انسانی زندگی کی بے ثباتی اِس عالم فانی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس برہنہ حقیقت کو صاحبان کلام جب شعر و ادب کے پیراہن سے آراستہ کرکے بیان کرتے ہیں تو بلبلے اور حباب کی تشبیہ سے زیادہ موثر کوئی اور چیز محسوس نہیں ہوتی۔ علم و اد ب کی دنیا کا وہ کون سا باسی ہے جو شاعر مشرق کے اس شعر سے واقف نہ ہوگا:
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
مگر پچھلے برس بے ثباتی حیات کے لیے ایک نئی تمثیل سنی۔یہ تمثیل اس قطرۂ شبنم کی زندگی سے مستعار لی گئی تھی جو گھاس(گیاہ) کی نوک پر گرتا اور لمحہ بھر سے بھی کم میں اپنا وجود کھودیتا ہے:
ملو جو ہم سے تومل لو کہ ہم بنوک گیاہ
مثال قطرۂ شبنم رہے رہے نہ رہے
یہ شعر پچھلے برس اسی اپریل کے مہینے میں محترم بزرگ عبدالستار غوری کی زبانی سنا تھا جنھیں اس برس کااپریل زیاں خانۂ حیات سے نکال کر اس عالم ابدی میں لے گیا جو ہر نقص و زیاں کے شائبے سے پاک ہے۔
آ ج اگر مسلمانوں میں دعوتی مزاج زندہ ہوتا تو ان کی وفات پر کہرام مچ جاتا، کیونکہ جس شعبے میں انھوں نے تحقیقی کام کیا تھا، وہ یہود و نصاریٰ پر قدیم صحف سماوی کی روشنی میں یہ ثابت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں آج بھی واضح طور پر ان کتابوں میں موجود ہیں۔نیز یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریت کا رشتہ ان صحف سماویہ کی روشنی میں کس طرح حرم پاک سے پور ی طرح ثابت ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے مسلمانوں کو نہ دعوت سے بہت زیادہ دل چسپی ہے، نہ کسی ایسے کام سے جو دور جدید کے مسلمہ تحقیقی معیارات کے مطابق اسلام کی حقانیت غیر مسلموں پر ثابت کرسکے۔ چنانچہ غوری صاحب کا کام وہ توجہ حاصل نہیں کرسکا جس کا وہ درحقیقت مستحق تھا۔
غوری صاحب کا کام امام فراہی کے اس کام ہی کا تسلسل تھا جو انھوں نے اپنی کتاب ’’الرای الصحیح فی من ھو الذبیح‘‘ اور بعض دیگر تصنیفات میں شروع کیا تھا۔ دیگر کئی اہم کاموں کے علاوہ غوری صاحب کا ایک اہم اور نمایاں کام امام فراہی کی اسی کتاب کو دور جدید کے مسلمہ تحقیقی معیارات کے مطابق ڈھال کر پیش کرنا تھا جو ان کی کتاب ’’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael‘‘ کی شکل میں سامنے آئی جس کا ترجمہ ’’اکلوتا فرزند ذبیح اسحاقؑ یا اسماعیل ؑ ‘‘ کے نام سے ہوا۔اس کتاب میں انھوں نے اصل معاملے کو زیر بحث لاتے ہوئے بہت سے گراں قدر تحقیقی اضافے بھی کیے۔
غوری صاحب سے میرا ذاتی تعلق ان کے ایک ایسے ہی تحقیقی کام کی بنا پر ہوا۔اسی کتاب میں ایک ضمنی بحث میں انھوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ زبور کے ایک مزمور میں حضرت داؤد علیہ السلام اپنی ا ن یادوں کو تازہ کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے سفر حج سے تھا۔وہ اس مزمور کی روشنی میں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت داؤد بادشاہ بننے کے بعد بھی جس ’’بکہ ‘‘ کو یاد کررہے تھے اور ایک بادشاہ کے بجاے اس گھر کا دربان بننے کی خواہش رکھتے تھے، وہ مکہ مکرمہ ہی تھا۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق و رہنمائی سے پچھلے دنوں میں نے زبور کے ایک اور مزمور کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ مزمور اسی سفر حج عین خانہ کعبہ کے سامنے پڑھا گیا ہے جس وقت سیدنا داؤد حج کرنے مکہ آئے تھے۔عین اسی وقت آپ نے ’’کونے کے پتھر‘‘ والی اپنی مشہور پیش گوئی کی جس میںآپ نے عین حرم پاک کے سامنے کھڑے ہوکر نہ صرف نبی آخرالزماں علیہ السلام کے آنے کی پیش گوئی کی، بلکہ یہ بھی بتادیا کہ اس وقت آپ کی قوم بنی اسماعیل کو بھی امامت عالم کے منصب پر فائز کردیا جائے گا۔اس پیش گوئی کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بعد میں اسے انجیل میں دہراکر یہود پر یہ واضح کردیا کہ ان کے جرائم کی بنا پر انھیں منصب امامت سے فارغ کیا جارہا ہے اور ایک دوسری قوم کو اس منصب پر فائز کیا جائے گا۔
میں نے اپنے اس نقطۂ نظرکوتحریرکرنے کے بعد ان کی وفات سے کچھ ہی دن قبل ان سے فون پر رابطہ کیا اور پھر ای میل پر انھیں یہ تحریر بھیجی۔تحریر طویل تھی، اس لیے کچھ ابتدائی تبصروں کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اس قابل نہیں کہ پوری تحریر پڑھ سکیں، اس لیے میں خاص اسی حصے کی نشان دہی کروں جس پر میں ان کا تبصرہ چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے وقت نے اس کا موقع نہیں دیا اور وہ داعی اجل کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس دنیاسے رخصت ہوگئے۔
میرے لیے پھر بھی یہ احساس بہت غنیمت ہے کہ میں آخری وقت میں کسی نہ کسی درجے میں ذاتی طور پر ان سے استفادہ کرتا رہا۔پچھلے برس جب برادرعزیز ندیم اعظم اور عزیزم حسن کے ساتھ لاہور گیا تو اتفاقی طور پر ان سے ملاقات ہوگئی۔ انھیں اپنے گھر جانا تھا اور اسی لیے وہ ہماری گاڑی میں بیٹھے تھے، مگر ہم زبردستی انھیں اپنے ساتھ کھانے پر لے گئے اور پھر سہ پہر تک ہم ان سے استفادہ کرتے رہے۔ندیم اعظم صاحب نے ان کی گفتگو کا ایک حصہ ریکارڈ کرلیا تھا۔ اسی میں خاص طور پر وہ شعر بھی تھا جس کا تذکرہ شروع میں ہوا۔
وہ شعر کی زبان میں اپنے بار ے میں ہمیں متنبہ کررہے تھے کہ اس قطرۂ شبنم سے استفادہ کرلو۔ہمیں بھی خبر نہ تھی کہ اگلی دفعہ ملنے کی نوبت نہ آئے گی۔اب تو بس ان کا وہی علم بچا ہے جس کی روایت کو آگے بڑھاناہماری ذمہ داری ہے۔ یا پھر کچھ یادیں جو ہمیں تلقین کررہی ہیں کہ ابھی کچھ اور لوگ باقی ہیں جو مانند قطرۂ شبنم روشن ہیں اوران سے استفادہ ابھی ممکن ہے۔
ملو جو ہم سے تومل لو کہ ہم بنوک گیاہ
مثال قطرۂ شبنم رہے رہے نہ رہے
____________