بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَاوَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ {۱۴۲} وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ {۱۴۳}
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وُجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ {۱۴۴} وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ وَمَآ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَھُمْ وَمَا بَعْضُھُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھُمْ مِّنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ {۱۴۵} اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ {۱۴۶} اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ {۱۴۷}
(ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد کو ، اے پیغمبر ،ہم نے تمھارے لیے قبلہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے ۳۵۰ تو) اب اِن لوگوں میں سے جو احمق ہیں ، ۳۵۱ وہ کہیں گے : اِنھیں کس چیز نے اُس قبلے سے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے ؟ ۳۵۲اِن سے کہہ دو : مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں ، ۳۵۳ وہ جس کو چاہتا ہے، (اِن تعصبات سے نکال کر) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔ (ہم نے یہی کیا ہے ) اور (جس طرح مسجدِ حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرانے کا فیصلہ کیا ہے) اِسی طرح (امامت بھی اِن سے لے کر تمھیں دے دی ہے اور اِس کے لیے) تمھیں ایک درمیان ۳۵۴ کی جماعت بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (دین کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے ۔ ۳۵۵ اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے ، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھیرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے ۔ ۳۵۶ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک بھاری بات تھی، لیکن اُن کے لیے نہیں ، جنھیں اللہ ہدایت سے بہرہ یاب کرے ۔ ۳۵۷ اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ (اِس طرح کی آزمایش سے وہ) تمھارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے ۔ ۳۵۸ اللہ تو لوگوں کے لیے بڑا مہربان ہے ، سراسر رحمت ہے ۔ ۳۵۹ ۱۴۲ ۔ ۱۴۳
تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھتے رہے ہیں ، ۳۶۰ (اے پیغمبر) ، سو ہم نے فیصلہ کر لیا ۳۶۱کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے ۔ ۳۶۲ لہٰذا اب اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر ۳۶۳ دو اور جہاں کہیں بھی ہو، (نماز میں) اپنا رخ اُسی کی طرف کرو ۔ ۳۶۴ یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی تھی ، جانتے ہیں کہ اُن کے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے ، ۳۶۵ اور (اِس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں ، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے ۔ ۳۶۶ اور اِن اہلِ کتاب کے سامنے ، (اے پیغمبر) ، تم اگر سب نشانیاں بھی پیش کر دو تو یہ تمھارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے ۔ اور (اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو علم تمھارے پاس آ چکا ہے ، اِس کی بنا پر) تم بھی اِن کا قبلہ نہیں مان سکتے اور (ان کی یہ ضد صرف تمھارے ساتھ نہیں ہے ، حقیقت یہ کہ ) یہ بھی ایک دوسرے کا قبلہ نہیں مانتے۔ (لہٰذا اِن کو کوئی چیز اگر مطمئن کر سکتی ہے تو یہی کہ تم اِن کا قبلہ مان لو) اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) تم اگر اُس علم کے بعد جو تمھارے پاس (وحی کے ذریعے سے) آ چکا ہے ، اِن کی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہو تو تم بھی یقینا اِنھی ظالموں میں سے ہو گے ۔ ۳۶۷ (اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ) جن کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اِس بات کو ایسا پہچانتے ہیں ، جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ ۳۶۸اور اِن میں یہ ایک گروہ ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے ۔ (تم پر واضح ہو کہ) یہی حق ہے ، ۳۶۹ تمھارے پروردگار کی طرف سے ، لہٰذا (اِس کے متعلق) تم کو ہرگز کسی شک میں نہ پڑنا چاہیے ۔ ۳۷۰ ۱۴۴۔ ۱۴۷
۳۵۰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جو حقائق اوپر بیان کیے گئے ، اُن سے واضح تھا کہ اب تحویلِ قبلہ کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد صادر ہونے والا ہے ۔ یہ اسی کی تمہید ہے ۔
۳۵۱ یہود کو یہاں احمق قرار دینے کی وجہ وہی ہے جو اس سے پہلے آیت ۱۳۰ میں بیان ہوئی ہے کہ ابراہیم کے دین سے وہی انحراف کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کر لے ۔ یہود کا دعویٰ تھا کہ وہ دینِ ابراہیمی کے پیرو ہیں ۔ اپنے اس دعوے کے ساتھ جب وہ ابراہیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے گھر کو قبلہ قرار دینے پر اعتراض کریں گے تو اسے حماقت کے سوا اور کیا قرار دیا جائے گا ؟
۳۵۲ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ۔ قرآن نے آگے بتایا ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا اور لوگوں کی آزمایش کے لیے دیا گیا تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون حقیقت پر نگاہ رکھتا ہے اور کون ظاہری باتوں میں الجھ کر اپنی راہ کھوٹی کر لیتا ہے ۔
۳۵۳ یہود مغرب کو اپنا قبلہ قرار دیتے تھے اور نصاریٰ مشرق کو ۔ یہ قرآن نے اسی پر تعریض کی ہے کہ سمتوں میں سے کوئی سمت بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ وہ ہر سمت میں ہے اور مشرق و مغرب ، سب پر اسی کی حکومت قائم ہے ۔ اس لیے قبلہ کی بحث میں اس چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہو سکتی ۔ بیت اللہ ابراہیم اور اسمعیٰل نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے تعمیر کیا تھا ۔ ذریتِ ابراہیم کا قبلہ ابتدا سے وہی تھا اور بیت المقدس کی تعمیر بھی اسی کو قبلہ قرار دے کر ہوئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دینِ ابراہیمی کی تجدید کے بعد یہ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ قبلے کا فیصلہ بھی کر دیا جائے ۔ چنانچہ یہی ہوا ہے اور جس طرح دین کو یہود و نصاریٰ کے پیدا کردہ پیچ و خم سے نکال کر اس کی اصل پر قائم کیا گیا ہے ، اسی طرح قبلہ بھی اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا گیا ہے۔
۳۵۴ اصل میں لفظ ’وسط‘استعمال ہوا ہے ۔ یہ ’ولد‘ کی طرح مذکر ، مونث ، واحد اور جمع سب کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے معنی درمیان کے ہیں اور اس آیت میں ، جس طرح کہ ’لتکونوا اشہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا‘ کے الفاظ سے واضح ہے ، صحابۂ کرام کی جماعت کے لیے آیا ہے ۔ ان کے ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری طرف ’الناس‘ ، یعنی دنیا کی سب اقوام تھیں ۔ اس لحاظ سے وہ درمیان کی جماعت تھے ۔ لہٰذا جو شہادت حضور نے اُن پر دی ، وہی شہادت باقی دنیا پر دینے کے لیے وہ مامور کیے گئے ۔ سورئہ حج (۲۲) کی آیت ۷۸ میں ’ھواجتبٰکم‘ کے الفاظ دلیل ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے دین کی اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا ، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے ۔ یہ صحابہ کا منصب تھا ۔ نبوت جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ، اسی طرح شہادت کا یہ منصب بھی ان نفوسِ قدسیہ پر ختم ہوا ۔ ان کے اس منصب میں اب قیامت تک کوئی فرد یا جماعت ان کی شریک و سہیم نہ ہو سکے گی ۔
۳۵۵ شہادت کے معنی گواہی کے ہیں ۔ جس طرح گواہی سے فیصلے کے لیے حجت قائم ہو جاتی ہے ، اسی طرح دین کی دعوت جب اس شان سے پہنچے کہ اس سے مخاطبین پر اتمامِ حجت ہو جائے تو قرآن کی اصطلاح میں اسے شہادت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
۳۵۶ رسولوں کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کی جو عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ اس طرح کی آزمایشوں کے ذریعے سے لوگوں کی تطہیر کے بعد ہی صادر ہوتا ہے ۔
۳۵۷ مطلب یہ ہے کہ بنی اسمعٰیل کے لیے مسجدِ حرام کو چھوڑ کر بیت القدس کو قبلہ بنانا نہایت سخت امتحان تھا ، لیکن تم نے دیکھا کہ یہ اُن لوگوں کے لیے ذرا بھی سخت ثابت نہ ہوا جو اپنی پچھلی روایات کی نہیں ، بلکہ خدا کی پرستش کرنے والے تھے ، اور اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھتے تھے ۔
۳۵۸ استاذ امام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’یہاں ایک نہایت اہم سوال کا جواب ہے جو از خود پیدا ہوتا ہے ،وہ یہ کہ جب قبلہ کی تبدیلی خود قرآن کے اپنے بیان کے مطابق بھی ایک سخت امتحان ہے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس قسم کے سخت امتحان میں کیوں ڈالنا پسند فرمایا ، جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس امتحان میں ناکام رہ جانے کے سبب سے اپنے ایمان ہی کھو بیٹھیں ۔ قرآن نے اس شبہ کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح کے امتحانوں میں اس لیے نہیں ڈالتا کہ لوگ اپنے ایمان ضائع کر بیٹھیں ، بلکہ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی رافت و رحمت کے مظہر ہیں ۔ انھی امتحانوں سے بندوں کی صلاحیتیں نشو ونما پاتی ہیں ۔ انھی کے ذریعے سے ان کی وہ قوتیں اور صلاحیتیں بروے کار آتی ہیں جن کے خزانے قدرت نے ان کے اندر ودیعت کیے ہیں ۔ انھی کے ذریعے سے ان کے کھرے اور کھوٹے ، ان کے مخلص اور منافق اور ان کے سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا ہے ۔ یہ امتحان نہ ہو تو اچھے اور برے ، خام اور پختہ ، گہر اور پشنیر میں کوئی فرق ہی نہ رہ جائے ۔ ہر مدعی کو اس کے دعوے میں سچا ماننا پڑے اور ہر کاذب کی باتوں کی تصدیق کرنی پڑے ۔ یہاں تک کہ آخرت میں بھی کسی کو انعام یا کسی کو سزا دینے میں کوئی حجت و دلیل باقی نہ رہ جائے ۔ مزید غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس کارخانہء کائنات کا سارا حسن و جمال اور اس کی ساری حکمت و برکت اللہ تعالیٰ کی اسی سنتِ ابتلا کے اندر مضمر ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ بالکل بے حکمت اور بے مصلحت ، بلکہ کھلنڈرے کا ایک کھیل بن کے رہ جائے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱ ، ص ۳۶۷)
۳۵۹ اصل میں ’لروف رحیم‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ’رؤف‘ ، ’رافۃ‘ سے ہے جس میں دفعِ شرغالب ہے اور ’رحیم‘ ، ’رحمۃ‘ سے ، جس میں اثباتِ خیر کا غلبہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جس امتحان کا ذکر کیا ہے ، اس میں یہ دونوں ہی پہلو ملحوظ تھے ۔ یعنی بندوں کو آلایشوں سے پاک کرنااور انھیں فضائل و محاسن سے آراستہ کرنا ۔
۳۶۰ اصل میں ’قد نریٰ تقلب و جھک‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں عربی زبان کے اسلوب کے مطابق مضارع سے پہلے ایک فعلِ ناقص محذوف ہے ، یعنی ’قد کنا نری‘ ۔ اردو میں حذف کا یہ اسلوب چونکہ نہیں ہے ، اس لیے ترجمے میں ہم نے اسے کھول دیا ہے ۔
۳۶۱ اس مفہوم کے لیے اصل میں ’فلنولینک‘ کا لفظ آیا ہے ۔ عربی زبان میں فعل ، اگر قرینہ موجود ہو تو فیصلۂ فعل کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ یہاں مضارع پر تاکید کے حروف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت اس فیصلے کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے تحویلِ قبلہ کے بارے میں فرمایا ۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۳۶۲ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے ، آپ کے لیے نماز میں دونوں قبلوں کو جمع کر لینا ممکن تھا، لیکن ہجرتِ مدینہ کے بعد یہ صورت اس لیے باقی نہیں رہی کہ بیت المقدس مدینے سے شمال میں ہے ، اور بیت اللہ بالکل جنوب میں ۔ چنانچہ قبلہء ابراہیمی سے علیحدگی آپ پر شاق گزرنے لگی ۔ پھر جب وحیِ الہٰی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ کی بعثت دینِ ابراہیمی پر ہوئی ہے اور ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی ذریت کا قبلہ ہمیشہ سے بیت الحرام ہی رہا ہے تو آپ کو برابر انتظار رہنے لگا کہ تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہو جائے ۔ اس شوق میں آپ کی نگاہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھی ۔ قرآن نے یہ اسی کا ذکر کیا ہے ۔
۳۶۳ مسجدِ حرام سے مراد وہ عبادت گاہ ہے جس کے درمیان میں بیت اللہ واقع ہے ۔ اس کی طرف رخ کرنے کے لیے اصل میں ’فول و جھک شطر المسجد الحرام‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ان سے واضح ہے کہ مقصود بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ہی ہے ، بالکل ناک کی سیدھ میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا مطالبہ ان الفاظ میں نہیں کیا گیا ۔ پھر واحد کے صیغے میں حکم سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس اضطراب کا ذکر اوپر ہوا ہے ، اس کے پیشِ نظر پہلے خاص طور پر آپ ہی کو مخاطب کر کے اس تبدیلی کی بشارت دی گئی ہے ۔
۳۶۴ یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ یہودو نصاریٰ بیت المقدس کے اندر تو اسے ہی قبلہ بناتے تھے ، لیکن اس سے باہر نکل کر مشرق یا مغرب کو قبلہ بنا لیتے تھے ۔ اس گمراہی سے بچنے کے لیے ہدایت کی گئی کہ مسجدِ حرام کے اندر یا باہر جہاں کہیں بھی ہو ، تمھارا رخ اسی مسجدکی طرف ہونا چاہیے ۔
۳۶۵ یعنی مسجدِ حرام کا قبلہ ہونا ہی حق ہے ۔ استاذ امام نے لکھا ہے :
’’… اس بات کا حق ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا اہلِ کتاب پر بالکل واضح تھا ، اس لیے کہ اوپر جو تفصیلات قرآن نے پیش کی ہیں ، ان سے مندرجہ ذیل باتیں واضح طور پر سامنے آ گئی ہیں :
ایک یہ کہ یہود کو یہ بات معلوم تھی کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کی تعمیر ہے اور یہی بیت اللہ تمام ذریتِ ابراہیم کا اصلی قبلہ رہا ہے ۔
دوسری یہ کہ آخری نبی ذریتِ اسمعٰیل میں پیدا ہوں گے اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ایک امتِ مسلمہ برپا کرے گا ۔
تیسری یہ کہ اس ذریتِ اسمٰعیل کا مرکز اور قبلہ شروع سے یہی بیت اللہ رہا ہے ۔
ان تمام باتوں کے اشارات و قرائن تورات میں موجود تھے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور اور آپ کے واقعاتِ زندگی سے ہر قدم پر ان اشارات و قرائن کی تصدیق ہو رہی تھی ، لیکن یہود اس حسد اور عناد کے سبب سے جو ان کو بنی اسمٰعیل اور مسلمانوں سے تھا ، جانتے بوجھتے ان ساری باتوں کو چھپاتے تھے ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱ ،ص ۳۷۰)
۳۶۶ یہ باندازِ تہدید فرمایا ہے کہ حق کو چھپانے کا جو جرم انھوں نے کیا ہے ، اللہ اس سے خوب واقف ہے اور اس کی قرار واقعی سزا اب انھیں مل کر رہے گی ۔
۳۶۷ یہ بھی ایک نوعیت کی تہدید ہے جس میں خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، لیکن غور کیجیے تو اس کا رخ درحقیقت یہودو نصاریٰ ہی کی طرف ہے ۔ خواہشوں سے مراد یہاں ان کی بدعتیں ہیں جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے دین میں پیدا کر رکھی تھیں ۔
۳۶۸ یہ صالحین اہلِ کتاب کا ذکر ہے ۔ چنانچہ قرآن نے اس کے لیے اسلوب بھی ’ الذین اوتوالکتاب‘ کے بجائے ’الذین آتیناھم الکتاب‘ کا اختیار کیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک مہجور باپ اپنے یوسفِ گم گشتہ کو پہچانتا ہے ، اسی طرح یہ صالحین اہلِ کتاب بھی قرآنِ مجید اور اس کے پیش کردہ حقائق کواپنے صحیفوں کی روشنی میں جانتے ، پہچانتے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔
۳۶۹ اصل الفاظ ہیں : ’الحق من ربک‘ ۔ ان میں ’الحق‘ ہمارے نزدیک خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے اور ’من ربک‘ اسی خبر سے متعلق ہے ۔ مبتدا کو عربی زبان میں بالعموم اس موقع پر حذف کر دیتے ہیں جب پوری توجہ خبر ہی پر مرکوز کر دینی پیشِ نظر ہو ۔
۳۷۰ یہاں بھی خطاب اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ،مگر تنبیہ اور عتاب کا رخ ، صاف واضح ہے کہ انھی یہودو نصاریٰ کی طرف ہے ۔
(باقی )
ـــــــــــــــــ