HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ (حصہ دوم)

جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، اس ’اضافی حق‘ کی مثال وہ خرچ ہے جو کوئی شخص کسی اجتماعی یا انفرادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ صحابہ ء کرام رضی اللہ عنھم کی زندگیوں میں، غزوات کے موقعوں پر ان کا خرچ اسی مد میں آئے گا۔ یہ معلوم ہے کہ ریاستِ مدینہ میں مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب کسی اجتماعی ضرورت کے لیے پیسا جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اس مقصد کے لیے ریاست کی طرف سے اپیل کی جاتی تھی جس پر مسلمان دل کھول کر اپنی جمع پونجی لٹا دیتے تھے۔ اس سے یہ بات بھی بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ریاستِ مدینہ کو بارہا ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے لیے زکوٰۃ کے پیسے سے اپنی ضرورتیں پوری کرنی مشکل ہو گئیں، مگر ایسے حالات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا، بلکہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مسلمانوں سے اپنی مقدور بھر اعانت کرنے کی اپیل کی۔ یہ واقعات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ ’’اگر کسی وقت قومی ضروریات زکوٰۃ اور بیت المال کی دیگر شرعی مدات سے پوری نہ ہوں،‘‘ جیسا کہ مولانا نے یہ سوال اٹھایا ہے، تب بھی ریاست اپنے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی رہنمائی ملتی ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے مالی اعانت کی اپیل کرے۔ اس طرح کی کسی قومی ایمرجنسی میں ریاستی اپیل کے جواب میں قرآنِ مجید مسلمانوں کو ’العفو‘ یعنی ان کے پاس اپنی ضروریات سے بڑھ کر جو کچھ ہو، وہ سب خرچ کر دینے کی ہدایت کرتا ہے۔

اس کے بعد مولانا محترم نے مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمھما اللہ کے حوالے سے امت کے بعض جلیل القدر بزرگوں کی یہ رائے نقل کی ہے کہ:

’’اجتماعی ضروریات مثلاً نہر کھودنے، دفاعی تیاریوں ،فوج کی تنخواہ اور قید کی رہائی وغیرہ کے لیے مزید ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں۔ البتہ ، ہنر مندوں اور کاروباری لوگوں پر ان کے ہنر یا کاروبار کے حوالے سے جو ٹیکس لگائے جاتے ہیں، وہ ظالمانہ ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ‘‘ (اوصاف، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱)

اوپر قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ دین کے ان اصل ماخذوں سے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید کی آیات اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے بعد کسی شخص کی بات یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ اسے ان آیات و ارشادات سے نکلنے والے حکم پر ترجیح دی جائے۔ اس وجہ سے مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے تو ہمارے استدلال کی کمزوری ہم پر واضح فرمائیں۔ ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید کی مذکورہ آیت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے محولہ ارشادات سے مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد کرنے کی حرمت اگر ثابت نہیں ہوتی تو مولانا کو ٹیکس کے جواز کا استدلال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر دین و شریعت میں واضح طور ٹیکس عائد کرنے کے خلاف کوئی حکم موجود نہیں ہے تو اس کے نتیجے میں ، آپ سے آپ زکوٰۃ کے علاوہ مزید ٹیکس لگانا جائز قرار پائے گا۔ مولانا محترم کو اس کے جواز کے لیے کسی استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔

اس وجہ سے مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ لوگوں کی آرا کا حوالہ دینے کے بجائے، ہمارے استدلال کی غلطی واضح فرما دیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی رائے آپ سے آپ صائب قرار پا جائے گی۔

مولانا محترم مزید لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اصولی طور پر قومی ضروریات کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ اسلامی حکومت جائز حد تک اور ٹیکس بھی لگا سکتی ہے اور اس کی کوئی واضح شرعی ممانعت موجود نہیں ہے۔ ‘‘ (اوصاف، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱)

ہمارے نزدیک، وہ ’’جائز حد‘‘ جس تک حکومت کو اپنے مسلمان شہریوں سے ٹیکس لینے کا حق حاصل ہے، وہ زکوٰۃ ہی ہے۔ مولانا محترم کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر، فی الواقع حکومت کے پاس اپنے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار موجود ہوتا تو پھر اموال، مواشی اور پیداوار وغیرہ پر زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ شروح متعین کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مختلف صورتوں پر زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ شروح کی تعیین کرنے کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ حکمرانوں کے ہاتھوں، ٹیکس کے ذریعے سے ہونے والے لوگوں کے استحصال کے خلاف پیش بندی کر دی جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کی گنجایش موجود ہوتی تو پھر زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ شروح متعین کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ آخر زکوٰۃ کی متعین شروح میں اضافہ کرنے یا کوئی نیا ٹیکس عائد کرنے میں وہ کون سا فرق ہے جس کے باعث ایک جائز اور ایک ناجائز ٹھہرتا ہے؟ چنانچہ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اسی حکمت کو واضح کرتے ہوئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ کو مختلف صورتوں پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کی شروح واضح کرتے ہوئے یہ ہدایت بھیجی تھی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذہ فریضۃ الصدقۃ التی فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المسلمین والتی امر اللہ بھا رسولہ فمن سئلھامن المسلمین علی وجھھا فلیعطھا ومن سئل فوقھا فلا یعط. (بخاری، رقم ۱۳۶۲)
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم. صدقات کے معاملے میں یہ وہ فریضہ ہے جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر لازم ٹھہرایا اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیا۔ چنانچہ مسلمانوں سے جب اس کے مطابق مانگا جائے تو انھیں چاہیے کہ وہ اسے ادا کر دیں اور جب ان سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو پھر وہ نہ دیں۔‘‘

اسی طرح جب انھوں نے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو لوگوں کے معارضہ پر یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ اس طرح واضح فرمائی :

قال اللہ تعالیٰ ، فان تابوا و اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم ۔ واللہ ، ولا اسئل فوقھن ولا اقصر دونھن ۔ (احکام القرآن ، الجصاص ، ج ۲ ، ص ۸۲)
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں نماز قائم کریں اور زکوۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، (اس لیے) خدا کی قسم ، میں ان شرطوں پر کسی اضافے کا مطالبہ کروں گا اور نہ ان میں کوئی کمی برداشت کروں گا ۔ ‘‘

اسی طرح، حضرت عمر بن عبد العزیز کو جب ان کے بعض عمال نے یہ لکھا کہ لوگوں کے مسلمان ہونے سے چونکہ حکومت کی وصولی میں کمی ہو جاتی ہے، اس وجہ سے لوگوں سے مسلمان ہونے کے بعد بھی جزیہ وصول کیا جاتا رہے تو انھوں نے ’’جائز حد‘‘ ہی تک صحیح، مسلمانوں پر کوئی اضافی ٹیکس عائد کرنے سے انکار کرتے ہوئے لکھا:

ان اللہ بعث محمداً صلی اللہ علیہ وسلم داعیاً ولم یبعثہ جابیاً فاذا اتاک کتابی ھذا فارفع الجزیۃ عمن اسلم من اھل الزمۃ ۔(احکام القرآن للجصاص، ج ۴، ص ۲۹۶)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر کی طرف پکارنے والا بنا کر بھیجا تھا، لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا تھا۔ چنانچہ اس خط کے پہنچتے ہی، اسلام قبول کرنے والوں پر سے جزیہ ختم کر دو۔‘‘

شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں زکوٰۃ کی شرحیں متعین کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ثم مست الحاجۃ الی تعیین مقادیر الزکاۃ اذ لو لا التقدیر لفرط المفرط ولاعتدی المعتدی. ویجب ان تکون غیر یسیرۃ لا یجدون بہ بالا ولا تنجع من بخلھم ولا ثقیلۃ یعسر علیھم اداؤھا۔(جز ۲، ص ۳۹)
’’پھر ضرورت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ مختلف صورتوں کے لیے زکوٰۃ کی مقدار متعین کر دی جائے۔ اگر یہ تعیین نہ کی جاتی تو زیادتی کرنے والوں کی زیادتی کی راہ کھلی رہتی۔ یہ ضروری تھا کہ یہ مقدار نہ اتنی کم ہو کہ لوگ اسے کوئی اہمیت نہ دیں اور نہ اتنی زیادہ ہو کہ اس کی ادائیگی لوگوں کے لیے بہت مشکل ہو جائے۔‘‘

زکوٰۃ کی متعین شرحیں ہی وہ ’’جائز حد‘‘ ہے جس تک ایک اسلامی ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے وصولی کر سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ٹیکس لینا ’’ناجائز‘ ‘حدود میں داخل ہونا ہی ہے۔ بہرحال، مولانا محترم اگر اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طے کردہ حدود سے آگے بھی ’’جائز‘ ‘و ’’ناجائز‘ ‘کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر وہی مہربانی فرما کر یہ واضح فرمادیں کہ اس معاملے میں جائز و ناجائز کا فیصلہ کون کرے گا؟

علما کے فتوے

جہاں تک فتووں کے بارے میں ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف کا تعلق ہے، اس میں ہمیں افسوس ہے کہ قارئین کو اصطلاحات کی بھول بھلیاں میں الجھا کر خلطِ مبحث پیدا کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنی پچھلی بحث ہی میں یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ کس قسم کے فتوے ہیں جنھیں ناجائز قرار پانا چاہیے۔ اس کے جواب میں مولانا محترم نے ’فتویٰ‘، ’امر‘ اور ’قضا‘کی اصطلاحات کی تفصیل کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان میں سے کس کی کیا حیثیت ہے۔

ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں یہ واضح کیا ہے کہ جس ’فتویٰ‘ پر ہمیں اعتراض ہے، وہ دراصل، ’فتویٰ‘ کے نام پر ’قضا‘ کے معاملات ہیں۔ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ’فتویٰ‘، ’امر‘ اور ’قضا‘ کا فرق سمجھانے کے بجائے، لوگوں کو یہ بتائیں کہ ہم نے اپنی مثالوں میں جن ’فتووں‘کو حدود سے متجاوز قرار دیا ہے، وہ انھیں کس بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ اگر اس نکتے کو واضح فرمائیں گے تو ہم ان کے فرمودات پر غور کر کے اپنی معروضات پیش کر دیں گے۔ مولانا کی موجودہ غیر متعلق بحث کے بارے میں ہمیں، فی الحال کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

____________

B