HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

قومی سوچ کا فقدان

کرپشن ، غربت ، بے روزگاری ، اداروں کی زبوں حالی ، بین الصوبائی منافرت اور جمہوری کلچر کا فقدان۔ یہ مسائل اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، لیکن ایک بہت ہی سنگین مسئلہ کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا ۔ یہ ملکی و قومی معاملات سے وطنِ عزیز کے باسیوں کی لاتعلقی یا بالفاظِ دیگر قومی سوچ کے فقدان کا مسئلہ ہے ۔ ایک لحاظ سے اگرچہ اس مسئلے کو مذکورہ بالا دیگر مسائل کا منطقی نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ، لیکن یہ امرِ مسلمہ ہے کہ اگر صرف اسی ایک مسئلے پر قابو پا لیا جائے تو دیگر مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔ ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کر لیجیے کہ اگر ہمارے عوام کے اندر قومی سوچ پیدا ہو تو پھر وہ کیوں کر چار سو پھیلے ہوئے ظلم پر خاموش رہ سکیں گے ۔ اگر ہمارے حکمرانوں کے لیے قومی مفاد مقدم اور ذاتی مفاد موخر ٹھیرے تو ان کی پالیسیاں ملکی مفاد کے بجائے کرسی کے تحفظ کے گرد کیوں کر گھوم سکتی ہیں ؟ اسی طرح اگر ہمارے سیاسی لیڈروں کی صفوں میں قومی سوچ پروان چڑھے تو وہ کیوں کر کرپشن جیسی لعنت کے قریب جانے کی جرات ء کر سکیں گے ؟

اپنے گردوپیش پر سرسری نگاہ دوڑانے سے یہ تلخ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بحیثیتِ مجموعی ہم ایک مردہ قوم کے قالب میں ڈھلتے جا رہے ہیں ۔ ہر کسی کی سوچ اس کی ناک سے آگے نہیں بڑھتی ۔ ہم میں سے ہر فرد اپنی اپنی ذات کے حصار میں بند ہے ۔ کوئی اگر ذات کے حصار سے تھوڑا بہت نکلنے میں کامیاب بھی ہوا ہے تو اس سے آگے وہ خاندان ، قوم ، فرقے یا پارٹی کی صورت میں موجود ایک دوسرے حصار کے اندر بند ہو کر رہ گیا ہے ۔

قومی امور سے عوام کی لاتعلقی تو ان کے معاشی حالات کا تقاضا ہے ، لیکن خدا جانے یہ خواص کو کیا ہو گیا ہے ۔ دانش وروں کا عالم یہ ہے کہ اگر وزیر ، مشیر بننے یا کسی اور ذریعہ سے حکمرانوں کی قربت کا کوئی موقع دستیاب ہو تو حکمرانِ وقت کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو وہ صحیفہ ء آسمانی ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا کر قوم کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ، لیکن اگر صورت دوسری ہو اور مفاد کسی حکومت مخالف دھڑے سے وابستہ ٹھیرے تو پھر حکومت کے ہر اچھے برے کام کو ملک و قوم کے خلاف بھیانک سازش او رملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ایک کر دیے جاتے ہیں ۔

ہر کوئی اپنے اپنے جماعتی حصار اور پھر ذات کے حصار کی صورت میں حصار در حصار قید ہے ۔ اداروں کی اصلاح اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کا عزم لے کر آنے والے حکمران بھی اس میدان میں دیگر طبقات سے پیچھے نہیں ۔ ایک ایک طبقے کی طرف دیکھ لیجیے ۔ ان کے کردار اور گفتار کا تجزیہ کر لیجیے ۔ کہیں قومی سوچ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دے گی ۔ آراہیں تو ذاتی حوالوں سے قائم ہو رہی اور بدل رہی ہیں ۔ فتوے ہیں تو گروہی مفادات کے تحت دیے جا رہے ہیں ۔پالیسیاں ہیں تو کرسی کے استحکام کی خاطر بنائی اور بدلی جا رہی ہیں ۔ ایسا کوئی بھی نہیں ہے جو قوم کو دیکھ کر رائے دے ، جو ملک کا سوچ کر فتویٰ دے اور جو سب کا مفاد مدِ نظر رکھ کر پالیسی بنائے ۔

ہماری صفوں میں قومی سوچ کیسے ابھرے گی ؟ اس کا حل صرف اور صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ ہم سب اپنے اپنے حصاروں سے نکل آئیں ۔ا ن حصاروں سے نکلنا یقیناً بہت مشکل ہے ، لیکن ایک حقیقت کو ذہن نشین کر لینے سے یہ کام بہت آسان ہو سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ ہم سب اصل میں ایک بڑے حصار یعنی پاکستان کے حصار میں بند ہیں ۔ یہ بہت مقدس حصار ہے ۔ اس حصار نے ہماری لاج بھی رکھی ہے اور ہمارے اعمال اور ہمارے بد نما چہروں پر ایک پردہ بھی چڑھا رکھا ہے ، لیکن اگر خدانخواستہ یہ حصار ٹوٹ گیا تو اندر سے ہم سب ننگے ہو کر برآمد ہوں گے ۔ یہ حصار ٹوٹ گیا تو پھر کسی کی جرنیلی ، کسی کی سیاست ،کسی کا زورِ قلم ،کسی کی دانش ،کچھ بھی کام نہیں آئے گا ۔ پھر خدانخواستہ ہر طرف غلامی ہی غلامی ہو گی ۔ ہندو کی یا پھر کسی اور کی ۔ غلامی میں کسی کو پینترے بدلنے کی فرصت ملتی ہے نہ جھوٹے وعدوں کی غلامی میں پیٹ کی فکر بھی ثانوی ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ جب عزت غیر محفوظ ہو جائے تو بھوک بھی خود بخود مٹ جاتی ہے ۔ قوموں کے اس حصار کے ٹوٹ جانے کا نظارہ کرنا ہو تو چیچنیا میں کر لیجیے جہاں نہ کسی کو آٹے کا بھاؤ پوچھنے کی فرصت ہے ، نہ کسی کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ کسی کو احتساب کی فرصت ہے ، بس غیروں کے ہاتھوں ظلم ہے جو چیچنیا کے سب مسلمان مل کر سہہ رہے ہیں ۔

آئیے سب مل کر اس قومی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے اپنے اپنے حصاروں سے نکل کر صرف اور صرف پاکستان کے حصار میں بند ہو جانے کا عہد کریں ۔ دینی اور سیاسی رہبر بھی ، جرنیل اور سپاہی بھی ، صحافی اور دانش ور بھی اور اس ملک کا ہر عام اور خاص باسی بھی ۔ ہاں ! مگر اس سلسلے میں بھی سب سے زیادہ ذمہ داری ہمارے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ حکمران کسی بھی قوم کے رول ماڈل ہوا کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے انھیں ہی تمام حصار توڑنے ہوں گے ۔ ہر طرف سے بے نیاز ہو کر ملک اور قوم کے لیے سوچنا ہو گا ۔ انتقام اور دہشت کی فضا میں قومی سوچ کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی ۔ ا س سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے امن و محبت کے پیغام کو عام کرنا پڑتا ہے ، سینے پہ پتھر رکھ کر ذاتی دشمنوں کو سینے سے لگانا پڑتا ہے ، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا اور راتوں کی تنہائی میں رو رو کر دن کے اجالوں میں دوسروں کو ہنسانا پڑتا ہے۔

____________

B