محمد عدنان قیصرانی
اسحاق ناگی صاحب سے میرا تعلق چند برسوں پر محیط تھا۔ ان سے فون پر مختلف علمی و معاشرتی مسائل پر گھنٹوں باتیں ہوتیں، کچھ باتوں میں وہ میری رہنمائی کرتے تو کچھ میں ہم نوائی۔
وہ ہمت و حوصلہ کے کوہ گراں تھے۔ وہ محبت و شفقت کا تناور درخت تھے۔ وہ تکلیف کے اس عالم میں جب شریک گفتگو ہوتے تو میں ان سے بہت کچھ سیکھتا اور اس دوران میں میری آنکھوں سے آنسو بھی گرتے رہتے۔ قابل رشک تھا ان کا دعوتی جذبہ۔ انھوں نے اللہ کے نام کی سربلندی کے لیے ہر تکلیف کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ توحید کے معاملے میں وہ مانند فولاد تھے۔ اس معاملے میں وہ نہایت حساس اور سخت واقع ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے محلے میں جعلی عامل بابا نے ڈیرے ڈالے۔ وہ شخص لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل کرنے کا سبب بن رہا تھا۔انھیں یہ بات کہاں گوارا تھی۔ انھوں نے اس شخص کو اپنی جرأت استدلال سے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔
ان کی طبیعت کا ایک اور پہلو طب سے دل چسپی کا بھی تھا۔ درد گردہ اور گردہ کی پتھری کے لیے انھوں نے ایک سفوف تیار کر رکھا تھا۔ جس سے بہت سے لوگ شفا یاب بھی ہو چکے تھے۔ یہ دوا لوگوں کو وہ بلا معاوضہ فراہم کرتے۔ خود کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ دوسروں کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
کچھ تاریخی واقعات و معاملات کے بارے میں ان کا موقف نہایت بے لچک اور سخت ہوا کرتا تھا۔ وہ نیک نیتی سے سمجھتے تھے کہ ان معاملات میں ان کے مخاطبین کا موقف دلائل سے خالی ہے، لیکن کسی بھی حال میں وہ تشدد کے قائل نہ تھے۔ فرقہ پرستی کا ناسور ان کو سخت ناگوار گزرتا تھا۔ وہ ہمیشہ پر امن اور مدلل انداز میں گفتگو کرتے۔
مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد صاحب غامدی سے ان کی والہانہ محبت ان کی باتوں سے جھلکتی تھی۔ مولانا وحید الدین خان کو وہ سچا داعی سمجھتے تھے۔
کینسر کی وجہ سے شدت تکلیف اس قدر تھی کہ ان سے بولا اور اٹھا بھی نہ جاتا تھا، لیکن ان کا دعوتی جذبہ ملاحظہ ہو کہ اس حال میں بھی ہسپتال جاتے تو دعوتی لٹریچر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے اور لوگوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔
ناگی صاحب نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کا خادم بن کر گزاری۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اسحاق ناگی ایک جذبہ، جنوں اور دعوت کا نام ہے۔ یہ دعوت اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے۔ جو لوگ اللہ کی دعوت کا کام کرتے ہیں اللہ پاک ان کو امر کر دیتے ہیں۔ وہ یقیناًاپنے بچوں کی تو خوب تربیت کر گئے ہوں گے لیکن ہم جیسے طالب علموں کو یتیم کر گئے ہیں۔ وہ درخشندہ ستارے کی مانند ہمارے دل و دماغ میں روشن رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
______________