفہام کا یہ اسلوب کسی کی رائے جاننے،کسی شے یا امر کی طرف توجہ مبذول کرنے ، اظہار تعجب اور اظہار نفرت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یکدحون : ’کدح‘ کے معنی کسی کام کی سخت جانیاں سہتے ہوئے اسے کرتے رہنا ہے۔ اردو میں اس کے لیے عام طور پر جدوجہد کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے۔
قضی علیہم : ’قضاء‘ کے معنی فیصلہ کرنے، پورا کرنے اور مکمل کرنے کے ہیں۔ ’علی‘کے صلے کے ساتھ اس میں نفاذ کے معنی کا اضافہ ہو گیا ہے۔
مضی فیہم : ’مضی‘ کے معنی گزر جانے کے ہیں۔ یہاں یہ وقوع پزیر ہونے کے معنی میں ہے۔
ثبتت الحجۃ علیہم :حجت ثابت ہونا سے مراد یہ ہے کہ معاملہ کسی تقدیر کے اسیر ہونے کا نہیں ،بلکہ دلیل کی بنیاد پر حق کے قبول اور عدم قبول کا ہے۔
فألہمہا : ’الہام‘ کے معنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈالنا کے ہیں۔ یہاں اس سے نفس انسانی کے تسویے کے تکمیلی مرحلہ کا بیان ہواہے جس کے نتیجے میں انسان میں یہ اہلیت پیدا ہوئی کہ وہ حق و باطل کو پہچان سکے۔
اس روایت میں مزینہ کے دو آدمیوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمے کا ذکر ہوا ہے۔ ایک دوسری روایت میں اس کے بجائے جہینہ یا مزینہ کے شک کے ساتھ ایک آدمی کا سوال کرنا روایت ہوا ہے۔ اسی طرح اس روایت میں ’ثبتت الحجۃ علیہم‘کی جگہ ’اتخذت علیہم بہ الحجۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح آخر میں سائل کا اعتراض بھی نقل ہوا ہے: ’فلم یعملون اذا یا رسول اﷲ‘(پھر، اے اللہ کے رسول ،وہ عمل کیوں کر رہے ہیں)؟ آپ نے جواب میں فرمایا: ’من کان اﷲ عز و جل خلقہ لواحدۃ من المنزلین یہیۂ لعملہا‘(جو بھی اللہ کی مخلوق ہے وہ اسے دونوں منزلوں (یعنی جنت یا جہنم) میں سے ایک کے عمل کی توفیق دیتا ہے )۔ صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت مسلم سے لی ہے۔ مسلم نے حضور سے مکالمے کو روایت کرنے سے پہلے صحابی اور تابعی کے اس موضوع پر مکالمے کو بھی بیان کیا ہے :
عن ابی اسود الدیلی قال : قال لی عمران بن حصین أرأیت ما یعمل الناس الیوم و یکدحون فیہ ؟ أشیء قضی علیہم و مضی علیہم من قدر ما سبق، او فیما یستقبلون بہ مما اتاہم بہ نبیہم و ثبتت الحجۃ علیہم ؟ فقلت بل شیء قضی علیہم ومضی علیہم ۔ قال : فقال : أفلا یکون ظلما۔ قال : ففزعت من ذلک فزعا شدیدا وقلت : کل شیء خلق اﷲ و ملک یدہ فلا یسأل عما یفعل و ہم یسألون ۔ فقال لی یرحمک اﷲ إنی لم ارد بما سألتک الا لأحزر عقلک ۔۔۔ ۔
’’ابواسود دیلی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین نے پوچھا : آج لوگ جو عمل اور سعی وجہد کر رہے ہیں ، اس کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے۔ آیا یہ چیزپہلے سے طے شدہ تقدیر میں سے ہے جو ان پر نافذ کر دی گئی اور ان پر جاری کر دی گئی ہے یا یہ اپنے نبی کی دعوت جو وہ ان کے پاس لے کے آیا ہے ،قبول کررہے ہیں اور ان پرحجت پوری ہو گئی ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان پر جاری کر دی گئی ہے ۔ انھوں نے میری اس بات پر اعتراض کیا : تو کیا یہ ظلم نہ ہو گا ۔ وہ بیان کرتے ہیں : اس بات پر میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا: ہر شے اللہ کی مخلوق ہے اور اس کے ہاتھ کی ملک ہے۔ اس سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور ان سے پوچھا جائے گا (کہ یہ کیا کر رہے ہیں)۔ انھوں نے مجھے جواب دیا : اللہ تم پر رحم کرے میرا سوال سے مقصود صرف یہ تھا کہ میں تمھارے فہم اور سمجھ کو جانچوں۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘
صحیح ابن حبان میں اس روایت کا متن مسلم کے متن کی طرح ہے ،محض کچھ لفظی فرق ہیں ۔ یعنی اس میں حجت والا جملہ ’اتخذ‘ فعل کے ساتھ ہے اور آخر میں ’یہیۂ لعملہا ‘کی جگہ ’یستعمل لہا‘کے الفاظ مروی ہیں ۔ایک دوسری روایت کے مطابق یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کیا گیا تھا کہ پھر لوگ عمل کیوں کریں؟ آپ نے فرمایا : ’اعملوا فکل میسر لما خلق لہ‘۔’’عمل کرو ، ہر ایک کو اس کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے ۔‘‘
اس روایت کی عبارت میں ایک حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ سائل نے اپنا سوال ’قضی علیہم‘ اور’ مضی فیہم من قدر‘ کے الفاظ میں کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں جملے ایک ہی معنی کے ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے ۔ شارحین نے قضا اور تقدیر کے معنی کے فرق کو سامنے رکھ کر ان جملوں کے الگ الگ معنی متعین کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی قضا اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں اور تقدیر ان کے نفاذ کی عملی صورتیں وغیرہ ۔ ہمارے نزدیک، سائل کے ذہن میں کچھ مراحل کے حوالے سے سوال کرنا نہیں ہے ۔ اس نے محض احاطۂ قدرت اور توسیع نفاذ کی شدت کومحسوس کرتے ہوئے اپنی بات نتیجے کے اعتبار سے دو مترادف جملوں میں بیان کی ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔
دوسرا مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن مجیدسے استدلال سے متعلق ہے۔ روایت کے معنی بظاہر یہ ہیں کہ ہر چیز تقدیر میں طے ہے اور انسان جو کچھ کر رہا ہے، اس کا سبب تقدیر کا لکھا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تائید میں جو آیۂ مبارکہ پڑھی ہے ،اس میں یہ بات بیان ہی نہیں ہوئی ،بلکہ سورہ کے مضمون کو سامنے رکھیں تو بالکل مختلف بات سامنے آتی ہے۔اس آیت کی متصل آیا ت میں بیان ہوا ہے: ’’کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور ناکام ہو ا وہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ کر لیا۔‘‘ یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ پہلی آیت میں صلاحیت کے ودیعت کرنے کا معاملہ بیان ہوا ہے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’انسان اگر خود اپنے نفس پر غور کرے تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ خالق نے اس کی تشکیل اس طرح فرمائی ہے کہ اس کے اندر نیکی اور بدی دونوں کا شعور ودیعت کر دیا ہے ۔ یہ شعور ظاہر ہے کہ اس لیے ودیعت ہوا ہے کہ انسان ان میں سے نیکی کو اختیار کرے اور بدی سے اپنے آپ کو بچائے ۔اور اس سے یہ بات بھی بدیہی نتیجہ کے طور پر نکلی کہ فلاح وہی پائے گا جو اپنے آپ کو بدی سے پاک رکھے گا اور وہ نامراد ہوگا جو اس کو گناہ سے آلودہ کرے گا ۔اس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھنے کا تصور انسان کے خود اپنے نفس کی شہادت کے خلاف ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۳۸۷)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ آیت تقدیر کے مسئلے سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی ۔ شارحین نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آیت کے سیاق و سباق کو نظر انداز کرکے حدیث کے مضمون اور آیت میں تطبیق پیدا کردی ہے ۔آیۂ مبارکہ میں ’الھم‘ کا فعل ماضی کا صیغہ ہے ۔اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نیکی اور بدی ماضی میں الہام ہوئے ہیں۔گویا ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بدی کا فیصلہ بہت پہلے سے ہوچکا ہے ۔ آیت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ آیت اس مفہوم کی حامل نہیں ہے ۔
روایت اپنے معنی کے اعتبار سے بظاہر اس بات کومؤکد کرتی ہے کہ انسان جو کچھ کر رہا ہے ، اس میں اس کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ جو کچھ پہلے سے طے کرکے لکھ دیا گیا ہے ، ہر انسان اسی پر عمل پیرا ہے ۔ظاہر ہے یہ بات قرآن مجید کے بالکل خلاف ہے ۔ بلکہ یہ انبیا کی بعثت اور عذاب و ثواب کی ساری کہانی ہی کو عبث بنا دیتی ہے ۔مزید برآں یہ ہمارے اس مشاہدے کے بھی خلاف ہے کہ خیر و شر کے اختیار و قبول کی کامل آزادی ہمیں حاصل ہے ۔ہر انسان روز مرہ کی زندگی میں اس اختیار کا تجربہ کرتا اور اسے برتتا ہے ۔
اصل حقیقت دوسری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آزمایش کے اس سلسلے کے آغاز سے پہلے اپنے مستقبل کے کامل علم کی روشنی میں قیامت تک کے تمام احوال تفصیل سے لکھ دیے ہیں ۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد جگہ پر بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم کامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے اور ہمارے عمل میں کوئی مغایرت نہیں ہو سکتی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علم کے کامل ہونے کا نتیجہ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ لکھا ہے ،اپنی مرضی سے لکھ دیا ہے اور اب انسان اس لکھے کے آگے بے بس ہے۔اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دی ہے ۔ پھر یہ دیکھا کہ وہ اس آزادی کو پا کر کیا کرتا ہے ۔ اسے دیکھ کر ایک کتاب میں لکھ دیا ۔
ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات بیان کی ہو ،لیکن راویوں کے سوء فہم کے نتیجے میں الفاظ کے ردوبدل سے بات ہی دوسری ہو گئی۔
مسلم ، کتاب القدر ، رقم ۴۷۹۰۔ مسند احمد ، رقم ۱۹۰۸۹۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۱۸۲۔مسند الطیالسی،رقم ۸۴۲۔ المعجم الکبیر، رقم ۵۵۷۔ السنہ لابن ابی عاصم، رقم ۱۷۴۔
______
عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قلت یا رسول اﷲ، إنی رجل شاب وأنا أخاف علی نفسی العنت، و لا أجد ما أتزوج بہ النساء، کأنہ یستأذنہ فی الاختصاء۔ قال: فسکت عنی۔ ثم قلت مثل ذلک۔ فسکت عنی۔ ثم قلت مثل ذلک۔ فسکت عنی۔ ثم قلت مثل ذلک۔ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جف القلم بما أنت لاق، فاختص علی ذلک أو ذر۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول، میں ایک نوجوان ہوں۔ مجھے اپنے بارے میں اندیشہ ہے کہ میں (گناہ کی) مصیبت میں پڑ جاؤں گا ۔ جب کہ میرے پاس (اتنا) مال نہیں ہے جس سے میں کسی عورت سے شادی کر لوں۔ گویا کہ وہ خصی ہونے کی اجازت مانگ رہے تھے ۔ (ابوہریرہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (میری بات سن کر) خاموش رہے۔ پھر میں نے اپنی بات دہرائی۔ آپ پھر بھی چپ رہے۔ میں نے اپنی بات پھر دہرائی۔ آپ اس بار بھی خاموش رہے۔پھر میں نے اپنی بات بیان کی، اس مرتبہ آپ نے فرمایا: اے ابوہریرہ قلم(اسے لکھ کر ) خشک ہو چکے ہیں جس سے تم دوچار ہونے والے ہو۔ اس صورت حال میں چاہو خصی ہو جاؤ اور چاہو (یہ ارادہ) چھوڑ دو ۔‘‘
العنت: لفظی معنی تو تکلیف اور مشقت کے ہیں ، لیکن یہ مشقت، فساد، گناہ، ہلاکت، غلطی، لغزش اور ظلم و زیادتی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی یہ لفظ زنا کے جرم اور نتیجۃً عذاب سے دوچار ہونے کو تعبیر کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ سورۂ نسا میں لونڈیوں سے نکاح کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’ذلک لمن خشی العنت منکم‘ ۔ (یہ اجازت ان کے لیے ہے جنھیں تم میں سے مصیبت میں پڑنے کا اندیشہ ہو)۔ حضرت ابوہریرہ نے بھی غالباً یہ لفظ قرآن مجید کی اتباع میں اختیار کیا ہے۔
کأنہ یستأذنہ فی الإختصاء: اس روایت میں یہ جملہ راوی کے تبصرے کے طور پر نقل ہوا ہے ۔ گویا حضرت ابوہریرہ نے الفاظ میں خصی ہونے کی اجازت طلب نہیں کی تھی۔ ان کے اسلوب بیان سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری روایات میں اسے سوال کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ صحیح روایت کون سی ہے ۔
الإختصاء: خصی ہونا ۔ جراحت کا عمل ہے جس سے تولیدی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
جف القلم :قلم خشک ہو گیا۔ جب تک تحریر کا عمل جاری ہو، قلم روشنائی سے تر رہتا ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو قلم دوات سے نکال کر رکھ دیاجاتا ہے۔ چنانچہ وہ خشک ہو جاتا ہے۔ گویایہ صورت حال تحریر کے مکمل ہونے اور اب کسی حک واضافے کے امکان کے ختم ہونے کی تعبیر ہوتی ہے۔ اس جملے سے یہاں یہی واضح کرنا مقصود ہے۔
صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت بخاری سے لی ہے۔ بخاری میں اس روایت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دوسرے مکالمے کو بھی روایت کیا گیا ہے :
قال عبداﷲ : کنا نغزو مع رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم و لیس لنا شیء۔ فقلنا ألا نستخصی۔ فنہانا عن ذلک ثم رخص لنا أن ننکح المرأۃ بثوب۔ ثم قرأ علینا : ’یا ایھا الذین آمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللّٰہ لکم ولا تعتدوا، ان اللّٰہ لا یحب المعتدین‘۔ و قال اصبغ اخبرنی ابن وہب عن یونس بن یزید عن ابن شہاب عن ابی سلمۃ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہم ۔۔۔۔
’’عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے ۔ اس موقع پر ہم نے آپ سے پوچھا : کیا ہم خصی نہ ہو جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور ہمیں ایک کپڑے کے عوض نکاح کرنے کی رخصت دے دی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’ایمان والو ،ان چیزوں کو حرام نہ ٹھیراؤ جنھیں اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے۔ سرکشی نہ کرو۔ بے شک اللہ سرکشی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اصبغ بیان کرتے ہیں ابن وہب سے ، یونس بن یزید سے ، ابن شہاب سے ، ابوہریرہ سے۔۔۔۔ ‘‘
نسائی میں یہ روایت اس تمہید کے بغیر ہے ۔ کچھ لفظی فرق تو ہیں ، مثلاً ’ أنا أخاف‘ کی بجائے ’قد خشیت، لا اجد ماأتزوج بہ النساء‘ کی جگہ ’لااجد طولا اتزوج النساء‘ آخر میں ’أو ذر‘ کے بدلے ’ أودع‘ کے الفاظ آئے ہیں۔لیکن اہم اختلاف خصی ہونے کی اجازت والے جملے کے حوالے سے ہے۔ بخاری میں یہ جملہ حضرت ابوہریرہ کی طرف منسوب نہیں ہے ۔ جبکہ نسائی کی روایت میں صریحاً حضرت ابوہریرہ سے منسوب ہے ۔اسی طرح بیہقی، المعجم الاوسط ، السنن الکبریٰ اور بعض دوسری کتب میں بھی یہ سوال حضرت ابوہریرہ ہی سے منسوب ہے۔
اسی مضمون کی ایک روایت حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں سوال تویہی ہے ، لیکن جواب بالکل مختلف ہے:
ان شابا اتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یستأذنہ فی الاختصاء فقال صم و سل اللّٰہ من فضلہ۔ (الزہد، لابن مبارک ، ۱/ ۳۹۱)
’’ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا : روزہ رکھو ، اور اللہ سے اس کا فضل مانگو ۔‘‘
یہ روایت اگر حضرت ابوہریرہ ہی کے حوالے سے ہے تو زیر بحث روایت کی بعض تفصیلات کے بارے میں سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ کیا وہ درست ہیں یا یہ روایت ۔مطلب یہ کہ آیا تقدیر کے بیان والا حصہ بعد کا اضافہ ہے یانہیں۔عام طور پر انھیں دو الگ روایات ہی سمجھا گیا ہے۔
یہ روایت بھی تقدیر ہی کے مضمون کی حامل ہے ۔ سائل اس مسئلے سے دوچار ہے کہ وہ اپنے آپ کوگناہ سے کیسے بچائے ۔ اس کی وسعت میں نہیں کہ وہ شادی کرے اور گھر در کے اخراجات پورے کرے۔چنانچہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ مسئلے کاجڑ سے قلع قمع کر دے ۔
اس کا جواب تو یہ ہے ، جیسے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں دیا بھی گیا ہے کہ روزے سے اپنے تقویٰ کی طاقت بڑھاؤ اور وسعت رزق کے لیے اپنے پروردگار سے دعا کرو ۔ اس کا جواب قرآن مجید میں بھی دیا گیا ہے ۔ سورہ نساء میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اجازت مالی تنگی کے مسئلے کے حل کے لیے دی گئی ۔ قرآن مجید کے الفاظ ہی یہ ہیں:
وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ۔ (۴: ۲۵)
’’اور جو تم میں سے آزاد مومنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ مومنہ کنیزوں میں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں ، ان سے نکاح کرے ۔‘‘
سورۂ نور میں اسی مسئلے کے پیش نظر فرمایا ہے :
اِنْ یَکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِِنْ نَفْسِہِ۔(۲۴ : ۳۲)
’’اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘
اس سے اگلی آیت میں ہے :
وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتَّی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ۔ (۲۴ : ۳۳)
’’اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہیں پا رہے ، وہ اپنے آپ کو ضبط میں رکھیں ، یہاں تک اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے ۔ ‘‘
حیرت کی بات ہے کہ روایت کے مطابق ابوہریرہ کو ان میں سے کوئی جواب نہیں دیاگیا۔ بلکہ زنا میں مبتلا ہونے اور نہ ہونے کے مسئلے کو تقدیر کا معاملہ بنا دیا گیا ہے ۔یہاں تک کہ ابوہریرہ کو یہ بھی نہیں کہا گیا کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی حرمت کو حلال کرنے کے مترادف ہے ۔ حالانکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے یہی بات ان لوگوں سے کہی تھی جو ابوہریرہ ہی کی طرح آپ سے ایک غزوے کے موقع پر خصی ہونے کی اجازت طلب کر رہے تھے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ روایت میں حضور کی بات صحیح الفاظ میں نقل نہیں ہو سکی ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس روایت کا کوئی تسلی بخش حل سمجھ میں نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوہریرہ کی بات سن کر بہت غصہ آیا ہے ۔ پہلے تو آپ نے خاموشی اختیار کی ہے۔ اور آخر میں ڈانٹتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جو چاہو کرو تقدیر کا لکھا کوئی نہیں ٹال سکتا۔
پچھلی متعدد روایات کی شرح میں ہم بار بار بیان کر چکے ہیں کہ نیکی اور برائی کا معاملہ سرتاسر انسان کے اختیار میں ہے ۔ یہ بات قرآن مجید کی محکمات میں سے ہے ۔ اس کے خلاف کسی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
بخاری ،کتاب النکاح، رقم ۴۶۸۶۔ سنن نسائی، کتاب النکاح۔ الزہد لابن مبارک، رقم ۱۱۰۷۔ سنن بیہقی، رقم ۱۳۲۴۳۔ السنن الکبریٰ، رقم ۵۳۲۳۔ سنن النسائی (المجتبی)، رقم ۳۲۱۵۔ المعجم الاوسط، رقم ۶۸۱۴۔ القدر، رقم ۱۶۔
____________