HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

قرآن مجید سے تعلق

سوال : لاہور میں مطالعۂ قرآن ، فہمِ قرآن ، ترجمۂ قرآن اور درسِ قرآن وغیرہ کے نام پر مختلف حلقے لوگوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ کام پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی کسی نہ کسی درجے میں ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں دینی مدارس بھی تدریسِ قرآن کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے اس سب کچھ کے باوجود لوگوں کا قرآن سے تعلق قائم نہیں ہو پا رہا ! اس کی کیا وجہ ہے ؟

جواب : سوال میں زیر بحث مسئلے کو سمجھنے کے لیے چند تمہیدی باتوں کا جاننا ضروری ہے ۔ یہ دنیا آزمایش کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ دنیوی زندگی میں انسان کو اختیار و اقتدار دونوں حاصل ہیں ۔ اس کی آزمایش یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے اور شعوری طو رپر صحیح اور غلط راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے ۔ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ اس انتخاب کے معاملے میں انسان کو مجبور نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں ’لا اکراہ فی الدین‘ (دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔) کے الفاظ میں اسی فطری جبر کی نفی کی گئی ہے۔ البتہ ، انسان جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر (اس کے فیصلے کے مطابق) خدا کا قانونِ توفیق یا قانونِ امہال روبہ عمل ہوتا ہے ۔یعنی وہ اگر سیدھی راہ اختیار کرتا ہے تو اسے نیکی کی توفیق ملنا شروع ہو جاتی ہے ۔ اس کے اندر اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات برداشت کرنے اور مصائب جھیلنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس راہ پر چلتے ہوئے اگر وہ کہیں ایسی صورت حال کا شکار ہو جائے کہ برائی سے بچنا اس کے لیے ممکن نہ رہے تو پھر خدا آگے بڑھ کر اپنے بندے کو سہارا دیتا اور اسے برائی سے بچا لیتا ہے ۔

اس کے برعکس اگر وہ غلط راستے کا انتخاب کرتا اور شیطان کی راہ پر چل نکلتا ہے تو قانونِ امہال کے مطابق اس کے لیے بدی کے مواقع پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے برائی میں لذت ملنے لگتی ہے ۔ وہ معصیت کا ارتکاب کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ برائی اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے اور اس کا دل قبول حق کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے ۔

ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی حیثیت پر غور کیاجائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اگر چہ یہ کتاب ہدایت ہے ، مگر اس سے استفادے کی توفیق انھی کو حاصل ہوتی ہے جو دنیا میں زندگی کی آزمایش کی حقیقت سمجھتے ہوں اور آخرت میں خدا کی جنت کو پانے کا سچا اور لازوال جذبہ رکھتے ہوں ۔ اس کے حفظ و تلاوت ، اس پر غوروتدبر اور اس کی تعلیمات پر عمل کے بامقصد ہونے کا تمام تر دارومدار ہدایت کو پا لینے کی خواہش پر ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب بندہ شعوری طور پر مسلمان ہو اور آخرت میں جنت کا حصول اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے ۔

ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے موروثی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے ، حالانکہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے میں ہمارے ارادے یا کوشش کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ یہ مشیت خداوندی ہے ۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم جب ہوش سنبھالیں تو ایک مرتبہ پھر شعوری طور پر اسلام قبول کریں تاکہ اسلام ہمارے لیے ایک واقعہ بن جائے ۔ اسی کے نتیجے میں دین ایک معاشرتی ضرورت ، تمدنی عمل اور سماجی روایت کے بجائے آخرت کی ابدی بادشاہی کے لیے دنیوی زندگی کی واقعی ضرورت بن جائے گا ۔ اور پھر قرآن کے ساتھ ہمارا زندہ تعلق قائم ہو گا۔

خلاصۂ کلا م یہ ہے کہ قرآن مجید سے بامقصد استفادے کے لیے ضروری ہے کہ بندۂ مومن :

۱۔ زندگی میں درپیش آزمایش کی حقیقت سے روشنا س ہو ۔

۲۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں قوانین خداوندی سے آگاہ ہو ۔

۳۔ اس کا مسلمان ہونا ایک شعوری واقعہ ہو ۔

۴۔ دنیا پر اس کی آخرت کی ترجیح مشہود حقیقت ہو ۔

۵۔ اس کی زندگی کا اصل مسئلہ آخرت میں خدا کی جنت کا حصول ہو ۔

____________

B