بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ{۱۵۳} وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ {۱۵۴} وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنْ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ {۱۵۵} الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ {۱۵۶} اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ {۱۵۷}
ایمان والو ، (یہ نعمت تمھیں عطا ہوئی ہے تو اب تمھارے مخالفین کی طرف سے جو مشکلیں بھی پیش آئیں ، اُن میں ) ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو (مشکلات کے مقابلے میں) ثابت قدم رہنے والے
ہوں ۔ ۳۸۸ او رجو لوگ اللہ کی (اِس) راہ میں مارے جائیں ، اُنھیں مردہ نہ کہو ، (وہ مردہ نہیں) ، بلکہ زندہ ہیں ، ۳۸۹ لیکن تم (اُس زندگی کی حقیقت) نہیں سمجھتے ۔ ۳۹۰ ہم ۳۹۱ (اِس راہ میں) یقینا تمھیں کچھ ۳۹۲ خوف ۳۹۳ ، کچھ بھوک ۳۹۴ اور کچھ جان و مال ۳۹۵ اور کچھ پھلوں ۳۹۶ کے نقصان سے آزمائیں گے ۔ اور (اِس میں) جو لوگ ثابت قدم ہوں گے ، (اے پیغمبر) ، اُنھیں (دنیا اور آخرت ، دونوں میں کامیابی کی) بشارت دو۔ (وہی) جنھیں کوئی مصیبت پہنچے تو کہیں کہ لاریب ، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔ ۳۹۷ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اُن کے پروردگار کی عنایتیں ۳۹۸ اور اُس کی رحمت ہو گی اور یہی ہیں جو (اُس کی) ہدایت سے بہرہ یاب ہونے والے ہیں ۔ ۱۵۳ ۔۱۵۷
۳۸۸ تحویلِ قبلہ کا حکم درحقیقت ملتِ ابراہیمی کی وراثت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو منتقل ہو جانے کا اعلان تھا ۔ یہودِ مدینہ اور قریشِ مکہ ،دونوں کی طرف سے اس پر جس ردِ عمل کا اندیشہ تھا ، یہ اُس کے مقابلے میں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ استاذ امام نے اپنی تفسیر میں اس کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ایک تو یہ کہ مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے ، اس سے مراد صرف پانچ وقتوں کی مقررہ نمازیں ہی نہیں ہیں ، بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں ۔ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہے ، انھی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت سے سخت آزمایش میں بھی شکست نہیں کھاتا ، اور انھی سے وہ مقامِ قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی اس معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایا گیا ہے ۔ اس حقیقت کی پوری وضاحت مکی سورتوں میں آئے گی ، اس وجہ سے یہاں ہم صرف اشارے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
دوسری یہ کہ نماز تمام عبادات میں ذکر اور شکر کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔ قرآنِ مجید میں مختلف طریقوں سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی شکر گزاری ہے ۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اوپر اس امت سے یہ عہد جو لیا گیا ہے ، ’فاذکرونی اذکرکم واشکروا لی‘ ، اس کے قیام میں نماز سب سے بہتر وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
تیسری یہ کہ یہ نماز دعوتِ دین اور اقامتِ حق کی راہ میں عزیمت اور استقامت کے حصول کے لیے مطلوب ہے۔ اس وجہ سے اس نماز کی اصلی برکت اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب آدمی راہِ حق میں باطل سے کشمکش کرتا ہوا اس کا اہتمام کرے ۔ جو شخص سرے سے باطل کے مقابلے میں کھڑے ہونے کاارادہ ہی نہیںکرتا ، ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ ہتھیار کچھ غیر مفید ہی بن کر رہ جاتا ہے ۔
چوتھی یہ کہ یہاں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ :’’اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے ۔ ‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ :’’اللہ نماز پڑھنے والوں اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘ اس کی وجہ استاذ امام (حمید الدین فراہی) کے نزدیک یہ ہے کہ نماز میں خدا کی معیت کا حاصل ہونا اس قدر واضح چیز ہے کہ اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، واضح کرنے کی بات یہی تھی کہ جو لوگ راہِ حق میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اس ثابت قدمی کے حصول کے لیے نماز کو وسیلہ بناتے ہیں ، اللہ ان کے ساتھ ہو جاتا ہے ۔
پانچویں یہ کہ اللہ کی معیت جس کا یہاں ثابت قدموں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے ، کوئی معمولی چیز نہیں ہے ، بلکہ موقعِ کلام گواہ ہے کہ یہاں ان دو لفظوں کے اندر بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔ تمام کائنات کا بادشاہِ حقیقی اور تمام امرواختیار کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو جب وہ کسی کی پشت پر ہے تو اس کو دنیاکی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کس طرح شکست دے سکتی ہے ؟ ‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱ ، ص ۳۷۹ ۔ ۳۸۰)
۳۸۹ مطلب یہ ہے کہ راہِ عزیمت پر قائم رہنے کے لیے صبر اور نماز سے مدد کے ساتھ زندگی اور موت کے بارے میں یہ حقیقت بھی تم پر واضح رہنی چاہیے کہ جو لوگ حق کی شہادت کے لیے جیتے اور مرتے ہیں ، ان کا معاملہ قیامت تک کے لیے مؤخر نہیں کیا جاتا ، بلکہ عالمِ برزخ میں ایک نوعیت کی زندگی انھیں حاصل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات مرنے کے فوراً بعد انھیں ملنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ سورۂ آلِ عمران (۳) کی آیت ۱۶۹ میں قرآن نے یہ بات ُ عند ربھم یرزقون‘ (اپنے پروردگار کے پاس روزی پارہے ہیں ) کے الفاظ سے واضح کر دی ہے ۔
۳۹۰ قیامت کی زندگی چونکہ جسم کے ساتھ ہو گی ، اس لیے اس کا کچھ تصور ہم یہاں کر سکتے ہیں ، لیکن برزخ کی یہ زندگی کیا ہے ؟ اس کا کوئی تصور اس دنیا میں کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ۔ ’ولکن لا تشعرون‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، ان میں قرآن نے یہی حقیقت بیان فرمائی ہے ۔
۳۹۱ یہ اب ان آزمایشوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو منصبِ امامت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو پیش آنے والی تھیں ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کی جو عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ اس طرح کی آزمایشوں کے ذریعے سے لوگوں کی تطہیر کے بعد ہی صادر ہوتا ہے ۔
۳۹۲ ان آزمایشوں پر اصل میں ’بشئی‘ یعنی ’کچھ‘ یا ’کسی قدر‘ کی جو قید لگی ہوئی ہے ، اس سے مقصود مسلمانوں کی ہمت افزائی ہے کہ یہ آزمایشیں پیش تو آئیں گی لیکن ان کی مقدار اتنی ہی ہو گی جو تمھاری عزیمت اور استقامت پرکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ لہٰذا ان سے دل شکستہ ہونے کے بجائے تمھیں پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔
۳۹۳ اس سے مراد دشمنوں کے حملہ اور ہجوم کا اندیشہ ہے ۔ بدر سے تبوک تک صحابہء کرام مسلسل اس آزمایش میں مبتلا رہے ۔
۳۹۴ اس وقت تک ملک کی تمام تجارت اور دوسرے معاشی ذرائع عملاً یہود اور قریش ہی کے ہاتھ میں تھے۔ چنانچہ یہ آزمایش بھی ان کی طرف سے پیش آئی ۔
۳۹۵ اشارہ ہے جان و مال کی ان قربانیوں کی طرف جو مسلمانوں کو جنگوں میں اور زمانہء جنگ کی جو صورتِ حال انھیں درپیش تھی ، اس کی وجہ سے دینا پڑیں ۔
۳۹۶ اصل میں لفظ ’ثمرات‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس زمانے کے عرب میں ’اموال‘ کا لفظ زیادہ تر اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور ’ثمرات‘ سے پھل ،بالخصوص کھجور مراد لی جاتی تھی ۔ جنگوں سے امن و امان کا جو فقدان ہوا ، اس کے باعث کھجور کے باغات بھی توجہ اور نگہداشت سے محروم ہوئے اور اس طرح مسلمانوں کو ان کی پیداوار میں کمی کا نقصان اٹھانا پڑا ۔
۳۹۷ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض اور سپردگی کا کلمہ اور اہلِ ایمان کے اس عقیدے کا اظہار ہے جس پر ان کے عزم و استقامت کا انحصار ہوتا ہے ۔ ہم اس دنیا میں بھی اللہ ہی کے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ہمیں ہر حال میں اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اس عقیدے کے یہ دو اجزا ہیں اور غور کیجیے تو جادئہ حق پر قائم رہنے کے لیے دونوں ہی نہایت اہم ہیں ۔ بندئہ مومن عقیدے کی اسی قوت سے دنیا کی ہر طاقت سے لڑ جاتا ہے ۔
۳۹۸ اصل میں لفظ ’صلوٰت‘ آیا ہے ۔ یہ ’صلوٰۃ‘ کی جمع ہے جو اصلاً کسی چیز کی طرف بڑھنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں آتا ہے ۔ چنانچہ اسی سے یہ نماز کے لیے بھی (جس کی حقیقت نیاز مندی ہی ہے ) استعمال ہوا اور الطاف و عنایات کے مفہوم میں بھی۔ یہاں چونکہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ، اس لیے یہ اس دوسرے معنی میں ہے ۔ نسبت کی تبدیلی سے الفاظ کے مفہوم میں اس طرح کی تبدیلیاں عربی زبان میں بہت ہوتی ہیں ۔
(باقی )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ