HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ (حصہ اول)

غیر ملکی تسلط کے خلاف جہاد

ماہنامہ ’’اشراق‘‘، مارچ ۲۰۰۱ میں استاذِ گرامی کی بعض آرا سے متعلق مولانا زاہد الراشدی صاحب مد ظلہ العالی کے فرمودات اور ان کے حوالے سے ہماری معروضات شائع ہوئی ہیں ۔ مولانا محترم نے استاذِ گرامی کی جن آرا پر اظہارِخیال فرمایا ہے ، ان میں سے ایک جہاد سے متعلق ہمارے استاذ کی رائے ہے ۔ یہ بات مولانا محترم کے فرمودات ہی سے واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ :’’کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے‘‘۔ اپنی معروضات میں ہم نے مولانا محترم کے ساتھ اپنے اختلاف کو واضح کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’۔۔۔اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اسی مسئلے میں ہے کہ اگر کبھی مسلمانوں پر کوئی بیرونی قوت اس طرح سے تسلط حاصل کر لے کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اس کے آگے بالکل بے بس ہو جائے تو اس صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ایسے حالات میں مولانا ہی کی بات سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ بیرونی طاقت کے خلاف اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اپنی سلطنت کے دفاع کا انتظام کرنے کو آمادہ ہو تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی ہی کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد ہی اس بات کی مستحق ہو گی کہ اسے جہاد قرار دیا جائے۔ مزید برآں ایسے حالات میں نظمِ اجتماعی سے ہٹ کر، جتھا بندی کی صورت میں کی جانے والی ہر جدوجہد، غلط قرار پائے گی۔ اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ مولانا کو ہماری اس بات سے اتفاق ہو گا، تاہم پھر بھی ہم یہ چاہیں گے کہ مولانا ہمارے اس خیال کی تصدیق یا تردید ضرور فرما دیں، تاکہ اس معاملے میں قارئین کے ذہن میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ چنانچہ ہمارے فہم کی حد تک، اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق ہے جب مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی ، کسی بھی وجہ سے، بیرونی طاقت کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے سے قاصر ہو۔مولانا کے نزدیک اس صورت میں مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی سلطنت کے دفاع کی جدوجہد کرنی چاہیے، خواہ یہ جدوجہد غیر منظم جتھا بندی ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس ضمن میں جو منظم یا غیر منظم جدوجہد بھی مسلمانوں کی طرف سے کی جائے گی، وہ مولانا محترم کے نزدیک ’جہاد ‘ہی قرار پائے گی۔‘‘

ہم نے مولانا محترم کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا:

’’دین و شریعت کی رو سے جہاد و قتال کی غیر منظم جدوجہد، بالعموم جن ہمہ گیر اخلاقی و اجتماعی خرابیوں کو جنم دیتی ہے، شریعتِ اسلامی انھیں کسی بڑی سے بڑی منفعت کے عوض بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قرآنِ مجید اور انبیاے کرام کی معلوم تاریخ سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جبر و استبداد کی قوتوں کے خلاف، خواہ یہ قوتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، اسی صورت میں تلوار اٹھانے کا حکم اور اس کی اجازت دی، جب مسلمان اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کر چکے تھے۔ اس سے پہلے کسی صورت میں بھی انبیاے کرام کو کسی جابرانہ تسلط کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘

اس کے بعد ہم نے جابرانہ تسلط کی مختلف صورتیں اور ان کے بارے میں دین وشریعت کا حکم اور اللہ کے اولوالعزم پیغمبروں کا اسوہ بیان کیا تھا۔ ہماری اس بحث کا خلاصہ اس طرح سے ہے:

۱۔ ایسا جابرانہ تسلط، جہاں محکوم قوم کو اپنے اختیار کردہ مذہب و عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔

اس صورت میں جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہدکرنا ہر محکوم قوم کا حق تو بے شک ہے، لیکن یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے اسوہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔

۲۔ ایسا جابرانہ تسلط، جہاں محکوم قوم کو اپنے اختیار کردہ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل نہ ہو۔

اس صورت میں اگر محکوم قوم کے لیے جابرانہ تسلط کے علاقے سے ہجرت کر جانے کا موقع موجود ہو تو اس کے لیے دین و شریعت کا حکم یہی ہے کہ اپنے ایمان کی سلامتی کی خاطر، وہ اپنے ملک وقوم کو خیر باد کہہ دیں۔ حضرت موسیٰ اور نبیِ اکرم کے اسوہ سے یہ رہنمائی ملتی ہے۔ اس کے برعکس، محکوم قوم کے لیے اگر ہجرت کی راہ مسدود ہو تو ان حالات میں درجِ ذیل دو امکانات قرآنِ مجید میں بیان ہوئے ہیں:

اولاً ، محکوم قوم اپنی مدد کے لیے کسی منظم اسلامی ریاست سے مدد طلب کرے۔ قرآنِ مجید کے مطابق، اگر اس اسلامی ریاست کے لیے ظلم وجبر کا نشانہ بنے بغیر ان مسلمانوں کی مدد کرنی ممکن ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرے، الاّ یہ کہ جس قوم کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا جا رہا ہے، اس کے اور مسلمانوں کی اس ریاست کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہو۔ (انفال ۸: ۷۲، نساء ۴: ۷۵)

ثانیاً، محکوم قوم کے لیے کسی منظم ریاست سے استمداد یا کسی منظم ریاست کے لیے اس محکوم قوم کی مدد کرنے کی راہ مسدود ہو ۔اس صورت میں محکوم قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے کہ وہ اللہ کا فیصلہ آنے تک حالات پر صبر کریں۔(اعراف ۷: ۸۷)

روزنامہ ’’اوصاف‘ ‘کی ۱۵ اور ۱۶ مارچ کی اشاعت میں مولانا محترم نے ہمارے استدلال کا محاکمہ کیا ہے۔ ہم مولانا محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے اس طالبِ علم کی بات کو قابلِ اعتنا سمجھا اور اس میں غلطی واضح کرنے کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اگر مولانا کی توجہ اسی طرح سے ہمیں نصیب رہی تو ان شاء اللہ، صحیح بات پوری طرح سے نکھر کر سامنے آجائے گی۔

اپنے پہلے مضمون میں مولانا محترم نے اپنے استدلال کی بنا فلسطین، برِصغیر پاک و ہند، افغانستان اور الجزائر کی جدوجہدِ آزادی اور ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی ان کوششوں پر رکھی تھی جو انھوں نے تاتاریوں کے خلاف اہلِ دمشق میں جہاد کی روح پھونکنے کے لیے کیں۔ اس حوالے سے ہم نے لکھا تھا:

’’عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہو گی، مگر مولانا محترم جیسے اہلِ علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہلِ علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کے بجائے، شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعتِ اسلامی کے بنیادی ماخذوں ، یعنی قرآن و سنت میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اس سے ہٹا ہوا قرار دیں۔‘‘

مولانا محترم اس بات کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’میرے نزدیک ہمارے درمیان نقطہ ء نظر کے اختلاف کا نکتہ اور اصل موڑ یہی ہے۔ یہ اگر واضح ہو جائے تو باقی معاملات کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔ ‘‘(روزنامہ ’’اوصاف‘‘، ۱۵ مارچ ۲۰۰۱)

اس ضمن میں اپنے نقطہ ء نظر کا خلاصہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’۔ قرآن و سنت کے بیان کردہ قطعی اور صریح اصولوں کو ہر چیز پر فوقیت اور بالا تری حاصل ہے۔
۔ جو اصول اہلِ علم نے قرآن وسنت کی روشنی میں خود مستنبط کیے ہیں، ان میں اصل مدار شخصیات پر ہے اور شخصیات کی باہمی ترجیحات ان کے وضع کردہ اصولوں میں بھی کارفرما ہوں گی۔
۔ ظنی اور استنباطی اصولوں اور سوسائٹی میں ان کے اطلاق و تطبیق کی عملی مشکلات دونوں کو سامنے رکھ کر احکام وضوابط طے کیے جائیں گے۔
۔ بعد میں پیش آنے والی ضروریات کے لیے وضع کیے جانے والے اصولوں کا مؤثر بہ ماضی اطلاق ضروری نہیں ہوگا اور نہ ہی ماضی کے معاملات کا ان کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
۔ صحابہ ء کرام رضی اللہ عنھم کا دور چونکہ ان سب استنباطات، استدلالات اور اجتہادات سے مقدم ہے اور وہ چشمہ ء نبوت سے براہِ راست فیض یاب ہوتے ہیں، اس لیے قرآن و سنت کے مفہوم ومصداق کے تعین اور بعد میں آنے والے اصولوں کے تعارض وتضاد کے حل کے لیے ان کا تعامل حتمی حجت ہے۔‘‘ (روزنامہ اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۱)

مولانا محترم نے اگرچہ اسی نکتے کو ہمارے مابین نقطہ ء نظر کے اختلاف کا ’بنیادی موڑ‘ قرار دیا ہے، تاہم انھوں نے چونکہ اپنے مضمون میں، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے استدلال پر تبصرہ اور اپنی رائے کے حق میں استدلال بھی پیش فرمایا ہے، اس وجہ سے، فی الحال ہم اس نکتے سے تعرض نہیں کریں گے۔ مولانا محترم فی الواقع ،اگر مذکورہ بنیاد ہی پر زیرِ بحث رائے کو اختیار کیے ہوئے ہیں تو پھر انھیں قرآن و سنت سے ہمارے استدلال پر نہ کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اپنی رائے کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے کی۔ اس صورت میں تو انھیں قرآنِ مجید اور اللہ کے پیغمبروں کی زندگیوں سے ہمارے حوالوں کے جواب میں اور اپنی رائے کی دلیل کے طور پر ’شخصیات‘ کی پیروی کی تلقین کا درس دیتے رہنے ہی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتے، تو ہم یقینا’شخصیات‘ کی آرا، ان کے استنباط اور استدلال کے بارے میں مولانا محترم کے فرمودات کا تفصیلی جائزہ قارئین کے سامنے پیش کر دیتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس وجہ سے، فی الحال خواہ مخواہ کی طوالت اور غیر متعلق مباحث میں الجھنے کے بجائے، ہم مولانا کے ان فرمودات کا جائزہ پیش کر رہے ہیں جو مسئلہ ء زیرِ بحث سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں۔

مولانا محترم ہمارے پیش کردہ نکات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’انھوں نے اس جواب میں فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم نے ان کے بقول مسلمانوں کی آبادی پر کافروں کے تسلط کی صورت میں دو ہی راستے بتائے ہیں: پہلا راستہ یہ ہے کہ اگر ہجرت کا راستہ اور مقام موجود ہو تو وہاں سے ہجرت کر جائیں اور دوسرا یہ کہ اگر ہجرت قابلِ عمل نہ ہو تو صبر وشکر کر کے بیٹھے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں سورۃ النساء، سورۃ الانفال اور سورۃ الاعراف کی بعض آیاتِ کریمہ کا حوالہ بھی دیا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ مسئلہ کی نوعیت کو سرے سے نہیں سمجھ سکے کیونکہ ان آیاتِ کریمہ میں ان مسلمانوں کے لیے احکام بیان کیے گئے ہیں جو کافروں کی سوسائٹی میں مسلمان ہو گئے ہیں اور ان کے زیرِ اثررہ رہے ہیں۔ ان کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ وہاں سے ہجرت کر سکتے ہیں تو نکل جائیں ورنہ صبر وحوصلہ کے ساتھ حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ جبکہ ہم جس صورت پر بحث کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی پر باہر سے آکر کافروں نے تسلط جما لیا ہو اور مسلمان اکثریت پر کافر اقلیت کا جبر و اقتدار قائم ہو گیا ہے۔ اس صورت میں محترم غامدی صاحب اور ان کے تلامذہ ہی مسلم اکثریت کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اپنا علاقہ کافر تابعین کے حوالے کر کے وہاں سے چلے جائیں یا ان کے جبر وظلم کو خاموشی سے برداشت کرتے چلے جائیں۔‘‘ (روزنامہ اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۱)

سب سے پہلے تو ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جسے مولانا محترم نے ’دو ہی راستے‘ قرار دیا ہے، وہ درحقیقت دو نہیں ، بلکہ دو سے زیادہ راستے ہیں۔ یہاں ان راستوں کے ذکر کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زیرِ نظر مضمون کے آغاز میں ہم اپنی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے ان راستوں کا ذکر کر چکے ہیں، وہاں ان پر نظر ڈال لیجیے۔

دوسری بات یہ کہ مولانا محترم کی اس توضیح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کسی غیر مسلم آبادی میں کچھ لوگ مسلمان ہو جائیں تو ان پر ان صورتوں کا اطلاق ہو گا جو ہم نے اپنے مضمون میں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق باقی رہ گیا ہے جب کسی بیرونی قوت کی طرف سے مسلمانوں پر یلغار کی گئی ہو اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت بالکل مفلوج یا ناپید ہو کر رہ جائے۔ ہم یہ بات، البتہ بالکل سمجھ نہیں پائے کہ جبر واستبداد خواہ اپنی غیر مسلم حکومت کی طرف سے ہو یا مسلمانوں کے علاقے پر حملہ آور ہو کر اس پر قبضہ کر لینے والی حکومت کی طرف سے، دونوں صورتوں میں، دینی لحاظ سے وہ کون سا فرق واقع ہوتا ہے جس کے باعث ان دونوں صورتوں کے دینی احکام میں تفاوت ہو گا۔ معاملہ اگر دینی جبر واستبداد اور ظلم وعدوان ہی کے خلاف لڑنے کا ہے تو وہ تو دونوں صورتوں میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، معاملہ اگر قومی وملی حمیت کا ہے تو پھر اس صورتِ حال میں اور قبطیوں کے آلِ یعقوب (بنی اسرائیل) کو من حیث القوم اپنا غلام بنا لینے کی صورت میں وہ کون سا فرق ہے جس کے باعث حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی قوم کو قبطیوں کے خلاف جہاد کی نعمتِ عظمیٰ کا درس نہیں دیا؟

تیسری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں صرف سورۂ نساء، سورۂ اعراف اور سورۂ انفال کی آیتوں ہی کا حوالہ نہیں دیا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے بعض پیغمبروں کی سیرت سے بھی استدلال کیا تھا۔ ان پیغمبروں میں سے ایک حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام بھی تھے۔ قارئین پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے وقت فلسطین پر رومیوں کا جابرانہ تسلط قائم تھا۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ بنی اسرائیل کے لیے رومی ایک غاصب قوم ہی تھے جنھوں نے باہر سے حملہ آور ہو کر ان کی آزادی چھین لی اور انھیں، من حیث القوم اپنا مطیع و فرماں بردار بنا لیا تھا۔ اس صورتِ حال میں حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت ہوئی تھی۔ مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انھوں نے کسی ایک موقع پر بھی اپنی قوم میں ’جہاد‘ کی روح پھونکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں قارئین کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ بنی اسرائیل چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی رسالت پر ایمان ہی نہیں لائے، اس وجہ سے آپ کو رومی غاصبوں کے خلاف جہادوقتال کی روح پھونکنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ہمارے نزدیک ، بات صرف یہی نہیں ہے کہ حضرتِ مسیح نے بنی اسرائیل کو اپنے غاصب حکمرانوں کے خلاف جہاد وقتال کا درس نہیں دیا، بلکہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب ان سے کھلے کھلے الفاظ میں ان حکمرانوں اور ان کی طرف سے بنی اسرائیل پر خراج عائد کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے اس موقع پر بھی ایسی کوئی بات نہیں فرمائی جس میں ان غاصبوں کے خلاف تلوار اٹھانے یا ان کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب پائی جاتی ہو۔متی کی انجیل میں یہ واقعہ اس طرح سے نقل ہوا ہے:

’’اس وقت فریسیوں نے جا کر مشورہ کیا کہ اسے (یعنی مسیح علیہ السلام کو) کیونکر باتوں میں پھنسائیں۔ پس انھوں نے اپنے شاگردوں کو ہیرودیوں (یعنی حکمران کے لوگوں) کے ساتھ اس کے پاس بھیجا اور انھوں نے کہا کہ اے استاد ہم جانتے ہیں کہ تو سچا ہے اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے اور کسی کی پروا نہیں کرتا، کیونکہ تو کسی آدمی کا طرف دار نہیں۔ پس ہمیں بتا تو کیا سمجھتا ہے کہ قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟ یسوع نے ان کی شرارت جان کر کہا: اے ریا کارو، مجھے کیوں آزماتے ہو؟ جزیہ کا سکہ مجھے دکھاؤ۔ وہ ایک دینار اس کے پاس لائے۔ اس نے ان سے کہا: یہ صورت اور نام کس کا ہے؟ انھوں نے اس سے کہا :قیصر کا۔ اس پر اس نے ان سے کہا: پس جو قیصر کا ہے، قیصر کو اور جو خدا کا ہے، خدا کو ادا کرو۔ ‘‘ (متی باب ۲۲، ۱۵ ۔ ۲۲)

حضرت مسیح علیہ السلام کے جواب پر غور کیجیے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اس جواب کی اصل روح یہ ہے کہ جب حکومت قیصر کی قائم ہے اور جب سکہ اسی کے نام کا چلتا ہے، تو پھر خراج بھی اسی کو ادا کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ غاصب قوم کے خلاف تلوار اٹھانا اگر ’جہاد‘ ہوتا تو حضرت مسیح علیہ السلام ، کم از کم اسی موقع پر اللہ کے دین کا یہ تقاضا ضرور بیان فرما دیتے۔

ہمیں مولانا کی اس بات سے پوری طرح سے اتفاق ہے کہ نساء، اعراف اور انفال کی وہ آیتیں جن کا ہم نے اپنے مضمون میں حوالہ دیا ہے، ان کا تعلق اصلاً اسی صورتِ حال سے ہے جب کافروں کی کسی بستی میں کچھ لوگ اسلام قبول کر لیں اور اس کے نتیجے میں انھیں حکمرانوں کی طرف سے جبر و استبداد کا نشانہ بنایا جارہا ہو اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہوں۔ مگر ہمارے نزدیک، یہ صورتِ حال دینی و اخلاقی لحاظ سے اس سے کچھ مختلف نہیں ہے کہ جہاں کوئی غیر مسلم قوم کسی مسلمان بستی پر قابض ہو گئی اور اس کو اپنے مظالم کا نشانہ بنا رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں ان آیات کو بنائے استدلال بنایا ہے۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیھما السلام کے حالات و واقعات سے بھی غیر قوم کے استیلا کے حوالے سے دین وشریعت کے جو احکام مستنبط ہوتے ہیں، وہ ہماری محولہ آیات کے عین مطابق ہیں۔

اس کے بعد مولانا محترم فرماتے ہیں:

’’ہمیں تو جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس سے برعکس رہنمائی ملتی ہے کیونکہ یمن کا علاقہ جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسلم مملکت میں شامل ہو گیا تھا اور شہر بن باذان کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے وہاں کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ ان کے علاوہ یمن کے مختلف علاقوں میں حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور دوسرے عمال کا تقرر کیا تھا مگر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر کے صنعاء پر چڑھائی کی اور شہر بن باذان کو قتل کر کے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا، مقتول گورنر کی بیوی کو زبردستی اپنے حرم میں داخل کیا یمن کے مختلف علاقوں سے جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ عاملوں کو یمن سے نکال دیا اور اس طرح یمن کا صوبہ اسلامی حکومت سے نکل کر کافروں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس پر تین حضرات، حضرت فیروز دیلمی، حضرت قیس بن مکشوح اور حضرت دادویہ نے باہمی مشورہ کر کے گوریلا طرزِ جنگ پر شب خون مارنے کا پروگرام بنایا۔ مقتول گورنر شہر بن باذان کی بیوی سے، جو اسود عنسی نے زبردستی اپنے حرم میں داخل کر رکھی تھی، ان تینوں حضرات نے رابطہ کر کے سازباز کی، جس کے تحت اس نے رات کو اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا دی۔ ان حضرات نے محل کی دیوار میں نقب لگا کر اندر داخل ہونے کا راستہ نکالا اور رات کی تاریکی میں اسود عنسی اور اس کے پہرہ داروں کو قتل کر کے اس کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ یہ گوریلا کارروائی تھی اور مسلح کارروائی تھی۔ اس میں معز امجد صاحب کو یقیناًکچھ اخلاقی خرابیاں نظر آ رہی ہوں گی اور بلا ضرورت قتل و غارت بھی دکھائی دیتی ہو گی، لیکن عملاً یہ سب کچھ ہوا جس کے نتیجے میں یمن کے مسلمانوں کا اقتدار دوبارہ بحال ہوا اور جناب نبیِ اکرم کو جب ان کے وصال سے صرف دو روز قبل وحی کے ذریعے سے اس کارروائی کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صحابہ ء کرام رضی اللہ عنھم کو یہ خوش خبری سنائی۔ اس کے بعد حضرت فیروز دیلمی جب اس کامیابی کی خبر لے کر یمن سے مدینہ منورہ پہنچے تو جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی رپورٹ خلیفہ ء اول حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو پیش کی اور انھوں نے اس پر اطمینان ومسرت کا اظہار فرمایا۔ اس لیے محترم معز امجد صاحب سے عرض ہے کہ جن آیاتِ کریمہ سے انھوں نے استدلال کیا ہے، ان کا مصداق یہ نہیں ہے، بلکہ اس کی عملی شکل وہی یمن والی ہے کہ جب کسی مسلمان ملک پر کافروں کا تسلط قائم ہو تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو صورت بھی اس وقت کے حالات کی روشنی میں اختیار کر سکیں، اس سے گریز نہ کریں اور وہ کافر وظالم قوت کے جابرانہ تسلط کے خلاف مزاحمت کی جو صورت بھی اختیار کریں گے، وہ حضرت فیروز دیلمی کی اس گوریلا کارروائی اور شب خون کی طرح ’جہاد‘ ہی کہلائے گی۔‘‘ (روزنامہ ، اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۱)

یہ اگر مان بھی لیاجائے کہ یہ واقعہ بعینٖہ اسی طرح سے ہوا جیسا کہ مولانا محترم نے بیان فرمایا ہے، تب بھی یہ جابر وغاصب قوم کے خلاف گروہ بندی اور جتھا بندی کر کے ’جہاد‘ کرنے کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک غاصب حکمران کے قتل کا واقعہ ہے۔ گروہ بندی اور جتھا بندی کر کے جہاد کرنا اور کسی (اچھے یا برے) حکمران کے قتل کی سازش کرنا دو بالکل الگ معاملات ہیں۔ ایک صورت ان ہمہ گیر اخلاقی خرابیوں کا باعث بنتی ہے جن کی طرف ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں اشارہ کیا تھا، جبکہ دوسری صورت میں وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ معاملہ یوں نہیں ہوا کہ ان تین مذکورہ لوگوں نے صنعاء اور یمن کے مسلمانوں کو غاصب قوم کے خلاف منظم کرنے کی جدوجہد کی ہو، بلکہ جیسا کہ مولانا محترم نے بیان فرمایا، معاملہ تو یوں ہے کہ ان تینوں حضرات نے غاصب حکمران کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔قتل کے کسی منصوبے کا آخر جہاد سے کیا تعلق ہے؟

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ اس طرح سے رونما ہوا ہی نہیں، جیسا کہ مولانا نے بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر، ’’اصابہ ‘‘ کے مطابق:

بعث النبی الی جشیش والی دادویہ والی فیروز الدیلمی یامرھم بمحاربۃ الاسود العنسی ۔ (ج ۱، ص ۵۳۵)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جشیش، دادویہ اور فیروز دیلمی کو ایک پیغام بھیجا جس میں آپ نے انھیں اسود عنسی کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا۔‘‘

تاریخ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری کارروائی ایک صوبے میں بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک منظم ریاست ہی کی طرف سے کی گئی تھی۔ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اسلامی حکومت نے اپنے تین ایجنٹوں کے ذریعے سے ایک صوبے میں رونما ہونے والی بغاوت کا خاتمہ کرایا۔

ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے۔ ان کے بیان کے چند اہم نکات حسبِ ذیل ہیں:

۔ اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اپنے سات سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کی ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر قبضہ کیا اس کے بعد صنعاء کا قصد کیا اور وہاں کے عامل شہر بن باذام کو قتل کر کے اس پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جو اس وقت یمن ہی میں تھے، وہاں سے نکل گئے۔ راستے میں وہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملے اور وہ دونوں حضر موت کی طرف چلے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال طاہر تک پسپا ہو گئے اور ان میں سے عمر بن حرام اور خالد بن سعید بن عاص مدینہ لوٹ آئے۔

۔ اسود عنسی کی حکومت پوری طرح سے مستحکم ہو گئی۔ اس وقت اس کی فوج میں سات سو گھڑ سوار شامل تھے۔ اس کی فوج کے امرا کے نام یہ ہیں: قیس بن عبد یغوث (یہ قیس بن مکشوح ہی ہیں)، معاویہ بن قیس، یزید بن محرم بن حصن حارثی اور یزید بن افکل ازدی۔

۔ اسود کی حکومت کے زور پکڑنے کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ مرتد ہونے لگے۔ ان مرتدین میں، بظاہر مسلمان عمال بھی شامل تھے۔

۔ اس نے قیس بن عبد یغوث کو اپنا امیر الجنداور فیروز دیلمی اور دادویہ کو ابنا کے معاملے کا ذمہ دار بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے شہر بن باذام کی بیوہ سے ، جس کا نام زاذ تھا اور جو فیروز دیلمی کی چچا زاد تھی، شادی کر لی۔ زاذ حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مومن و صالح عورت تھی۔

۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسود عنسی کی بغاوت کی خبر ملی تو آپ نے وبر بن یحنس دیلمی کے ذریعے سے ان مسلمانوں کو اسود عنسی کے خلاف جنگ کرنے اور اس پر حملہ کرنے کا حکم دیا جو وہاں موجود تھے۔

۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کے لیے پوری طرح سے کمر بستہ ہو گئے۔ سکون کے لوگ جو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے سسرالی رشتے دار تھے، ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ان تمام عمال اور مسلمانوں تک پہنچا دیا جن تک پہنچنا ان کے لیے ممکن تھا۔

۔ مسلمانوں کے اجتماع نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ کام قیس بن عبد یغوث کے ذریعے سے کرایا جائے، کیونکہ اسے اسود عنسی پر بہت غصہ تھا اور وہ اسے حقیر جانتا اور اس کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہی معاملہ فیروز دیلمی اور دادویہ کا بھی تھا۔

۔ چنانچہ جب وبر بن یحنس نے قیس کو اس اسکیم کی خبر دی تو اس کے لیے یہ ایسا ہی تھا گویا اسے آسمان سے ایک موقع مل گیا ہو اور اس طرح انھوں نے اسود عنسی کے قتل کی اسکیم بنائی۔ اس کے بعد قیس نے دادویہ اور فیروز دیلمی کو اپنی اس اسکیم میں شامل کیا۔ بالآخر ، ان تینوں حضرات نے اسود عنسی کی بیوی کے ساتھ مل کر اسود کے قتل کے منصوبہ کو رو بہ عمل کیا۔

ان نکات سے جو باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آجاتی ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ اسود عنسی کے خلاف اس کے محکوم و مظلوم عوام نے کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ وہ بے چارے تو اس کے ظلم وستم سے تنگ آ کر مرتد ہونا شروع ہوگئے تھے۔

۲۔ یہ پوری کارروائی، اصلاًمسلمانوں کی منظم ریاست ہی کی طرف سے اپنے ایک صوبے میں ہونے والی بغاوت کے قلع قمع کے لیے کی گئی تھی۔

۳۔ اس کارروائی کا عملی ظہور اسود عنسی کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑنے اور اس کے اپنے ہی عمال کی طرف سے اس کے قتل کا کامیاب منصوبہ بنانے کی صورت میں ہوا۔

اب قارئین خود ہی اس بات کا فیصلہ فرمائیں کہ اس کارروائی سے مولانا محترم نے جو استدلال کیا ہے، وہ صحیح ہے یا غلط۔

زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کا جواز

جہاد کے علاوہ مولانا محترم نے ہمارے استاذ کی اس رائے پر بھی اظہارِ خیال فرمایا تھا کہ :’’زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔‘‘ مولانا محترم نے اپنے مضمون میں اس رائے کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا:

’’لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر (زکوٰۃ کے علاوہ) اور کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں، تو ان کی مہربانی ہو گی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

اس کے جواب میں ہم نے اپنی معروضات میں اپنے استاذ کی رائے، انھی کے الفاظ میں، مولانا کی خدمت میں پیش کر دی تھی ۔

روزنامہ ’’اوصاف‘‘ کی ۱۷ مارچ کی اشاعت میں مولانا محترم نے استاذِ گرامی کی اس رائے پر اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ وہ، اب تک کے تبادلہ ء خیالات کا خلاصہ اور استاذِ گرامی کے استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’زکوٰۃ کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی نے فرمایا تھا کہ اسلامی مملکت میں اجتماعی معیشت کے نظام کو چلانے کے لیے زکوٰۃ ہی کا نظام کافی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے حکومت کو اور کوئی ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ یہ درست ہے کہ اگر زکوٰۃ اور دیگر شرعی واجبات کا نظام صحیح طور پر قائم ہو جائے، تو معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اور کوئی ٹیکس لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور یہ بھی درست ہے کہ ٹیکسوں کا مروجہ نظام سراسر ظالمانہ ہے، جس کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی وقت قومی ضروریات زکوٰۃ اور بیت المال کی دیگر شرعی مدات سے پوری نہ ہوں تو کیا حکومت وقتی ضرورت کے لیے کوئی اور ٹیکس، جائز حد تک، لگانے کی مجاز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں ممانعت کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اگر کوئی دلیل غامدی صاحب کے پاس موجود ہو تو وہ رہنمائی فرمائیں۔ اس کے جواب میں معز امجد صاحب نے قرآنِ کریم کی بعض آیات اور جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات سے استدلال کیا ہے۔ مگر یہ استدلال ان کے مؤقف کی تائید نہیں کرتا۔ مثلاً، انھوں نے سورۂ توبہ کی آیت کا حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ، تو ’فخلوا سبیلھم‘، ’’ان کی راہ چھوڑ دو‘‘۔ یعنی ’ان کی راہ چھوڑ دو‘ سے انھوں نے استدلال کیا ہے کہ ان سے اور کوئی مالی تقاضا کرنا درست نہیں ہوگا۔ مگر اس کی وضاحت میں مسلم شریف کی جو روایت انھوں نے پیش کی ہے، اس میں جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری رسالت کی شہادت دے دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور جب وہ ایسا کر لیں، تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ یہاں اموال کے محفوظ ہو جانے کا مفہوم معز امجد صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ ان سے مزید کوئی مالی تقاضا نہیں ہو سکے گا۔ مگر اسی روایت میں ’الا بحقھا‘ کی استثنا موجود ہے، جو خود انھوں نے بھی نقل کی ہے جس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اسلام کے حقوق کے حوالے سے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال کا تقاضا مسلمانوں سے کیا جا سکتا ہے۔‘‘(اوصاف، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱)

مولانا محترم کی اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ روایت کے آخر میں ’الا بحقھا‘ کے الفاظ نے وہ استثنا پیدا کردیا ہے جس کی بنیاد پر اب حکومت روایت میں مذکور مطالبات کے پورا کر دینے کے باوجود بھی اپنے مسلمان شہریوں پر مزید ذمہ داریاں عائد کر سکتی ہے۔

مولانا محترم کی اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ قارئین کے سامنے سورۂ توبہ کی محولہ آیت کا موقع و محل اور اس میں پایا جانے والا زور پوری طرح سے واضح کر دیں اور پھر اس آیت کے حکم کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مذکورہ روایت کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اس سے وہ بات کس حد تک نکلتی ہے جو مولانا محترم نے اس سے نکالی ہے۔ سورۂ توبہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اتمامِ حجت کے بعد ، جزیرہ نماے عرب سے مشرکین کے خاتمے کا حکم نازل ہوا ہے۔ اسی حکم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات واضح فرما دی گئی کہ اب ان مشرکین کو زندگی کی مہلت صرف اسی صورت میں حاصل رہے گی کہ اگر وہ اپنے شرک سے توبہ کر کے اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں۔ سورہ کی آیت ۵ میں ان مشرکین کی جان بخشی کی شرائط بیان ہوئی ہیں۔ ان میں اسلام کے خلاف عقائد سے توبہ کرنے، نماز کا اہتمام کرنے اور ریاست کے بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے کی شرائط شامل ہیں۔ اس کے بعد مسلمان ریاست کو یہ حکم دیا ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے اگر یہ تقاضے پورے کر دیے جائیں ’تو پھر ان کی راہ چھوڑ دو‘۔ بالفاظِ دیگر اس آیت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اتمامِ حجت کے بعد اب اس سرزمین پر آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حق صرف انھی کا ہے جو اس پیغمبر پر ایمان لے آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس آیت نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ وہ کون کون سے مطالبات ہیں جو ایک شخص کو مومن و مسلم سمجھنے کے لیے ریاست ان سے کر سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک، ’فخلوا سبیلھم‘ کا پورا زور سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اس آیت میں مسلمان ریاست کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مسلمانوں کے حقوق دینے کے لیے ان سے کون کون سے مطالبات کر سکتی ہے۔ اس صورت میں مولانا محترم ہی ہمیں سمجھائیں کہ ’فخلوا سبیلھم‘ کے معنی اس کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں کہ مذکورہ مطالبات کو پورا کر دینے کے بعد، ان کے اوپر اور کوئی ذمہ داری نہ ڈالو، ان پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالو اور انھیں وہ تمام حقوق دینے کے لیے جو ایک اسلامی ریاست کے شہری کی حیثیت سے انھیں حاصل ہونے چاہییں، ان سے مزید کوئی تقاضا نہ کرو۔ اس حکم کی موجودگی میں نہ صرف یہ کہ ایک اسلامی ریاست کے لیے اپنے مسلمان شہریوں پرزکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے، بلکہ قانونی و اخلاقی منکرات سے اجتناب کو چھوڑ کر، ان پر کسی بھی قسم کی کوئی مزید قانونی ذمہ داری عائد کرنے کی راہ بھی مسدود ہو جاتی ہے۔

آیت کا یہ مفہوم بالکل واضح ہے۔ مولانا محترم کے نزدیک ، مذکورہ آیت کے اگر وہ معنی نہیں ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں تو ہماری گزارش ہے کہ وہ مہربانی فرما کرآیت کے الفاظ اور اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں ہماری غلطی ہم پر واضح فرما دیں۔

اس آیت کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مذکورہ روایت کو اگر دیکھا جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے وہ معنی کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے جو مولانا محترم نے بیان فرمائے ہیں۔ اس صورت میں روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ قرآنِ مجید کے خلاف قرار پائے گی اور اس وجہ سے، اس روایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کے بارے میں شبہ پیدا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ تو کسی طرح بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید کے واضح حکم کے خلاف کوئی بات ارشاد فرمائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں ’الا بحقھا‘ کے الفاظ میں جو استثنا بیان ہوا ہے، اس کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو مولانا محترم نے بیان فرمائے ہیں۔ ’الا بحقھا‘ کے معنی اگر وہ ہیں جو مولانا محترم نے بیان فرمائے ہیں تو اس سے نہ صرف یہ روایت قرآنِ مجید کے واضح حکم کے خلاف قرار پاتی ہے، بلکہ خود اس روایت میں بھی جو بات بیان ہوئی ہے، وہ بھی بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس پوری روایت پر ایک مرتبہ پھر سے نظر ڈال لیجیے۔ اس روایت کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ ویقیموا الصلوٰۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی دماۂم واموالہم الا بحقہا وحسابہم علی اللہ۔(مسلم، کتاب الایمان)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروںیہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ و ہ یہ شرائط پوری کر دیں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے، الا یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے۔‘‘

غور کیجیے، اگر ’الا بحقھا‘ کے معنی فی الواقع وہی ہوں جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں تو اس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی جان و مال کو اپنی جو امان دی ہے، وہ بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ اس صورت میں پوری بات کچھ یوں ہو جائے گی کہ :’’لوگوں کی جان و مال کی حرمت اس وقت تک کے لیے ختم ہوگئی ہے ،جب تک وہ اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرار نہ کر لیں اور نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ ادا نہ کریں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو پھر ان کے جان و مال مجھ سے مامون ہوجائیں گے، الاّ یہ کہ میں ان پر کوئی خراج عائد کروں (یا کسی مقصد سے ان کی جان لینے کا فیصلہ کروں)۔ ‘‘ ظاہر ہے کہ ’الا بحقھا‘ کے استثنا کے اگر یہ معنی ہیں، جیسا کہ مولانا محترم نے بیان فرمایا ہے تو اس کے نتیجے میں لوگوں کی جان ومال کو ایمان لانے، نماز و زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود بھی کوئی امان حاصل نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ عربیت کی رو سے ’الا بحقھا‘ میں جو استثنا بیان ہوا ہے، اس میں صرف مال کی حرمت کا استثنا نہیں، بلکہ جان کی حرمت کا استثنا بھی شامل ہے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شریعت ہی کا کوئی حق قائم ہوئے بغیر ریاست اپنے کسی شہری کی جان نہیں لے سکتی، بالکل اسی طرح شریعت ہی کا کوئی حق قائم ہوئے بغیر، وہ اپنے کسی شہری کے مال کی حرمت کو بھی پامال نہیں کر سکتی۔ یہی وہ بات ہے جو زیرِ غور روایت میں بیان ہوئی ہے۔ ’الا بحقھا‘ کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ’’سوائے اس صورت میں کہ (شریعت ہی کے ) کسی حق کے تحت وہ ان (یعنی جان و مال) سے محروم کر دیے جائیں۔‘‘ ابو طیب ’’عون المعبود‘‘ میں لکھتے ہیں:

الا بحقھا ای الدماء والاموال. الباء بمعنی عن. یعنی ھی معصومۃ الا عن حق اللہ۔ (باب علی ما یقاتل المشرکون، ج ۷، ص ۲۱۶)
’’’الا بحقھا‘ سے مراد جان اور مال پر حق کا قائم ہونا ہے۔ یہاں ’باء‘، ’عن‘ کے معنی میں ہے۔ یعنی یہ دونوں مامون ہیں سوائے اس کے کہ ان پر اللہ ہی کا (بیان کردہ) کوئی حق قائم ہو جائے۔‘‘

عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ ’’سنن ترمذی‘‘ کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ : ’’اسلام میں داخل ہوجانے اور نماز کے قائم اور زکوٰۃادا کر دینے کے بعد لوگوں کا خون بہانا اور ان کے اموال کو کسی بھی سبب سے مباح کرنا ناجائز ہے، سوائے اس کے اسلام ہی کا کوئی حق ان کے جان و مال پر قائم ہو جائے۔ مثال کے طور پر، قصاص کے قانون کے تحت کسی کی جان لینا یا کسی سے غصب شدہ مال واپس لینا۔‘‘ یہی بات مناوی رحمہ اللہ نے ’’فیض القدیر‘‘ میں بھی لکھی ہے۔ اسی طرح ابو الفرج حنبلی، اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں ’الا بحقھا‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ومن حقھا الامتناع عن الصلاۃوالزکاۃ بعد الدخول فی الاسلام. کما فھمہ الصحابۃ رضی اللہ عنھم ۔(ج ۱، ص ۸۵)
’’اور وہ حقوق جو ان پر قائم ہوتے ہیں، ان میں اسلام لانے کے بعد نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار ہے، جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے فہم سے واضح ہے۔ ‘‘

اس ساری تفصیل سے یہ بات پوری طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ ’الا بحقھا‘ کے وہ معنی کسی طرح بھی نہیں لیے جا سکتے جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں۔

اس کے بعد مولانا محترم لکھتے ہیں:

’’پھر انھوں نے ابنِ ماجہ کی یہ روایت پیش کی ہے کہ جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا کوئی حق عائد نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی ترمذی کے حوالے سے جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کر دیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق موجود ہے۔ اس لیے میرے خیال میں یہ آیات اور روایات غامدی صاحب کے مؤقف کے بجائے ہمارے مؤقف کی تائید کرتی ہیں کہ ضرورت پڑنے پر زکوٰۃ کے علاوہ مزید ٹیکس بھی اسلامی حکومت کی طرف سے عائد کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (اوصاف،۱۷ مارچ ۲۰۰۱)

مولانا محترم کی یہ بات پڑھ کر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ہماری معروضات کو اپنی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ ہم نے اپنے مضمون میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی یہ دوبظاہر متناقض فرمان ہی نقل نہیں کیے، بلکہ ان کے باہمی تناقض کو حل کرنے کے لیے ان کا الگ الگ محل بھی واضح کیا ہے۔ یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان روایتوں کو ہم نے جس محل میں سمجھا ہے، وہ ہو سکتا ہے کہ مولانا محترم کی نظر میں درست نہ ہو، لیکن معاملہ اگر فی الواقع یہی ہے تو پھر مولانا سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ، کم از کم ان دونوں روایتوں کا صحیح محل ہی واضح فرما دیں جس سے ان کے باہمی تناقض کو حل کرنے کی کوئی راہ کھل جائے۔ اس وضاحت کے بغیر، مولانا محترم اگر محض یہ کہہ کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں کہ: ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا کوئی حق عائد نہیں ہے، لیکن ساتھ ہی جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق موجود ہے،‘‘ تو پھر یقیناًقارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ کیا مولانا محترم اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف موقعوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہم متناقض تعلیمات ارشاد فرماتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ان دونوں ارشادات کے محل بالکل الگ الگ ہیں۔ ایک میں آپ نے حکومت کے حوالے سے یہ فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے اموال میں زکوٰۃ کے بعد حکومت کا کوئی اور حق قائم نہیں ہوتا، جبکہ دوسری روایت میں آپ نے قرابت مندوں، غربا، مساکین اور معاشرے کے اہلِ حاجت کے حوالے سے یہ فرمایا ہے کہ زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد بھی مسلمانوں کے اموال میں ان لوگوں کی مالی امداد کرنے کا حق قائم ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر، حکومت تو اگرچہ زکوٰۃ کے علاوہ مسلمانوں سے جبری طور پر کچھ وصول کرنے کا حق نہیں رکھتی، تاہم مسلمانوں پر اجتماعی و انفرادی ضروریات کے لیے خرچ کرنے کی ذمہ داری اس کے بعد بھی قائم ہوتی ہے۔ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں اس سے ملتی جلتی بات اس طرح سے واضح کی ہے:

وفیہ ان فی المال حقا سوی الزکاۃ. واجاب العلماء عنہ بجوابین: احدھما ان ھذا الوعید کان قبل فرض الزکاۃ و یؤیدہ ما سیاتی من حدیث بن عمر فی الکنزولکن یعکر علیہ ان فرض الزکاۃ متقدم علی اسلام ابی ھریرۃ کما تقدم تقریرہ. ثانی الاجوبۃ ان المراد بالحق القدر الزائد علی الواجب ولا عقاب بترکہ وانما ذکر استطرادا لما ذکر حقھا بین الکمال فیہ وان کان لہ اصل یزول الذم بفعلہ وھو الزکاۃ۔ (ج ۳، ص ۲۶۹)
’’اور اس میں یہ بھی ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق قائم ہوتا ہے۔ علما نے اس (باہمی تناقض) کے دوطرح سے جواب دیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ بات زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے فرمائی گئی ہو گی۔ کنز کے بارے میں ابنِ عمر کی روایت جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے، اس توجیہ کی تائید کرتی ہے، مگر اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت حضرت ابو ہریرہ کے اسلام لانے سے پہلے ہوچکی تھی، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں ’حق‘ سے مراد وہ اضافی مقدار ہے جو زکوٰۃِ واجب کے ادا کر دینے کے بعد دی جائے جس کے نہ ادا کرنے پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ اس کا ذکر اس معاملے میں درجہ ء کمال کی تعلیم کے حوالے سے کیا گیا ہے، اگرچہ وہ ادائیگی جس کے بعد حقِ واجب مکمل طور پر پورا ہو جاتا ہے، وہ زکوٰۃ ہی ہے۔‘‘

________

B