HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

باپ بیٹا

ابراہیم ناگی

اسحاق ناگی صاحب میرے والد بھی تھے اور دوست بھی۔ گھر میں ، میں سب سے چھوٹا اور اکلوتا بھی ہوں۔ میری پیدایش چھ بہنوں کے بعد ہوئی۔ ابا بتاتے ہیں کہ جب میری پیدایش ہوئی تو ان کی خوشی کی انتہانہ تھی، انھوں نے میری تصویر کے عید کارڈ بنا کر لوگوں میں تقسیم کیے۔میری پیدایش سے پہلے لوگ کہتے تھے کہ تم کسی مزار پر جاؤ گے توہی تمھارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا، مگرابا اس کے سخت خلاف تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اللہ مجھے چھ بیٹیوں کے بعد بیٹا دے گا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کوئی شخص اگر تین بیٹیوں کی کفالت کرتا ہے تو اللہ اُس کو جنت میں جگہ دے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں دو جنتیں لوں گا اور ایسا ہی ہوا۔ چھ بیٹیوں کے بعد میری پیدایش ہوئی ، جن میں سے دو کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔میری پیدایش کے بعد ایک بیٹا اور پیدا ہوا، لیکن اس کا بھی تین ماہ کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔

جب میں نے ہوش سنبھالا تو ابا گلیکسو (Glaxo) میں نوکری کرتے تھے۔ ابا کا دن تہجد کے وقت سے شروع ہو جاتا تھا۔تہجد پڑھنے کے بعد فجر کی اذان شروع ہوتے ہی سب گھر والوں کو بھی نماز کے لیے اٹھا دیتے ۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا نماز کے معاملے میں انھوں نے سختی شروع کر دی۔وہ کبھی پیار سے اور کبھی غصے سے نماز کے لیے اٹھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ میری نماز پڑھنے کی عادت پختہ ہو گئی۔ ابا کو قرآن کا زیادہ تر حصہ زبانی یاد تھا خاص طور پر توحید کے حو الے سے سورتیں زیادہ یادتھیں۔ انھوں نے مجھے بھی چھوٹی چھوٹی دعائیں اور سورتیں یاد کرانا شروع کر دیں۔ اس طرح مجھے بھی بہت سی سورتیں یاد ہو گئیں۔

ابانماز مسجد میں ہی ادا کرتے تھے اور مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ سردیوں میں چونکہ دن چھوٹے ہوتے ہیں ، اس لیے نماز کا وقت جلدی ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر روانہ ہونے کوتھے ۔میں نے کہا: بابا یہیں رہتے ہیں۔ابھی تھوڑی دیر بعد ہی دوسری نماز کے لیے پھر آنا پڑے گا۔ بابا نے میری اس معصومیت پر میرا منہ چوما اور کہا :بیٹا کوئی بات نہیں پھر آ جائیں گے۔ وہ مجھے بہت پیار کرتے تھے اور میری ہر خواہش پوری کرنے کی پوری کوشش کرتے۔

ابا کی پیدایش کامونکی میں ہوئی تھی۔ تین سال کی عمر میں وہ کراچی شفٹ ہو گئے۔ چھ سال کی عمرمیں ،ان کی والدہ نے تعلیم کی غرض سے انھیں لاہور بھجوا دیا۔ جب اُن کی والدہ کا ا نتقال ہواتب وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔ لاہور میں وہ رشتہ داروں کے ہاں پلے بڑھے ۔وہ ذہین طالب علم تھے۔ کلاس میں ہمیشہ اوّل پوزیشن لیتے۔ پرائمری، مڈل اور میٹرک تک وظیفہ لیتے رہے۔ ان کی آگے پڑھنے کی خواہش تھی، مگر والدین سر پر نہیں تھے اس لیے یہ خواہش حسرت ہی بنی رہی ۔

اباکی پہلی نوکری میں اُنھیں ایک اسکول کی تعمیر کا کام کرنا تھا۔ اس کے بعد ابا نے ایک دو اور جگہوں پر ملازمت کی۔ وہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں محاذ پر بھی گئے ۔ سیون اپ (7up) فیکٹری میں بھی نوکری کی۔ ۱۹۷۴ء میں شادی ہوئی ۔ اس کے بعدگلیکسو (Glaxo) میں ملازمت اختیار کر لی۔

ابا کہتے تھے کہ میں شادی کے بعد مسلمان ہوا(یعنی شعوری مسلمان )۔ وہ کچھ عرصہ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی رہے ۔ پھرغالباََ سترکے عشرے میں ان کی ملاقات جناب جاوید احمد صاحب غامدی سے ہوئی۔ غامدی صاحب کے توسط سے ان کی ملاقات مولانا امین احسن صاحب اصلاحی سے ہوئی۔وہ اصلاحی صاحب کے دروس میں باقاعدگی کے ساتھ جانے لگے۔اوراُن سے بہت متاثر ہوئے ۔ اُن کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ خود کتابیں خریدتے اور دوسروں کو بھی اس سے مستفید کرتے۔ مسلمانوں کی تاریخ پر اُن کی بہت تحقیق تھی۔ مگر ان کی ذاتی لائبریری میں دوسرے موضوعات پر بھی ہزاروں کتب موجود ہیں۔

مولانا اصلاحی جب بہت بیمار تھے تو ابا اپنے چند احباب کے ساتھ ان کی عیادت کے لیے گئے تو مولانا سے ایک سوال پوچھا: مولانا آپ تکلیف میں کیا محسوس کرتے ہیں؟مولانا نے جواب دیا:دنیا کی تکلیف آخرت کی تکلیف سے کہیں بہتر ہے۔مولانا کی وفات پران کی قبر کی پیمایش کرنا مشکل تھی، چونکہ ابا کی جسامت مولانا کے مشابہ تھی اس لیے ابا ان کی قبر میں پہلے خود لیٹے اور سائزکے صحیح ہونے کی تصدیق کی۔

توحید کے معاملے میں وہ بہت سخت تھے۔اللہ کے سوا کسی اور سے مدد طلب کے سخت خلاف تھے۔بعض لوگوں کو ان کی باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ اس بناپرگلیکسو میں ایک شخص نے ابا کو قینچی مار دی جو ان کے پیٹ میں جا لگی جس سے ان کا جگر اور سانس کی نالی کٹ گئی۔ ان کا بہت سا خون بہ گیا۔اس شخص کو گلیکسو (Glaxo) نے نوکری سے نکال دیااور جیل بھی بھجوا دیا، جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس شخص کو جیل سے رہا بھی کرایا اور دوبارہ نوکری پر بحال بھی ۔ ابا مزاج کے تھوڑے سخت ضرور تھے مگر دل کے بہت نرم تھے۔ وہ کسی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے اور ممکن حد تک اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے۔

وہ ہر وقت خدا کے دین کے لیے سر گرم رہتے۔ ہم سب کاان سے ایک ہی اختلاف تھا کہ اپنے لیے بھی کچھ وقت نکالا کریں اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کریں، مگر وہ نہیں سنتے تھے۔کہتے: جب تک زندگی ہے ،خدا کی بندگی اور اس کے بندوں کی خدمت کی جائے۔ وہ رات کے سوابستر پر نہیں لیٹتے تھے۔ تقریباََبارہ سال پہلے وہ ایک حادثے کا شکار ہوئے ، جس میں انھیں آگ لگ گئی اور ان کی موٹر سائیکل بھی مکمل تباہ ہو گئی ۔تب وہ ایک ماہ تک بستر پر رہے۔ اس کے بعد پھر اسی طرح اپنی خدمات انجام دینے لگے۔

۲۰۰۶ء میں انھیں پراسٹیٹ (prostate) کا مسئلہ ہوا۔ چونکہ وہ طب کا بھی تھوڑا بہت علم رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے خوداپنا علاج کیا اور ٹھیک ہو گئے۔ ۱۵ نومبر ۲۰۱۰ کو انھیں یہ تکلیف دوبارہ شروع ہو گئی، جو ٹھیک نہ ہو سکی۔ جس سے ان کے گردے متاثر ہوئے۔یہاں تک کہ دونوں گردوں اور مثانے میں یورین بیگ (urine bag) لگانا پڑے۔ اس دوران میں تقریباً وہ دو ماہ ہسپتال رہے۔تب ڈاکٹرز نے تشخیص کی کہ انھیں پراسٹیٹ کینسر (prostate cancer)ہے۔ جس کے لیے ہمیں شوکت خانم کینسرہسپتال سے رجوع کرناپڑا۔ تین ماہ تک ان کے تینوں بیگ اترگئے اور کچھ ہفتوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے اور موٹرسائیکل بھی چلانے لگے۔ چونکہ مرض اپنی جگہ پر موجود تھا اورعلاج بھی جاری تھا، اس لیے ڈاکٹرز نے انھیں کیموتھراپی کے لیے کہا۔شروع میں تقریباً ان کی طبیعت ٹھیک رہی ۔ لیکن تیسری ، چوتھی کیمو تھراپی کے بعد ان کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی ۔تب تک مرض شدت اختیار کر چکا تھا۔پانچویں کیمو تھراپی کے بعد ابا نے کیمو لگوانے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔ کیمو کے دوران میں ابا کی جو حالت ہوتی وہ ہم گھروالوں سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ وہ شب وروزدرد سے چیختے اور روتے تھے ۔ اوربہت چڑچڑے ہو گئے تھے۔ وہ خود اپنے لیے خدا سے صحت کی دعائیں مانگتے اور ہمیں بھی اس کے لیے کہتے ۔

وہ ہمیشہ ہمیں نصیحت کرتے کہ کبھی خدا کے سوا کسی اور کو نہ پکارنا۔ خدا سے تو ان کا ایک خاص تعلق تھا ۔ وہ کہتے: مجھے کبھی اُس سے مانگ کر مایوسی نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ بیماری بہت شدید ہو چکی تھی ، اور شاید اس طرح بیماری مزید کچھ عرصہ انھیں تکلیف میں رکھتی،ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آ گیا۔ایک حادثے میں ان کے سر پر چوٹ لگ گئی۔ چوٹ لگنے کی وجہ سے خون دماغ میں جم گیا ۔ جس کی وجہ سے وہ اکثر غنودگی میں رہنے لگے تھے۔غنودگی سے پہلے اور غنودگی کے بعد جب بھی ہسپتال جاتے تو کچھ کتابیں ساتھ لے جاتے ۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں اور نرسوں میں وہ کتابیں تقسیم کرتے۔اور ان کو توحید کی دعوت دیتے ۔ یہ کام وہ آخری دم تک کرتے رہے۔

۱۹ اگست ۲۰۱۲ کو ان کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں ہم انھیں ہسپتال لے گئے۔ ہسپتال میں پانچ دن بعد ٹیسٹوں کے نتائج کی روشنی میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ کچھ دنوں کے مہمان ہیں۔آپ جب تک چاہیں انھیں ہمارے ہاں رکھ سکتے ہیں۔ مگر ان کا آخری وقت اپنے لوگوں میں گزرے تو بہتر ہے۔وفات سے ایک دن پہلے وہ Fitsکے مسئلے کا شکار ہوگئے۔اس آخری رات میں ان کے ساتھ ہی لیٹا تھا۔جیسے ہیFits کا مسئلہ ہوتا ، میں فوراََ اُٹھ جاتا ۔ میں نے ان کے کان میں کلمہ پڑھا اور اللہ اکبر کاوردکرنا شروع کیا۔ جیسے ہی میں نے یہ کلمہ پڑھنا بندکیا ، ان کا سانس رکنا شروع ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

یہ ابا کی تربیت تھی کہ گھر والے غم زد ہ ہونے کے باوجود خدا کی رضا پرراضی تھے۔سکینت کی سی کیفیت تھی۔ ہر آنے والا شخص اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اُ ن کی زندگی واقعی ایک مومن کی زندگی تھی ۔مختلف لوگ مختلف باتیں کررہے تھے: ناگی صاحب نے میری فلاں مشکل میں مدد کی، انھوں نے ہمارافلاں مسئلہ حل کرایا، میرا فلاں مرض ان کی وجہ سے ٹھیک ہوا۔ آج اگر میری زندگی ہے تو ان کی وجہ سے ۔ آج اگر میں مسلمان ہوں تو ا ن کے باعث .... تو دل کو مزید اطمینان ہوا۔ میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے اپنے والد کی خدمت کی توفیق دی۔

______________

B