میرے حلقۂ تعلق میں بیش تر لوگ وہ ہیں جو معروف معنوں میں مذہبی لوگ ہیں۔ بفضلہ تعالیٰ سب مخلص ہیں اور آخرت کی طلب میں زندگی گزارتے ہیں، لیکن غوری صاحب مرحوم کے اس جذبے میں کوئی ان کا ہم سر نہیں۔ وہ جس طرح موت کو یاد کرتے اور مغفرت کی طلب میں جس طرح آنسو بہاتے، وہ کیفیات میرے لیے ہمیشہ قابل رشک رہیں۔
غوری صاحب مرحوم عالم با عمل تھے۔ ان کے تمام علمی منصوبے جس مقصد اور محرک سے زیر تکمیل رہتے، وہ نصرت دین اور رضاے الٰہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کے حوالے سے بائیبل کے بعض حصوں پر اعلیٰ درجے کا علمی کام کیا ہے، جسے علمی حلقوں نے سراہا اور یہ بات غوری صاحب کو بھی ایک اطمینان دیتی، لیکن ان کا اصل دھیان آخرت کی طرف تھا۔ انھوں نے کئی بار کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میری یہ محنت اور کوشش بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوگی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نظر ستایش سے نوازیں گے۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے وہ اتنے جذباتی ہو جاتے کہ ان کی آنکھیں تر ہوجاتیں اور ان کی آواز رندھ جاتی۔
کئی مرتبہ ایسے ہوا کہ ہم نماز کے لیے اکٹھے ہوتے۔ سنن پڑھ کر جماعت کا انتظار کر رہے ہوتے۔ غوری صاحب یہ دیکھ کر کہ ابھی نماز کھڑی ہونے میں کچھ منٹ ہیں تو وہ دو رکعتیں اور پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ غوری صاحب کی اس طرح کی بہت سی باتیں ان کے اندر ایک خاص لگن کا پتا دیتی تھیں۔ أللّٰھم تقبل منہ حسناتہ قبولاً حسنًا۔
غوری صاحب اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ استاد محترم غامدی صاحب کی فکر اور اہل حدیث فکر کے بعض پہلو اتنے مختلف ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ غوری صاحب کو اس بات کا، ظاہر ہے، پورا شعور تھا، لیکن انھوں نے اس اختلاف کو کبھی مخالفت یا جدل میں ڈھلنے نہیں دیا۔ اسے ایک علمی اختلاف سمجھا اور علمی اختلاف ہی کی حیثیت سے اس پر بات کرتے تھے۔
غوری صاحب کے ساتھ ہم چائے پر اکٹھے ہوتے تو ان کی بزرگانہ باتیں، ان کی خوش گفتاری اور بسکٹوں اور نمکو سے تواضع مزے کو کئی گنا بڑھا دیتی۔ وہ ایک بزرگ اور ایک بڑے محقق ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ بالکل بے تکلفی سے پیش آتے اور سادگی اور عاجزی کا نمونہ دکھائی دیتے۔ کوئی تکلف اور اپنی بڑھائی کا کوئی احساس کبھی دکھائی نہیں دیا۔
سچی بات یہ ہے کہ اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ جس طرح کے کرداروں کو سامنے لاتا ہے، غوری صاحب کی شخصیت میں وہی رنگ، وہی خوبیاں اور خدا اور مخلوق کے ساتھ وہی رنگ تعلق نظر آتا تھا۔ ان کے کردار کی خوبیاں ان کے جنتی ہونے کی نوید تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ شہدا کی طرح اپنے رب کے پاس نعمتوں کی زندگی جی رہے ہیں۔
____________