بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ{۱۷۲} اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ ومَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ ، فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ {۱۷۳} اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓئِکَ مَایَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلاَّ النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ {۱۷۴} اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْھُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ {۱۷۵}
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ{۱۷۶}
ایمان والو، (یہ اپنی اِن بدعتوں کو نہیں چھوڑتے تو اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑو، اور) جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں، اُنھیں (بغیر کسی تردد کے) کھائو اور اللہ ہی کے شکرگزار بنو، اگر تم اُسی کی پرستش کرنے والے ہو۴۳۸ ۔ اس نے تو تمھارے لیے صرف مردار اور خون اورسؤر کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا ہے۴۳۹ ۔ اِس پر بھی جو مجبور ہو جائے، اِس طرح کہ نہ چاہنے والا ہو۴۴۰ ، نہ حد سے بڑھنے والا تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۴۴۱ ۔ اللہ، یقینا بخشنے والا ہے، وہ سراسر رحمت ہے۔ ۱۷۲۔۱۷۳
(یہ اہلِ کتاب تو جانتے تھے کہ یہی حق ہے، لیکن اُنھوں نے اِسے چھپایا)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اُن باتوں کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اتاری ہیں اور اُس کے بدلے میں (دنیا کی) بہت تھوڑی قیمت قبول کر لیتے ہیں۴۴۲ ، وہ اپنے پیٹ میں صرف دوزخ کی آگ بھرتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ نہ اُن سے بات کرے گا۴۴۳ ، نہ اُنھیں پاکیزہ بنائے گا۴۴۴ اور (اِس کے ساتھ) اُن کے لیے (وہاں) ایک دردناک عذاب مقرر ہے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب خریدا ہے۔ سو دوزخ کے معاملے میں یہ کتنے جری ہیں۴۴۵ ! ۱۷۴۔۱۷۵
یہ اس لیے ہو گا کہ اللہ نے اپنی یہ کتاب قولِ فیصل کے ساتھ اتاری ہے۴۴۶ اور یہ لوگ جنھوں نے اِس کتاب کے معاملے میں اختلاف کیا ہے، یہ اپنی ضد میں بہت دور نکل گئے ہیں۴۴۷ ۔ ۱۷۶
۴۳۸؎ جو چیزیں باپ دادا کے زمانے سے حرام چلی آ رہی ہوں، انھیں کھانے کے لیے تیار ہو جانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ قرآن نے اسی کے پیشِ نظر مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اس طرح کے اوہام سے نکل کر جو کچھ اللہ نے حلال ٹھیرایا ہے، اسے بغیر کسی تردد کے کھائو اور پیو۔ اس کی بندگی اور شکرگزاری کا تقاضا یہی ہے اور تمھیں یہ تقاضا ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔
۴۳۹؎ کھانے اور پینے کی چیزوں میں قرآن نے اصلاً یہ چار ہی چیزیں حرام قرار دی ہیں۔ اس کے علاوہ جو چیزیں کھانے کے لیے موزوں نہیں سمجھی جاتیں، وہ ممنوعاتِ فطرت ہیں۔ انسان ہمیشہ سے جانتا ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ اسے معلوم ہے کہ گھوڑے اور گدھے دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، بلکہ سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ نشہ آور چیزوں کی غلاظت کو سمجھنے میں بھی اس کی عقل عام طور پر صحیح فیصلہ کرتی ہے۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے اس معاملے میں انسان کو اصلاً اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں، جلالہ اور پالتو گدھے وغیرہ کاگوشت کھانے کی جو ممانعت روایت ہوئی ہے، وہ اسی فطرت کا بیان ہے۔ شراب کی ممانعت سے متعلق قرآن کا حکم بھی اسی قبیل سے ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا عام مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ شریعت نے اس طرح کی کسی چیز کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حرمت و حلت کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن وہ درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ پھر اسے کھانے کا جانورسمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟ وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا حکم کیا ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال و طیب قرار دیا جائے گا؟ یہ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کر دیے جائیں تو کیا پھر بھی حلال ہی رہیں گے؟ ان سوالوںکا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۴۴۰؎ اصل الفاظ ہیں: ’غیر باغ ولاعاد‘۔ان میں ’باغ‘ ’بغی یبغی‘ سے اسمِ فاعل ہے۔ اس پر ’عاد‘ کے عطف سے واضح ہے کہ اس کے معنی یہاں چاہنے اور طلب کرنے ہی کے ہیں۔
۴۴۱؎ یہ اس حالتِ اضطرار کے لیے ایک رخصت ہے جو کھانے کی کوئی چیز میسر نہ آنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں حرام کے استعمال پر عقوبت اٹھالی گئی ہے۔ ’فلا اثم علیہ، ان اللّٰہ غفور رحیم‘کے الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے۔ یہی حکم ظاہر ہے کہ حالت ِ اکراہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ ضرورت پیش آ جانے پر آدمی اس رخصت سے فائدہ اٹھائے اور عزیمت کے جوش میں خواہ مخواہ اپنی جان کو مشقت میں نہ ڈالے۔ تیمم، قصر اور جرابوں پر مسح وغیرہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ روایتوں میں بیان ہوا ہے، اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ تاہم بعض حالات میں آدمی کے ایمان کا تقاضا اس سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’لیکن بعض شکلیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جب ایک غیرت مند مسلمان کے شایانِ شان بات یہی ہوتی ہے کہ وہ جان تو دے دے، لیکن حرام کو ہاتھ لگانا گوارا نہ کرے ۔ مثلاً، اگر کسی جگہ فساق و فجار کے صاحب ِ اختیار ہونے کی وجہ سے حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی ہو اور آدمی کوئی حرام چیز کھانے پر مجبور کیا جائے تو اس کے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ وہ عزیمت کی راہ اختیار کرے اور دوسروں کے ایمان کو زندہ کرنے کے لیے اپنی زندگی قربان کر دے۔ یہ بازی کھیل کر وہ گنہ گار نہیں ہو گا، بلکہ ان شاء اللہ اپنی غیرتِ ایمانی اور احترامِ حقوقِ شریعت ِ الٰہی کے صلے میں شہادت کا مقام حاصل کرے گا۔ کم از کم علما و مصلحین کے لیے تو ایسے حالات کے اندر یہی روش بہتر ہے۔ حضرات ِ صحابہ نے مکے کی ابتدائی زندگی میں جو تکلیفیں کلمۂ توحید کی خاطر اٹھائی ہیں، وہ کس سے مخفی ہیں؟ کتنے اصحاب نے اعداے توحید کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا اور زندگی تو سب ہی حضرات کی خطرے میں رہی، لیکن ان میں سے کسی ایک صحابی کے متعلق بھی ہمارے علم میں یہ بات نہیں آئی کہ انھوں نے جان بچانے کی خاطر کلمۂ کفر زبان سے نکالا ہو، حالاں کہ قرآن میں اس بات کی صریح اجازت موجود تھی کہ اکراہ کی صورت میں آدمی جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ سکتا ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ۱/ ۴۲۰)
۴۴۲؎ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ دین بیچ کر اگر دنیا کے سارے خزانے بھی مل جائیں تو وہ ایک متاعِ حقیر ہی ہیں۔
۴۴۳؎ بات نہ کرنے کے معنی لطف و عنایت کی بات نہ کرنے کے ہیں۔ یہود کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے واسطے سے انھیں صدیوں تک شرفِ تکلم سے نوازا۔ اس کا تقاضا تھا کہ وہ خدا کے کلام کی قدر کرتے اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا چرچا پھیلاتے۔ لیکن اس کے برعکس جو رویہ انھوں نے اس کے ساتھ اختیار کیا، اس کا نتیجہ یہی نکلنا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں اپنے شرفِ تکلم سے محروم کر دے۔
۴۴۴؎ اس سے مراد وہ پاکیزگی ہے جو اللہ تعالیٰ ایمان کے صلے میں اپنے بندوں کو اُن کے گناہوں سے درگزر کر کے یا تھوڑی بہت سزا دے کر خاص اپنی رحمت سے عطا فرمائیں گے۔
۴۴۵؎ اصل الفاظ ہیں: ’فمااصبر ھم علی النار‘۔ یہ ’مااحسن‘ کی طرح اظہارِ تعجب کا اسلوب ہے۔
۴۴۶؎ یعنی دین و شریعت کے بارے میں نہایت واضح اور قطعی ہدایت کے ساتھ اتاری ہے، لہٰذا حق و باطل اور حرام و حلال کے باب میں اب کوئی ابہام نہیں رہا۔
۴۴۷؎ اصل میں ’لفی شقاق بعید‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’شقاق‘ کے معنی مخالفت اور عناد کے ہیں۔ اس کے ساتھ جب ’بعید‘ کی صفت آئے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص مخالفت اور ضدم ضدا میں اتنی دور نکل گیا ہے کہ اسے نہ اپنے نفع و نقصان کا ہوش رہا ہے اور نہ اس نے وہاں سے پلٹنے اور تلافی مافات کرنے کی کوئی گنجایش اپنے لیے باقی رہنے دی ہے۔
(باقی)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ