محمد بلال
[ ماہنامہ ’’اشراق‘‘ جنوری ۱۹۹۹ میں محمد اسحاق ناگی مرحوم پر ایک تحریر لکھی تھی۔ ان کی یاد میں اپنی یہ پرانی تحریر نذرقارئین کر رہا
ہوں، جو آج بھی تازہ لگتی ہے، اِس یقین کے ساتھ کہ آج وہ عالم برزخ کی بھی ’’اپر کلاس ‘‘ میں اپنی دوسر ی زندگی بسر کر رہے ہیں۔]
پچھلے دنوں میرا گیارہ ماہ کا پہلااوراکلوتا برخودار اسد اللہ ایک حادثے کا شکارہو گیا۔ وہ واکر (walker) سمیت ۱۶ زینوں کی سیڑھی سے گر گیا۔میں دفتر میں تھا۔ خبر ملتے ہی میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ پریشانی کے عالم میں تیز ڈرائیونگ کرتے ہوئے گھر پہنچا۔ اسد گم سم لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھ کے قریب چوٹ لگی ہوئی تھی، جسے دیکھتے ہی میرے دل کو چوٹ لگی۔ اس کا سہما ہوا چہرہ مجھے طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا کر رہا تھا۔ میں نے اسے گود میں لے کر اس کا دل لبھانے کی کوشش کی۔ جس چیز سے وہ خوش ہوتا تھا، وہ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ جن باتوں سے وہ خوش ہوتا تھا، وہ باتیں کرنا شروع کر دیں۔تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، لیکن اس کی شخصیت اپنی روایتی چہچہاہٹ سے تاحال محروم تھی۔ یکایک میرے ذہن میں خیال آیا کہ اسد کو اپنے نانا (اسحاق ناگی صاحب) سے اور نا نا کو اپنے اس اکلوتے نواسے سے بڑی محبت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی صحبت سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ اسد کے نزدیک ناگی صاحب کی داڑھی کی حیثیت ایک کھلونے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ وہ بڑی مہارت سے ان کی گھنی داڑھی کا ایک بال پکڑ کر ایک جھٹکے کے ساتھ اکھیڑ دیتا ہے اور ناگی صاحب جیسے مرد آزما کو چیخ مارنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور نانا بھی ایسے ہیں جو اس تکلیف سے لذت اٹھاتے ہیں اور ایک مزے دار حکایت کی طرح یہ بات دوسروں کو سناتے ہیں۔
ہم ناگی صاحب کے گھر آگئے۔ انھوں نے حادثے کی تفصیل سن کر کہا: اللہ کا شکر ہے۔ اتنے زینوں والی سیڑھی سے گرنے کے بعد یہ (معمولی) چوٹ آئی ہے۔ اللہ کا بڑا احسان ہے۔ صدقہ خیرات کر یں۔ شکرانے کے نوافل ادا کریں۔ اللہ نے اسے دوسری زندگی دی ہے۔ناگی صاحب کی بات سن کر میری اندرونی کیفیت فوراً بدل گئی۔ یکایک میرے اندر شکر خداوندی کا جذبہ بیدار ہو گیا۔ خدا کی طرف دھیان گیا تو ڈوبتے ہوئے دل کی دھڑکنیں پھر سے بحال ہو گئیں۔تھوڑی دیر کے بعد اسد کی چہچہاہٹ لوٹ آئی۔
ناگی صاحب کی بات میرے لیے نئی نہیں تھی۔ میں زحمت میں رحمت دیکھنے کی شعوری کوشش کرتا ہوں۔ موسیٰ و خضر کا واقعہ بالعموم پیش نظر رکھتا ہوں اور عیب دار کشتی میں ایک محفوظ کشتی دیکھتا ہوں۔ لیکن صدمے کی کیفیت نے مجھے اپنا ہی ایک زاویۂ نگاہ بھلا دیا تھا۔ اُس وقت ناگی صاحب نے دراصل میرے لیے ایک مذکر کا کام کیا۔ یعنی ایک مانی ہوئی لیکن بھولی ہوئی بات کی یاددہانی کا کام۔
دینی معلومات رکھنے والے بعض لوگ دینی مجالس میں شریک نہیں ہوتے۔وہ کہتے ہیں کہ وہاں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ حالانکہ دینی مجالس کا بنیادی کام دین سے متعلق معلومات فراہم کرنا نہیں، بلکہ بھولے ہوئے اور مانے ہوئے حقائق کو یاد دلانا ہوتا ہے جس کا انسان بڑا محتاج ہے۔اُس وقت مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ جب انسان کسی صدمے سے دوچار ہوتاہے تو وہ اُس وقت مذہبی اعتبار سے علم و عقل کو بروے کار نہیں لاتا۔ حالانکہ آزمایش کے پہلو سے یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب یہ کام کرنا چاہیے۔
اُس موقع پر زاویۂ نگاہ کے ایک خاص پہلو کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا۔ اگر میں دینی مزاج کا حامل شخص نہ ہوتا تو اس حادثے کے باعث بہت دیر تک اعصابی تناؤ کا شکار رہتا۔ یہ ایک نقطۂ نظر ہی تھا جس نے فوراً مجھے اس تناؤ کے عذاب سے نجات دلا دی۔
مادی سوچ کے غلبے کے باعث آج دنیا میں انسانوں کو ان کی مالی پوزیشن کے لحاظ سے مختلف طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اپر کلاس، مڈل کلاس، لوئر کلاس۔جبکہ میرا خیال ہے کہ انسانوں کو مالی لحاظ سے اپر (upper) یا لوئر (lower) قرار نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے کہ مال و دولت اور اسباب و وسائل اکثر و بیشتر انسان کو ورثے یا قسمت سے ملتے ہیں۔ اس معاملے میں صلاحیت اور محنت کا دخل کم دیکھنے میں آتا ہے۔ بلکہ اگر صلاحیت اور محنت سے بھی یہ چیزیں حاصل ہوں تب بھی ان کی حقیقت میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جوشخص حیات و کائنات کے اعلیٰ حقائق کا جتنا اچھا شعور رکھتا ہے، اور اپنے آپ کو ان کے مطابق جتنا زیادہ ڈھالتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اپر (upper) ہے۔ اس لیے کہ یہ فہم اور عمل انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔ اس معاملے میں پہلا قدم انسان ہی اٹھاتا ہے، اس کے بعد خدا اس کا ہاتھ پکڑتا ہے۔ چنانچہ للہ تعالیٰ نے بھی متقی ہی کوسب سے زیادہ عزت دار ٹھیرایا ہے ،کسی کھرب پتی کو نہیں۔
میرے نزدیک اس وقت ناگی صاحب کا تعلق ’’اپر کلاس‘‘ کے ساتھ ہے۔ اگر اس صورت حال میں مجھے ’’لوئر کلاس‘‘ سے متعلق کسی آدمی سے سابقہ پیش آتا تو عین ممکن تھا کہ وہ انسانی اور زمینی واقعے کو انسان اور زمین تک ہی محدود رکھتا اور اس کا خدا اور آسمان کے ساتھ کوئی تعلق قائم نہ کرتا۔
اس واقعہ کے بعد ناگی صاحب کی میرے والد صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے علیک سلیک کے بعد انھیں کہا: مبارک ہو، اللہ نے اسد کو دوسری زندگی دی ہے۔’’اپر کلاس‘‘ کی باتیں، اپر کلاس ہی ہوتی ہیں۔ ’’لوئر کلاس‘‘ سے متعلق لوگ ایسے موقعوں پر مبارک باد نہیں دیا کرتے۔ وہ عیب دار کشتی کے عیب ہی پر نگاہ رکھتے ہیں اورشکوے، شکایتیں اور افسوس ہی کرتے ہیں۔
____________________