روزمرہ زندگی کے عموماً ادنیٰ تقاضوں کے باعث، بے برکتی کے اس دور میں، ہم کتنی ہی دل پسند اور لائق ترجیح مصروفیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ غوری صاحب کی وفات پر فوری احساس یہی ہوا کہ ان جیسا عظیم صاحب علم اور غالباً اتنا ہی عظیم اور محبت بھرا انسان برسوں ہمارے درمیان رہا، لیکن، اپنی حد تک، میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کی اعلیٰ اور پاکیزہ صحبت سے بہت کچھ استفادہ نہ کر سکا۔
ان کی دل آویز شخصیت کا ایک رخ ان کی نرم گفتاری، رقیق القلبی، انسان دوستی اور ہمیشہ یاد رہنے والی مہمان نوازی ہے۔ مثال کے طور پر وہ کسی روز، بغیر کسی خاص وجہ کے ’’المورد‘‘ کے سب چھوٹوں بڑوں کو خود اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر کھلاتے اور فرداً فرداً اپنی شگفتہ مسکراہٹ سے دل جوئی فرماتے۔
ان کی شخصیت کا اس سے بڑھ کر رخ ایک سچے طالب علم اور محقق کا تھا۔ اپنی تمام بزرگی اور تبحر علمی کے ساتھ ادارے کے علمی مذاکروں میں ہم جیسے عام طلبا سے ہم نشین ہوتے اور دوسری طرف اپنی تحقیقات پیش کرتے ہوئے سنجیدگی اور اعلیٰ ترین علمی معیار کو برقرار رکھتے۔ یہی نہیں، بلکہ ایک کھرے داعی حق کی طرح اپنے دریافت کردہ سچ کو دنیا تک پہنچانے کے لیے جو اکثر تحقیقی مزاج کا حصہ نہیں ہوتا وہ ایک غیر معمولی تڑپ بھی رکھتے تھے۔ مشکلات کے باوجود خود اپنے وسائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشین گوئیوں کے علم کو دیگر ممالک بالخصوص مسیحی برادری تک پہنچانے کے لیے انھوں نے بے پناہ سعی کی۔
پروردگار عالم سے توقع ہے کہ اپنی بے پایاں رحمت و شفقت سے وہ اس پیکر علم و اخلاق کو اپنے ہاں ضرور اعلیٰ مقام عطا فرمائیں گے۔
—— ڈاکٹر منیر احمد
(رکن ’’المورد‘‘ بورڈ)
________
غوری صاحب سے میرا تعلق اسی وقت قائم ہو گیا، جب وہ ’’المورد‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ ہمارے غوری صاحب تھے ہی ایسے کہ پہلی ہی ملاقات میں ان سے گہرا تعلق بن جاتا تھا۔ شروع شروع میں ان سے تکلف تھا، مگر چند دنوں ہی میں قربت اوربے تکلفی ہوگئی۔ یہ قربت اور بے تکلفی رفتہ رفتہ پدرانہ شفقت میں تبدیل ہو گئی اور پھر وہ وقت بھی آیاجب مجھے ان کے گھر میں رہنے کا موقع ملا۔ میرا معمول تھا کہ میں شام کو دفتر سے چھٹی کے بعد بی سی ایس کی کلاسیں لینے کے لیے ایک کالج میں جاتا تھا اورپھر وہاں سے فارغ ہو کر گھر کے لیے روانہ ہوتا تھا ۔گھر بہت دور تھا، اس لیے پہنچتے پہنچتے اکثررات ہو جاتی تھی۔جب غوری صاحب کے سامنے یہ صورت حال آئی تو انھوں نے بڑی محبت سے مجھے اپنے گھر رہنے کی پیشکش کی۔ پیشکش پر خلوص تھی اور میں مشکل میں تھا، اس لیے میں نے اسے فوراً قبول کر لیا اور اگلے ہی دن ان کے ہاں منتقل ہو گیا۔ میں وہاں کئی مہینے رہا۔ کسی ایک بھی دن ایسامحسوس نہیں ہوا کہ میں اپنے گھر میں نہیں ہوں۔ میری ضرورت تو صرف رہایش تھی ، مگر غوری صاحب کی شفقت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ میں کھانا بھی ان کے ہاں کھاؤں۔
وہ وقت آج بھی میری یادوں کا حسین ترین سرمایہ ہے ۔ ان دنوں ، غوری صاحب کی رہایش ای بلاک دفتر کے بالکل ساتھ تھی۔ یہ چار کمروں کا گھر تھا، دو کمرے نیچے اور دو اوپر تھے ۔ نیچے کے ایک کمرے میں ان کی لائبریری تھی، اور دوسرا کمرا ان کا اور ماں جی کا تھا، جبکہ اوپر کے دونوں کمرے ان کے بیٹوں عثمان ، احسان اور ذیشان کے استعمال میں تھے۔ میں بچوں کے ساتھ اوپر کے حصے میں رہتا تھا۔ احسان کے ساتھ زیادہ تر علمی گفتگو ہوتی، عثمان کے ساتھ لڈو کی بازیاں لگتیں اور ذیشان کے ساتھ عشا کے بعد ڈی بلاک کی واک ہوتی۔ ہم عمر اور بے پناہ بے تکلف ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی ہمارا جھگڑا بھی ہو جاتاتھا۔ بول چال بھی بند ہو جاتی کہ ایک دوسرے کے لطیفوں پر ہنسنا چھوڑ دیتے تھے۔ یہ کیفیت دو چار دن جاری رہتی کہ پھر سیڑھیاں چڑھتے اترتے راستہ نہ دینے پر یا کندھا ٹکرا جانے پر نہ صرف اس وقت ہنس پڑتے، بلکہ جن لطیفوں پر ہنسی روکی گئی ہوتی، ان پر بھی دل کھول کر ہنستے۔ ہماری لڑائیوں اور جملہ بازیوں پر نہ کبھی غوری صاحب نے ناراضی کا اظہار کیا اور نہ ماں جی نے ۔ سچی بات ہے کہ غوری صاحب اور ماں جی کی شفقت اور عثمان ، احسان اور ذیشان کی برادرانہ دوستی میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔
غوری صاحب طبعاً بہت حساس تھے۔ ماں جی کی اچانک وفات سے غوری صاحب کو گہرا صدمہ ہوا تھا۔ بہت عرصہ تک وہ اس صدمے کی کیفیت میں رہے۔ ماں جی کا ذکر شروع کرتے توبہت دیر تک ان کی باتیں بتاتے۔ واقعات سناتے جاتے اور وقفے وقفے سے مجھے کہتے : ’’معظم تیری آنٹی نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ مجھے اکیلا چھوڑ گئی۔ ‘‘ایک بار میں نے جنت میں ستر حوروں کے حوالے سے سوال کیا تو کہنے لگے کہ ایک تحقیق یہ ہے کہ وہ ستر حوریں اصل میں بیوی ہی کے ستر روپ ہوں گے۔ جس بیوی نے ہمارے ساتھ وقت گزارا ہوتا ہے تو مختلف وقتوں میں اس کے مختلف روپ سامنے آتے ہیں اور اس کے بہت سے روپ آپ کو اچھے لگتے ہیں ، لہٰذا جنت میں اس کے بہت سارے روپ بہ یک وقت مل جائیں گے۔ بعد میں کہنے لگے: پتا نہیں یہ تحقیق صحیح ہے یا نہیں ، لیکن میری خواہش ہے کہ مجھے اپنی ہی بیوی کے ستر روپ مل جائیں۔
میں ایک دن دفتر میں چھٹی کے بعد بیٹھا کام کر رہا تھا کہ مجھے دیکھ کر اندر آ گئے۔ کچھ دیر باتیں ہوئیں، نکلتے ہوئے میں نے کہا کہ بڑا عرصہ ہوا آپ نے اپنی پسند کا کوئی گانا نہیں سنایا۔ انھوں نے پنجابی کا ایک گیت گنگنانا شروع کیا۔ میں اپنے کیبن سے چابیاں اٹھانے گیا تو وہ ایک مصرعے کے بعد خاموش ہو گئے ۔میں نے خیال کیاکہ شاید میرے انتظار میں روک دیا ۔میں جلدی سے باہر آیا تو دیکھا کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں جنھیں ضبط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں پریشان ہو گیا تو کہنے لگے کہ یہ گانا میرے حسب حال ہے۔ اس میں بھی محبوب بے وفائی کر کے چھوڑ گیا۔ پھر بہت دیر تک ماں جی کی باتیں سناتے رہے۔
جب میری شادی ہوئی تو میں لنچ بریک میں غوری صاحب کے کمرے میں چلا جاتا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ زور سے نعرہ لگاتے: ’’نوم العروس‘‘ (دولہے کی نیند)اور مجھے تھوڑی دیر سستانے کے لیے تکیہ نما کشن دے دیتے۔ جتنے دن یہ سلسلہ رہا، غوری صاحب شادی شدہ زندگی پر زبردست لطیفے سناتے اور ساتھ میں نمکو، بسکٹ یا ڈرائی فروٹ سے تواضع کرتے ۔
چھٹی کے بعد میں اکثر ان کے کمرے میں چلا جاتا ۔ وہ اگر کام کر رہے ہوتے تو مجھے کوئی کتاب دے کر کہتے کہ اس کو پڑھو اور مجھے بھی بتانا کہ اس میں کیا ہے۔ اگر آرام کر رہے ہوتے تو اپنے علمی کام، کسی نئی تحقیق، اپنی کسی کتاب یا اس پر شائع ہونے والے کسی تبصرے کے بارے میں بتاتے۔
بعض موقعوں پر میں نے ’’اشراق‘‘ کے لیے مضمون لکھے ۔ انھیں شائع ہونے سے پہلے میں غوری صاحب کو ضرور دکھاتا۔ وہ بہت توجہ سے پڑھتے۔ نفس مضمون پر بھی تبصرہ کرتے اور جملوں کی ساخت اور پروف کی غلطیوں کی بھی نشان دہی کرتے اور فن تحریر کی خوبیوں اور خامیوں کے حوالے سے بھی سمجھاتے۔
انھوں نے میرے بڑے بیٹے کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ، جس کے ساتھ میں نے ’’معز ‘‘کا اضافہ کیا، کیونکہ فیملی کے بعض لوگ تقدس کی وجہ سے محمد کا نام پکارنے میں مشکل محسوس کر رہے تھے۔ اولاد کی اچھی تربیت کے حوالے سے ایک بار میں نے ان سے پوچھا تو کہنے لگے: جو رویہ ان سے چاہتے ہو، خود ان کو کر کے دکھاؤ۔ غلط کام پر ڈانٹ کے معاملے میں کوئی لحاظ نہ رکھو اور اگر ان کی ماں ان پر غصہ ہو تو انھیں توجہ دلاؤ کہ تم نے کیا غلط کام کیا جس کی وجہ سے وہ ناراض ہیں۔
غوری صاحب مجھ سے جس قدر محبت کرتے، اسی قدر اعتماد بھی کرتے تھے۔ ایک بار ذیشان کسی بات پر ناراض ہوکر گھر سے باہر چلا گیا، غوری صاحب تیزی سے اوپر آئے اور مجھ سے کہا کہ اسے بلا کر لاؤ اور سمجھاؤ۔ا سی طرح ایک بار غوری صاحب اورماں جی کو کہیں جانا تھا، ان دنوں آپ کا ۱۰ سال کا پوتا سعد ان کے پاس رہتا تھا۔ غوری صاحب نے اس خیال سے کہ سفر دور کا ہے اور سعد تھک جائے گا اورگھر میں اس کو کھانے کی تنگی ہو گی ، انھوں نے مجھ سے کہا کہ اسے چند دن کے لیے اپنے گھر لے جاؤ۔
غوری صاحب بیک وقت میرے استاد بھی تھے، بے تکلف دوست بھی تھے اور میری خیر خواہی اور خیا ل رکھنے میں باپ کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’’المورد‘‘ کے تمام لوگوں کے ساتھ ان کا ایسا ہی تعلق تھا۔ وہ سب کے خیر خواہ، بے تکلف دوست ، گرم جوش میزبان اور بے لوث مددگار تھے۔
میں نے انھیں طویل عرصہ تک دیکھا ہے اور بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ وہ بہت اصول پسند، محبت کرنے والے، صالح طبیعت اور بنیادی طور پر نیک انسان تھے۔ ان میں خامیاں بھی ہوں گی ، کمزوریاں بھی ہو ں گی اور ان سے جانے انجانے میں زیادتیاں بھی ہوئی ہوں گی، میں اللہ سے ان کی لغزشوں اور خطاؤں کی معافی کا خواست گار ہوں اور جنت میں ان کے لیے اعلیٰ مقام کے لیے دعا گو ہوں۔
—— رانا معظم صفدر
(سابق معاون مدیر، ماہنامہ اشراق)
________
مجھے شہزاد نے کئی مرتبہ کہا کہ میں غوری صاحب کے لیے کچھ لکھوں، مگر مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ میں ان کے لیے کیا نئی بات لکھوں ۔ان کا ظاہر اور باطن ہر اس شخص پر واضح ہے جو ان سے مل چکا ہے ۔غوری صاحب کے نورانی چمکتے چہرے اور دھیمی آواز اور لہجے میں محبت و شفقت، مجھے ہر مرتبہ اس چیز کا احساس دلاتی کہ اگر دنیا میں فرشتے چلتے پھرتے ہوتے تو شاید وہ غوری صاحب جیسے ہوتے۔ان کی علمی حیثیت کیا تھی؟ اس کا علم تو اسی وقت ہوجاتا جب ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف الماریوں میں پڑی کتابوں پر نظر پڑتی ۔مجھے زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کے پاس شاید بہت علم ہوگا، لیکن ایک علمی آدمی میں اس قدر تحمل اور محبت شاید میں نے غوری صاحب ہی میں دیکھی ۔اپنے سے چھوٹے سے اس قدر محبت سے ملتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ ان کا پیکر محبت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔دنیا میں ایسے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے مسائل کو اپنے مسائل بنا لیتے ہوں ۔میں نے ایک مرتبہ ان سے درخواست کی کہ میرے بیٹے ابراہیم کے لیے دعا کیا کریں ۔کچھ عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے تہجد میں ابراہیم کے لیے دعا کرنے کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔
سن رکھا ہے کہ مہمان نوازی پیغمبروں کا شیوہ ہے اور یہ عادت غوری صاحب میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اکثر ہمیں یہ پیغام موصول ہوتا کہ آج دوپہر کا کھانا غوری صاحب کی طرف سے ہے اور پھر قورمے کی دیگ کا سالن اور نان اور سلاد اور ساتھ ہی کسی نہ کسی میٹھے سے نہ صرف ’’المورد‘‘، بلکہ باہر کے لوگوں کواس دعوت پر بلا کر ان کی تواضع کی جاتی ۔
ان کا علم خاص طور پر عیسائیت پر ان کی تحقیق ہم طالب علموں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے ۔کاش، ہم ان کی تحریروں اور تحقیق سے استفادے کا حق ادا کرسکیں۔ کبھی کبھی طبیعت کی خرابی کا ان سے ذکر کیا جاتا تو وہ ہومیو پیتھک دوا بھی تجویز کردیتے ۔ مجھے ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کی باتیں سن کر ہمیشہ یہ احساس ہوتا کہ جیسے کہیں ایک گھنے سایہ دار درخت کے سایے میں بیٹھی ہوں ۔وہ سبھی کے لیے ایسے تھے۔
عبدالستار غوری صاحب کے اس دنیا سے جانے کا دکھ تو بہت ہے، لیکن اطمینان بھی ہے کہ وہ اس خاص مقام پر پہنچ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انھی کے لیے بنایا ہوگا۔پرسکون اور دنیا کی ظلمتوں سے دور نعمت بھرے مقام پر ۔
اے اللہ، تو ان کی خطاؤں کو پانی سے ،اولوں سے اور برف سے دھو دے اور انھیں گناہوں سے ایسے صاف کردے، جیسے سفید اجلا کپڑا۔ آمین
—— کوکب شہزاد
(اسسٹنٹ فیلو، المورد)
________
صبح طلوع ہوئی تو معمولات شروع ہوگئے ، نماز، تلاوت، چائے، لیکن معمولات میں نہ وہ شگفتگی تھی، نہ وہ تازگی، نہ جوش تھا ،نہ حرارت ، جو اکثر اوقات ہوا کرتی ہے۔ کھڑکی سے پردہ اٹھا کر دیکھا تو آسمان، سورج، موسم ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔ سوچوں کے سمندر میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ طبیعت میں اضطراب کیسا؟ وہم سمجھ کر سب جھٹک دیا، مزاج کی خبر لی تو ابھی کتاب اٹھانے کو روک رہا تھا، گھر والدہ محترمہ کو کال کرنے کے لیے جی نہیں چاہ رہا تھا۔ ایسی صورت حال اکثر مزاج کے ساتھ پیش آ ہی جایا کرتی ہے ، لیکن آج لیپ ٹاپ کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ ہاتھ بڑھایا۔ آن کیا، فیس بک آن تھی، تو محترم آصف افتخار کا میسج تھا اور ایک ہولناک خبر بھی، عبدالستار غوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ کچھ ایسی خبر کہ کان سن ہوگئے ،آنکھیں نم ہوگئیں ، دل پسیج گیا اوردماغ ماضی کے اوراق پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ سراپا شفیق انسان اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، میرے استاد ، میرے مہربان ، ان کی شفقتوں کے بیا ن کے لیے الفاظ ڈھونڈنے پڑیں گے ،بادصبا بن کر ان کی شخصیت نے میرے وجود کا احاطہ کر لیا۔
ان کی علمی شخصیت کے احاطے کے لیے تو کئی صفحات درکار ہوں گے، زمانے پر ان کے کام کے انداز اب کھلیں گے ، واقعی ایسے شخص کے بارے میں کہاجا تا ہے کہ موت العالم موت العالم ۔میں نے ان سے انگریزی اور فارسی سیکھی اور پڑھی، ان کا اسلوب بڑا ہی دل کش اور دل کو بھا جانے والا ہوا کرتا تھا۔ وہ زبان، تاریخ اور ان گنت علوم وفنون کی معرفت رکھتے تھے۔ وہ سبق کے دوران میں ان سب سے روشناس کرایا کرتے تھے ، بولتے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے آب شار تلفظ کی ادائیگی میں خوبصورتی سادہ سی بات میں معلومات کا سمند ر۔
وہ کس طرح کے انسان تھے؟ ایک دو واقعات ہی سے اندازہ ہوجائے گا۔ایک دن باتوں باتوں میں بتا رہے تھے کہ وہ ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہوا کرتے تھے اور اسکول میں ایک ملازم نے ان کے خلاف درخواست دے دی اور غوری صاحب کو پولیس پکڑ کر لے گئی اور وہ جیل چلے گئے۔ کچھ دن کے بعد سزا کاٹنے کے بعد رہا ہو کر سیدھے اس شخص کے گھر گئے ، اور اسے کچھ نہ کہااور ادھر ادھر کی گپ شپ کرتے رہے ، وہ بے چارہ شرمندہ ہو کر رہ گیا، غوری صاحب نے اس کو کہا: چھوڑ و یار اس بات کو، تو ہم نے غوری صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اس طرح کیوں کیا؟ تو اس عظیم انسان کا جواب تھا کہ انتظامی معاملات میں بعض اوقات سختی بھی کرنی پڑ جاتی ہے ، شاید وہ شخص میری کسی بات سے نالاں ہوا ہو، اور اس نے میرا کمزور پہلو دیکھ کر وار کر دیا۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد انھوں نے ہم سے کہا کہ آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ لوگوں سے درگذر ، معافی اور عفو کا معاملہ کریں، اور یہ بات یاد رکھیں کہ اگر آپ لوگوں کے لیے اپنے دل میں کینہ ، نفرت ، بغض اور عداوت رکھیں گے تو اس سے آپ کی اپنی شخصیت میں خلا پیدا ہوگا، آپ کے نفس میں خرابیاں پیدا ہوں گی۔ لوگوں کو جیتنے کی کوشش کیا کریں ، کسی کو ایسے معاملات میں ہرا دینے سے بعض اوقات بندہ خود ہی ہار جاتا ہے ۔
کسی کی عزت نفس کا خیال رکھنا کوئی ان سے سیکھے۔ ایک بار ہم ان کی معیت میں بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ فلاں طالب علم کو بلا لاؤ۔ ایک اسٹوڈنٹ جانے لگا تو کہا کہ میں خود جاتا ہوں اس کے پاس، کیونکہ کام مجھے ہے۔ یہ چند لفظ تھے جو ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چن دیے، وگر نہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ یادوں کی رم جھم جاری ہے ، لطیفے، قصے، کہانیاں ، دعائیں ، پڑھانے کا انداز، کیا کچھ اس رم جھم میں نہیں۔ ان کی شخصیت کا اصل پہلو علمی نوعیت کا ہے، ان کا انداز تحقیق مستشرقین کے ہم پلہ ہے، اور تقابل ادیان کا کوئی سنجیدہ طالب علم ان کے کام سے صرف نظر نہ کر سکے گا۔ اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے، ان کو دعا دینے کے لیے غالب سے لفظ ادھار لیے :
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسن قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
—— حافظ سعید احمد
(سابق طالب علم، المورد)
________
میں لگ بھگ پندرہ (۱۵) سال قبل ’’المورد‘‘ میں حصول علم کی غرض سے وارد ہوا تھا۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے ہمیں ایک سمسٹرمیں ’’فارسی زبان‘‘ پڑھائی تو ان سے بحیثیت استاد میرا پہلا تعارف ہوا۔ ماشاء اللہ، وہ ایک باغ و بہار شخصیت تھے۔ بعد میں ان سے ’’زبور‘‘ کے کچھ حصے پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا جس سے ان کے اصل شوق اور اصل کام کا تعارف ہوا۔ تاہم اڑھائی سال کے تعلیمی عرصے میں ان سے بہت محدود تعلق رہا۔ البتہ، یہ جان کر ازحد مسرت ہوئی تھی کہ سرکاری اسکولوں میں اسلامیات کی نصابی کتب کے مصنفین میں ایک نام ان کا بھی ہے۔
پھر کچھ عرصے بعد جب ’’المورد‘‘ کے لیے مجھے اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع ملا تو ان سے باقاعدہ تعارف حاصل ہوا۔ ان کے علمی قدو قامت کا اندازہ ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت اور بائیبل پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ان کی عظیم الشان تحقیق کے بارے میں جان کر بے حد خوشی ہوئی۔ بیوی کی جدائی کا غم سہنے کے باوجود ان کی روٹین میں کوئی فرق واقع نہ ہوا اور نہ شگفتگی میں کوئی کمی آئی۔ ہمارا ان کے کمرے میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ کبھی وہ کسی کام سے بلا لیتے اور کبھی ہم فرسٹ ایڈ دواؤں کے لیے ان کے پاس چلے جاتے۔ کافی عرصہ تک ان کے کمرے میں چائے کا وقفہ بھی بڑے اہتمام سے ہوتا رہا۔ اس میں پیٹ پوجا کے ساتھ ساتھ جو اعلیٰ علمی و ادبی خوراک میسر ہوتی رہی، اس کا کوئی نعم البدل نہیں تھا۔ محترم غوری صاحب کو اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی بڑی اعلیٰ دسترس حاصل تھی اور ہمیں ان سے ہر طرح کی لغات میسر آجاتی تھیں۔ ان کی اپنی ذاتی لائبریری میں بہت سی نایاب اور قیمتی کتب موجود تھیں۔
غوری صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ ان کا ذوق تحقیق تو یقیناًبائیبل تھی، لیکن وہ ایک جامع شخصیت تھے۔ اپنے کام سے ان کو ’’عشق‘‘ تھا۔ چنانچہ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کمپیوٹر کا استعمال سیکھا اور اپنے کام کی حد تک وہ خودکفیل تھے۔ البتہ جہاں بھی ان کو کوئی مسئلہ ہوتا تو ہم سب ان کی خدمت کو اپنے کام پر ترجیح دیتے تھے۔ ہومیوپیتھی بھی ان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ تھا۔ میں چونکہ ہمیشہ سے ہومیوپیتھی کو ایلوپیتھی پر ترجیح دینے والوں میں سے ہوں تو اکثر اس سلسلے میں بھی میں ان کے کمرے میں حاضری دیتا رہا ہوں، بلکہ مجھے انھی کی بتائی ہوئی دوائی سے ایک کئی سال پرانے تکلیف دہ مرض سے نجات ملی اور کئی سال بڑے سکون میں گزرے۔
مرحوم غوری صاحب ہمارے امام بھی تھے۔ صحت نے جب تک وفا کی، وہ یہ خدمت بھی سرانجام دیتے رہے۔ ان کی کئی پرسوز قراء تیں اس وقت بھی یاد آ رہی ہیں۔ خاص طور پر ان کی معیت میں ان کی امامت میں جو جنازے پڑھنے کا اتفاق ہوا، وہ زندگی کا حاصل قرار دیے جا سکتے ہیں۔ میں ان کی میت کو کافی دیر تک دیکھتا رہا اور ان کے پڑھائے ہوئے جنازوں کو یاد کرتا رہا۔
غور ی صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنھیں صالح اور خدمت گزار اولاد ملی۔ میرا زیادہ تعارف صرف ڈاکٹر احسان الرحمن غوری صاحب سے ہے، بلکہ میں خوش قسمت ہوں کہ باپ بیٹا دونوں کا شاگرد بننے کا موقع ملا۔ امید واثق ہے کہ وہ اپنے عظیم باپ کے علمی کاموں کے وارث بنیں گے اور ہمیں فیض یاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ محترم غوری صاحب کی وفات ہم سب کا مشترکہ غم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بالخصوص ان کے بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ہمیں جنت میں ایک بار پھر ان سے ملا دے۔ آمین ثم آمین۔
أللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔
—— حافظ محمد ابراہیم شیخ
(سابق استاد، المورد)
________
غوری صاحب کی وفات پر کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ سوچا فیس بک کا سہارا لے لوں، لیکن کھولا تو دوستوں نے اس محفل کو بھی ان کی یادوں کے پھولوں سے سجا دیا ہے۔
میری ان سے بہت کم ملاقاتیں رہیں، لیکن جب بھی ملے تو اتنی محبت اور اپنائیت سے ملے جیسے مجھے برسوں سے جانتے ہوں۔ ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں بیٹھے اپنا کام کرتے رہتے تھے (کم از کم میں تو ان کو جب بھی ملا، وہیں ملا)۔ پہلی بار ملے تو خود اٹھ کر گئے، دکان سے اپنی کتابوں کا سیٹ لائے اور اپنے دستخطوں سے عنایت کیا۔ اس کے بعد میری طرف سے تو کوتاہی ہوئی، لیکن انھوں نے کئی بار فون پر یاد کیا اور ہر بار مجھ پر ان کی آواز سنتے ہی گھڑوں پانی پڑ جاتا کہ اس دفعہ بھی پہل انھوں نے کی۔
’’المورد‘‘ کے ایک اسٹاف ممبر کے ساتھ بیٹھے ہوئے جب میں نے بار بار سنا کہ وہ تو کھانا باباجی کے ساتھ کھائیں گے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ پتا چلا کہ غوری صاحب مراد ہیں اور عملے کے بعض ارکان ان کی بے پناہ محبت اور شفیق شخصیت کی وجہ سے ان کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ ان کے ساتھ، بلاشبہ یہی نام جچتا ہے۔
اللہ بابا جی کے درجات بلند کرے اور ان کو اس ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل نصیب کرے جس کی آمد کی خوش خبریوں کو وہ آسمانی صحائف میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کے سامنے لاتے رہے۔
—— عامر عبداللہ
(گلوبل دعوہ ہیڈ)
________
انسان کا دنیا میں آنا ، کچھ وقت گزارنا اور پھر اس دنیا کو خیر باد کہہ دینا، ایک ایسا عمل ہے جو زندگی کی ابتدا سے جاری ہے اور آخری انسان کی موت تک جاری رہے گا۔ دنیا میں اپنا وقت پورا کرنے کے بعد انسان یہاں سے رخصت ہو جاتا ہے، مگر اس کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ یوں تو جناب غوری صاحب رحمہ اللہ کی بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے، مگر میں اس وقت ان کی صرف دو خوبیوں کا ذکر کروں گا:
۱۔ دین کی سر بلندی کا جذبہ
۲۔ آخرت کی حقیقی فکر
جناب غوری صاحب سے میری پہلی ملاقات تقریباً چودہ سال قبل جناب انیس مفتی صاحب کے گھر دوپہر کے کھانے پر ہوئی۔ اس پہلی ملاقات میں ان کی شفقت بھری گفتگومجھے ہمیشہ یاد رہی۔ کھانے کے دوران مفتی صاحب نے ان کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ غوری صاحب نے بائیبل پر تحقیق کو اپنا مشن بنایا ہے اور وہ شب و روز پوری تن دہی سے اپنے اس مشن پر عمل پیرا ہیں۔میں نے اگلے چودہ سالوں میں ان کو ہمیشہ اس مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں پایا۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی تحقیق مکمل کر کے دو نام ور کتب ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ اور ’’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael‘‘ عالم اسلام کی خدمت میں پیش کیں اور ان کتب کے تراجم بھی مہیا کیے۔
میں نے آخر وقت تک ان کو اپنے اس مشن سے پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنے شب و روز اپنے تحقیق کے کاموں کو مکمل کرنے، اس کی اشاعت، اس کی تشہیراور اس کو تمام دنیا تک پہنچانے میں صرف کیے اور اس سب کے پیچھے خالصتاً دین کی سر بلندی کا جذبہ کار فرما تھا۔ دین کی سر بلندی کا یہ جذبہ آخر وقت تک ان کے دل و دماغ پر غالب رہا۔
فکر آخرت ان کی دوسری خوبی ہے جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ یو ں تو اوپر بیان کردہ خوبی بھی اس بات کی مظہر ہے کہ جناب غوری صاحب اپنی آخرت کے لیے کس قدر فکر مند تھے، لیکن میں آپ کی خدمت میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے شب و روزاس حقیقت کو بیان کرتے تھے کہ فکر آخرت ان کے جسم و جاں کا حصہ تھی۔
مجھے اکثر ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا موقع ملا اور ان کے ساتھ گپ شپ اور ان کی گفتگوئیں سننے کا موقع ملا۔ یوں تو ہم خاکی ہمیشہ گناہوں سے اٹے رہتے ہیں، مگر جب کبھی بھی جناب غوری صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے گناہوں اور لغزشوں کا ذکر آتاتو وہ ایک سچے مومن کی طرح زار و قطار رو نے لگتے اور اللہ سے معا فی کے طلب گار ہوتے۔ غوری صاحب تواصی بالحق اور تواصی با لصبر کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ نما ز کے بعد یا گپ شپ کے دوران وہ اصلاح و دعوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور ہر وقت اپنے ارد گرد، اپنے دوست احباب کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتے اور اس کا مقصد اپنی آخرت کو سنوارنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ ان کوششوں سے اپنی آخرت کو ہمیشہ دنیاوی زندگی پر مقدم رکھتے۔
میں اس حقیقت سے با خبر ہوں کہ ہمارے بزرگ و محترم جناب غوری صاحب ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور وہ ہمیں اپنی زندگی سے یہ سبق دے کر گئے ہیں کہ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم دین کی سر بلندی کو اپنا مشن بنائیں اورفکر آخرت کو اپنے نس نس میں سمائیں۔
—— محمد راشد
(سابق رکن شعبۂ آڈیو /ویڈیو، المورد)
________
جناب غوری صاحب نہایت رحم دل،زندہ دل اور ہمارے لیے ایک دوست اور بزرگ کی طرح تھے۔ ان کا نورانی اور باریش چہرہ دیکھ کر یہی محسوس ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ولی اور اس کے بہت قریب ہیں۔ ان کی وفات کی وجہ سے نہ صرف احسان صاحب وغیرہ، بلکہ میں بھی اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتا ہوں۔ مجھے جتنا صدمہ غوری صاحب کی وفات سے ہوا ہے، اتنا میں نے اپنے والد صاحب کی وفات پر بھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ ہماری ہر خوشی میں پیش پیش ہوتے تھے۔
ان کو میں اپنے باپ کی طرح سمجھتا تھا اور وہ ہمیں اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے ، ایک باپ ہی کی حیثیت سے ان کا رعب اور ڈر ہوتا تھا اور اسی حیثیت سے کبھی ان کی حکم عدولی بھی نہیں کی۔ میری کاروباری ترقی اور گھر کے سکون و اطمینان میں بھی ان کا دست شفقت تھا۔ اس حوالے سے وہ ہمیشہ دعا کرتے اور ان کی یہ دعائیں رنگ لائیں۔ وہ نم آنکھوں سے دعا کرتے تو اس سے ہماری آنکھیں بھی نم ہو جاتیں۔ اب ان کے جانے کے ساتھ ہی وہ دعائیں بھی رخصت ہو گئیں۔ ہمارے ذاتی اور گھریلو معاملات میں ان کا مشورہ شامل ہوتا تھا اور وہ اس کے حل کے لیے بہت کوشاں رہتے۔
آخری ملاقات ان کی ذاتی لائبریری میں ہوئی، تو انھوں نے چاروں طرف نظر کرتے ہوئے کہا کہ میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’تمھارا ہاتھ ہمیشہ دینے والا ہی بنے، نہ کہ لینے والا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین
—— محمد ارشد اکبر
(عزیز جناب عبدالستار غوری صاحب، کلاسک فوٹو کاپی)
تدوین: شاہدرضا
____________