اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
اپنے سارے درد بھلا کر دوسروں کے دکھ سہنے والا چلا گیا، انسان کی ہمدردی میں دھڑکنے والا دل ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ جس بستی کو وہ گیا، وہاں جانے والے لوٹ کر نہیں آیا کرتے۔ وہ ان صورتوں میں سے تھا جو پنہاں ہونے کے بعد لالہ و گل میں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس نے تورات و انجیل سے جو پیشین گوئیاں جمع کیں، وہ تحریریں لالہ و گل ہی تو ہیں۔ جب تک وہ تحریریں موجود ہیں، ہم اس جانے والے کو ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۲۰۰۶ء میں جب میں نے قرآن کالج سے فراغت کے بعد ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں بیٹھنا شروع کیا تو ایک دن میرے پاس ایک ہنستے مسکراتے خوب صورت چہرے والے باریش انسان بیٹھ گئے اور اپنا تعارف کرایا: عبدالستار غوری۔ وہ اتنی چاہت سے ملے کہ میں اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا۔ کہنے لگے کہ ایل بلاک کی مسجد میں، میں نے آپ کا ایک خطاب سنا ہے۔ وہ جب بھی لائبریری میں آتے، میرے پاس ضرور بیٹھتے۔ وہ ’’المورد‘‘ کے فاضل رکن تھے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ مجھے دوسری منزل میں اپنے کمرے میں لے گئے۔ کمرہ کیا تھا، ایک نایاب لائبریری تھی۔ ان کے کمرے میں مختلف زبانوں میں کتاب مقدس اور اس کی کم و بیش تمام شروح موجود تھیں۔ غوری صاحب کو کتاب مقدس سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ وہ پاکستان بھر میں اس کے بہت بڑے عالم تھے، اس کے علاوہ انگریزی، اردو اور عربی کی بے شمار کتابیں ان کی ذاتی لائبریری میں موجود تھیں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے خلیل کی کتاب ’’العین‘‘ وہاں دیکھی۔ غوری صاحب کو عربی زبان سے بھی لگاؤ تھا اور بڑی اچھی طرح عربی عبارت سمجھ لیتے تھے۔ لفظ خواہ انگریزی کا ہو، اردو کا ہو یا عربی کا، اس کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ احمد بن فارس بن زکریا کی مشہور لغت ’’مقاییس اللغۃ‘‘ بھی ان کی لائبریری میں موجود تھی۔ غوری صاحب نے اپنے کمرے کی ایک چابی میرے سپرد کر دی۔ اس کے بعد میرا یہ معمول بن گیا کہ میں نیچے لائبریری میں ایک اجنبی کے مانند بیٹھنے کے بجاے دوسری منزل پر غوری صاحب کے کمرے میں براجمان ہو گیا۔ سرد موسم، ہیٹر کی حرارت، گرم گرم چائے اور گوجرانوالہ کا پتیسہ یوں لگتا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھا ہوں۔ مطالعہ کا مزہ آجاتا۔ نیچے سے کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تو عزیزم محمد جاوید اشرف میرے پاس کتاب پہنچا دیتے۔ جب کمپیوٹر کی سہولت میسر نہ تھی، آپ کسی کتاب کا نام لیں، وہ عزیزم اشرف کی نوک زبان پر ہوتی اور وہ فوراً وہ کتاب نکال لاتے۔ اللہ ان کو جزاے خیر دے۔ وہ ’’المورد‘‘ کی لائبریری کا قیمتی اثاثہ ہیں۔
میں نے ’’اشراق‘‘ میں جتنے مضمون لکھے ہیں، ان کا خاکہ غوری صاحب کے کمرے میں بیٹھ کر ان کی مشاورت سے تیار ہوا۔ اس بات میں رتی بھر مبالغہ نہیں کہ میں غوری صاحب کی انگیخت سے لکھاری بنا۔ چہرے کے پردے کے بارے میں جو مضامین میں قرآن اکیڈمی کے ’’حکمت قرآن‘‘ کے جواب میں لکھتا رہا، وہ خاصے ضخیم ہو گئے تو مرحوم غوری صاحب نے مشورہ دیا کہ اسے کتاب کی صورت دے دو۔ میں نے کہا کہ یہ کام بھی آپ کر دیں، یہ میرے بس کا نہیں۔ کمپوزنگ سے لے کر نظرثانی کا کام میرے اس دوست نے سرانجام دیا۔ کتاب کی اشاعت کا کام بھی غوری صاحب نے اپنے دوست دارالتذکیر کے محمد احسن تہامی کے حوالے کیا، جنھوں نے بڑے خوب صورت انداز میں اسے شائع کر دیا۔ اگر مرحوم غوری صاحب نہ ہوتے تو یہ کتاب کبھی شائع نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے وہ بار بار مشورہ دیتے رہے کہ اس کتاب کو فنی مباحث سے ہٹ کر آسان اور عام فہم زبان میں شائع کر دو۔ افسوس کسل مندی کی وجہ سے میں ان کی خواہش پوری نہ کر سکا۔
’’المورد‘‘ کے چھوٹے بڑے سب ملازم غوری صاحب کی خوش اخلاقی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے اور اس گرویدگی کا فائدہ ان سے بڑھ کر میں نے اٹھایا۔ میں کبھی بھی ’’المورد‘‘ کے ادارے کا ملازم نہیں رہا، لیکن سب لوگ مجھے اپنے عملے کا ایک جزو سمجھتے ہیں، یہ سب غوری صاحب کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ان ہی کی وساطت سے میں سید منظورالحسن اور مفتی برادران اور معز صاحب اور شہزاد صاحب جیسے اہل قلم اور اہل علم سے متعارف ہوا اور ان کی نگارشات سے فیض حاصل کرتا رہا۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ محفل اجڑ گئی۔ غوری صاحب مرحوم نے اپنی کتابیں اپنے گھر منتقل کر دیں اور میں پھر سے ’’المورد‘‘ میں اجنبی ہو گیا۔ پھر بھی ہفتے میں ایک بار غوری صاحب مرحوم سے ملاقات ہو جاتی تھی اور سینے میں ٹھنڈک پڑ جاتی تھی۔ وفات سے تین روز پہلے مجھے ان کا فون آیا۔ میں اس وقت اپنے ذاتی کام کے سلسلہ میں کھاریاں میں تھا۔ فرمانے لگے: جب لاہور آؤ تو مجھے فون کرلینا۔ جب میں لاہور پہنچا تو مجھے اشرف صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ غوری صاحب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں۔ آج نو بجے ان کی نماز جنازہ ہے۔ اس وقت پونے نو بجے تھے، بھاگم بھاگ نماز جنازہ میں شریک ہوا۔ نماز کے بعد اپنے دوست کا پرسکون چہرہ دیکھا۔ ماتھے پر بوسہ دیا۔ جنازے کو کندھا دیا اور غم کا مارا گھر لوٹ آیا۔ أللّٰھم اغفرہ۔ اس کے لیے میں کیا جنت کی دعا کروں وہ تو چلتا پھرتا جنتی انسان تھا اور میں خود اس کی دعاؤں کا محتاج تھا۔ اللہ ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔ اپنی اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد غوری صاحب اداس اداس سے رہتے تھے۔ میں نے مشورہ دیا: دوسری شادی کر لو۔ بڑھاپے میں تنہائی کا احساس قاتل ہوتا ہے۔ یہ مشورہ میں نے دو تین بار دہرایا تو بڑا خوب صورت جملہ ان کے منہ سے نکلا۔ کہنے لگے کہ میری مرحوم بیوی نے خدمت اور وفاشعاری کا ایسا معیار قائم کر دیا ہے کہ اب کوئی دوسری عورت اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتی۔ جب کچھ عرصہ بعد ان کے پراسٹریٹ کا آپریشن ہوا، صحت یابی کے بعد ’’المورد‘‘ میں آئے، میں بھی وہاں موجود تھا۔ کہنے لگے: بھئی، میں نے Sex کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ اب کبھی دوسری شادی کا ذکر نہ کرنا۔
غوری صاحب کی اصل شناخت کتاب مقدس کے بارے میں ان کا تحقیقی کام ہے۔ جس خلوص اور عقیدت کے ساتھ انھوں نے یہ کام کیا، اس کی بنیاد پر وہ اسے آخرت میں اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
ان کی پہلی کتاب جس سے میں متعارف ہوا وہ: ’’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael‘‘ ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ صرف یہود و نصاریٰ ہی کا قول نہیں کہ اسحاق اکلوتے فرزند ذبیح ہیں، بلکہ بعض مسلمان مفکرین کا بھی یہی خیال ہے جن میں امام طبری پیش پیش ہیں۔
فاضل غوری صاحب نے عیسائی اور یہودی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ یہ فرزند اسماعیل ہیں۔ ان کا انداز خالص تحقیقی ہے جو ان کے وسعت مطالعہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہود و نصاریٰ اور مسلمان یکساں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ کتاب ۱۱ ابواب اور ۴ ضمیموں پر مشتمل ہے۔ آخری ضمیمہ، یعنی یروشلم کی تاریخ غوری صاحب کے صاحب زادے احسان الرحمن نے لکھا ہے جو پنجاب یونیورسٹی شعبۂ علوم اسلامیہ کے استاد ہیں اور ’الولد سِرّ لأبیہ‘ کے مصداق ہیں۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ مرحوم غوری صاحب کی فرمایش پر میں نے کیا ہے اور اسی ترجمہ کی بدولت میں کتاب مقدس کی آیات سے روشناس ہوا ہوں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ’’المورد‘‘ سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہو چکا ہے۔ غوری صاحب کی تحقیق کا اعتراف اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ ہوا ہے۔ بھارت کے ایک پبلشر نے بھی اس کتاب کو شائع کیا ہے۔
غوری صاحب کی دوسری کتاب ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ ہے۔ یہ کتاب غوری صاحب نے محبت اور عقیدت میں ڈوب کر لکھی ہے، مگر تحقیق کو انھوں نے مقدم سمجھا ہے۔ جب بھی وہ میرے سامنے اس کتاب کا ذکر کرتے، بھیگی ہوئی آنکھوں اور رندھی آواز سے کہتے: ’’میری دعا ہے کہ اللہ اس کتاب کو آخرت میں میری بخشش کا ذریعہ بنائے۔‘‘ مجھے امید ہے کہ اللہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کی محبت کی ضرور قدر کرے گا۔
اسی کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے فاضل محترم جناب معز صاحب نے لکھا ہے کہ ہماری ویب سائٹ ’’www.understanding-islam.com‘‘ پر سب سے زیادہ مقبول غوری صاحب کے مضامین اور مقالات ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ’’المورد‘‘ سے ۲۰۱۰ء میں شائع ہو چکا ہے۔
ایک اور کتاب ’’Hagar, The Princess‘‘ اسلام آباد کے مرکز بین الادیان اور بحوث کے محمد اشرف چھینا کی لکھی ہوئی ہے۔ بظاہر غوری صاحب نے اس کتاب کی نوک پلک درست کی ہے، لیکن درحقیقت انھوں نے اس کتاب کو تحقیق کی سان پر پرکھ کر بالکل نیا روپ دے دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انھوں نے اس کتاب پر کس قدر محنت کی ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ بھی غوری صاحب کے کہنے پر میں نے کیا ہے۔ یہ کتاب I.S.R.C اسلام آباد سے ۲۰۱۲ء میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ان کے کئی ایسے مقالات ہیں جن کو میں پڑھ نہیں سکا۔
عبدالستار غوری پر قرآنی اصطلاح ’الراسخون فی العلم‘ (علم میں کامل دست گاہ رکھنے والے) کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان کا علم ان کو حیات جاوداں عطا کرے گا۔ کہنے کو وہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں، مگر ان کی نگارشات ان کو زندہ رکھیں گی۔ عربی شاعر محمد بن زیاد ابوعبداللہ بن الاعرابی نے کیا خوب صورت بات کہی ہے:
لنا جلساء ما تَمَلّ حدیثھم
ألبّاء مأمون غیبًا ومشہدًا
یفیدوننا من علمہم علم من مَضٰی
وعقلاً، وتأدیبًا ورأیاً مسدّدًا
فإن قلتَ أَموات فما أنت کاذب
وإن قلت أحیاءٌ فلست مفنّدًا
’’ہمارے ایسے ہم نشیں ہیں جن کی باتیں سن کر ہم بے زار نہیں ہوتے۔ وہ دانش مند ہیں، غیاب و شہود ہیں، قابل اعتماد ہیں۔ اپنے علم سے گزرے ہوئے لوگوں کے علم سے ہمیں باخبر رکھتے ہیں۔ ہمیں عقل، ادب اور سیدھی راے سے نوازتے ہیں۔ اگر تو کہے کہ وہ مردہ ہیں تو تو جھوٹا نہیں ہے اور اگر تو کہے کہ وہ زندہ ہیں تو بھی تجھے کوئی جھوٹا نہیں کہہ سکتا۔‘‘
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، میں انھیں بھلا نہیں پاؤں گا۔ میں جب جب ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں داخل ہوں گا، مجھے یوں محسوس ہو گا، جیسے وہاں غوری صاحب کھلے بازوؤں سے مجھ سے بغل گیر ہو رہے ہیں:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس ، تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
____________