مریم اسحاق
میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ....مجھے سب سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو گئی۔ جدائی میں اگرچہ آنکھیں نم اور دل اداس ہے مگر حکم خداوندی کے آگے سر تسلیم خم ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سراپا محبت..... انتہائی شفقت کرنے والے بابا جانی..... ہم بچوں میں زیر بحث ہے کہ بابا سب سے زیادہ مجھے پیار کرتے تھے ..... جی نہیں، مجھے ..... فلاں بات صرف مجھے اور باباہی کو پتاتھی..... اچھا تو فلاں بات آپ کو نہیں پتا تھی نا ..... پتا تھی ،مگر پہلے تو بابا نے مجھے بتائی تھی نا..... جو بھی ہے مجھے وہ سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ سب سے زیادہ میری فکر کرتے،سب سے چھپاکر مجھے بہت کچھ لے کر دیتے اور میرے لیے تو اللہ تعالیٰ سے خاص دعائیں کرتے۔
وہ خود تو جدا ہو گئے مگر ان کی محبتیں اور یادیں کبھی جدا نہ ہوں گی، ہم ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ سب کی بابا سے اور بابا کی سب سے بے انتہا محبت تھی۔ بیٹیاں روز بھی آتیں تو والہانہ استقبال کرتے۔ بازو پھیلا کر کھڑے ہو جاتے: میرا شہزادہ آیا۔ ماتھا چومتے، سینے سے لگا تے، دعائیں دیتے۔وہ جتنے دن دور رہیں،ان دنوں کی ساری باتیں پوچھتے ۔جاتے وقت یوں رخصت کرتے جیسے کئی برسوں بعد آنا ہو۔ ہماری کسی خطا پر ڈانٹ دیتے تو بہت پچھتاتے۔ پھر گود میں بٹھا کر پیار کرتے۔بہت سوں نے تو بیٹیوں سے پیار کرنا بابا سے سیکھا۔اسی طرح سبھی داماد وں کو بہت عزت دیتے تھے۔
تہجد میں گھر والوں کے لیے خصوصی دعائیں کرتے،سب پر کلام الٰہی پھونکتے اور کہتے: اٹھو اللہ تم پر رحم کرے،نہ جانے اس پھونک میں کیا ٹھنڈک اور برکت تھی کہ فوراً آنکھ کھل جاتی۔وہ تکلیف کے دوران میں سبھی نمازیں ادا کرتے، مگر تہجد کی باقاعدگی نہ رہی تھی۔
ایک دن میں نے کہا:آپ پھونک مار دیا کرتے تھے تو آرام سے دن گزر جاتا تھا اب تو کسی کام میں دل ہی نہیں لگتا!وہ اسی تکلیف میں دعائیں کرتے رہے پھر مجھ پر پھونک مار کر بولے :شہزادے میں نے تم پر ساری زندگی کی پھونک مار دی،اللہ تم پراپنا خاص کرم رکھے!اس کے بعد پریشانی میں بھی پہلے جیسی بے قراری نہ رہی۔
بچپن میں مجھے ایک زخم لگ گیا۔ان کے حوصلے،ہمت اور شفقت نے کبھی درد محسوس ہی نہ ہونے دیا۔میری بنائی ہوئی چیزیں (ہینڈی کرافٹ) دوسروں کو بڑے شوق سے دکھاتے۔ بڑے فخر سے بتاتے میری بیٹی فلاں کلاس میں ہو گئی ہیں۔اکثر مبالغہ آرائی کر جاتے، حالانکہ میں اس قابل نہیں تھی جتنا وہ مجھ پر فخر کرتے۔
امی کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے تھے،بہت خیال رکھتے،ہر جگہ ساتھ لے کر جاتے۔ کہیں امی اکیلی چلی جاتیں تو ہمیں فون کر کر کے پوچھتے میری اکلوتی بیگم آ گئی ہے؟یہی محبت تھی کہ جب بابا کو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف لے جانے لگے تو خواتین رسماًبین کرنے لگیں تو ماں نے بلند آواز سے کہا: خبردار کسی عورت کا غم مجھ سے بڑا نہیں،کوئی آواز نہ آئے ۔میں نے ان کو اللہ کے سپرد کر دیا!
نواسیوں نواسوں سے تو ان کی محبت سب سے بڑھ کر تھی۔تکلیف میں بھی پیٹ پر بٹھا کر کہانیاں سناتے۔ بچوں کی منی شاپ گھر پر ہی بنا رکھی تھی،اس میں کینڈیز، بسکٹ، چپس ختم نہ ہونے دیتے،خاص کر اسداللہ کو بڑھتا دیکھتے ہوئے بہت دعائیں کرتے۔حج سے آئے تو اسد سے کہا:اللہ نے چاہا تو اگلے سال میں اور آپ حج پرچلیں گے۔
ان سے دشمنی رکھنے والا کوئی نہیں تھا سوائے اس کینسر کے جس نے بابا کو ہم سے جدا کر دیا،ہاں اختلاف رکھنے والے بہت تھے جو دلیل میں مات کھا چکے تھے۔ تعزیت کرنے والوں میں ہر فردکی زبان پر یہی الفاظ تھے ناگی صاحب نے ہمارے ساتھ بہت بھلائی کی۔ انھوں نے اتنی ہمدردیاں،خلوص اور محبتیں بانٹیں کہ بولنے والوں نے بول کر، لکھنے والوں نے لکھ کر ان کی خیر خواہی کی گواہی دی۔حقوق العباد کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کے معاملے میں بھی بہت حساس تھے۔ ان کا اللہ سے تعلق، تکلفات سے پاک تھا۔ہم تو ادب و آداب میں پڑ کر بہت سے موقعوں پر ضرورت کے باوجوداللہ کو یاد نہیں کرتے۔عالم کے پروردگار سے تو خود ان کی بہت اچھی دوستی تھی۔ امید ہے وہ اپنے دوست کوضرور اپنی جناب میں خاص جگہ دے گا۔
______________