پنجاب پرونشل کواپریٹو بنک نے ۱۹۹۵ ء میں عدالت میں یہ درخواست دائر کر رکھی تھی کہ ۱۹۷۶ء میں کواپریٹو بنک ختم ہو گئے اور ان کے اثاثے ملازمین اور واجبات پنجاب کواپریٹو بنک کے سپرد کر دیے گئے۔ اس کے باوجود ۱۹۹۵ ء میں وار رسک انشورنس (بیمہ براے خطرۂ جنگ ) کے انکوائری آفیسر نے ہمیں دو نوٹس بھیج دیے کہ انھیں ان کواپریٹو بنکوں کی وار رسک انشورنس (پریمیئم) کی رقم ادا کی جائے ۔ یہ اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے ۔ یہ لازمی انشورنس ۱۹۶۵ ء اور ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگوں کے سلسلے میں وار رسک آرڈیننس کے ذریعے سے عائد کی گئی تھی ، جو ۱۹۷۳ء کے آئین کے اجرا کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں ۔ اب یہ آرڈیننس موجود نہیں ہے ۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری نے مالیاتی اداروں پر وار رسک انشورنس کی پابندی کو امرِمتنازعہ اور فیصلہ طلب قرار دیتے ہوئے پنجاب پرونشل کواپریٹو بنک کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی ہے ۔ اس موقع پر فاضل جج نے وار رسک انشورنس کے نمائندے کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے کہ :’’۱۹۷۱ء میں ۱۵ دن کی جنگ لڑی گئی ،اس میں بھی کلین بولڈ ہو گئے اور آپ انشورنس ٹیکس لیے جا رہے ہیں ۔ اب کون سی جنگ لڑی جا رہی ہے ؟ کیا ۱۹۷۱ء کی جنگ میں شکست کا ابال ابھی تک نہیں اترا ۔ حکومت کبھی کوئی جائز بات بھی کر لیا کرے ۔ ‘‘ ۱
ملکی فلاح کے پہلو سے بھنڈاری صاحب نے یہ بالکل صحیح تنقید کی ہے کہ ’’کیا ۱۹۷۱ء کی جنگ کی شکست کا ابال ابھی تک نہیں اترا!‘‘ اس تلخ حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی اکثریت غربت کی چکی میں پس رہی ہے ۔ وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہے ۔ آج ترقی یافتہ ممالک کے شہری جس طرح زندگی گزار رہے ہیں ، اس کا تقابل پاکستانی اور بھارتی شہریوں کی اکثریت سے کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت انتہائی پسماندہ ممالک ہیں اور ان کے شہری کوئی قابلِ رحم مخلوق ہیں ۔ مگر انھی ملکوں میں بعض طبقات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے سر پر ہر وقت لڑائی بھڑائی کا جنون سوار رہتا ہے ۔ جس طرح وطنِ عزیز میں بعض سیاست دان نفرت کی سیاست کرتے ہیں ، وہ لسانی اور صوبائی بنیادوں پر باقاعدہ دوسروں کے خلاف نفرت کے جذبات ابھارتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اپنی طرف سے اپنے ہم زبان یا ہم صوبہ لوگوں کی بہتری کی کوشش کرتے ہیں ، مگر درحقیقت غیر شعوری طور بدامنی کے مسائل پیدا کر کے انھی کی زندگی حرام کر دیتے ہیں——بدامنی کوئی معمولی بات نہیں ہوتی ، بدامنی میں نہ کوئی کاروبار ہو سکتا ہے ، نہ کوئی کہیں سفر کر سکتا ہے ، حتیٰ کہ آدمی سکون کے ساتھ سو بھی نہیں سکتا اور جانی اور مالی نقصان کا خطرہ ہر وقت ، ہر شخص کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے ایسے ہی بعض سیاست دان بھارت کے حوالے سے نفرت کی سیاست میں’’ ملوث‘‘ ہیں ، حتیٰ کہ بعض صحافی بھی نفرت کی صحافت کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے اندر بھارت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں اور دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات پرامن ذرائع سے حل کرنے کے امکانات ختم کرتے رہتے ہیں اور یوں غیر شعوری طور پر ہر وقت جنگ اور بدامنی کے حالات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔
حالانکہ ان کی ایسی سیاست اور صحافت سے پاکستانیوں کی زندگی تلخ ہو رہی ہے ۔ اس کی ایک مثال اوپر مذکور مقدمہ بھی ہے ۔ پھر وسائل کے اعتبار سے پاکستان کی جو صورتِ حال ہے ، اس کے لحاظ سے اسے جنگ کی شکل میں کسی طرح کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا ، بلکہ وہ مزید سنگین مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ اس کے اوپر قرضوں اور غربت کا بوجھ بڑھ جائے گا ۔ پھر اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی منت سماجت کر کے جنگ بندی کا معاملہ اور معاہدہ کیا جائے گا۔ اور اس کے بعد جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے شہریوں کی رگوں سے مزید خون نچوڑنے کا ظالمانہ عمل شروع ہو جائے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت امن پسند اور صلح جو ہے ۔ حتٰی کہ بھارت کی اکثریت بھی امن پسند ہی ہے ، مگر دونوں ملکوں میں جنگ و جدال کے جنون میں مبتلا لوگ کسی نہ کسی طرح حالات خراب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
بھنڈاری صاحب نے اس رویے پر بہت اچھی تنقید کی ہے ۔ دوسرے امن پسند اور صلح جو لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی آواز اٹھائیں ۔ اور اس قدر جان دار طریقے سے اٹھائیں کہ لہلاتے کھیتوں، خوشبو بکھیرتے ہوئے باغوں اور مسکراتے ہوئے چہروں سے بے زار مغلوب ہو جائیں اور اہلِ پاکستان ان کے شر سے محفوظ ہو جائیں ۔
________
۱ روزنامہ پاکستان ۴ اپریل ۲۰۰۱ ۔
____________