HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

برے خیالات اور وسوسہ

(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۷۳ ۔ ۷۴)


عن ابن عباس : أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم جاء ہ رجل ، فقال : إنی أحدث نفسی بالشئ لأن أکون حممۃ أحب إلی من أن أتکلم بہ ۔ قال : الحمد ﷲ الذی رد أمرہ إلی الوسوسۃ۔
’’حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنے آپ سے ایسی باتیں کرتا ہوں کہ میں ان کو بیان کرنے سے کوئلہ ہونے کو زیادہ پسند کروں گا ۔آپ نے فرمایا : اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس کے معاملے کو وسوسے کا معاملہ بنا دیا ۔‘‘
لغوی مباحث

حممۃ : کوئلہ ، راکھ ، ہر وہ چیز جو آگ میں جل چکی ہو ۔

رد أمرہ : لفظی مطلب ہے : اس نے اس کے معاملے کو لوٹا دیا ۔ یہاں اس سے مراد ایک معاملے کو دوسری صورت دے دینا ہے ۔

متون

یہ روایت مختلف الفاظ میں ملتی ہے ، لیکن ان متون میں کوئی فرق ایسا نہیں ہے جو کسی بڑے معنوی فر ق پر دلالت کرتا ہو۔ مثلاً بعض روایات میں ’إنی أحدث نفسی بالشی ‘ کے بجائے ’ إنا أحدنا یجد فی نفسہ یعرض بالشی ‘ اور ’إنی لأجد فی صدری الشء‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ لیکن یہ تینوں جملے ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں ۔ البتہ ایک روایت میں ’الشء‘کے ساتھ ’من أمر الرب‘ کی وضاحت بھی بیان ہوئی ہے۔ یہ وضاحت کسی راوی کا اضافہ بھی ہو سکتی ہے ۔بعض روایات میں ’لأن أکون حممۃ ‘ کے بجائے’ لأن أخر من السماء‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ دوسرا جملہ بھی شدت ندامت ہی کو ظاہر کرتا ہے ۔

سوال کے ساتھ ساتھ حضو ر کا جواب بھی مختلف الفاظ میں روایت ہوا ہے ۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الحمد ﷲ‘ کا کلمہ بولنے سے پہلے اپنی مسرت کو ’اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر‘کہہ کر ظاہر کیا تھا ۔ اس تفصیلی جواب کے برعکس ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ آپ نے صرف ’ذاک صریح الایمان‘کے الفاظ کہہ کر سائل کے صادق جذبے کی تصویب کی تھی ۔اس کے برعکس ایک روایت میں حضور کے جواب کے الفاظ یہ ہیں :’ إن الشیطان قد أیس من أن یعبد بأرضی ھذہ و لکنہ قد رضی بالمحقرات من أعمالکم‘، ( شیطان اس سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سر زمین میں اس کی پوجا کی جائے گی ۔ البتہ ، وہ تم سے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کے معاملے میں مطمئن ہے ۔) یہ تمام جوابات بھی مختلف اسالیب میں ایک ہی حقیقت کا بیان ہیں ۔کچھ روایتوں میں ’ردأمرہ‘ کی جگہ ’ردکیدہ‘ کی ترکیب مروی ہے۔ ’کید‘ کا لفظ ’امر‘ کے مقابلے میں شیطانی در اندازی کے لیے زیادہ موزوں ہے ۔

معنی

اس روایت میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی کی سوچ اسے بسا اوقات انتہائی پر خطر وادیوں میں لے جاتی ہے ۔ وہ ایسی باتیں سوچنے لگ جاتا ہے جنھیں بیان کرنا اسے بہت ہی ناگوار گزرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ اس پر آسمان گر جائے یا وہ جل کر راکھ ہو جائے ،لیکن اس کی اس سوچ سے کوئی آگاہ نہ ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والا یہ سائل کسی ایسی ہی سوچ میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ چنانچہ اس نے نے آپ کے سامنے بھی اپنی سوچ بیان نہیں کی ۔ صرف ایک سچے او ر مخلص مؤمن کی طرح اپنی پریشانی بیان کی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کی الجھن یہ تھی کہ کہیں اس طرح کی سوچ پر اس کی گرفت تو نہیں ہو گی ۔ یعنی وہ کسی گناہ کا مرتکب تو نہیں ہو گیا ہے ۔ اگرچہ اس روایت کے ایک متن میں یہ تصریح ہو گئی ہے کہ اس کی سوچ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں تھی ، لیکن اس تحدید کی کوئی اصولی اہمیت نہیں ہے ۔ غلط ، پر خطر اور بری سوچ کا دائرہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سے متعلق نہیں ہے ، بلکہ اس کی صفات ، اس کے سنن ، قانونِ آزمایش ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ، شخصیت ، ان کی دی ہوئی تعلیمات ، یعنی عقائد ، شریعت اور اس سے آگے اخلاقی رویوں ہر ہر چیز پر محیط ہے ۔ شیطان دین کی ہر چیز کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا اور آدمی کے ایمان وعمل کو متزلزل کرنے کے درپے رہتا ہے ۔چنانچہ بندۂ مؤمن کا اپنی سوچ کے بارے میں حساس اور بیدا رہنا اس کے ایمان اور عمل کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔

اس روایت میں دوسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ اس طرح کی سوچ پر گرفت کی نوعیت کیا ہے ۔ سائل نے اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے اپنی یہ سوچ بہت ناگوار گزری ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اس سوچ کی اپنی ذات کے ساتھ نسبت کے ظاہر ہونے کو بھی کسی حال میں پسند نہیں کرے گا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پریشانی اور پشیمانی کی اس صورت کو دیکھ کر یک گونہ مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ اور اس کے اطمینان کے لیے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اگر آدمی ذہن میں آنے والے غلط خیالات پر اس طرح پریشان اور پشیمان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سوچ کے مضر اثرات سے بچا لیتے ہیں ۔ یہ سوچ جہاں پیدا ہوتی ہے وہیں مرجھا کر مر جاتی ہے ۔ یعنی ایمان و عمل کی خرابی کی صورت میں کوئی برگ و بار لائے بغیر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب یہ معاملہ ہو تو یہ سوچ محض وسوسہ ہے اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہو گی ۔

شارحین کے سامنے روایت کے جملے ’ رد أمرہ ‘ کے بارے میں یہ سوال ہے کہ اس میں وارد ترکیب ’أمرہ ‘، کا مرجع کیا ہے ۔ یعنی ’’اس کے معاملے ‘‘ سے شیطان کا معاملہ مرادہے یا اشارہ بندۂ مومن کے معاملے کی طرف ہے ۔ اوپر بیان کردہ تصریح سے واضح ہے کہ اس سے اشارہ بندۂ مومن ہی کی طرف ہے۔

اس روایت سے نکتے کی بات یہ سامنے آتی ہے کہ شیاطین نفسِ انسانی میں مختلف قسم کے خیا لات اور خواہشات کے وجود پذیر ہونے کا باعث بنتے رہتے ہیں ۔ بندۂ مؤمن اگر اپنی باگ ان کے ہاتھ میں دے دے تو اس کا نتیجہ اس کے ایمان میں خرابی یا عمل میں برائی کی صورت میں نکلے گا ۔ یہ چیز اسے گناہ گار بنا دے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائے گا ۔ اور اگر وہ ان خیالات یا خواہشات کو پوری طاقت سے رد کر دیتا ہے تو یہ چیز وسوسے سے آگے نہیں بڑھے گی اور وسوسے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

کتابیات

ابوداؤد ، کتاب الادب ، باب ۱۱۸۔احمد ، عنِ ابن عباس ۔ تفسیر ابنِ کثیر، ج ۴ ص ۵۷۶۔ صحیح ابنِ حبان ،ج۱۴،ص ۶۷۔ موارد الظمان ، ج ۱ ، ص ۴۱ ۔ مسندِ ابی عوانہ ، ج ۱ ، ص ۷۷۔ مسندِ عبد بن حمید ، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ۔ المعجم الکبیر ، ج ۱۰ ، ص ۳۳۸ ۔ج ۲۰ ، ص ۱۷۲ ، لا بن مندہ ، ج ۱ ، ص ۴۷۱۔

_______

 

شیاطین اور فرشتے

و عن ابن مسعود ، قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن للشیطان لمۃ بابن آدم و للملک لمۃ ۔ فأما لمۃ الشیطان فایعاد بالشر و تکذیب بالحق ۔ وأما لمۃ الملک فإیعاد بالخیر و تصدیق بالحق ۔ فمن وجد ذلک فلیعلم أنہ من اﷲ فلیحمد اﷲ ۔ و من وجد الأخری ، فلیتعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم ۔ ثم قرأ : (الشیطان یعدکم الفقر و یأمرکم بالفحشاء)۔

’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابنِ آدم (کے نفس میں) دخل اندازی کا موقع شیطان کو بھی حاصل ہے اور فرشتے کو بھی ۔ شیطان کی در اندازی برے حالات کا ڈراوا (دے کر ) حق کے جھٹلانے پر آمادہ کرنا ہے اور فرشتے کی دخل اندازی خیر کی توقع (پیدا کر کے) حق کی تصدیق پر ابھارنا ہے ۔ جو اسے پائے ،وہ یہ جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے ۔ جو دوسری چیز پائے وہ اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے پناہ مانگے ۔ پھر آپ نے یہ آیہ ء کریمہ تلاوت کی : الشیطان یعدکم الفقر و یأمرکم بالفحشاء۔ (شیطان تمھیں فقر سے ڈراتا اور بے حیائی کا کہتا ہے ۔ اور اللہ تم سے اپنی جناب میں مغفرت اور عنایت کا وعدہ کرتا ہے اور وہ سمائی والا اور جاننے والا ہے ۔‘‘
لغوی مباحث

إیعاد : یہ’ وعد‘ سے باب افعال میں مصدر ہے اس کا مطلب ہے دوسرے کو کسی بات کا یقین دلانا ۔

لمۃ : ’لم ‘کا مطلب ہے : اترنا ، اثر انداز ہونا اور قریب ہونا ۔ یہاں یہ شیطانی وساوس کے لیے آیا ہے۔

متون

مختلف کتابوں میں اس روایت کا ایک ہی متن روایت ہوا ہے ۔جو تھوڑے بہت فرق ہیں ، ان کی نوعیت بھی محض لفظی فرق کی ہے ۔ مثلاً ’بابن آدم ‘کی جگہ’ من ابن آدم‘ اور ’فمن وجد ذلک‘ کے بجائے ’فمن أحس من لمۃ الشیطان اور من لمۃ الملک‘ کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں ۔

معنی

بنیادی طور پر یہ روایت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جہاں شیاطین انسانوں کے نفوس میں برائیوں کے لیے تحریک پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں وہیں فرشتے نیکیوں کے لیے آمادگی کا جذبہ ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بات ہم اس سے پہلے حدیث : ۶۷میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ بات صرف حدیث ہی میں نہیں آئی ہے ، بلکہ قرآنِ مجید میں بھی بیان ہو ئی ہے ۔چنانچہ یہ نکتہ تو ایک طے شدہ نکتہ ہے ۔ اس روایت میں پیشِ نظر نکتہ شیطانی اور ملکوتی تاثیرات میں فرق اور نوعیت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ ایمان شیطان کے اصل ہتھیار سے واقف ہو جائیں اور اس کا مقابلہ کرنا ان کے لیے آسان ہو۔

شیطان کا اصل حربہ یاس اور ناامیدی پیدا کرکے مستقبل کی ناکامیوں اور پیش آنے والی تکلیفوں کے خوف میں مبتلا کر کے برائی کے راستے پر لگانا ہے ۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ ایعاد بالشر‘ کی ترکیب اختیار کی ہے ۔انسانی فطرت صالح ہے ۔ لہٰذا اس کا اصل میلان اعمالِ صالحہ ہی کی طرف ہے ۔ یہ ایک مشکل کام ہے کہ انسان کو صحیح کاموں سے ہٹا کر برے کاموں کی طرف لگایا جائے ۔ اس کے لیے ایک راستہ یہ ہے کہ آدمی کو مختلف اندیشوں میں مبتلا کر دیا جائے تاکہ وہ صحیح اصول پر فیصلہ کرنے کے بجائے مایوسی اور خوف کی حالت میں شیطان کا مطلوب فیصلہ کرے ۔

شیطان کا دوسرا حربہ انسان کے جنسی جذبے کو بے راہ رو کرنا ہے ۔ جنسی جذبے کو قابو کرنے میں حیا کے جذبے کو مؤثر ترین عامل کی حیثیت حاصل ہے ۔شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس جذبے کو غیر مؤثر کر دے تاکہ انسان بے حیائی کی راہ پر چلنے میں عار محسوس نہ کرے اور نتیجۃً معاشرے میں فحاشی پھیل جائے ۔

فرشتے اس کے برعکس انسان کو امید دلاتے ہیں ۔ اسے خدا کی رحمت اور مغفرت پانے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔امید آدمی کی مثبت سرگرمیوں کا منبع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتے ناامید ی کی کیفیت پیدا کرنے کے بجائے آدمی کی توجہ خدا کی رحمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

مایوسی کے نتیجے میں آدمی کفر کی راہ اختیار کرتا اور خدا کی رحمت کے بھروسے پر آدمی حق کو اختیار کرتا اور اس کے نتیجے میں آنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو دیکھ کر اس کے قدم متزلزل نہیں ہوتے ۔

کتابیات

ترمذی ، کتاب تفسیر القرآن ، باب ۳ ۔ تفسیر قرطبی ج ۳ ، ص ۳۲۹۔ ج ۷ ، ص ۱۸۶ ۔ تفسیر طبری ، ج ۳ ، ص ۸۸ ۔ صحیح ابنِ حبان ، ج ۳ ، ص ۲۷۸ ۔ موارد الظمآن ، ج ۱ ، ص ۴۰ ۔ السنن الکبری ، ج ۶ ، ص ۳۰۵ ۔ مسند ابی یعلیٰ ، ج ۸ ، ص ۴۱۷۔

____________

B