HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

عبدالستار غوری: ایک صاحب تحقیق شخصیت

وہ شخصیت دار امتحان سے رخصت ہو گئی جو ’یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۱؂ ‘ کی مصداق تھی۔ جناب محترم عبدالستار غوری صاحب نے حقیقت میں پرسکون اور بغیر کوئی بوجھ لیے مطمئن دل کے ساتھ اپنے پروردگار اور خالق حقیقی سے ملاقات کی۔ ان کے وجیہہ اور متبسم چہرے کو دیکھ کر کوئی شخص بھی یہ اطمینان و سکون دیکھ سکتا تھا۔ نہ صرف ان کی ظاہری شخصیت ہی اس بات کی شاہد تھی، بلکہ عملی طور پر انھوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقانیت کے لیے جو کام کیا، اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ روز آخرت میں ان کے لیے باعث اطمینان و راحت ہوگا۔

عبدالستار غوری صاحب کے ساتھ علمی وذاتی نوعیت کی نشست وبرخاست تو ہوتی رہتی تھی، مگر ان کے ساتھ ایک کتاب ’’Hagar, The Princess‘‘ کے عربی ترجمے ’’ھاجر —- الأمیرۃ‘‘ پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ استاذ اور شاگرد کا بھی تعلق قائم ہو گیا تھا۔ در اصل بائیبل کے مطالعہ وتحقیق کا شوق انھی کے ساتھ وابستگی کے بعد پیدا ہوا۔ ارادہ تو یہی تھا کہ بائیبل کے مطالعہ و تحقیق کے سلسلے میں ان کے ساتھ طویل المدتی وابستگی رکھوں گا،مگر یہ تمنا، افسوس کہ نہیں بر آئی، اس لیے کہ ’یضحک الأجل من الأمل‘ ۲؂ ،اور ایک اٹل حقیقت حد فاصل بن گئی، جس سے کسی بھی ذی روح کو فرار نہیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور نظر عنایت تھی کہ میری درخواست پر انھوں نے مجھے اپنے کام کے ساتھ وابستہ کیا۔ بقول اقبال۳؂ رحمہ اللہ:

اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے

’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را‘

عبدالستار غوری صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان سے استفادے کا موقع ملا۔

ان کو میں نے دیکھا ہے: لائبریری میں تحقیق وادراک میں منہمک ہوتے ہوئے؛ عبارات کو ان کے اصل مآخذ سے کھنگالتے ہوئے؛ عبارات کے لفظ لفظ پر ڈیرے ڈالتے ہوئے؛ معانی واستدلالات کے علاوہ الفاظ کی تحقیق کے لیے لغات سے رجوع کرتے ہوئے؛ تراقیم (اوقاف) کی اہمیت کے پیش نظر اصول وقواعد تلاش کرتے ہوئے؛ تعصب سے بالا تر ہو کر نتائج وحاصلات مرتب کرتے ہوئے؛ اطمینان قلب کے لیے مجھ جیسے کوتاہ علم سے بھی مشورہ لیتے ہوئے؛ بلاتفریق دیگر احباب کے ساتھ مجلس درس وطعام کرتے ہوئے؛ تواضع، عجز اور خشوع وتذلل کے ساتھ اپنے پروردگار کے ساتھ لو لگاتے ہوئے؛ دوسروں کے مسائل واحتیاجات کو اپنا گردانتے ہوئے ، ان کے لیے پریشان ہوتے ہوئے اور بذات خود ان تک پہنچتے ہوئے؛ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے ہوئے؛ دل نواز آواز میں احباب کو ندا دیتے ہوئے؛ اکثر میری بیٹی ابیہا کی خیریت دریافت کرتے اور اس کے لیے دعا کرتے ہوئے؛ اپنی حس مزاح کے ساتھ مسکراہٹ کے پھول بکھیرتے ہوئے؛ ’خیر الکلام ما قل و دل‘ ۴؂ کی عملی تصویر پیش کرتے ہوئے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک صاحب علم وتحقیق شخصیت تھے۔ علم وتحقیق کے میدان میں آزاد، غیر جانب دار اور تعصب سے بالا تر ماحول کی بہت اہمیت ہوتی ہے، ’’المورد‘‘ کے سربراہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب اور سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر شہزاد سلیم صاحب اپنے اسکالرز کو یہی ماحول فراہم کرتے ہیں۔ محترم عبدالستار غوری صاحب نے کم وبیش ۱۸ سال اسی ماحول میں رہ کر اپنی تحقیقات پیش کیں۔

محترم عبدالستار غوری کس پایہ کے محقق تھے؟ یہ ان کی تحقیقات سے بہ احسن طریق واضح ہوتا ہے کہ وہ بائیبل کے مطالعہ وتحقیق کے حوالے سے ’الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘ ۵؂ کے مرتبے کے اسکالرز میں سے تھے۔ بائیبل کے مطالعہ و تحقیق کے حوالے سے ان کو وہ ملکہ حاصل تھاجو شاید کم ہی علما کو نصیب ہوا ہو۔ ان کے جواہر تحقیق اگر ملاحظہ کرنے ہوں تو ان کی شاہکار کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں ان کی کتب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:

۱۔ The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael

اس کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۴ء میں منصہ شہود پر آیا۔دوسرا اور نظر ثانی شدہ ایڈیشن۲۰۰۷ء میں ’’المورد: ادارۂ علم وتحقیق، لاہور‘‘ نے شائع کیا۔ ۳۱۳ صفحات کی یہ کتاب ۱۱ ابواب اور ۵ ضمیمہ جات پر مشتمل ہے۔ اسے نیو دہلی انڈیا کے ایک ممتاز پبلشر ’’Gyan Publishing House‘‘ نے بھی ۲۰۱۰ء میں طبع کیا ہے۔ اس کتاب کا انھوں نے اردو ایڈیشن بھی ’’اکلوتا فرزند ذبیح اسحقؑ یا اسمٰعیلؑ ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کو ’’من ہو الإبن الوحید الذبیح؟ إسحاق أو إسماعیل‘‘ کے نام سے عربی زبان میں شائع کرنے کا ارادہ تھا، جبکہ وہ اس کا عربی ترجمہ جناب پروفیسر خورشید عالم صاحب سے مکمل کروا چکے تھے، مگر اجل نے انھیں اس کا موقع نہ دیا۔ یہ کتاب ملکی اور غیر ملکی طور پر مقبولیت خاص وعام حاصل کر چکی ہے، اس بات کا اندازہ شائع شدہ انگریزی ایڈیشن کے بیک ٹائٹل اور اردو ایڈیشن کے ابتدائی صفحات میں سے صفحہ۲۱ پر موجود ذیل کے اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:

‘‘A very strange book by this Pakistani researcher who deploys an absolutely astonishing scholarship as well as an inquisitive spirit which is remarkably ingenious to prove that ‘the only son’ whom Abraham was to sacrifice on Mount Moriah was not Isaac (the Judeo-Christian tradition), but rather Ismael.(...), he finally shows with firmness that the Muslim interpretation is the only objective one.’’
’’اس پاکستانی محقق کی یہ ایک بہت عمدہ کتاب ہے۔ اُس نے اس کی تالیف میں انتہائی حیرت انگیز علم ودانش اور تحقیقی جذبے سے کام لیا ہے۔ اُس نے بڑے سلیقے اور نمایاں طور پر تخلیقی مہارت سے کام لیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ’اکلوتابیٹا‘، جسے ابراہیم[علیہ السلام] کوہِ موریاہ پر قربانی کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے، اسحاق[علیہ السلام] نہ تھا (جیسا کہ یہودی اور مسیحی روایت ہے)، بلکہ اسماعیل[علیہ السلام] تھا (جیساکہ مسلم تاویل کرتے ہیں)۔ (...)، مصنف بالآخر نہایت مضبوط بنیادوں پر یہ واضح کر دیتا ہے کہ صرف مسلم تعبیر ہی معروضی تعبیر ہے۔‘‘ ۶؂

۲۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں:

اس کتاب کی طبع اول مارچ ۲۰۱۰ء میں ہوئی۔یہ کتاب ۱۵۱ صفحات اور ۶ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کی طباعت بھی ’’المورد: ادارۂ علم وتحقیق، لاہور‘‘ نے کی ہے۔ جیساکہ غوری صاحب نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ اس کتاب کا باب دوم اور باب چہارم ان کی انگریزی کتاب ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ سے لے کر اردو میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کے مقصد طباعت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’کتاب کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر شعوری ایمان مضبوط ہو اور آپؐ کی نبوت کی ایک محکم دلیل سے آشنائی ہو۔ دوسرا مقصد یہ کہ تحقیق کے طلبہ میں بائبل پر تحقیق ومطالعہ کا ذوق پروان چڑھے۔ اب تک ہمارے علما نے اس کی طرف بہت کم اعتنا فرمایا ہے، حالانکہ یہ ہر دور کے مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت رہی ہے۔ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ میں اسے اپنا موضوعِ تحقیق بنانے اور اس پر دل جمعی سے کام کرنے کا میلان فروغ پائے۔ اس کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ اربابِ علم وتحقیق کو ایسے موضوعات پر کام کرنے کے لیے ایک نمونہ اور اسلوب مہیا کر دیا جائے۔ یقین ہے کہ اس کے مطالعے سے طلبہ کے لیے علم وتحقیق کا اب تک فراموش کردہ لیکن نہایت اہم میدان کھلے گا اور اس میدان میں کام کرنے کا جذبہ بیدار ہو گا، اِن شاء اللہ۔‘‘۷؂

اس کتاب کی جملہ پیشین گوئیوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم وہ پیشین گوئی ہے جو انھوں نے ’’صعود موسیٰ‘‘ (Assumption of Moses) نامی کتاب سے باب چہارم میں بیان کی ہے۔ بقول جناب غوری صاحب آج تک کسی مسلم عالم نے اس کو موضوع تحقیق نہیں بنایا ہے۔ وہ پیشین گوئی درج ذیل ہے:

‘‘And then His kingdom shall appear throughout His creatoin,
(...)
And He will appear to punish the Gentiles,
And He will destroy all their idols.
(...).
And do thou, Joshua (the son of) Nun, keep these words and this book;
For from my death ]assumption[ until His advent there shall be CCL times.
And this is the course of the times which they shall pursue till they are consummated.
And I shall go to sleep with my fathers.
Wherefore, Joshua thou (son of) Nun, (be strong and) be of good courage; (for) God hath (thee) to be minister in the same covenant.
’’اور تب اس کی بادشاہت اس کی تمام مخلوق میں رونما ہوگی۔
(...)۔
اور وہ غیر یہودی اقوام کو سزا دینے کے لیے ظاہر ہو گا۔
اور وہ ان کے تمام بت تباہ کر دے گا۔
(...)۔
اور نون (کے بیٹے) یوشع، تم یہ کرو کہ ان الفاظ اور اس کتاب پر قائم اور ان سے وابستہ رہو۔ کیونکہ میری موت (صعود) سے لے کر اس کی آمد تک سی سی ایل ٹائمز(CCL times) کا عرصہ ہو گا۔
اور ان کے اوقات وحالات یہی رخ اختیار کریں گے، حتیٰ کہ وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جائیں (یا وہ ختم ہو جائیں) اور میں اپنے آبا واَجداد کے ساتھ ابدی نیند سونے چلا جاؤں گا۔
اس لیے اے نون (کے بیٹے) یوشع، تم (مضبوط ہو جاؤ اور) خوب حوصلہ پیدا کرو، (کیونکہ) خداوند تعالیٰ نے (تمھیں) اسی میثاق میں خادم ومنتظم ہونے کے لیے چن لیا ہے۔‘‘۸؂

۳۔ Muhammad Foretold in The Bible by Name

اس کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا۔ ۳۸۸ صفحات کی یہ کتاب ۱۵ ابواب اور ۴ ضمیمہ جات پر مشتمل ہے۔ اسے بھی ’’المورد:ادارۂ علم وتحقیق،لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔ غوری صاحب اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی مکمل کر چکے تھے، مگر اس کی طباعت کے لیے زندگی نے انھیں مہلت نہ دی۔

ان کتب کی تحریر، تحقیق و تدوین اور ترجمے میں ان کے بیٹے جناب ڈاکٹر احسان الرحمن غوری صاحب بھی ان کے شانہ بہ شانہ رہے۔ بائیبل کے حوالے سے تحقیق و مطالعہ کا وہی رنگ ان میں بھی خوب پایا جاتا ہے۔

جناب عبدالستار غوری صاحب کی تصانیف کے انداز تحقیق اور اسلوب تحریر میں بنیادی طور پر درج ذیل پہلو نمایاں نظر آتے ہیں:

ا۔ اپنے دعویٰ کی تائید اور استدلال کے لیے وہ بالعموم اہل کتاب کے مستند حوالہ جات پیش کرتے ہیں اور ان کی استنادی حیثیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔

۲۔ اسلامی مآخذ ومراجع سے اسی وقت رجوع کرتے ہیں ، جب اپنے موقف کی وضاحت یا اہل کتاب کے حوالہ جات کی تائید مزید مطلوب ہو۔

۳۔ انھوں نے تالیف کے لیے’شکاگو مینوئل‘ (Chicago Manual of Style) کو پیش نظر رکھا ہے، تاہم قارئین کی سہولت کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔

۴۔ تراقیم (اوقاف)، اردو املا اور جملوں کی درست تالیف کا بالخصوص اہتمام کیا ہے۔

۵۔ایک خاص مسئلہ جس کی طرف انھوں نے توجہ دلائی ہے، وہ یہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کے ناموں کے ساتھ انگر یزی میں جو ’PBUH‘ (peace be upon him) لکھا جاتا ہے، وہ ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ کا درست ترجمہ نہیں ہے، بلکہ درست ترجمہ ’pbAh‘(peace and blessings of Allah upon him) ہے۔ اس کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں:

‘‘(PBUH) is generally used with the names of the Prophets but it is not the exact translation of ’ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘. The editor has used (pbAh) as the abbreviation for ‘peace and blessings of Allah on him’, which is the exact rendering for the Arabic phrase.۹؂ ’’
’’انبیا کے ناموں کے ساتھ عموماً ’PBUH‘ استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہ ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ کا صحیح ترجمہ نہیں ہے۔ ایڈیٹر نے ’ peace and blessings of Allah on him‘ کے لیے ’pbAh‘ مخفف کے طور پر استعمال کیا ہے جو کہ عربی جملے کا درست ترجمہ ہے۔‘‘

ان کتب کے علاوہ انھوں نے بعض کتب پر تحقیق وتدوین کا کام بھی کیا ہے۔ ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:

۱۔ Hagar, The Princess

اس کی طبع اول ۲۰۱۲ء کو ہوئی اور اسے’’Interfaith Study and Research Centre Islamabad‘‘ نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۲۷۳ صفحات ، ۲۷ ابواب اور۲ ضمیمہ جات پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف جناب محمد اشرف چھینا صاحب ہیں۔جناب غوری صاحب نے اس کا ’’ھاجر —- الأمیرۃ‘‘ کے نام سے عربی میں ترجمہ کرایا ہے، جسے جناب پروفیسر خورشید عالم صاحب نے انجام دیا ہے۔ ابھی تک اس کی طباعت بوجوہ نہیں ہو سکی ہے۔ غوری صاحب کی رہنمائی میں اس کے عربی ترجمے پر مجھے بھی کام کرنے کا موقع ملا۔

۲۔ Israelites versus other Nations

اس کی طبع اول ۲۰۱۲ء کو ہوئی اور اسے بھی ’’Interfaith Study and Research Centre, Islamabad‘‘ نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب۳۱۸ صفحات اور ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف بھی جناب محمد اشرف چھینا صاحب ہیں۔

۳۔ The Glorious Names of Allah

اس کتاب کی اشاعت اول ۲۰۱۱ء میں ہوئی اور اسے’ پیرا ماؤنٹ پرنٹرز حیدرآباد‘ نے شائع کیا۔ یہ کتاب ۳۷۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف قاضی محمد سلیمان منصور پوری اور انگریزی کے مترجم پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق ہیں۔

جناب عبدالستار غوری صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دین اسلام کے لیے جس الفت ومحبت کے جذبے سے ان کتب کو تالیف کیا، دعا ہے کہ آخرت میں بھی یہ ان کے لیے فلاح وکامرانی کا مژدہ بنیں۔ آخری ایام میں وہ اکثر اپنی سقیم الحالی کی شکایت کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ بڑھاپے کی آزمایش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلا لے تو اچھا ہے، اور پھر ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۴ء کی وہ صبح ہمارے لیے نہایت تکلیف دہ ثابت ہوئی جس میں ہمیں ان کی وفات کی خبر ملی۔ ان کے لیے ہر آنکھ نم ہے، ہر دل افسردہ وغمگین ہے اور ہر طبیعت پریشان ہے، مگر سوائے اظہار تأسف اور دعا کے کچھ اختیار میں نہیں۔ وفات کے وقت ان کے چہرے پر وہی تبسم تھا جسے میں نے اپنے استاذ گرامی جناب سید محمد اجمل گیلانی رحمہ اللہ کے چہرے پر دیکھا تھا:

نشانِ مردِ مومن با تو گویم

چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست

________

۱؂ الفجر ۸۹: ۲۷۔۲۸۔ ’’اے نفس مطمئن، اپنے پروردگار کی طرف اس حال میں لوٹ کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔‘‘

۲؂ شعب الایمان، بیہقی، رقم۲۲۸۔’’موت تمنا کے ساتھ ہنسی کرتی ہے۔‘‘

۳؂ کلیات اقبال(اردو)، ارمغان حجاز، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۷۱۴ ۔

۴؂ الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الامام الشافعی، ماوردی ۱/ ۱۱۔ ’’بہترین کلام وہ ہے جو تھوڑا ہو، مگر زیادہ معانی والا ہو۔‘‘

۵؂ اٰل عمرٰن۳: ۷۔’’وہ جنھیں علم میں رسوخ حاصل ہے۔‘‘

۶؂ ببلیوگرافی ناویلے ریویوتھیالوجیق، برسلز، بلجیم، صفحہ ۳۶۶، شمارہ ۱۴؍مارچ ۲۰۰۷ء۔

۷؂ محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں، ابتدائی صفحات، ۱۲۔

۸؂ محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں۹۵۔

۹؂ . Hagar The Princess, preliminary, I.S.R.C, Islamabad, p: 16

____________

B