’’بائیبل کے ریسرچ اسکالر؟‘‘
محترم عبدالستار غوری کا تعارف سنتے ہی خوش گوار حیرت ہوئی۔
ان کے زیرتحقیق موضوع ہے:
’’بائبل میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پیشین گوئیاں‘‘
یہ سنا توملاقات کی خواہش نے شدت اختیار کر لی۔ تمنا پوری ہوئی توخوش گوار حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔اتنے بڑے عالمی سطح کے اسکالر ،مگر تصنع سے بالکل پاک۔کم علموں کو مرعوب کرنے کے خبط سے پوری طرح آزاد۔علمی تکبر کا نا م ونشاں نہیں۔آواز نرم ،لہجہ دھیما،لباس سادہ۔ان کے مخصوص علم اور موضوعات کے ساتھ ساتھ شخصیت نے بھی متاثر کیا ۔علم و اخلاق کا متاثر کن امتزاج۔
پھر وقتاًفوقتاً ملاقاتوں کا سلسلہ قائم رہا۔ان سے سیکھتے رہے۔ان کی باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان میں اضافہ ہوتا۔جس شخص نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ پڑھ رکھا ہو کہ آپ کا چہرہ طلوع ہوتے ہوئے سورج کی مانند تھا ،یعنی سرخ وسفید تھا ۔آپ کے بال روشن اور سیاہ تھے۔ان میں ہلکاسا گھونگر تھا۔دنیا سے رخصت ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراور ڈاڑھی، دونوں میں بیس سے زیادہ سفید بال نہ تھے۔اس کے بعد جب غوری صاحب بائیبل میں درج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل بیان کریں کہ میرا محبوب سرخ وسفیدہے ۔وہ دس ہزا ر میں ممتاز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں،ان میں ہلکا سا گھونگر ہے اور وہ ملک عرب کا باشندہ ہے۔اس کا اطلاق حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کسی طرح ممکن نہیں،کیونکہ بائیبل کی کتاب ’’مکاشفہ‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ ’’اس کا سر اور بال سفید، بلکہ برف کی مانند سفید تھے۔‘‘ تو ایمان میں اضافہ کیوں نہ ہو۔
افسوس! ملائیت کے پھیلائے ہوئے تعصب نے مسلمانو ں کو بائیبل کی روشنی سے دور کر رکھا ہے۔ تورات و انجیل، جن کا ذکر قرآن مجید میں—- جنھیں ماننا ایمان کا تقاضا—- مسلمان دنیا جہاں کی کتابیں پڑھتے ہیں، مگر تورات و انجیل نہیں۔کاش، اہل تقلیدو جمود غوری صاحب کا کام دیکھیں توانھیں معلوم ہو کہ یہ آسمانی کتابیں بھی کیسے اہل زمیں کو بلند کرتی ہیں۔
حقیقت میں تُرک، مگر برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے بانی کے طور پر شہرت پانے والے ظہیر الدین بابر نے اپنی تُرک زبان میں لکھی ہوئی کتاب’’تزک بابری‘‘ میں بر صغیر پاک وہند کی معاشرہ پیمائی کی ۔لکھتے ہیں: ’’یہاں کے لوگ ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندو ز ہوتے ہیں اور نہ دوستی اور اختلاط سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ان کے خاندان بھی آپس میں گھل مل کر نہیں بیٹھ سکتے ۔یعنی ان میں معاشرتی لطف اندوزی نہیں ہے۔‘‘
بابر کی یہ راے ہمارے سامنے ہو اور ا س کے بعد اہل علم وتحقیق کامشاہدہ کیا جائے تو وہ مزیدآدم بے زار دکھائی دیتے ہیں۔شاید ان کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے بجاے کتابوں کی ہم نشینی سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر غوری صاحب ایک بڑے صاحب علم و تحقیق ہونے کے باجود اپنے اندرمعاشرتی لطف اندوزی کا قابل ذکر وصف رکھتے تھے۔وہ چھوٹے چھوٹے بہانوں سے احباب، بلکہ دفتر کے تمام کارکنوں کے لیے کھانے کی دعوت کا اہتما م کرتے رہتے تھے۔یوں وہ خشک علمی ماحول میں معاشرتی رنگ بھرتے رہتے تھے۔یہ بجا طور پر ایک پیغمبرانہ وصف تھاجوعلمی لوگوں میں کم کم ہوتا ہے۔
آہ !غوری صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔ان کی باتیں ہیں ،یادیں ہیں اور ان کے غیر معمولی علمی کام۔ وہ ہمیں چھوڑ کر رفیق اعلیٰ کی رفاقت حاصل کرچکے ۔قوی امید ہے کہ رفیق اعلیٰ نے دنیا میں لوگوں کومعاشرتی لطف اندوزی مہیا کرنے والے کو برزخی لطف اندوزی مہیا کر رکھی ہوگی۔
—— محمد بلال
(سابق نائب مدیر، ماہنامہ اشراق)
________
کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی صاحب علم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا علم کردار میں ڈھل جاتا ہے۔ علم وتحقیق کی صلاحیت ہو یا عبادت و ریاضت کا ذوق ، اگر یہ صلاحیتیں انسان کے نفس کا تزکیہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی درجے میں اچھا محقق بن جائے یا ’’صاحب کشف وکرامات ‘‘ ہو جائے، لیکن وہ قرآن کا مقصود انسان بہر حال قرار نہ پا سکے گا۔ اس پہلو سے جب ہم مرحوم عبدالستار غوری کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ صاحب کردار محقق اور درد دل رکھنے والے بزرگ تھے۔ بائیبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موجود پیشین گوئیوں کو اپنی تحقیق کا محور بنانے والے ان بزرگ کے دنیا سے چلے جانے کی خبر پر دل و دماغ پر جو پہلا اثر ہوا، وہ یہی تھا کہ عظمت کر دار کے لحاظ سے قحط الرجال کا شکار یہ معاشرہ کچھ اور تہی دامن ہو گیا ہے۔
ان سے تعلق کی نوعیت ایک بہت سینئرکولیگ کی بھی رہی اور ہمدرد بزرگ کی بھی۔ جن علمی مجالس میں انھوں نے اپنی تحقیق کے نکات پیش کیے ، ان میں بھی شرکت کا موقع ملا، لیکن ان سے جو تعلق بن پایا، وہ ایک مشفق بزرگ ہی کا تھا۔ وہ تعلق کو صرف علمی گفتگو تک ہی محدود رکھنے کے قائل نہ تھے، بلکہ بڑے غیر محسوس طریقے سے بے تکلفی پیدا کر لیتے اور جہاں کہیں انھیں دوسرے کی مدد کا موقع نظر آتا، وہ خود آگے بڑھ کر مدد فرماتے ۔ ۲۰۰۲ ء میں جب انھیں علم ہوا کہ مجھے ماہنامہ ’’آنکھ مچولی‘‘ کے پراجیکٹ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اچھا خاصا مقروض ہو چکا ہوں تو انھوں نے خود مجھ سے رابطہ کیا ۔ بچوں کی کردار سازی پر کام کرنے والی ایک این جی او سے میرا تعارف کرایا اور بعض نصابی کتب مرتب کرنے کا کام دلوایا۔ اس سے میرے اوپر واجب الادا کئی قرض ادا ہو گئے۔ اس موقع پر مجھے معلوم ہوا کہ ان کا یہ رویہ مجھ تک ہی محدود نہیں، بلکہ ادارے کے ضرورت مند ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ بطور خاص ان کی پہچان ہے اور وہ مدد کرتے وقت اس بات کا بہت خیال رکھتے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔ ان کا طرۂ امتیاز ان کا سادہ رہن سہن تھا۔ ان کے لباس ، رہایش ، طعام اور عادات ، سب میں ایک پر وقار سادگی تھی۔ اس لحاظ سے، بلا شبہ وہ ہمارے اسلاف کی علمی روایت کے تسلسل کی زندہ مثال تھے۔چنانچہ وہ چند احباب ان کی تنقید کی زد میں رہتے جو ان کومعیار زندگی بلند کرنے کے چکر میں خواہ مخواہ خجل خراب ہوتے نظر آتے۔
وہ اکثر اوقات ’’المورد‘‘ میں اپنے کمرے ہی میں رہتے۔ ان کے لیے اپنا علمی کام کرنا کوئی ڈیوٹی کا معاملہ نہ تھا، بلکہ ’’المورد‘‘ ہی ان کا گھر اور یہی ان کی ساری سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ اس کی وجہ یقیناً یہی تھی کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اپنے تحقیقی پراجیکٹ کو اپنے متعین کردہ معیار پر جلد از جلد پورا کرنا تھا۔ وطن عزیز پاکستا ن پر جب دہشت گردی کا عذاب مسلط ہوا اور ادارے کو عملی طور پر اپنی سرگرمیوں کو بہت محدود کرنا پڑا تو ان کے معمولات زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئے ۔ اس دوران میں ، میراجب بھی ’’المورد‘‘ جانا ہوا ، وہ مجھے وہیں نظر آئے ۔
بے رونق ’’المورد‘‘ کو دیکھ کر جی ہمیشہ بری طرح کڑھتا۔ سوچتا یہ وہ وہی مادرعلمی ہے جس کے ساتھ ہم نے بڑے بڑے خواب وابستہ کیے تھے، جس کے ساتھ منسلک ہو نے کے مقابلے میں خوش حال کیرئیر کی فکر کو ایمان کی کمزوری سمجھا تھا۔ جہاں استاد محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں ، جہاں رفیع مفتی، طالب محسن ،ساجدحمید،شہزاد سلیم، منظورالحسن، خالد ظہیر ، سمیع مفتی ، ڈاکٹر منیر ، معز امجد،محمد بلال اور بعد میں آنے والے دیگر رفقاے کار د ل و دماغ کی تازگی کا سبب تھے۔ اب جب وہاں جانا ہوتا تو پرانے لوگوں میں محمد اشرف،محمد حفیظ، عظیم ایوب، محمد فاروق، نعیم احمد، عمران خان اور دیگر احباب اپنے اپنے دائرۂ کار میں اب بھی خدمت کے لیے ہر دم تیار نظر آتے۔ لیکن صاحب علم لوگوں میں صرف عبدالستار غوری ہی نظر آتے ۔ان کی وفات کی خبر سنی تو دل واقعی کٹ کر رہ گیا۔ خیال ہوا کہ اب واقعی ’’المورد‘‘ میں علمی کتابیں ہی بچی ہیں۔ اپنے معاشرے کی اخلاقی اور علمی زبوں حالی کا احساس مزید گہرا ہو گیا اور ان کے سا نحۂ ارتحال کا صدمہ تو اس وقت مزید سوا ہو گیا جب ان کے جنازے میں بہت کم دوستوں سے ملاقات ہوئی۔
سوچتا ہوں کہ کاش! کم از کم اتنا ہی انتظام ہو جائے کہ کمپیوٹر سے ماورا ہو کر ہم سب دوست، احباب کے مرنے جینے اور شادی بیاہ پر ہی اہتمام سے اکٹھے ہو جایا کریں ۔ اگر کمپیوٹر ہی ہر مرض کی دوا ٹھہری تو کم از کم مجھے تو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی جنت بھی کمپیوٹرہی کا کوئی چکر نہ ہو!
—— نعیم احمد بلوچ
(سابق رکن مجلس ادارت، ماہنامہ اشراق)
________
یہ غالباً ۱۹۹۶ء کی بات ہے ، ہمیں معلوم ہوا کہ ’’المورد‘‘ میں ایک نئے اسکالر تشریف لا رہے ہیں ، ان کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے بائیبل کا بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو پیشین گوئیاں اس میں بیان ہوئی ہیں، ان کے حوالے سے وہ کوئی تصنیف لکھ رہے ہیں۔ قرآن مجید کا طالب علم ہونے کے ناتے میں اس بات کو جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے حوالے سے کئی اشارات ہیں، لیکن یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ ہمارے ہی ایک ساتھی اس پر ایک وقیع علمی کام کرنے والے ہیں۔
غوری صاحب سے جب ملاقات ہوئی، وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی حد تک بڑھاپے کی عمر میں تھے، لیکن کون جانتا تھا کہ اللہ ان کو کم وبیش اسی (۸۰) سال کی عمر سے نوازے گا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے کبھی وقت ضائع نہیں کیا، جب بھی ان کو دیکھا تو کچھ پڑھتے ہوئے یا کچھ لکھتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس کے علاوہ ان کی ایک بات جو مجھے بے حد پسند تھی، وہ ان کا ذوق عبادت تھا۔ اس قدر انہماک سے نماز پڑھتے، گویا کہ اس حدیث پر عمل کر رہے ہیں،جب تم نماز پڑھو تو ایسے پڑھو جیسے تم زندگی کی آخری نماز پڑھ رہے ہو۔ میں نے نماز میں اتنا انہماک بہت کم دیکھا ہے۔ غوری صاحب جتنا بھی ضروری کام کر رہے ہوں، نماز اور جماعت کے معاملے میں انھیں کبھی سستی کرتے نہیں دیکھا۔
غوری صاحب نے جب یہ دیکھا کہ کتاب کا مصنف کمپیوٹر پر اپنی کتاب خود ہی کمپوز کر سکتا ہے اور اسے ہاتھ سے لکھ کر ٹائپسٹ سے ٹائپ کروا کے پروف ریڈنگ کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں، تو انھوں نے اُس عمر میں کمپیو ٹر پر کام کرنا اور ریسرچ کرنا سیکھا، جبکہ لوگ بالعموم اس طرح کی مشقت میں اپنے آپ کو ڈالنا پسند نہیں کرتے ۔ انھوں نے ٹائپنگ سیکھی، کتاب کی کمپوزنگ کے متعلق دیگر ضروری معلومات سیکھیں اور ہمیشہ اپنی کتابوں کو بہترین فارمیٹ میں تیار کر کے پرنٹ کرایا۔
جب سے ہم نے غوری صاحب کو دیکھا، وہ عمر رسیدہ ہونے کے باعث یا بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث اپنے علاج معالجے کے بارے میں فکر مند رہے،دل کی بیماری جو بالآخر ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی، اس کا وہ مردانہ وار مقابلہ ساری عمر کرتے رہے، دو دہائیوں سے تو انھیں اس معرکۂ مرض وعلاج میں کامیاب ہوتے ہوئے ہم خود دیکھ رہے ہیں۔ وہ بڑی ذمہ داری سے دوا کھاتے اور کسی قسم کی بدپرہیزی نہ کرتے اور بیماری کو اپنے سے دور ہی روکے رکھتے تھے۔
غوری صاحب کبھی کبھار اپنے بچپن کے واقعات بھی سنایا کرتے تھے کہ کیسے وہ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور غالباً جھنگ میں ان کے والد آکر قیام پذیر ہوئے۔ وہیں غوری صاحب کی اسکول کی تعلیم مکمل ہوئی، بتاتے ہیں کہ اس وقت غربت کا یہ عالم تھا کہ پاؤں میں پہننے کے لیے جوتا بھی میسر نہ تھا، گرمیوں کی کڑکتی دھوپ میں اسکول سے واپس آتے ہوئے پاؤں تپش سے جل رہے ہوتے تھے اور وہ سڑک پر اپنے لیے چھاؤں تلاش کرتے، پھر اس چھاؤں میں کھڑے ہو کر دیکھتے کہ اگلا درخت یا چھاؤں کی کوئی چیز کہاں ہے ،پھر ننگے پاؤں بھاگ کر اس تک پہنچ جاتے اور اگلا سایہ تلاش کرتے۔
غوری صاحب کی خواہش تھی کہ میں اپنے پیچھے کوئی اپنا علمی وارث چھوڑ جاؤں جو تقابل ادیان کے حوالے سے میرے افکار کو آگے لے کر چلے۔ جب ان کا بیٹا ڈاکٹر احسان غوری علمی میدان میں داخل ہوا اور اس نے ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی میں انھی کی علمی لائن کو اختیار کیا تو یہ بات ان کے لیے بے حد اطمینان کا باعث بنی۔
محترم غوری صاحب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اتفاق اس وقت ہوا، جب اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ پرایک کتاب جو سید سلیمان سلمان منصور پوری صاحب کی تالیف تھی، اس کے انگریزی ترجمے کے سلسلے میں مؤلف کے نواسے قاضی معز الدین نے غوری صاحب سے رابطہ کیا۔ وہ اس کتاب کا کہیں سے ترجمہ کرا کے لائے تھے جوبہت سادہ اور سطحی زبان میں لکھا ہوا تھا ۔ قاضی صاحب کی خواہش تھی غوری صاحب اس کی زبان میں اصلاح کر دیں، غوری صاحب کا کہنا تھا: اس ترجمہ میں اتنی کمیاں اور غلطیاں ہیں کہ اس کی اصلاح سے بہتر ہے انسان خود کتاب کا نیا ترجمہ کرلے ۔ پھر ہفتوں، بلکہ مہینوں اس پر کام کرتے رہے اور اسے بہترین شکل میں طباعت کے لیے تیار کیا، اس دوران غوری صاحب نے میری یہ ذمہ داری لگائی کہ کتاب میں مذکور جتنی احادیث ہیں، ان کے اصل متن تلاش کرکے حوالے کے ساتھ شامل کروں ۔ اللہ کا شکر ہے، میں اس بھاری ذمہ داری سے بخوبی عہدہ برآ ہو گیا۔
جب ہم علم رجال کی کتابیں پڑھتے ہیں تو علمی خدمت کرنے والے بڑے لوگوں کے حوالے سے وہاں ایک جملہ اکثر لکھا ہوا ملتا ہے کہ وہ صاحب اپنے بعد ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے پُر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ میں جب بھی غوری صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ان کے بارے میں بالکل یہی احساس ہوتا ہے کہ کوئی بھی ان کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔
جب ان کے جنازے کے لیے گئے ا ور ان کی میت کو دیکھنے کا موقع ملا، کیا اطمینان کی نیند سورہے تھے۔ا ن کو دیکھنے والے کو یہی احساس ہورہا تھا کہ اے نفس مطمئنہ، اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حال میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے۔
أللّٰہم اغفر لہ وارحمہ وأدخلہ فسیح جناتک. أللّٰہم لا تحرمنا أجرہ، ولا تفتنا بعدہ، واجعل الجنۃ دار قرارہ۔
—— محمد سمیع مفتی
(سابق استاد، المورد)
________
ذرہ ذرہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے
پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
اس کائنات کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں: ایک حیوانی اور دوسرا انسانی۔ کان اور آنکھیں تو حیوانات کے پاس بھی ہیں، لیکن ان کے کان انھیں سمیع نہیں بناتے اور ان کی آنکھیں انھیں بصیر نہیں بناتیں۔ دوربینیں اور خوردبینیں جو فائدہ انسان کو دیتی ہیں، وہی فائدہ حیوانات کو بھی دیتی ہیں۔ انھیں بھی دور کی چیزیں قریب اور چھوٹی چیزیں بڑی نظر آتی ہیں۔ بے شک، مختلف آلات کی ایجاد نے انسانی حواس کی قوتوں کو بہت بڑھا دیا ہے، لیکن افسوس کہ بصارت کے بڑھنے سے بصیرت کی نفی ہوئی اور سماعت کی ترقی سے سمعیت کی نفی ہوئی۔
ہمارے دوستوں، احباب، رشتہ داروں، اساتذہ اور دوسرے متعلقین کی وفات ہمارے لیے خدا کے ان تازیانوں میں سے ہے، جو ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرتے، حق اور حقیقت کی طرف متوجہ کرتے، زندگی کو کھیل کود سے ہٹاتے، ذمہ داریوں کا احساس دلاتے اور سنجیدہ رویوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ تب انسان کی آنکھ اس کے اپنے وجود میں چھپے ہوئے حقائق کو بھی دیکھتی اور کائنات کی دکھائی دینے والی چیزوں کے پیچھے چھپی ہوئی سچائیوں کو بھی دیکھنے لگتی ہے۔ تب اس کے کان زبان سے بولے گئے لفظوں ہی کو نہیں،بلکہ دل سے اٹھتی ہوئی صداؤں کو بھی سننے لگتے ہیں۔
جناب عبدالستار غوری مرحوم نے اگست ۱۹۹۶ء میں ’’المودر‘‘ کی ملازمت اختیار کی تھی۔ اس طرح ہماری اور ان کی رفاقت تقریباً ۱۵ برس کی رہی ہے۔ اس سارے عرصے میں ہم نے انھیں ایک بہت ہی شفیق دوست، ہمدرد اور اپنے سبھی ساتھیوں کا خیر خواہ پایا۔ ’’المورد‘‘ کے دفتری اوقات میں تقریباً ۱۱ بجے چائے کا وقفہ ہوا کرتا تھا، غوری صاحب کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ سارے ساتھی ان کے کمرے میں آ کر ان کے ساتھ چائے پئیں اور اس کے لیے وہ اپنی طرف سے کچھ اضافی اہتمام بھی کیا کرتے تھے۔ پھر وہاں علمی گفتگوئیں بھی ہوتیں اور اپنی اپنی مشکلات اور الجھنیں بھی زیربحث آتیں۔ ہر ایک کے ساتھ محبت ہر ایک کو welcome کرنا، یہ ان کا شیوہ تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ہماری family میں ایک وفات ہوئی تھی تو ہم نے نصیحت کی عمومی گفتگو اور دعاے مغفرت کے لیے انھیں بلایا تھا۔ وہ نصیحت کی گفتگو اور دعائیں بہت درد مندی اور بڑی محبت سے کیا کرتے تھے۔ اس مجلس میں ہم نے ان کی شخصیت کے اسی پہلو کو بہت نمایاں دیکھا۔ وہاں انھوں نے جس احساس اور جس رقت کے ساتھ دعاے مغفرت کی، وہ بتا رہا تھا کہ وہ خدا پر کیسا یقین ، اس کے ساتھ کیسا گہرا تعلق رکھتے اور انسانوں کے ساتھ کیسی محبت اور کتنی شفقت رکھتے ہیں۔
انھوں نے اپنے لیے جس علمی کام کا انتخاب کیا تھا، وہ مذہب کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ وہ یہود و نصاریٰ پر امین و صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی ظاہر کریں، چنانچہ اس کے لیے انھوں نے سابقہ کتب سماوی میں موجود پیش گوئیوں پر کام کیا، ان کے استدلال کو واضح کیا اور اس حوالے سے جو باطل تصورات موجود تھے، انھیں رد کیا۔ یہ ان کا زندگی بھر کا مشن تھااور اسی میں انھوں نے اپنی عمر عزیز بسر کی۔ امید ہے کہ اب وہ اسی کی محفل میں بیٹھے ہوں گے جس کی وکالت کرتے کرتے وہ دنیا سے چلے گئے۔
ہماری دعا ہے کہ خدا ان کی مغفرت کرے۔ بے شک، وہ خدا کے پسندیدہ کام میں جیے اور اسی کام میں انھوں نے وفات پائی۔
—— محمد رفیع مفتی
(فیلو، المورد)
________
’’المورد‘‘ کے حلقۂ علما کے پہلے عالم رخصت ہوئے ، ’’بے شک ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔‘‘
علامہ عبدالستار غوری صاحب سے میرے تعلق کی سرحد ایک ملاقات سے زیادہ طویل نہیں—- ان کے کام سے تعارف تو پہلے سے تھا، لیکن ’’المورد‘‘ لاہور کی عمارت میں جب انھیں پہلی بار دیکھا تو ان کے اندر بہت دور تک دکھائی دیتا تھا، مجسم بزرگ اور خالص انسان—- ۔
خالص انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے شفاف ہوتا ہے، اس کی فطرت اس چشم صافی کے مانند ہوتی ہے جس کا ہرہر قطرۂ آب منزہ و چمک دار اور اس کا خارج باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کے دامن میں کسی غلطی کا داغ نہیں آ سکتا، لیکن وہ داغ وجود کا حصہ بن کر گم ہوجائے، فطرت کی تابندہ ردا اس امکان کوزیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکتی۔
غوری صاحب کے درون تک رسائی میں کوئی چیز مزاحم نہ تھی۔ وہ لاریب، بزرگی اوراخلاص کا استعار ہ تھے۔ الہامی صحائف ان کی علمی تحقیق کا موضوع بنے۔ اسی حوالے سے میں نے کچھ طالب علمانہ سوالات ان کے سامنے رکھے اور اس روایت پر ان کی راے جاننا چاہی جس میں حضور نے سیدنا عمر کے ہاتھ میں تورات کا ٹکڑا دیکھ کر ناگواری کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے اور اس کی کوئی توجیہہ بھی نہیں ہوسکتی، کیونکہ جس کتاب کے بارے میں قرآن حکیم میں کہا گیا ہو: ’فِیْہِ ھُدًی وَّ نُوْرٌ‘، تو کیسے مانا جا سکتا ہے کہ اس کو پڑھنے پر ناگواری کا احساس ہو، جبکہ اس کے بر عکس خود حضور سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے عبداللہ بن سلام کو تورات پڑھنے کی اجازت دی اور کہا: ’إقرأ ھذا لیلۃ وھذا لیلۃ‘۔ اسی طرح عبداللہ بن عمر کے تورات سے تعلق کو بیان کیا۔ وہ بتانے لگے کہ مسلمانوں کے علمی ٹریڈیشن میں اس کے مطالعے کی تاریخ رہی ہے۔ ابن سعدکے حوالے سے کہا: ایک مشہور تابعی بزرگ ابوالجلاالجونی تو ہفتے میں قرآن کے ساتھ تورات کا بھی ختم کیا کرتے تھے ،لیکن آج کل دین کے طالب علم اس لٹریچر کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے جس کو بطور دلیل خود قرآن نے پیش کیا ہے۔ یہود کے حوالے سے یہ کہ سیدنا عزیر کو وہ تو خدا کا بیٹا نہیں کہتے، جبکہ قرآن نے یہ بات یہود کے حوالے سے کہی ہے، تو ان کا کہناتھا کہ مدینے میں آباد یہودی بہت عرصے پہلے بنی اسرائیل سے الگ ہوگئے تھے، یہ ٹھیک ہے کہ بنی اسرائیل میں اصلاً یہ عقیدہ نہیں تھا، لیکن مدینے میں آباد یہودی قبائل ہی کا یہ عقیدہ تھا ،اور قرآن نے انھی کو مخاطب کیا ہے۔
غوری صاحب نے اس تحقیق کے علمی پہلو بھی واضح کیے کہ بائیبل میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے جو پیشین گوئی بیان ہوئی ہے، اس کا مصداق سیدنا مسیح نہیں، بلکہ یہ پیشین گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوش خبری ہے، اور ان کی یہ تحقیق اہل کتاب سے دعوت کا عنوان بن سکتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ وہ ایک بلند پایہ محقق تھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے اس کام کے طفیل، انھیں بھی جنت کی خوش خبری سنا دے۔ آمین۔
—— محمد حسن الیاس
(اسسٹنٹ فیلو، المورد)
________
جب سے استاذ عبدالستار غوری کی وفات کا سنا ہے، میرے کانوں میں ’ شاہ پاکستان ‘ اور ’ شاہ اسلام‘ کے الفاظ گونج رہے ہیں اور افسوس ہو رہا ہے کہ اب یہ الفاظ اس پیار کے ساتھ سننے کو پھر نہ ملیں گے ۔ غوری صاحب کا یہ پیار تھا کہ جب بھی وہ مجھے دیکھتے تو والہانہ اندا ز میں ’’شاہ پاکستان‘‘ اور ’’شاہ اسلام‘‘ کہہ کر مصافحہ کرتے، حالاں کہ وہ اگر ہمارا سلام ہی قبول کر لیا کرتے تو یہ بھی بہت تھا۔
غوری صاحب سے تعارف تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا،وہ ’’المورد‘‘ میں ہم سے جونیر کلاس کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے، لیکن بعد کے سالوں میں وہ مجھے چھوٹے بھائی سا’پروٹوکول‘ دینے لگے اور جب میں نے ماہنامہ ’’سوئے حرم‘‘ کا آغاز کیا تو انھوں نے نہ صرف اس کو بہت سراہا، بلکہ باقاعدہ اس کا مطالعہ بھی کرتے اور بعض اوقات اس کی بہتری کے لیے تجاویز بھی ارشاد فرماتے۔
غوری صاحب کی ز ندگی ایک بامقصد زندگی کی بہترین مثال ہے۔ ان کے ماضی سے تو میں آگاہ نہیں، لیکن جو دس بارہ برس ان سے تعلق ر ہا، اس کے بارے میں، میں یقیناًگواہ ہوں کہ انھوں نے اپنا سارا وقت اور ساری صلاحیتیں بائیبل اور مسیحیت کی تحقیق پر صرف کر رکھی تھیں۔ ان سے قبل میرا مسیحیت کے بارے میں علم رانا محمد اسلم مرحوم کی روایات پر ہی موقوف تھا۔ رانا صاحب نے بھی رد مسیحیت اور تحقیق بائیبل کو اپنی زندگی کا مقصدبنا رکھا تھا اور باوجود اپنی مفلوک الحالی کے دن رات اس میں مگن رہتے تھے ۔ باقاعدگی سے اپنا رسالہ ’’المذاہب‘‘ ہمیں عطا فرماتے اور شاہدرہ سے جب بھی مال روڈ کی طرف آتے تو سٹیٹ بنک میں ہم سے ملے بغیر نہ جاتے ۔لیکن غوری صاحب سے ملنے کے بعد رانا مرحوم کی تحقیقات بہت پیچھے نظر آنے لگیں۔
باوجود علمی مصروفیات اور لگن کے غور ی صاحب اُس علمی زعم اور عُجب سے بالکل پاک تھے جس میں اکثر علما مبتلا نظر آتے ہیں ۔سادگی او رشگفتگی ان کے مزاج کا حصہ تھی، اس لیے مجھ سے ’چھوٹے‘ بھی ان سے بلا جھجک مل لیا کرتے تھے اور وہ بھی کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ان کی زندگی تصنع او ربناوٹ سے بھی پاک تھی۔ صاف محسو س ہوتا تھا کہ ان کا ظاہر او رباطن ایک ہے اور یہ خوبی شاید ہزار علمی خوبیوں پہ بھاری ہے۔
غوری صاحب کے نماز پڑھانے کا انداز بہت خوب صورت تھا۔ ’’المورد‘‘ میں بہت سی نمازیں ان کی امامت میں پڑھنے کا موقع ملا۔ میں ان کا مقتدی بن کر کوئی جناز ہ تو نہ پڑھ سکا، لیکن ایک دوست کہا کرتے تھے کہ اگر اُن کاانتقال ہو جائے تو جنازہ غوری صاحب پڑھائیں، کیونکہ وہ بہت اہتمام اور خشوع سے جنازے کی نماز پڑھاتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اللہ کریم نے ان پر بڑا کرم فرمایا کہ وہ جو تحقیق یا کام کرنا چاہ رہے تھے، اسے اپنی زندگی ہی میں بہت حد تک پایۂ تکمیل تک پہنچا گئے۔ باقی کام امید ہے کہ ان کا صاحب زاد ہ مکمل کر لے گا۔ اور جس طرح زندگی میں اللہ کا ان پر کرم رہا، امید ہے کہ آخرت میں بھی ان پر اس سے بھی بڑھ کر کرم ہوا ہو گا،اور یقیناًفرشتوں نے ان کی روح کو ’ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کہہ کر رب کے حضور پیش کیا ہو گا۔ اللہ ان کے درجات کو مزید بلند فرمائے اور ان خطاؤں سے درگذر فرمائے ۔ آمین۔
وہ مسلکاً اہل حدیث، لیکن مشرباً صوفی تھے اور یہا ں صوفی سے میری مراد تعصب اور نفرت سے پاک ہونااور دوسروں کی بھلائی پیش نظر رکھنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے منتشر عالم اسلام کو تصوف کے عقائد تو نہیں، البتہ تصوف کی بعض معاشرتی اور اخلاقی روایات اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ایک فلسطینی دوست کہا کرتے ہیں کہ آج کے عالم اسلام میں حنفی ، شافعی ، مالکی وغیر ہ سے آگے بڑھ کر سلفی (جہادی) ، تبلیغی اور صوفی کی واضح تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے ۔ مجھے ان کی بات سے بہت حد تک اتفاق ہے، لیکن میری خواہش ہے کہ عالم اسلام میں اگر یہ تقسیم ہونا مستقبل میں مقدر ہے تو پھر صوفیت کا پلہ بھاری رہے، لیکن کون سے صوفی؟ وہ جو غوری صاحب جیسے ہوں اور یا پھر شہزاد سلیم سے ۔ایک پتلون میں اور ایک لمبی ڈاڑھی اور اپنے روایتی رومال میں۔ کہ ’پتلون‘ اور ’رومال‘ کا یہ ملاپ اور محبت ہی ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔
—— محمد صدیق بخاری
(مدیر، ماہنامہ سوئے حرم)
____________