عائشہ بلال
عام طور پر بیٹیاں اپنی ماؤں سے دل کی باتیں کرتی ہیں ،وہ اپنی ماں کو اپنا دوست بناتی ہیں، مگر میرے دوست میرے بابا تھے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ میرے بہترین دوست تھے تو بے جا نہ ہوگا۔میں جب بھی کسی پریشانی میں مبتلا ہوتی تو وہ میرا چہرا دیکھ کرہی میرے دل کا حال محسوس کر لیتے تھے۔میں ان کے ساتھ اپنے مسائل شیئر کر کے دل کا غبار نکال لیا کرتی تھی، جس سے میرے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ جایا کرتے تھے ، بعض اوقات وہ مسئلہ جوں کا توں موجود رہتا تھا، مگرمیں پُرسکون ہوچکی ہوتی تھی۔ وہ مجھے سوچ کا ایسا زاویہ دے دیا کرتے تھے کہ مسئلہ اپنی شدت کھو دیتا تھا۔اس صورت حال میں وہ مجھے بہت قیمتی مشورے دیتے تھے۔ان مشوروں کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے ثمرات صرف اس دنیا تک محدود نہیں ہوتے تھے بلکہ آخرت کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہوتے تھے۔ایک دفعہ کسی نے میرے ساتھ بہت بدتمیزی کی ، انسانی لحاظ سے میں بہت غصے میں تھی اور انتقامی نفسیات میں مبتلاتھی ۔بابا کو ملی۔ انھوں نے عجیب سا مشورہ دیا۔کہا:اگر تم اس کا بہترین بدلہ لینا چاہتی ہو تواسے آخر ت پر چھوڑ دو۔اللہ تمھاری طرف سے بدلہ لے گا۔ایسے ہی کئی مسائل میں وہ دوسرے فریق کو نظر انداز کر کے مجھے اپنی اصلاح کرنے پر زور دیتے تھے۔مجھے اثیار، قربانی اور درگزر کی نصیحت کرتے تھے۔ایسے باپ،ایسے دوست ، اس دنیا میں کہاں ہوتے ہیں۔یہ تو اللہ تعالیٰ کا خصوصی فیضان تھا جو ہماری خوش نصیبی کے باعث ہمیں میسر تھا۔
تم سے دوری کا احساس ستانے لگا
تیرے ساتھ گزارا ہر لمحہ یاد آنے لگا
مجھے یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ اپنی اولاد میں انھوں نے سب سے زیادہ میری علمی و دینی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا۔ انھوں نے مجھے محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے شاگرد اور اپنے دوست محمد رفیع مفتی صاحب کی باقاعدہ شاگردی میں دیا۔رفیع صاحب سے میں نے عربی زبان اور دیگر علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح وہ مجھے غامدی صاحب کے دروس اور لیکچرز کے علاوہ ان کے گھر بھی باقاعدگی سے لے کر جاتے تھے جس سے غامدی صاحب کے گھر کی خواتین کے ساتھ بھی میرے تعلقات قائم ہوگئے جو میرے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میرے با با کی محبت میں بڑی شدت ہوتی تھی ۔بچپن میں وہ میرے کپڑے بھی استر ی کیا کرتے تھے۔میں شادی کے بعدجب گھر جاتی تو وہ مجھے بچوں کی طرح اپنے بازوؤ ں میں سمیٹ لیتے۔چنددنوں کے بعد بھی ملتی تو ایسے ملتے جیسے میں برسوں کے بعد ملی ہوں۔موبائل پر مسلسل رابطہ رکھتے۔انھوں نے ہمیں تاکید کر رکھی تھی کہ ہم بیٹیاں بھی اسی کمپنی کی موبائل سروس استعمال کر یں جس کی وہ کرتے ہیں تاکہ کم سے کم خرچ میں باہمی رابطہ زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
دعا ہے کہ آخرت میں بھی ہمیں ان کی محبت اورصحبت میسر ہو او روہاں بھی و ہ ہمیں ایسے ہی ملیں اور ایسے ہی رابطے میں رہیں۔
______________