HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور علومِ نبوت (۳)

مولانا محترم آگے فرماتے ہیں:

’’اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حکم دیا کہ مسجدِ نبوی کے سب دروازے جو لوگوں نے اپنی نجی آمدورفت کے لیے کھول رکھے ہیں ، بند کر دیے جائیں تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے دروازے کو اس حکم سے مستثنیٰ کر دیا کیونکہ ان کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کا شرف حاصل تھا اور آپ کو ان کا قرب مطلوب تھا ۔ ‘‘ ۸۷؂

جہاں تک میں نے جستجو کی ہے اس روایت کے درج ذیل طرق ہیں :

(۱) طریق سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ :

آپ کی روایت ’’سدوالابواب کلھا الاباب علی‘‘ کے الفاظ سے خطیب بغدادی اور ابنِ عساکر نے نقل کی ہے ۔ ۸۸؂ اول الذکر فرماتے ہیں : اس کو نقل کرنے میں ابو عبداللہ الحسنی العلوی منفرد ہے ۔ اس ابو عبد اللہ کا نام جعفر بن محمد بن جعفر المتوفی ۳۰۸ھ ہے ۸۹ ؂ جو امامی (شیعہ) فاضل تھے ، سامرا میں پیدا ہوئے تھے ۔ التاریخ العلوی ان کی مشہور تصنیف ہے ۔ ۹۰؂

العلوی کے علاوہ اس روایت کے دو راویوں : احمد بن محمد بن غالب الفقیہہ اور ابو حفص بن بشران کا کتبِ اسماء الرجال میں کہیں اتا پتا نہیں ، اس لیے امام ابن الجوزی فرماتے ہیں : ’لا یصح اسنادہ ، و فیہ مجاھیل ‘، ۹۱؂ اس کی سند صحیح نہیں کیوں کہ اس کے کئی روای مجہول ہیں ۔

(۲) طریق سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ:

ان کی روایت کو امام احمد ، امام حاکم اور حافظ بیہقی نے نقل کی ہے ۔ ۹۲؂ اس روایت کا دارومدار میمون ابو عبد اللہ ہے جو سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام ہے ، جس میں ایک گونہ کمزوری ہے ۔ ۹۳؂ امام یحییٰ القطان اس سے روایت کرنا پسند نہیں کرتے تھے ، امام احمد فرماتے ہیں : اس کی روایتیں منکر ہوتی ہیں اور امام ابنِ معین فرماتے ہیں : ’لا شیئی‘ تھا ۔ ۹۴ ؂

(۳) طریق سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ :

ان کی روایت کو امام احمد نے نقل کیا ہے ،۹۵؂ لیکن اس میں دو اسنادی کمزوریاں ہیں :

۱۔ اس کا راوی عبد اللہ بن الرقیم الکنانی مجہول ہے ۔ ۹۶ ؂

۲۔ ایک راوی عبد اللہ بن شریک کوفی ہے جو مختاری اور غالی شیعہ تھا ۔ ۹۷؂ امام جوزجانی اسے کذاب کہتے ہیں ۔ ۹۸ ؂

(۴) طریق سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما :

ان کی روایت کو امام ترمذی ، امام احمد اور حافظ ابو نعیم نے نقل کیا ہے ۔ ۹۹ ؂ امام ترمذی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’ ھذا حدیث غریب‘ ۔

امام نووی فرماتے ہیں : حدیثِ غریب کی دو قسمیں ہیں : صحیح اور غیر صحیح اور اس کی غالب اکثریت غیر صحیح ہوتی ہے ۔ ۱۰۰؂

اس کی توضیح کرتے ہوئے امام سیوطی فرماتے ہیں : امام احمد بن محمدبن حنبل فرماتے ہیں : غریب حدیث نہ لکھا کرو ،کیونکہ یہ منکر (ناآشنا) اور اس کے راوی عمومی طور پر ضعیف ہوتے ہیں ۔ ۱۰۱؂

حافظ ابن رجب فرماتے ہیں : امام ترمذی نے اپنی کتاب میں صحیح، حسن اور غریب روایتیں نقل کی ہیں ، ان میں سے غریب روایتیں عام طور پر منکر ہوتی ہیں اور خصوصاً فضائل کے باب میں تو ایسا اکثر ہوتا ہے ،لیکن امام ترمذی اس پر خاموش نہیں رہتے اور اس کی غرابت و نکارت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ۱۰۲؂

اب زیر بحث روایت کو لیجیے ، خود امام ترمذی اسے غریب قرار دیتے ہیں اور اس کے دو سبب ہیں :

۱۔ امام ترمذی کے استاد ’’محمد بن حمید رازی‘‘ علماء اسماء الرجال کے نزدیک کذاب اور بدمذہب تھا ۔ ۱۰۳؂

۲۔ ایک راوی ابوبلج الغزاری الواسعیٰ ہے جس کا نام یحییٰ بن سلیم یا ابن ابی سلیم ہے ۔ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے ، لیکن امام احمد فرماتے ہیں ، منکر حدیثیں بیان کرتا ہے ، امام جوزجانی اسے غیر ثقہ بتاتے ہیں اور حافظ ذہبی نے زیر بحث روایت کو اس کے مناکیر میں شمار کیا ہے ۔ ۱۰۴؂

(۵) طریق سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما:

ان کی روایت امام احمد نے نقل کی ہے ۱۰۵؂ جس کی سند میں ہشام ابن سعد نامی راوی ہے جو تھا اگرچہ سچ بولنے والا ،مگر اس کے کئی اوہام ہیں اور وہ شیعہ بھی تھا ۔ ۱۰۶؂

اس فضیلت کے متعلق امام ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں :

’’سد الابواب کلھا الاباب علی ، ھذا مما وضعتہ الشیعۃ علی طریق المقابلۃ ، فان الذی فی الصیح عن ابی سعید عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال فی مرضہ الذی مات فیہ : ان امن الناس علی فی مالہ و صحبتہ ابوبکر ، ولو کنت متخذاً خلیلاً غیر ربی لاتخذت ابابکر خلیلا ولکن اخوۃ الاسلام و مودتہ ، لا یبقین فی المسجد خوخۃ الا خوخۃ ابی بکر ، ورواہ ابن عباس ایضاً فی الصحیحن ۔ ‘‘ ۱۰۷ ؂

یعنی اس روایت کو شیعوں نے بطور مقابلہ و معارضہ کے وضع کیا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں یہی الفاظ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد ہیں ۔ ۱۰۸؂

موصوف آگے رقم طراز ہیں کہ :

خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے علم کی گواہی دی اور فرمایا کہ : ’انا مدینۃ العلم و علی بابھا ‘۔ ۱۰۹ ؂

یہ روایت سیدنا جابر ، سیدنا ابنِ عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنھم سے درجِ ذیل اسناد سے منقول ہے ۔

طریق سیدنا جابر رضی اللہ عنہ:

آپ کی روایت تاریخِ بغداد ۲ : ۳۷۷ ، ۴: ۲۱۹ ؛ الکامل فی ضعفاالرجال ۱ : ۳۱۶؛ میزان الاعتدال ۱ : ۱۰۹؛ ۱۱۰ اور لسان المیزان ۱: ۱۰۹ میں اس تصریح کے ساتھ موجود ہے کہ اس کا راوی احمد بن عبد اللہ بن یزید المودب سرمن رای کا باشندہ ہے جو احادیث وضع کیا کرتا تھا ۔

طریق سیدنا علی رضی اللہ عنہ :

آپ کی روایت جامع ترمذی(۳۷۲۳) ؛ حلیقہ الاولیاء لابی نعیم ۱ : ۴۶ اور میزان الاعتدال ۲ :۲۵۱ میں موجود ہے لیکن :

۱۔ امام ترمذی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’ھذا حدیث غریب منکر ‘۔

۲۔ اس روایت کا سارا دارومدار سوید بن سعید پر ہے جو مسلم اور ابنِ ماجہ کا راوی ہے ۔ بعض محدثین ان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں ،مگر امام ابنِ امعین کے نزدیک کذاب اور ساقط الاعتبار تھا اور امام احمد انھیں متروک الحدیث بتاتے ہیں ۔ ۱۱۰؂

۳۔ ثقہ ہو بھی تو ایک اور برائی بھی اس میں موجود ہے اور وہ کثرتِ تدلیس ہے ۱۱۱؂ اور اس روایت کی سند معنعن ہے ، پس مردود ہوئی ۔

۴۔ میزان الاعتدال کی روایت میں ایک اور اسنادی کمزوری بھی ہے ، سلمہ بن کہیل اسے الصنابحی سے روایت کرتا ہے حالانکہ سلمہ نے صنابحی سے روایت نہیں سنی ہے ۔ ۱۱۲؂

طریق سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما :

ان کی طرف منسوب روایت کے کئی طرق ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں :

۱۔ ابوا لصلتِ عبد السلام بن صالح الھروی کی روایت جو تاریخِ بغداد ۱۱ : ۴۸ ، ۴۹ ، ۵۰؛ المعجم الکبیر ۱۱ : ۵۵ (۱۱۰۶۱) ؛ المستدرک ۳ : ۱۲۶ اور تذکرہ الحفاظ ۴ : ۱۲۳۱ میں منقول ہے ۔

امام حاکم اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : یہ روایت صحیح ہے ، اس کی سند بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اور ابو الصلِت ثقہ اور مامون و محفوظ ہے ۔ حافظ ذہبی ان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : نہیں بلکہ یہ روایت موضوعی ہے اور اللہ کی قسم ابو الصلِت ثقہ اور محفوظ نہ تھا ۔ ۱۱۳؂

حافظ ذہبی یہ بھی فرماتے ہیں : یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔ ابو الصلِت جھوٹ بولنے سے بدنام ہے ۔ ۱۱۴ ؂

۲: احمد بن سلمہ ابو عمرو الکوفی کی روایت جو ابنِ عدی نے کتاب الضعفاء ۱ : ۳۱۱ اور حافظ ابنِ حجر نے لسان المیزان ۱ : ۱۸۰ میں ان ریمارکس کے ساتھ نقل کی ہے کہ احمد بن سلمۃ الکوفی ثقہ راویوں کے نام سے باطل روایات بیان کرتا تھا اوراحادیث کا سرقہ (چوری) کیا کرتا تھا ۔

۳: اسماعیل بن محمد بن یوسف ابو ہارون الجبرینی الفلسطینی کی روایت جسے حافظ ابنِ حجر نے لسان المیزان ۱:۴۳۲ میں نقل کیا ہے ۔ اسی راوی کے متعلق امام حاکم فرماتے ہیں : موضوعی احادیث نقل کرتا ہے ۔ ۱۱۵؂ امام ابنِ حبان فرماتے ہیں : اسانید میں قلب (ہیر پھیر) کرتا ہے ، احادیث کی چوری کرتا ہے ، اس لیے ناقابلِ احتجاج ہے ۔ ۱۱۶؂

۴: الاعمش سلیمان بن مہران کی روایت جسے خطیب نے تاریخِ بغداد ۴ : ۳۴۸ میں نقل کیا ہے ۔ اعمش کی دو کمزوریاں ہیں اور ان میں سے ہر ایک روایت کو مردود بناتی ہے :

(الف) اعمش مدلس تھے اور ضعیف راویوں کے سلسلے میں تدلیس کیا کرتے تھے ۱۱۷ ؂ جبکہ اس کی سند معنعن ہے۔

(ب) اور یہ شیعہ بھی تھا ۔ ۱۱۸ ؂ اور قاعدہ یہ ہے کہ بدعتی راوی کی جو روایت اس کی بدعت کی تقویت کا باعث ہو ، وہ ناقابلِ قبول ہوتی ہے ۔

۵۔ جعفر محمد الفقیہ کی روایت تاریخِ بغداد ۷: ۱۷۲ ۔ ۱۷۳ میں موجود ہے ، مگر یہ راوی مجہول اور اس کی یہ روایت موضوعی ہے ۔ ۱۱۹؂

۶: الحسن بن علی بن صالح ابو سعید العدوی البصری کی روایت جسے ابنِ عدی نے الکامل ۳: ۳۰۱ میں نقل کیا ہے ، مگر حافظ ابنِ عدی اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں : احادیث وضع کرتا ہے اور احادیث کو چوری کر کے اس کے لیے سند بنا لیتا ہے ۔ ۱۲۰؂ آگے لکھتے ہیں :اس کی تمام روایتیں من گھڑت ہیں ۔ ۱۲۱ ؂

۷: سعید بن عقبۃ ابو الفتح الکوفی کی روایت میزان الاعتدال ۲ : ۱۵۳ لسان المیزان ۳: ۳۸ اور الکامل فی الضعفاء ۴:۴۷۲ میں اس جرح کے ساتھ موجود ہے کہ اس کا راوی مجہول اور غیر ثقہ تھا ۔

اس سند کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ احمد بن حفص جو امام ابنِ عدی کے استاد ہیں صاحب مناکیرتھا ۔ ۱۲۲؂

۸: عثمان بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کی روایت جو الکامل فی ضعفا الرجال ۶: ۳۰۲ ؛ میزان الاعتدال ۳: ۴۱ ، اورلسان المیزان ۴: ۱۴۴ میں موجود ہے ۔

حافظ ابنِ عدی اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں : ثقہ اور مامون و محفوظ راویوں کے نام سے مناکیر نقل کرتا ہے ۔ ۱۲۳ ؂

۹: عمر بن اسماعیل بن مجاہد الکوفی کی روایت جسے خطیب نے تاریخِ بغداد ۱۱: ۲۰۴ ، ابنِ عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال ۶: ۱۳۰ ، عقیلی نے الضعفاء الکبیر ۳: ۱۵۰ اور ذہبی نے میزان الاعتدال ۳: ۱۸۲ میں نقل کیا ہے ۔

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : عمر بن اسماعیل بن مجاہد کذاب ہے ۔ ۱۲۴ ؂ امام عقیلی فرماتے ہیں : یہ متن صحیح نہیں کیونکہ اس کا راوی عمر بن اسماعیل بڑا شیطان ، ’لیس بشئی‘، کذاب بہت برا اور خبیث آدمی تھا۔ ۱۲۵ ؂ اسی راوی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں : بڑا شاطر و کذاب اور گندا آدمی تھا اور اس روایت کی کوئی اصل نہیں ۔ ۱۲۶ ؂

اس روایت کے بارے میں محققین علما کی رائے :

۱۔ امام ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں : علمِ حدیث رکھنے والے علما کے نزدیک یہ روایت من گھڑت ہے اگرچہ اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے مگر یہ روایت جھوٹی ہے ۔ ۱۲۷؂

۲۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں : من گھڑت ہے ۔ ۱۲۸؂

۳۔ حافظ ابو زرعۃ اور امام ابن معین فرماتے ہیں : یہ روایت جھوٹی اور بے اصل ہے ۔ ۱۲۹؂

۴۔ امام ابن حبان لکھتے ہیں : یہ روایت بے اصل ہے ۔ ۱۳۰؂

۵۔ امام قرطبی سورۂ رعد کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

وھو حدیث باطل ، النبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینۃ علمٍ و اصحابہ ابوابھا ، فمنھم الباب المنفسح ، و منھم المتوسط ، علی قدر منازلھم فی العلوم۔ (تفسیر القرطبی ۹ : ۲۸۶، ۲۸۷ )
’’یہ حدیث باطل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم کے سب سے بڑے شہر ہیں اور آپ کے سب صحابہ اسی شہرِ علم کے دروازے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کچھ علم کے بہت بڑے دروازے ہیں اور کچھ نسبتہً متوسط۔‘‘

اللھم ارنا الحق حقاً ورارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ ۔

(امین)

_______

۸۷؂ ماہ نامہ’’ فکرو نظر‘‘، اسلام آباد ، ص ۷۹، فضیلت (۲۱) ۔

۸۸؂ تاریخِ بغداد ۷: ۲۰۵؛ تہذیب تاریخ دمشق الکبیر ۶: ۱۷ ۔

۸۹؂ المنتظم ۱۳: ۱۹۶ ۔

۹۰؂ الاعلام ۲: ۱۲۸ ۔

۹۱؂ تاریخِ بغداد ۷: ۲۰۵؛ الموضوعات ۱ : ۳۶۶ ۔

۹۲؂ مسندِ احمد ۴: ۳۶۹؛ المستدرک ۳: ۱۲۵؛ السنن الکبریٰ للبیھیقی ۵: ۱۱۸ (۸۴۲۳)

۹۳؂ الضعفاء الکبیر للعقیلی ۴: ۱۸۵ ۔ ۱۸۶ ۔

۹۴؂ میزان الاعتدال ۴: ۲۳۵ ۔

۹۵؂ مسندِ احمد ۱ : ۱۷۵ ۔

۹۶؂ تقریب التہذیب ص : ۱۷۳ ۔

۹۷؂ المجروحین ۲: ۲۶؛ الضعفاء الکبیر ۲: ۲۶۶ ۔

۹۸؂ احوال الرجال ص ۴۹ ، ترجمہ ۲۵ ۔

۹۹؂ جامع الترمذی (۳۷۳۲) ؛ مسندِ احمد ۲ : ۳۳۰۔ ۳۳۱ ؛ حِلیۃ الاولیاء ۴ :۱۵۳ ۔

۱۰۰؂ تقریب النووی مع التدریب ۲ : ۱۸۲ ۔

۱۰۱؂ تدریب الراوی ۲ : ۱۸۲ ۔

۱۰۲ ؂ شرح علل الترمذی ۱ : ۳۹۵ ۔

۱۰۳ ؂ تاریخِ بغداد ۲ : ۲۶۳ ؛ احوال الرجال ص ۲۰۷ ۔

۱۰۴؂ میزان الاعتدال ۴: ۳۸۴ ۔

۱۰۵؂ مسندِ احمد ۲ : ۲۶۔

۱۰۶؂ تقریب التہذیب ص ۳۶۴۔

۱۰۷؂ منہاج السنتہ النبویہ ۳: ۹ ۔

۱۰۸؂ صحیح بخاری (۴۶۶) کتاب الصلاۃ (۸) باب الخوخۃ والممر فی المسجد(۸۰) ؛ (۳۶۵۴) کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (۶۲) باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : سدوالابواب (۳) ؛ (۳۹۰۴) کتاب مناقب الانصار (۶۳) باب ھجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینہ (۴۵) ۔

۱۰۹؂ ماہ نامہ ’’فکر و نظر‘‘ ، اسلام آباد ، ص ۷۹۔

۱۱۰؂ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ۲ :۳۲؛ میزان الاعتدال ۲: ۲۴۸ ۔

۱۱۱؂ الجرح والتعدیل ۴: ۲۴۰؛ میزان الاعتدال ۲: ۲۴۸۔

۱۱۲؂ الموضوعات ۱ : ۳۵۳ ۔

۱۱۳؂ تلخیص المستدرک ۳: ۱۲۶۔

۱۱۴؂ تذکرہ الحفاظ ۴ : ۱۲۳۱۔ ۱۲۳۲ ۔

۱۱۵؂ المدخل الی الصحیح ص ۱۱۸، ترجمہ۹ ۔

۱۱۶؂ المجروحین ۱: ۱۳۰ ۔

۱۱۷؂ میزان الاعتدال ۲ : ۶۸۴ ۔

۱۱۸؂ تہذیب التہذیب ۴: ۲۰۲ ۔

۱۱۹؂ میزان الاعتدال ۱ : ۴۱۵؛ لسان المیزان ۲: ۱۲۳ ۔

۱۲۰؂ الکامل فی ضعفاء الرجال ۳: ۱۹۵ ۔

۱۲۱ ؂ الکامل فی ضعفاء الرجال ۳: ۲۰۵ ۔

۱۲۲؂ میزان الاعتدال ۱: ۹ ۔

۱۲۳؂ الکامل فی ضعفاء الرجال ۶: ۳۰۱ ۔

۱۲۴؂ تاریخِ بغداد ۱۱: ۲۰۴ ۔

۱۲۵؂ الضعفاء الکبیر ۳: ۱۵۰ ۔

۱۲۶؂ الکامل فی ضعفاء الرجال ۶: ۱۳۰ ۔

۱۲۷؂ مجموع فتاویٰ ابنِ تیمیہ ۱۸: ۱۲۳، ۱۲۴، ۳۷۷؛ منہاج السنۃ النبویہ ۴: ۱۳۸ ۔

۱۲۸؂ تلخیص المستدرک ۳: ۱۲۶ ؛ المننتقیٰ من منہاج الاعتدال ،ص ۵۲۲ ۔

۱۲۹؂ تاریخِ بغداد ۱۱: ۲۰۵ ۔

۱۳۰؂ المجروحین ۲: ۹۴ ۔

____________

B