HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

کارکنانِ ’’المورد‘‘ کے تاثرات

سر غوری صاحب: محبت و شفقت کا دوسرا نام

جس طرح ایک مکمل گھر میں سربراہ کے ہونے سے ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے، بالکل اسی طرح مجھے ’’المورد‘‘ میں غوری صاحب انتہائی شفیق بزرگ اور سربراہ کی حیثیت سے محسوس ہوتے تھے۔ میں نے ’’المورد‘‘ دسمبر ۲۰۰۴ء میں جوائن کیا۔ اس روز سے لے کر آج تک میں نے غوری صاحب کو بے پناہ محبت و پیار تقسیم کرنے والا اور بہت زیادہ خیال رکھنے والا انسان پایا۔غوری صاحب کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ جب کوئی ان کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کرتا تو پھر وہ اس مسئلے کو اپنا مسئلہ بنا لیتے اور اسے حل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے۔ اگست ۲۰۱۰ء میں مجھے کچھ مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، میں نے غوری صاحب سے اس سلسلے میں بات کی تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ فوری انتظام کیا، بلکہ میں کسی وجہ سے ان کی طرف جا نہ سکا تو غوری صاحب خاص طور پر خود ’’المورد‘‘ تشریف لائے، اتفاق ایسا کہ میں ’’المورد‘‘ میں بھی موجود نہ تھا، انھوں نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا اور اپنے خاص لہجے میں مخاطب ہوئے: ’’ہاں بھئی کاکا میں پیسے لے کے ’’المورد‘‘ بیٹھا ہوں، تو کہاں ہے.....‘‘ :

 جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

غوری صاحب ’’المورد‘‘ میں ہر مہینے، ایک دو مرتبہ کھانے کا اہتمام، خاص اپنی جیب سے کرتے تھے۔ یہ ان کی تمام لوگوں سے محبت کا خصوصی اظہار ہوتا تھا۔ اگر کبھی ایسا نہ ہوتا تو کوئی ایک چیز، مثلاً سموسے وغیرہ منگوا کر سب میں تقسیم کرتے۔ اکثر خشک میوہ جات اپنے ہاتھوں سے ہر ایک کی سیٹ پر جا کر دیتے۔ ان کی کتابوں کی تیاری کے سلسلے میرا اکثر اردو کمپوزنگ کے کام کے حوالے سے ان کے کمرے میں جانا ہوتا تو وہ سب سے پہلے کھانے والی کسی نہ کسی چیز کی مٹھی بھر کر جیب میں ڈالتے اور پھر کہتے کہ اب کام شروع کرو۔ مجھے اکثر کہتے: ’’اوے بدمعاش، تو میری چھری تے کیوں نہیں ڈردا‘‘۔ غوری صاحب اپنے پاس ہر وقت ایک فرضی چھری رکھتے تھے اور سب کو اس سے ڈرا کر تیر کی طرح سیدھا رکھتے تھے۔

ہم جب کبھی کسی تفریحی پارک میں جاتے تو اس میں غوری صاحب خصوصی طور پر شرکت فرماتے اور ہم سب میں ایسے گھل مل جاتے، جیسے وہ ہمارے ایج فیلو ہیں۔ان موقعوں پر کھانے پینے اور جگہ کے انتخاب کے حوالے سے بالکل دوستوں کی طرح ہمیں اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔

غوری صاحب محبت و شفقت کا حسین امتزاج تھے۔ جو کوئی ان سے ایک مرتبہ مل لیتا، ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ پہلی ملاقات ہی میں وہ ایسا تاثر دیتے جیسے آپ کو برسوں سے جانتے ہیں۔ایسے لوگ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، اور ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے۔

۱۷ ؍ اپریل جمعرات کے روز غوری صاحب سے ظہر کے وقت آخری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ’’بس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح چلدا پھردا اٹھا لیوے‘‘:

 آخری بات ہے اب بات نہ ہو گی شاید

آج کے بعد ملاقات نہ ہو گی شاید

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت میں اپنی رحمت خاص کے سائے میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے۔ آمین۔

—— نعیم احمد

  (رکن شعبۂ تدوین، ماہنامہ اشراق)

________

  

غوری صاحب اور ان کی یادیں

جو اس دنیا میں آتا ہے، اسے بہرحال یہاں سے رخصت ہونا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے۔ مگر زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو ہمارے دل میں ایک خاص مقام پیدا کر لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک ہمارے ذہن ودل میں حسین یادوں کی صورت میں زندہ رہتے ہیں۔ بلاشبہ، غوری صاحب کی شخصیت بھی ایسی تھی جو لوگوں کے دلوں میں لمبے عرصے تک اپنی محبت قائم رکھے گی۔

ان کی اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے محبت اور شفقت، ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہنے کا جذبہ اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر مضطرب رہنا، ان کی خلق خدا سے محبت کی چند مثالیں ہیں۔

غوری صاحب اپنی عمر کے اس حصے میں بھی ایک زندہ دل شخصیت تھے۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ وہ اسٹاف کے ساتھ مختلف ٹورز کریں۔ وہ ہمارے ساتھ پارکس میں جاتے، کرکٹ گراؤنڈ میں جاتے اور اکثر اپنے پیسوں سے ہم سب کو کھانا کھلاتے۔ وہ ہم لوگوں کو خوش دیکھ کر ہی خوش رہتے۔ وہ ہمیں مختلف مقا مات پر گھومنے کی ترغیب دیتے۔ ایک دفعہ ہم لوگوں نے مری گھومنے کا پروگرام بنایا، وہ ہمارے ساتھ تو نہ جا سکے، مگر اپنے ایک دوست ’’چھینا صاحب‘‘ سے کہہ کر ہمارے لیے اچھے قیام و طعام کا بندوبست کر دیا، جس کی بدولت ہمارا وہ تفریحی پروگرام ایک یادگار تفریحی پروگرام بن گیا۔

میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی وہ مالی مدد کیا کرتے۔ بہت سے لوگوں کے گھریلو معاملات کو سلجھانے میں ان کی مدد کرتے۔ میں نے ان کو ہمیشہ اپنے لیے دعا گو ہی پایا، مگر اس کے باوجود جب بھی ان سے ملتا تو یہی کہتا کہ میرے لیے دعا کیا کریں اور وہ ہمیشہ بہت سی دعائیں دیتے۔

غوری صاحب صوفی ازم کے ناقدین میں سے تھے، مگر لوگ ان کے ارد گرد ایسے ہی جمع رہتے، جیسے کسی صوفی بزرگ کے پاس لوگ فیض پانے کی خاطر جمع رہتے ہیں۔ ان کا فیض ان کی محبت اور شفقت ہی تھی جسے وہ بلا تردد جاری رکھتے۔

ان کی شخصیت میں ایک خاص طلسم تھا۔ ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کر کے ذہن پرسکون ہو جاتا ۔میں خود کو اس حوالے سے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے غوری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ان کا انتہائی محبت سے چھری دکھا کر کام کہنے کا انداز،ان کا مسکان بھرا پرنور چہرہ، اپنائیت بھرا انداز گفتگو،ان کا نعرۂ مستانہ ’’علی دا چوتھا نمبر‘‘ اور نہ جانے کتنے ہی ایسے انداز جو تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ذہن سے ٹکراتے ہیں تو ان کی یادوں کے بہت سے پھول کھل اٹھتے ہیں۔

میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غوری صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

میں ان کے علم و تحقیق اور درس و تدریس پر کسی قسم کی راے دینے کے قابل نہیں، مگر وہ اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے۔اکثر ادارہ کی لائبریری میں کتابیں کھول کر پڑھتے رہتے۔ان کی تصانیف ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ میں ہر ماہ انھیں ان کے کاموں کی رپورٹ کے حوالے سے ایک ای میل کیا کرتا تھا مارچ ۲۰۱۴ء میں آخری مرتبہ انھوں نے اپنے جاری کاموں کے حوالے سے جو کچھ بتایا وہ انھی کے الفاظ میں درج ذیل ہے:

Dear Sir,
Assalamu Alaykum w Rahmatullahi w Barakatuhu.
After five months I\‘ll be entering my eightieth year of life, if Allah so pleases. It is all by the grace of Almighty Allah that I am still contributing some valuable research in the realm of knowledge, and esp. in the field of Biblical studies so far unexplored by Muslim scholars. At this stage of my life it is neither advisable nor useful to undertake various assignments side by side. No dawah activity; no teaching except a weekly Qur\‘an lecture. My special field of research, Biblical studies, is of course in progress, alhamdulillah!
I had previously edited and thoroughly revised M. Ashraf Chheenah\‘s book \“Hagar, The Princess.\” Its second thoroughly revised edition is under process for some time. It is a long term all consuming assignment. Its Arabic translation is also under process. May Allah Almighty help and guide me and afford me the strength and guidance to accomplish this assignment in a befitting manner. Amen!
Of Course, I cannot perform such multifarious and heavy tasks as my brave and promising boys, Mr. Asif Iftikhar and Dr. Shehzad Saleem are befittingly undertaking.
Sincerely,
AS Ghauri

اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل غوری صاحب میرے پاس بیٹھے تھے۔ وہ کچھ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ میں ان کی پریشانی کا سبب تو نہ جا ن سکا، مگر انھوں نے میز سے قلم اٹھا کراپنے ہاتھوں سے درج ذیل شعر لکھ کر کاغذ میرے سامنے کر دیا:

رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری

نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

—— اظہر امیر

  (رکن شعبۂ مالیات، المورد)

________

 

عبدالستار غوری صاحب —- کچھ یادیں

۲۲ ؍ اپریل ۲۰۱۴ء جناب ڈاکٹر احسان الرحمن غوری سے معلوم ہوا کہ جناب عبدالستار غوری صاحب وفات پا گئے ہیں۔ اپنی بات کو وہ سچ کر گئے کہ ’’اس سال ہم سب کچھ چھوڑ کر سو جائیں گے۔‘‘

جب پاکستان بنا تو غوری صاحب کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان کے شہر جھنگ میں رہایش پذیر ہو گیا۔ ان کی تعلیم ایم اے ، بی ایڈ ، فاضل اردو ، فاضل فارسی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کورس ’’اللسان العربی‘‘ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پہلی سے بارہویں جماعت تک کا اسلامیات ، عربی اور ترجمۂ قرآن کا نصاب بنانے میں بطور ممبر نیشنل کمیٹی برائے نصاب سازی رہے۔ چھٹی سے آٹھویں تک کی اسلامیات اور لغت القرآن کی نصابی کتب لکھنے میں شریک مصنف رہے، اس کے علاوہ نیشنل ریویو کمیٹی کے ممبر ، آزاد کشمیر کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کے مضمون کی نصاب سازی اور کتابوں کی تیاری اور سی ٹی کی ’تدریس اردو‘ کی کتاب میں بھی شریک مصنف رہے۔

جناب عبدالستار غوری صاحب نے اپنی تدریس کا سلسلہ ستمبر ۱۹۶۱ء میں شملہ اسلامیہ ہائی اسکول راولپنڈی سے شروع کیا۔ پھرمارچ ۱۹۶۶ء میں ممتاز ماڈل ہائی سکول (بنّی) راولپنڈی کے ڈپٹی ہیڈماسٹر بن گئے۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء تا اگست ۱۹۸۵ء گورنمنٹ گیلانی ہائی اسکول واہ کینٹ میں ہیڈماسٹر کے عہدے پر فائز رہے۔اگست ۱۹۸۵ء سے اگست ۱۹۹۴ء تک گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول راولپنڈی میں ماہر مضمون رہے۔اگست ۱۹۹۴ء تا اگست ۱۹۹۵ء گورنمنٹ ہائی سکول گڑھی افغانان ٹیکسلا میں بطور ہیڈماسٹر رہے، اور یہیں سے بطور ہیڈماسٹر ریٹائر ہوئے۔

ریڈیو پاکستان سے ۱۹۷۸ء تا ۱۹۸۵ء قریباً آٹھ سال حدیث نبوی کے موضوع پر ہفتے میں دو تقاریر نشر ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ بعض دیگر موضوعات پر بھی ریڈیو پاکستان سے تقاریر نشر ہوتیں۔ کئی سال تک واہ کینٹ اور ٹیکسلا میں خطبہ و خطاب جمعہ اور اسلام آباد میں درس قرآن دیتے رہے۔

اگست ۱۹۹۶ء میں جناب عبدالستار غوری صاحب نے ’’المورد‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے غوری صاحب کا قرب اس وقت نصیب ہوا، جب ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے دسمبر ۱۹۹۷ء میں ’’المورد‘‘ میں ان کا تقرر ہوا۔ دفتری اوقات کے بعد میں اکثر ان کے پاس چلا جاتا۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ میرا وقت ضائع نہ کریں۔

غوری صاحب اوپر کے ایک کمرے میں بیٹھا کرتے تھے، اس وقت مجھے ’’المورد‘‘ لائبریری کی کتابوں کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی تھی اس لیے غوری صاحب سے اکثر رابطہ رہتا۔ وہ بہت محبت کرنے والے انسان تھے۔ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ پڑھ لے اور ۱۹۹۸ء میں ایک کورس کے لیے اپنی جیب سے داخلہ بھی بھجوایا۔ میں نے داخلہ لے لیا، لیکن گھریلو حالات کی وجہ سے میں کورس مکمل نہ کر سکا۔

۲۰۰۴ء میں غوری صاحب ادارے کے فیلو بن گئے اور میری نشست چونکہ اوپر ہال میں تھی، اس لیے جب غوری صاحب کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی، مجھے آواز دے لیتے اور میں فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔

غوری صاحب سال میں ایک یا دو مرتبہ سب دوستوں کو کھانے کی دعوت دیتے تھے۔ احباب کو کھانا کھلا کر غوری صاحب کوایک دلی سکون اور راحت ملتی۔ یہ کہتے کہ یہ ان احباب کی قسمت کا تھا۔ اس کا صلہ مجھے اللہ پاک آگے جا کر دیں گے۔

۲۰۰۸ء تا ۲۰۱۴ء کا دور غوری صاحب نے میری نشست کے ساتھ لائبریری ہال میں گزارا۔ ہر جمعرات کو وہ ضرور آتے، کیونکہ انھوں نے اپنے ایک دوست درانی صاحب کے گھر درس دینے کے لیے جانا ہوتا تھا۔ سارا دن لائبریری میں اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرتے۔ جب تھک جاتے تو قریب ہی لیٹ جاتے۔ مجھے پیار سے ’’اشرفی‘‘ یا ’’اشرفیاں‘‘ کہتے تھے۔ کبھی کبھی موڈ میں ہوتے تو ’’اوئے بدمعاش‘‘ بھی کہہ دیتے تھے۔

باباجی کو باغ بانی کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر عمران سے مختلف سبزیوں اور پھلوں کے بیج منگوایا کرتے تھے۔ خیابان امین جہاں جناب عبدالستار غوری صاحب کی رہایش ہے، باباجی نے مختلف قسم کی سبزیاں اگائی ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ جامن ، بیر اور آم کے پیڑ بھی لگائے ہوئے تھے، جو اب بھی موجود ہیں۔ ایک مرتبہ سردیوں میں، میں غوری صاحب کے گھر گیا۔ غوری صاحب نے مجھے خود اپنے ہاتھوں سے زمین سے مولی نکال کر دھوکر کھلائی اور مجھ سے کہا: کیوں اشرفیاں، مزے دار ہے کہ نہیں ، اگر مزے دار نہیں تو پیسے واپس، میں ہنس پڑا اور کہا کہ سر، بہت مزے دار ہے۔

ایک مرتبہ غوری صاحب سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ خوش کن موقع یا لمحہ کون سا تھا؟غوری صاحب نے کہا کہ ایک دفعہ پورے پاکستان کے لیول پر عربی کورس کا ایک امتحان ہوا ۔ میں نے سوچا کہ چلو دے کر دیکھ لیتے ہیں۔ غوری صاحب کہتے ہیں کہ جب نتیجہ آیا تو میں حیران رہ گیا کہ پورے پاکستان میں ، میں اس کورس میں اول آیا۔ مجھے گولڈ میڈل دینے کے بارے میں فیصلہ ہوا اور گولڈ میڈل دینے کی تقریب اسلام آباد میں ہوئی تھی،جس میں مہمان خصوصی ، اس وقت کے صدر پاکستان جناب جنرل ضیاء الحق صاحب تھے، لیکن کسی وجہ سے صدر پاکستان نہ آسکے۔ مجھے گولڈ میڈل پہنایا گیا۔ غوری صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت میرے چہرے پر جو مسرت یا مسکراہٹ تھی، وہ آج تک نہیں آئی ۔ یہ میری زندگی کا سب سے اہم ترین اور خوش کن لمحہ تھا۔

جناب عبدالستار غوری صاحب ایک بہت بڑی علمی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کو اردو ، انگریزی ، فارسی اور عربی زبان پر کمال دسترس تھی۔ اس کے علاوہ عبرانی ، ہندی اور سنسکرت زبان بھی کچھ کچھ جانتے تھے۔ مجھے اکثر قرآن مجید کے تفسیری نکات بتاتے رہتے تھے۔جب کوئی علمی شخصیت ساتھ ہوتی تو عالمانہ گفتگو کرتے، نوجوانوں کے ساتھ ہوتے تو نوجوان بن جاتے اور بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے۔

۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء میں غوری صاحب نے اپنی کتاب ’’محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تمام غلطیاں مجھ سے لگوائیں۔ اس کتاب کے ایک باب میں ایک جگہ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک پیرا ہے ، جب وہ پیرا آیا تو رک گئے ۔ مجھے پڑھ کر سنایا اور روپڑے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ ’’جب میں خدا کے حضور پیش ہوں تو یہ کتاب میرے ہاتھ میں ہو اور میں رو رو کر یہ التجا کروں کہ اے خدا، تیرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر میں نے یہ کام کیا ہے، تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘ اکثر نماز ظہر یا عصر کے بعد ہم سب دوستوں کو ایک مختصر سا درس بھی دیا کرتے تھے۔

ایک دن غوری صاحب کو موٹر سائیکل پر لے جاتے ہوئے میں نے اچانک بریک لگا دی، غوری صاحب نے کہا: کیوں، کیا ہوا؟ میں نے کہا: سر، سڑک پر پیچھے ایک بڑا سا پتھر پڑا ہوا ہے، میں نے سوچا کہ ایک طرف کر دوں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ غوری صاحب فوراً اترے اور جا کر پتھر ایک طرف کر دیا۔ غوری صاحب واپس آئے اور کہا: آپ کا شکریہ کہ اس ثواب میں مجھے بھی شامل کیا۔

میں اکثر غوری صاحب سے دعا کی درخواست کرتا رہتا۔ خاص طور پر جب میں یا میرے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوتا یا میرے بچوں کے امتحان ہوتے۔ میری غوری صاحب سے آخری ملاقات ۱۵ ؍اپریل ۲۰۱۴ء کو ان کے بیٹے احسان الرحمن غوری صاحب کے ہاں جوہر ٹاؤن میں ہوئی۔ ۱۷ ؍ اپریل ۲۰۱۴ء بروز جمعرات، آخری مرتبہ ادارے میں تشریف لائے، کیونکہ اس دن انھوں نے اپنے دوست کے گھر درس دینے جانا تھا۔ اس روز نماز ظہر اور عصر ہم سب دوستوں کے ساتھ پڑھی، تقریباً سوا چار بجے غوری صاحب لائبریری سے چلے گئے۔ میں نے اٹھ کر لائبریری کا دروزاہ کھولا، سلام کیااور دعا کے لیے کہا:

 وہ نہیں بھولتے جہاں جاؤں

ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں

—— محمد جاوید اشرف

  (لائبریرین، المورد)

________

  

غوری صاحب: ایک مہربان انسان

جب سے میں ’’المورد‘‘ میں آیا ہوں، میرا غوری صاحب سے کسی نہ کسی طور پر تعلق رہا ہے۔وہ اپنی کتابوں کی کمپوزنگ وغیرہ کا کام زیادہ تر خود ہی کرتے تھے، لیکن بعض اوقات وہ میری اور نعیم صاحب کی خدمات بھی حاصل کرتے تھے۔ وہ خود پاس بیٹھ کر اغلاط کی تصحیح کا کام کرواتے اور جو غلطی صحیح ہو جاتی، اس کو مسودے پر اوکے بھی کر دیتے۔ یوں اغلاط کی تصحیح کے ساتھ ساتھ پڑتال کا کام بھی ہو جاتا۔وہ اس سلسلے میں بہت محتاط تھے کہ کہیں کوئی غلطی رہ نہ جائے۔ کتاب کے ٹائٹل کے بارے میں بھی ہر ایک سے راے لیتے تھے۔جب ان کی کوئی کتاب شائع ہوتی تو اس کا ایک ایک نسخہ اپنے دستخطوں کے ساتھ اسٹاف کے ہر رکن کو دیتے تھے۔

غوری صاحب نہایت مہربان انسان تھے۔ ہر ایک کی مشکل میں مدد فرماتے تھے۔ وہ ’’المورد‘‘ کے اسٹاف کو اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے اور تمام اسٹاف بھی ان کااپنے بزرگوں کی طرح احترام کرتا تھا۔

میری ان سے آخری ملاقات جمعرات ۱۷ ؍ اپریل کو ہوئی۔ وہ کافی کمزور لگ رہے تھے۔ میں نے ان سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا تو بتانے لگے کہ چیک اپ کرایا ہے، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کے دل کی دیواریں کافی سخت ہوگئی ہیں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے فرمایاکہ جیسے ایک مزدور کے ہاتھ مزدوری کرتے کرتے بہت سخت ہو جاتے ہیں، ویسے ہی میرے دل کی دیواریں بھی شوگر اور بلڈپریشر کی وجہ سے کافی سخت ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹروں نے دوائیں دی ہیں اور کل پھر چیک اپ کے لیے جانا ہے۔ غوری صاحب کہنے لگے کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے چلتے پھرتے ہی اٹھا لے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔

پیر کی صبح انھیں ہارٹ اٹیک ہوا اور منگل کی صبح وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگذر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔

—— محمد فاروق ضمیر

  (رکن شعبۂ تدوین، المورد)

________

  

ایثار و قربانی کا پیکر

محترم عبدالستار غوری صاحب بڑے ہی نیک، عاجزی پسند، محبت کرنے والے اور ہمدرد انسان تھے۔ مجھے اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے اور میری بڑی عزت کرتے تھے، یہاں تک کہ میری بیوی کو بیٹی کا درجہ دیتے تھے۔ہمارے گھر کا کھانا بڑے خوش ہو کر تناول فرماتے تھے۔ ہماری ضروریات کا توقع سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ جب میں نے گھر بنانا شروع کیا تو غوری صاحب اور ان کے بیٹے احسان الرحمٰن غوری صاحب نے الگ الگ تعاون کیا اور کہا کہ ہمیں بڑی خوشی ہو گی کہ آپ کے گھر میں ہمارا بھی کچھ تعاون شامل ہو۔

جب میں نے موٹر سائیکل خریدنی تھی، میری بیوی نے غوری صاحب سے ۳۰ ہزار روپے کی درخواست کی، تو انھوں نے فرمایا کہ میں آپ کو ۴۰ ہزار روپے دیتا ہوں، مگر کل تک زیرو میٹر موٹر سائیکل آنی چاہیے۔چنانچہ غوری صاحب کے تعاون سے اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا کہ ہم نے زیرو میٹر موٹر سائیکل خرید لی۔

غوری صاحب نے میری روحانی اور جسمانی اصلاح میں رہنمائی فرمائی۔ میرے والدین انتقال کر گئے ہیں، مگر مجھے غوری صاحب کو دیکھ کر ایسے لگتا تھا کہ ابھی میرے والد صاحب زندہ ہیں اور غوری صاحب کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر لیتا تھا۔ اب مجھے پروفیسر خورشید عالم صاحب میں غوری صاحب نظر آتے ہیں۔ غوری صاحب کی جدائی ایک ناقابل برداشت تلافی ہے اور ان کی کمی تاحیات محسوس ہوتی رہے گی۔

اللہ تعالیٰ غوری صاحب کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔

—— حفیظ اللہ

  (رکن اسٹاف، المورد)

________

  

ایک ناصح

ادارہ ’’المورد‘‘ میں کام کے آغاز سے پہلے اور کچھ عرصہ بعد تک شخصیت میں اعتماد کا بہت فقدان محسوس کرتا تھا، اور اسی احساس کے ساتھ ہی میں جناب عبد الستار غوری صاحب سے متعارف ہوا۔ مجھے بتایا گیا کہ غوری صاحب کی ادارے میں وہی حیثیت ہے جو جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی ہے، کیونکہ میں تب ادارے کے لوگوں کے مزاج سے واقف نہیں تھا اور ایک طرح کا ڈر محسوس کرتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ میرا ڈر ختم ہو گیا اور اس کی جگہ احترام و محبت نے لے لی۔ مجھے غوری صاحب نے پہلی بار اپنی کتاب کے ٹائٹل کی ڈیزائننگ کے سلسلے میں طلب فرمایا اور جناب سجاد خالد صاحب کا بنا ہوا ایک نمونہ مجھے دکھایا، اور کہا کہ میں اپنی راے دوں۔ سجاد خالد صاحب کو بھی میں اپنا استاد مانتا ہوں اور کچھ غوری صاحب کا اس طرح راے طلب کرنا میرے لیے باعث فخر تھا۔ اس واقعہ سے میں نے وہ عزت کا احساس پایا کہ جیسے اس کی ہمیشہ سے آرزو تھی۔ ’’المورد‘‘ کے دیگر اسکالرز سے اکثر صرف کام کے متعلق ہی گفتگو ہوتی ہے، مگر اکثر جب کسی معاملے میں کوئی الجھن ہوتی، بے دھڑک غوری صاحب کے پاس پہنچ جاتا اور اپنا مسئلہ بیان کرتا۔ جناب محترم اس طرح گفتگو فرماتے کہ محسوس ہوتا کہ میرا مسئلہ ان کے لیے سب سے اہم ہے، اور میرے اطمینان تک گفتگو جاری رہتی۔ بے شک، اللہ ہی ہدایت دیتا ہے اور خالق عظیم کا یہ احسان ہے کہ محترم غوری صاحب بھی اس کا ایک وسیلہ بنے۔ میں نے شاید ہی کبھی ان کو اپنی کسی ذاتی وجہ سے پریشان پایا، جب بھی معلوم ہوا یہی کہ میرے جیسے کسی بندے کے مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں کہ اس کی مشکل کیسے آسان کی جائے۔ مجھے اپنی انتہا کی کم علمی اور کم فہمی کا ادراک ہے اور میرے الفاظ جناب غوری صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے شایان شان ہر گز نہیں ہیں۔ خالق سے دعا ہے کہ وہ جناب غوری صاحب کی خطائیں معاف فرما کر ان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔

—— محمد مشتاق

  (رکن شعبۂ آڈیو /ویڈیو، المورد)

________

  

میرے محسن

غوری صاحب ویسے تو سب کے ساتھ ہی بہت اچھے تھے، لیکن میرے ساتھ انھوں نے جو نیکی کی ہے، میں شاید ہی اسے بھول پاؤں۔ میرا بیٹا عدیل احمد راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھا۔ اس کے اخراجات کے حوالے سے میں بہت پریشان تھا۔پھر میں نے خود کو سنبھالا اور جیب سے فون نکال کر اپنے محسن بابا جی کو فون ملایا۔ باباجی اس وقت گوجرانوالہ میں تھے۔ باباجی نے میرے مسئلے کو غور سے سنا اور فوری طور پر اس کے حل کے لیے تگ و دو کی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں کیسے بیان کروں۔ آدھے گھنٹے کے اندر ان کے بھجوائے ہوئے ایک شخص نے مجھے رقم پہنچائی، جو میں نے ہسپتال میں جمع کرائی۔ اس کے بعد باباجی مجھے ہر روز فون کر کے میرے بچے کی حالت دریافت کیا کرتے۔

اللہ تعالیٰ میرے باباجی کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔

—— حافظ عزیزاحمد

  (رکن اسٹاف، المورد)

________

  

ہر دلعزیز شخصیت

محترم غوری صاحب کو میں دس سال سے جانتا ہوں۔ وہ جب بھی ’’المورد‘‘ میں آتے توان کے چہرے پر ایک خوب صورت مسکراہٹ ہوتی۔ غوری صاحب کی اور میری جب بھی ملاقات ہوتی اور میں ان کو سلام کرتا تو وہ سلام کے جواب میں مجھ سے کہتے: Hello, Mr Tariqکیاحال ہے ٹمھارا؟ جو ان کے منہ سے بہت اچھا لگتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کو ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں خاص طور پر سلام کرنے جاتا اور یہ الفاظ ان کے منہ سے سن کر میں خوشی محسوس کرتا۔

جب بھی اسٹاف کے لوگ آپس میں کوئی دعوت کرتے تو غوری صاحب کا نام سر فہرست ہوتا تھا۔ وہ پارٹی دفتر کے اندر ہو یا باہر، غوری صاحب اس میں لازمی شرکت فرماتے تھے اور جب کبھی بھول چوک میں غوری صاحب کو نہ شامل کیا جاتا تو وہ وقتی طور پر ناراض ہو جاتے اور دوران گفتگو مان بھی جاتے۔

ان میں ایک خاص بات تھی کہ وہ ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو adjust کر لیتے تھے، یعنی بچوں کے ساتھ بچے، بڑوں کے ساتھ بڑے اور نوجوانوں کے ساتھ نوجوان بن جاتے تھے۔میرے خیال میں یہی بڑی وجہ ہے کہ وہ ہر دل عزیز تھے۔

دو سال پہلے وہ اپنے بیٹے سے ملنے انگلینڈ گئے جہاں وہ تقریباً ایک ماہ رہے۔ جب وہ ’’المورد‘‘ آئے تو سب کو گلے ملے اور کہا کہ میں آپ سب کے بغیر بڑا اداس ہو گیا تھا۔ انگلینڈ سے وہ ایک جیکٹ لائے جو انھوں نے پہنی ہوئی تھی۔ میں نے کہا سر آپ نے جیکٹ بڑی اچھی پہنی ہے تو انھوں نے کہا: یہ میں انگلینڈ سے لایا ہوں، جس پر میں نے کہا: سر، جب آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہو گی تو آپ یہ مجھے گفٹ کر دیجیے گا، جس پر انھوں نے مسکرا کر کہا: لے لئیں، لے لئیں۔

جب کبھی اسٹاف کے لوگوں کو قرض کی ضرورت پڑتی تو وہ غوری صاحب سے ضرور رجوع کرتے تھے۔ اسی طرح مجھے بھی اپنے گھر کی تعمیر کے سلسلے میں قرض کی ضرورت پڑ گئی۔ ان کے پاس مطلوبہ رقم اس وقت نہ تھی جو مجھ کو چاہیے تھی، لیکن انھوں نے مجھے انکار تو نہ کیا، بلکہ کہا کہ تم چار دن بعد پتا کرنا۔ ٹھیک چار دن بعد مجھے مطلوبہ رقم مل گئی۔

غوری صاحب اکثر لائبریری میں اشرف صاحب کے پاس بیٹھے اپنی کتب پر کام کیا کرتے تھے۔ میں جب بھی لائبریری میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا تو نماز کے وقت وہ مجھے کہا کرتے تھے: چلو تم بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھو، تومیں مسکرا کر کہتا: سر جی، میں با جماعت نہیں پڑھتا، بعد میں پڑھوں گا۔ ہمارے ایک ساتھی نے سن لیا اور کہا: سر جی، اس کو نماز آتی ہے جس پر وہ بڑا خوش ہوئے۔

غوری صاحب اپنی کتاب ’’بائبل میں نام محمدؐ ‘‘ کا نظرثانی شدہ ایڈیشن تیار کر رہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھا تھا تو انھوں نے وہ dummy نکالی جو انھوں نے ریسرچ کی تھی۔ بائبل کی آیات جو انھوں نے ’’غزل الغزلات‘‘ بائبل کی کتاب سے لی تھیں، پڑھیں اور کہا کہ یہ پیشین گوئی حضرت مسیح کے بارے میں نہیں، بلکہ حضرت محمدؐ کے بارے میں ہے، اور کہا: جب یہ کتاب پرنٹ ہو کر آئے گی تو میں تمھیں پڑھنے کے لیے گفٹ کروں گا اور جب اسے پڑھو گے تو یہ ضرور تم پر گہرا اثر کرے گی اور اسے پڑھنا ضرور اور اسے پڑھنے کے بعد تم اسلام قبول کر لو گے اور ہم سب تمھارے پیچھے نماز با جماعت ادا کریں گے۔ میں نے کہا: سر، ضرور دیجیے گا۔

خدا تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔

—— طارق نذیر

  (رکن اسٹاف، المورد)

________

  

[کارکنان ’’المورد‘‘ کے درج ذیل تاثرات شاہد رضا نے اُن کی گفتگوؤں سے مرتب کیے ہیں۔]

 

عاجزی و انکساری کا پیکر

جناب عبدالستار غوری صاحب کے ساتھ تقریباً سولہ سال رفاقت ر ہی، اس دوران میں کبھی بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ کوئی ہم سے الگ فرد ہیں۔ بلا شبہ، وہ جتنے بڑے اسکالر تھے، اتنے بڑے انسان بھی تھے۔ عاجزی وانکساری ان کا ایک نمایاں پہلو تھا، کیونکہ مختلف اجتماعات میں وہ ہمارے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے تھے، جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے ساتھ گھل مل جاتا ہے۔

انھوں نے مشکل حالات میں ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی اور ہمیں خاندانی ارکان کی طرح متحد رکھا، اس کے لیے وہ وقتاً فوقتاً دعوت کا اہتمام کرتے رہتے تھے۔ ان کے سامنے کوئی شخص بھی اپنے ما فی الضمیر کو بلاجھجک بیان کر سکتا تھا۔

’’المورد‘‘ میں آخری ملاقات میں ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہو رہا تھا ، جیسے وہ الوداعی ملاقات کرنے آئے ہیں۔اللہ تعالیٰ دار آخرت میں ان کو بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

—— عظیم ایوب

  (رکن شعبۂ تدوین، ماہنامہ رینی ساں)

________

  

شفیق بزرگ

بے شک، جناب عبدالستار غوری صاحب ایک مہربان اور علمی شخص تھے۔ وہ ’’المورد‘‘ کی رونق تھے۔ وہ ہمارے لیے ایسے ہی تھے، جیسے ایک گھر کا سربراہ ہوتا ہے۔ ان کی وفات سے اس گھر میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، جو پورا نہیں ہو سکتا۔ وہ اکثر ہمیں اصلاح نفس کے لیے درس دیتے تھے۔ وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ کسی اجتماع میں عدم موجودگی کی صورت میں میرے بارے میں استفسار کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو بلند درجات سے نوازے۔ آمین۔

—— محمد حنیف

  (رکن اسٹاف، المورد)

________

  

ایک درد مند انسان

والد صاحب کی وفات کے بعد میرے محسن جناب محترم عبدالستار غوری صاحب ایک باپ کی طرح ہی تھے۔ انھوں نے مجھے ایک خاندانی فرد کی طرح ہی گردانا اور ان کو ہم نے بھی ایک خاندانی بزرگ کی طرح سمجھا، کیونکہ بعض اوقات میری اور میرے خاندان کی خبرگیری کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ان کے بارے میں میرا احساس وہی تھا جو ایک حقیقی باپ کے بارے میں ہوتا ہے۔

انھوں نے ہر اس معاملے میں میری معاونت فرمائی جو مجھے درپیش ہوتا۔ ان کے ہوتے ہوئے میں ان پریشانیوں اور مسائل سے نمٹنے کے لیے بہت ہمت محسوس کرتا تھا جن کا انسان کو سامنا رہتا ہے، یہاں تک کہ وقت وفات اپنے بیٹے جناب احسان الرحمن غوری صاحب کو کہہ گئے کہ ’’عمران اور اس کے بچوں کا خیال رکھنا‘‘۔ آخر وقت تک ان کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔

آخری دفعہ جمعرات ۱۷؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو جب ’’المورد‘‘ تشریف لائے تو کہا کہ’’آخری بار خدمت کر لو، میں اس کے بعد نہیں آؤں گا‘‘۔ رب العٰلمین ان کو اخروی کامیابی سے ہمکنار کرے۔ آمین۔

—— عمران خان

  (رکن اسٹاف، المورد)

________

  

ہمدرد انسان

جناب عبدالستار غوری صاحب نہایت شفیق اور ہمدرد بزرگ تھے۔ ان کے ساتھ محبت اور اپنائیت کا ایک خاص تعلق تھا۔ مثال کے طور پر اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں کسی وجہ سے جناب غوری صاحب کو اطلاع نہ کر سکاتو خاصے ناراض ہوئے اور ان کی ناراضگی کی وجہ بہت واضح تھی۔ انھوں نے ہماری ذاتی ضرورتوں کو بھی اپنا سمجھا۔ وہ ہمیں اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔

انھوں نے مذہبی رواداری اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی نہایت مشفقانہ انداز میں وقتاً فوقتاً میری رہنمائی کی۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی وفات سے نہ صرف مجھے، بلکہ میرے اہل خانہ کو بھی دلی صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

—— جاوید مسیح

  (رکن اسٹاف، المورد)

________

  

خوش اخلاق انسان

جناب عبدالستار غوری صاحب بہت اچھے اور عظیم انسان تھے۔ ان کی اچھائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عید اور کرسمس وغیرہ جیسے تہواروں پر ہمارے ساتھ بہت تعاون فرماتے تھے، جس سے ہماری خوشیوں کو چار چاند لگ جاتے۔ آج وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں، مگر اپنے افکار وتعلیمات کے ذریعے سے ہمیشہ ہمارے ساتھ زندہ رہیں گے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو بہت خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتے تھے۔

ایک دفعہ ان سے ملاقات کرنے گیا، تو دوران گفتگو کہا کہ ’’ خدا کی طرف دھیان لگاؤ اور جھوٹ سے ہمیشہ اجتناب کرو، کیونکہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے‘‘۔ وہ مذہبی تعلیمات کے بارے میں بھی رہنمائی کرتے تھے۔

خداوند کریم ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔

—— یوسف آگسٹین

  (سابق رکن اسٹاف، المورد)

____________

 

B