احسان الرحمن غوریo
کسی بڑے انسان کے پاس جانے کے لیے وقت مانگا جاتا ہے۔ اللہ سے ملنے کے لیے بھی ابو نے ۲۰۱۴ء کا وقت مانگ لیا تھا۔ اور اللہ نے انھیں اپنی ملاقات کے لیے ۲۲ ؍اپریل ۴۰ :۳ کا وقت دیا۔ ’’میں نے اپنے اللہ سے کہہ دیا ہے کہ ۲۰۱۴ء میرا آخری سال ہو‘‘، ابو کے یہ الفاظ اور کہنے کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ یہ محض الفاظ نہیں جو ہوا میں تحلیل ہو کر اپنا اثر کھو دیں گے۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھاکہ اللہ نے میرے ابو کی اس معصومانہ دعائیہ خواہش کو شرف قبولیت بخش دیا تھا۔ صبح ۳۰: ۶ پر انھیں دل کا دورہ پڑا۔ جناح ہسپتال ایمرجنسی میں ایک دن بے ہوشی کی حالت میں گزارا اور صبح فجر کی اذان سے کچھ پہلے ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ گئے۔
دو تین ماہ پہلے جب ابو نے یہ الفاظ کہے، تب مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے ابو کی اس معصوم خواہش کو بھی پورا کر دے گا اور وہی ہوا۔ ۲۲ ؍اپریل ۲۰۱۴ء کی صبح ۴۰:۳ کا وقت اللہ نے میرے ابو کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مقرر کر دیا۔ ۲۱ ؍ اپریل کی رات درد اور بے چینی کے دوران کلمۂ طیبہ اور درود شریف کا ورد جاری رکھا۔ مجھے کہنے لگے: جسم میں بہت درد ہے، تم بس دباتے رہو۔ ۲ بجے کے قریب اچانک انھیں خیال آیا کہ میری نماز رہ گئی ہے۔ ابو نے کہا: مجھے بٹھا دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔ نماز پڑھ کر پھر لیٹ گئے اور مجھے کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر طائف میں جو دعا پڑھی تھی، وہ تمھیں یاد ہے؟ میں نے کہا:نہیں ابو۔ پھر انھوں نے وہ دعا پڑھی اور کہنے لگے کہ دیکھو کتنی جامعیت ہے اس دعا میں، اورمجھے تاکید کی کہ اسے ضرور یاد کرنا۔ میرا ماتھا چوم کر مجھے دعا دی اور کہا: بس اب کہانی ختم ہو گئی ہے۔ ابو کے ساتھ یہ میری رات شاید میری زندگی کے چند ایسے لمحات ہیں جنھیں اپنی یاد سے محو کرنا شاید ناممکن ہے۔
میں اُس کی یاد کے لمحوں کا کیا حساب رکھوں
کہ اس طرح کے تو اب بے حساب لمحے ہیں
زبان سے تو صرف ذکر اذکار جاری رہے، البتہ ان کی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ بقول جون ایلیا:
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
ابو جان سادگی ، اخلاص، محنت اور لگن کی مجسم تصویر تھے۔ پٹیالہ میں گزرے اپنے زندگی کے ابتدائی سالوں کو ہمیشہ بہت fantasize کرتے تھے۔ دوسروں کی مدد کرنے میں بہت خوشی اور سکون محسوس کرتے تھے۔ اپنی متنوع علمی سرگرمیوں کے ساتھ فلا حی کاموں میں آپ بہت توجہ اور اخلاص کے ساتھ حصہ لیتے رہتے تھے۔ گوجرانوالہ میں ایک مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسے خدیجۃ البنات کی تکمیل و تنظیم میں بہت فراخ دلی سے معاشی اور عملی طور پر شامل رہے۔ وہاں جب بھی جاتے، اُن کی خوشی دیدنی ہوتی۔ ایک ماہ پہلے ہی ایک اور رفاہی سلسلے کا ابتدائی خاکہ بنا کر مجھے کہا کہ یہ تم نے سنبھالنا ہے۔ میرے ذمے عیسائی سے مسلمان ہونے والے ہمارے بھائیوں کی معاشی، سماجی، علمی اور قانونی مدد کے لیے پہلے سے قائم ایک ادارے کے لیے مناسب جگہ اور مالی مدد کا اہتمام کرنا تھا۔ علاوہ ازیں، ابو کے جنازے پر مجھے اندازہ ہوا کہ بہت سے خاندان ایسے بھی تھے جن کی مدد ابو کیا کرتے تھے اور انھوں نے کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔
علم دوستی ، علما سے عقیدت اور کتابوں سے عشق، ابو کی زندگی کا شعار رہا ہے۔ بچپن میں ہم سوچتے تھے کہ پتا نہیں کیوں ابو اتنی کتابیں خرید لاتے ہیں۔ ان کا کیافائدہ ہوگا۔ مجھے اب اندازہ ہوتا ہے کہ ابو نے اصل میراث تو یہی چھوڑی ہے۔ جب بھی کوئی قیمتی یا اہم کتاب اُن کے پاس آتی تو اُن کے چہرے کی روشنی اور آنکھوں کی چمک دیدنی ہوتی۔ بلاشبہ، مسیحیت ، یہودیت اور بائیبل کے موضوع پر اہم ترین کتب ابو کی لائبریری کی زینت تھیں اور ابو ہمیشہ فخر سے اس کا تذکرہ کرتے تھے۔ اپنی تصنیف کردہ تینوں کتابوں پر ابو کو بہت اطمینان اور فخر محسوس ہوتا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیان کردہ پیشین گوئی کے موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب کے بارے میں کہتے تھے کہ میں جب اللہ کے پاس جاؤں گا تو یہ کتاب اپنے اللہ کو دکھا کر کہوں گا کہ اے میرے اللہ، یہ ایک تحفہ ہے جو میں آپ کے محبوب ترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میں اکثر ابو سے بہت اصرار کرتا تھا کہ ان کتابوں کے اردو اور عربی ترجموں پر توجہ دینے کے بجاے اگلی دونوں کتابوں کو مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ، اُن کے نزدیک ان کتابوں کے عربی تراجم کی اہمیت زیادہ تھی۔ ابو کی تدفین کے لیے لاہور سے ٹیکسلا کے سفر کے دوران میں اللہ سے یہی دعا کرتا رہا کہ اے اللہ، مجھے اتنی صلاحیت اور توفیق دے کہ میں اُن کے اگلے projects کو انھی کے معیار کے مطابق مکمل کر سکوں۔ اقبال رحمہ اللہ نے تو کہا تھا کہ: دِگر دانائے راز آید کہ ناید۔ البتہ، میری دعا ہے کہ اپنی کم مائیگی و کم علمی کے باوجود اللہ میری اس خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے تاکہ میں بھی اپنے اللہ، اپنے پیارے رسول اور اپنے ابو کے سامنے سرخ رو ہو سکوں۔ شاعر نے تو کہا تھا کہ:
وقت وہ کوہ گراں بار ہے جس کے نیچے
صرف انساں ہی نہیں خواب بھی دب جاتے ہیں
میری دعا ہے کہ ابو کے یہ خواب وقت کے کوہ گراں تلے دفن نہ ہوں، بلکہ روشنی کا مینار ثابت ہوں۔
اللہ اُن کے درجات کو بلند فرمائے، اُن کے علمی اور رفاہی کاموں کو اُن کی منشا کے مطابق جاری و ساری رکھے۔ ہمارے حوالے سے ان کی دعائیں اور خواہشیں پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور ان کی کاوشوں کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین۔
________
o عبدالستار غوری صاحب کے صاحب زادے۔
____________