HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

آئین ـــــــــ سلامتی کی واحد ضمانت

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں چیف ایگزیکٹوکو آئینی ترمیم کا جو حق دیا تھا ، اب معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ وفاقی کابینہ نے ان کے اس حق کی توثیق کر دی ہے ۔ اعلیٰ ترین سطح پر مشاورت کا آغاز ہو چکا ہے اور اس فن کے ممتاز ترین ماہر جناب شریف الدین پیرزادہ کی خدمات بھی ، ایک اخباری اطلاع کے مطابق ، حاصل کی جا رہی ہیں ۔ آئینی ترمیم چونکہ ایک عام واقعہ نہیں ہوتا اور اس سے ملک و قوم کے مستقبل پر دوررس نتائج مرتب ہو سکتے ہیں ،اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو دقتِ نظر سے دیکھا جائے اور کوئی ایسی رائے قائم کی جائے جس سے اجتماعی مفاد کے مجروح ہونے کا امکان کم سے کم ہو ۔

اجتماعیت کے بارے میں انسانی علم اور تجربے کا ایک حاصل یہ ہے کہ وہ ایک عمرانی معاہدے کے تحت وجود میں آتی ہے۔ جو بھی اس معاہدے کی پابندی کا عہد کرتا ہے ، وہ اس اجتماعیت کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور جملہ حقوق و فرائض میں دوسروں کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے ۔ اجتماعیت کا یہ تصور دورِ جدید میں ایک ریاست کی صورت میں متشکل ہوا ہے ۔ بعض ریاستیں ایک ہی قوم کے افراد پر مشتمل ہوتی ہیں جن کا تہذیبی ، مذہبی اور رواجی پس منظر ایک ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں رواج اور روایت سماجی معاہدے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف اقوام کے لوگ کسی مشترکہ مفاد کی خاطر باہم مل کر ایک ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ، ایسی صورت میں وہ ایک معاہدہ کرتے ہیں جس کے تحت وہ ایک ساتھ زندگی گزارنے کے قواعد اور آداب طے کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو یہاں ایک ریاست وجود میں آئی ۔ اس میں وہ یہودی قبائل بھی شامل تھے جو مذہب اور تہذیب کے حوالے سے مسلمانوں سے مختلف پس منظر رکھتے تھے۔ اس نئی اجتماعیت میں ، چونکہ مسلمانوں اور یہودیوں کو مل کر رہنا تھا ، اس لیے انھوں نے ایک معاہدہ کیا جسے ہم میثاقِ مدینہ کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ ایک عمرانی معاہدہ تھا جسے اگر ہم جدید سیاسی اصطلاح میں بیان کریں تو وہ ریاستِ مدینہ کا آئین تھا ۔

پاکستان آج جن لوگوں کا وطن ہے ، اگر ہم ان کے تمدنی پس منظر کو سامنے رکھیں تو یہ اصطلاحی مفہوم میں کوئی قومی ریاست (Nation State) نہیں ہے ۔ یہ مختلف اقوام کا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے سے مختلف سماجی اور تہذیبی پس منظر رکھتی ہیں ۔ سندھی ، بلوچی ، پنجابی اور پٹھان کوئی مشترکہ ثقافی ورثہ یا روایت نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر وہ ایک ساتھ رہ سکیں یا جسے خود بخود ایک عمرانی معاہدے کی حیثیت حاصل ہو جائے ۔ اس لیے قیامِ پاکستان کے بعد انھیں ایک ساتھ رکھنے کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل ناگریز تھی ۔ انسانی تہذیب کے ارتقا نے ایک بہت اچھی صورت دریافت کر لی ہے جس کے تحت ایک ایسے معاہدے کی تشکیل ممکن ہو گئی ہے جس پر سب کو اعتماد ہو اور جو سب کی رائے سے وجود میں آئے ۔ یہ جمہوری اور آئینی طریقہ ہے جس کی رو سے ہر خطے میں بسنے والے لوگوں کے منتخب نمائندے اتفاق کے ساتھ ایک معاہدے کو قبول کر لیتے ہیں اور پھر اسی کے تحت باہمی معاملات طے ہوتے ہیں۔ اسے ہم آئین کہتے ہیں ۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ پاکستان قائم ہوتے ہی سب سے پہلے ایک متفقہ آئین ترتیب پاتا جو ریاستِ پاکستان کی صوبائی اکائیوں کو جو اپنی تہذیبی شناخت رکھتی ہیں، باہم متحد رکھتا ۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا ۔ کئی برس بعد جب یہ مرحلہ آیا تو آئین سازی کا یہ اختیار ایسے لوگوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا جو عوام کے نامزد کردہ نہیں تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ۵۶ء یا ۶۲ء کے آئین کو کسی طرح کا احترام حاصل نہیں ہو سکا ۔ ریاست کی اکائیوں میں محرومی کا احساس بڑھتا گیا اور انھیں یہ یقین ہونے لگا کہ اجتماعی معاملات پر ایک خاص خطے کے لوگوں کا تسلط ہے ۔ جو انھیں دانستہ طور پر بنیادی حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ ۱۹۵۸ء میں فوج اقتدار پر براہِ راست قابض ہوئی اور یہ سلسلہ ۱۹۷۱ ء تک جاری رہا ۔ فوج کے بارے میں دو باتیں ایسی تھیں جن سے اختلاف محال تھا ۔ ایک تو یہ کہ فوج کو حکومت کا استحقاق عوام نے نہیں دیا اور دوسرا یہ کہ اس میں ایک صوبے کے لوگ نسبتاً زیادہ ہیں ۔ چنانچہ فوجی حکومت کی طرف سے آئین سازی کی کوئی کوشش ہوئی بھی تو اسے لوگوں نے قبول نہیں کیا ۔

کسی ریاست میں جب کوئی واضح آئین نہ ہو تو اس بات کی گنجایش پیدا ہو جاتی ہے کہ مختلف مطالبات پر مبنی نئے نعرے سامنے آتے رہیں ۔ اگر کسی نعرے میں حقیقت کا کوئی عنصر موجود ہو تو اس کی پزیرائی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں کوئی متفقہ آئین ہوتا جس پر بنگالیوں کو بھی اعتماد ہوتا تو اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کو عوامی تائید حاصل ہوتی یا صوبہ ء سرحد سے پختونستان کا نعرہ بلند ہوتا ۔ یہ اسی خلا کا نتیجہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمن نے ان نکات کی بنیاد پر انتخابات میں ، مشرقی پاکستان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ۔ یہ ایسی کامیابی تھی ، ایک سیاسی جماعت جس کا خواب ہی دیکھ سکتی ہے ۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے ۱۳۸ میں سے ۸۱ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ، جبکہ عوامی لیگ نے ۱۶۲ میں سے ۱۶۰ نشستیں جیتیں ۔ محرومی کے اس احساس کو مزید تقویت اس وقت ملی ، جب انتخابی کامیابی کے باوجود فوجی حکومت نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا ، اس کے بعد اہلِ بنگال کو کوئی امید نہیں رہی کہ پاکستان نام کی ریاست کے اندر ان کے جائز حقوق کا بھی احترام ہو گا۔ غور کیجیے ! اگر پاکستان میں کوئی ایسا آئین نافذ العمل ہوتا جس پر ہر خطے کے لوگوں کو اعتماد ہوتا اور عوام کی منتخب حکومت ہوتی تو کیا سقوطِ ڈھاکہ جیسا سانحہ پیش آتا ؟

جب مغربی پاکستان ہی پاکستان قرار پایا تو ملک کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ اس بات کو سنجیدگی سے محسوس کیا گیا کہ ایک متفقہ آئین کی غیر موجودگی میں مختلف قوموں کا ایک ساتھ چلنا محال ہے ۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کی محنت اور اخلاص کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کاآئین وجود میں آیا ۔ یہ آئین ایک ایسے وزیرِ اعظم کی رہنمائی میں بنا جو سندھی تھا اور جس پر چاروں صوبوں کے منتخب نمائندوں کے دستخط تھے ۔ بھٹو صاحب کے کارناموں میں لوگ ایٹمی پروگرام کی تاسیس کو سرِ فہرست رکھتے ہیں ،لیکن ہمارے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ملک کو ایک متفقہ آئین دیا اور اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وہ عمرانی معاہدہ وجود میں آیا جس کے بارے میں جدید ماہرینِ سیاسیات متفق ہیں کہ اس کے بغیر کوئی اجتماعیت وجود میں نہیں آ سکتی ۔

اس آئین کی موجودگی میں بھی ، اگرچہ ملک کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن یہ امرِ واقعی ہے کہ ملک کی جغرافی سالمیت کے لیے ، داخلی طور پر ، کوئی قابلِ ذکر چیلنج پیدا نہیں ہوا ۔ اگر جی ایم سید جیسے بعض لوگوں نے آواز اٹھائی بھی تو وہ ایک محدود حلقے ہی میں سنی جا سکی ۔ پھر سرحد میں پختونستان کا ایسا نعرہ نہیں لگا جو بلند آہنگ ہو ۔ اگر قوم پرستوں کی سرگرمیوں میں کبھی اضافہ ہوا تو ایسا اسی وقت ہوا جب ملک میں کوئی منتخب حکومت نہیں تھی ۔ فوجی اقتدار ہی ہمیشہ ایسی قوتوں کی نشوونما کا باعث ہوا ۔ منتخب حکومتوں میں لاکھ خرابیاں سہی ،لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ادوار میں ملکی وحدت یا جغرافی سلامتی کے حوالے سے کوئی خطرناک صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی۔

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام چونکہ سب صوبوں میں ایک مشترک قدر ہے ، اس لیے ہمیں کسی آئین کی ضرورت نہیں ۔ اسلام سب قوموں کو متحد رکھ سکتا ہے ، یہ رائے عمرانیات اور سیاسیات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان جن اکائیوں کے اجتماع کا نام ہے ، ان کا اپنا تہذیبی پس منظر ہے ۔ جس کے تحت وہ اسلام کی یہاں آمد سے پہلے زندگی گزار رہے تھے ۔ اسلام جہاں بھی گیا ،اس نے علاقائی تہذیب یا کلچر کو پامال نہیں کیا۔ اس میں محض اس حد تک تغیر کیا ، جس حد تک اس کی بنیادی تعلیمات کا تقاضا تھا ۔ خود عرب میں اگر اسلام کا رویہ یہی رہا تو دوسرے مقامات پر اس سے مختلف کیسے ہو سکتا تھا ۔ اس لیے یہاں اسلام کی موجود گی کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ ، پنجاب یا سرحد میں بسنے والے اپنی تہذیبی شناخت سے محروم کر دیے جائیں ۔ دوسرے یہ کہ روزمرہ کے مسائل باہمی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر حل کیے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر صوبوں میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ ہے ۔ اس کے لیے ’’ارسا‘‘ جیسا کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا نہ کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا ۔ اسی طرح کالا باغ ڈیم کی تعمیر جیسے بے شمار مسائل ہیں جن کے حل کے لیے کسی معاہدے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ رائے صحیح نہیں کہ اسلام کی موجودگی میں ہمیں کسی آئین کی ضرورت نہیں ۔

ہمارے ہاں آئین کی بالادستی کو ہمیشہ فوج کے اقتدار سے خطرات لاحق رہے ہیں ۔ آئین میں چونکہ فوجی حکومت کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے ، اس لیے یہاں جب بھی فوج برسرِاقتدار آئی ، آئین کی معطلی کے بعد ہی آئی ہے ۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی موجودگی میں ، ہمارے ہاں دو دفعہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے ۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے دونوں مرتبہ فوج کے اقتدار کے جواز کا فیصلہ دیا ہے ، لیکن اس بنا پر نہیں کہ یہ تبدیلی آئینی تھی بلکہ عدالتِ عظمیٰ نے ہر دفعہ نظریہ ء ضرورت کو اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے ۔ جب فوج آتی ہے تو اسے ایک دن واپس بھی جانا ہوتا ہے ۔ یہ چونکہ ایک غیر فطری طریقہ ء حکومت ہے ، اس لیے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ جلد یا بدیر معاملات فطری ، یعنی جمہوری طریقے کی طرف لوٹیں ۔ چنانچہ ہر فوجی حکومت اپنی ضرورت کے مطابق واپسی کے لیے راستے کا تعین کرتی ہے ۔ ایوب خان مرحوم نے صدارتی انتخابات کے انعقاد سے اپنے اقتدار کو جمہوری رنگ دینے کی کوشش کی۔ جنرل ضیا ء الحق مرحوم نے غیر جماعتی انتخابات سے ایک پارلیمنٹ کو وجود بخشا جس سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ ان کے دورِ اقتدار کو آئینی سند عطا کرے ۔ لہٰذا پارلیمنٹ نے آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت ان کے عہدِ حکومت کو آئینی طور پر جائز قرار دے دیا ۔ اب موجودہ حکومت کو بھی یہی مرحلہ درپیش ہے ۔ سپریم کورٹ نے چونکہ اپنے فیصلے میں چیف ایگزیکٹو کو آئینی ترمیم کا اختیار دے دیا ہے ، اس لیے وہ اب اس معاملے میں یکسو معلوم ہوتے ہیں ۔

جہاں تک موجودہ حکومت کے آئینی جواز کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک ،اس مقصد کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ۔ عدالتِ عظمیٰ نے جب تین برس تک ان کے حقِ اقتدار کو تسلیم کر لیا ہے تو اس کے بعد اگر عام انتخابات کے ذریعے سے وہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیتے ہیں تو ان کا دورِ اقتدار خود بخود قانونی حیثیت اختیار کر لے گا ۔ یہ ایسی بات نہیں جو اربابِ اقتدار کے لیے قابلِ فہم نہ ہو ۔ اس کے باوجود اگر وہ آئینی ترمیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا سبب بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے دورانیے کو طویل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس رائے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ چیف ایگزیکٹو غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی مدتِ ملازمت کے ختم ہونے پر ریٹائر نہیں ہو رہے ۔ گویا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ کے بعد بھی چیف آف آرمی اسٹاف رہیں گے ۔

ہمارے نزدیک ، اقتدار میں رہنے کی خواہش اگر نامسعود نہیں تو اس مقصد کے لیے آئین کو پازیچہ ء اطفال بنانا نامسعود ضرور ہے ۔ چیف ایگزیکٹو اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ انھیں مزید حکومت میں رہنا چاہیے تو ان کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں یا اپنی جماعت قائم کر لیں ۔ اگر عوام انھیں اقتدار میں رہنے کے لیے سندِ جواز عطا کرتے ہیں تو پوری قوم ان کے حق کو تسلیم کر لے گی ۔ لیکن اگر وہ اس کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں جس میں آئینی تبدیلی ناگزیر ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی ۔

ایک منظم اور مہذب ریاست میں اصل اقتدار افراد کا نہیں ، بلکہ آئین اور قانون کا ہوتا ہے ۔ افراد کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، لیکن آئین اور دستور میں کوئی تعطل واقع نہیں ہوتا۔ یہی چیز قوموں کی زندگی میں تسلسل پیدا کرتی ہے اور اسی سے ان کے باہمی اختلافات کے حل کا ایک مہذب اور پائدار طریقہ وجود میں آتا ہے ۔ اگر آئین کچھ افراد کی خواہشِ اقتدار کی نذر ہو جائے تو ملک و قوم کی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں بے شمار تجربات کے باوجود بھی ، اس حقیقت کا ادارک نہیں کر سکیں کہ ملکی سلامتی کے لیے آئین کی کیا اہمیت ہے ۔ خود سیاسی جماعتوں کے لیے اگر کام کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہاں آئین کی بالادستی ہو گی ۔ یہاں جمعے کی چھٹی جیسے مسائل پر تو تحریکیں اٹھائی جاتی ہیں ، لیکن آئین کی حفاظت کے لیے کسی اتحاد کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ تحریک کی ۔

آئین کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر فوج کی موجودہ قیادت کے پاس ، ہمارے نزدیک یہی راستہ ہے کہ وہ آئین کو چھیڑے بغیر ، اکتوبر ۲۰۰۲ تک اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرے اور اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی طرف لوٹ جائے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آئین کی بالادستی کے یک نکاتی ایجنڈے کو اپنی سیاسی جدوجہد کا مرکز بنائیں تاکہ ان کا اپنا مستقبل محفوظ ہو اور یہ ملک بھی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکے ۔ آئین ، بلاشبہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ، لیکن اس کی حیثیت ایک معاہدے کی ضرور ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں معاہدات کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ کیا ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں اس پہلو سے معاملے پر غور کے لیے آمادہ ہیں ؟

آئین ہماری وحدت کی اساس ہے ۔ اگر اس کا وجود باقی نہ رہے یا بعض لوگوں کی خواہشِ اقتدار کا اسیر ہو کر بچوں کا کھیل بن جائے تو پھر لوگوں کے دلوں میں اس کا احترام باقی نہیں رہتا ۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب شیخ مجیب الرحمن جیسے لوگ سیاست کے افق پر نمودار ہوتے ہیں اور پھر سخت ترین فوجی اقدام بھی ان کی آواز کو دبانے میں ناکام رہتا ہے ۔

____________

B